مذہب کی اصلی غرض سچّے خدا کا پہچاننا اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے
خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق او رنرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اوروہ نور جو مجھے دیا گیاہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہِ راست پر چلاؤں۔ انسان کو اِس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اُس کو ملیں جن کے رُو سے اُس کو یقین آجائے کہ خدا ہے کیونکہ ایک بڑا حصہ دنیا کا اسی راہ سے ہلاک ہورہا ہے کہ اُن کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی الہامی ہدایتوں پر ایمان نہیں ہے۔
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۴۳)
درحقیقت تکبر اور بیجا شیخی بھی دل کی کمزوری کی وجہ سے ظہور میں آتی ہے جس کی وجہ سے پاکیزہ اخلاق اور قوتِ حلم اور ایمانی تواضع دل میں پیدا نہیں ہوتی اور جن دلوں کو روحانی طاقت عطا کی گئی ہے وہ نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ بیجا شیخی دکھلاتے ہیں کیونکہ وہ خدا سے ایک ابدی نور پاکر دنیا اور دنیا کے جاہ وجلال کو نہایت حقیر خیال کر لیتے ہیں اِس لئے دنیا کے مراتب اُن کو متکبر نہیں بنا سکتے۔ ایسا ہی دنیا داروں کی کمزوری بوقت نامرادی اور ناکامی اورنیز سخت صدمہ اور ہجوم و غموم کے وقت میں نہایت بزدلی اور بےدلی کے آثار اُن میں ظاہر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اُن میں سے صدماتِ عظیمہ کے برداشت نہ کرنے کی وجہ سے پاگل اور دیوانہ ہو جاتے ہیں۔
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۶۶،۴۶۵)
جس غرض کے لئے مذہب کو انسان کے لازم حال کیا گیا ہے وہ غرض مفقود ہے دل کی حقیقی پاکیزگی اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور اس کی مخلوق کی سچی ہمدردی اور حلم اور رحم اور انصاف اور فروتنی اور دوسرے تمام پاک اخلاق اور تقویٰ اور طہارت اور راستی جو ایک رُوح مذہب کی ہے اُس کی طرف اکثر انسانوں کو توجہ نہیں۔ مقام افسوس ہے کہ دنیا میں مذہبی رنگ میں تو جنگ و جدل روز بروز بڑھتے جاتے ہیں مگر روحانیت کم ہوتی جاتی ہے۔ مذہب کی اصلی غرض اُس سچّے خدا کا پہچاننا ہے جس نے اس تمام عالم کو پیدا کیا ہے اور اُس کی محبت میں اُس مقام تک پہنچنا ہے جو غیر کی محبت کو جلا دیتا ہے اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے اور حقیقی پاکیزگی کا جامہ پہننا ہے۔
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۴۸)