جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کی مفصل رپورٹ (اجلاس دوم)
جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کے دوسرے اجلاس کی کارروائي کا آغاز صبح ساڑھے دس بجے ہوا۔ اجلاس کي صدارت مکرم محمود ناصر ثاقب صاحب امیر جماعت احمدیہ برکینافاسو نے کي۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرم انیق احمدصاحب نے سورة الفرقان کی آيات ۳۱تا۳۵کی تلاوت کی اورمکرم حافظ اطہر صاحب نے اردو ترجمہ اور مکرم وسیم صاحب نے جرمن ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم اردو کلام؎
اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے
اَے سونے والو جاگو! شمس الضّحٰی یہی ہے
کے منتخب اشعار مکرم راحیل احمد صاحب نے خوش الحاني سے پيش کيے۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم عدیل احمد خالد صاحب مربی سلسلہ جرمنی کی
’’میرا اِیمان، میری پہچان‘‘
کے موضوع پر جرمن زبان میں تھی۔ موصوف مقرر نے کہا کہ یہ ایک تاریک اور ستاروں سے بھرپور رات تھی، جب ایک گیارہ سالہ احمدی بچہ صحن میں کھڑا، گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا ستاروں کے پار بھی کچھ ہے؟ کیا وہاں کوئی اَوربھی حقیقت موجود ہے؟ اس کے ذہن میں ایمان اور پہچان کے بنیادی سوالات تھے: وہ ایمان کیوں رکھتا ہے؟ کیا وہ اپنے خاندان کے عقیدے کی وجہ سے احمدیت پر یقین رکھتا ہےیا اس کے پاس اس کے لیے دلائل ہیں؟وہ دلائل پر غور کرتا رہا اور ہر دلیل کو رد کرتا گیا۔ آخرکاراس نے خدا کی موجودگی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے سوالات پر توجہ مرکوز کی۔ اس نے ارادہ کیا کہ اگر وہ خدا کی موجودگی ثابت نہ کر سکا تو گھر چھوڑ دے گا۔
آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور اسی لمحے ایک اعلیٰ طاقت نے اس بچےکی کوششوں اور جدوجہد کا صلہ دیا۔ جب وہ ستاروں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آیا وہ کبھی ختم ہوں گے، تو اسے انسانی علم کی حدود اور اللہ کی ازلیت کا احساس ہوا، قدرت اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کے سوال کا جواب بن گئی۔ یہ تجربہ اس کے لیے زندگی کا ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوا، جس نے اس کے ایمان کو مضبوط کیا اور اس کا سماعی ایمان علمی ایمان میں تبدیل ہو گیا۔
یہ بچہ کوئی اور نہیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تھے، جو جماعت احمدیہ مسلمہ کے دوسرے خلیفہ بنے، ان کی سچائی کی تلاش اور روحانی بصیرت نے ان کے ایمان اور پہچان کو مضبوط کیا اور انہیں اپنے وقت کے عظیم روحانی راہنماؤں میں سے ایک بنا دیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کیا سچ فرمایاکہ حق کے طالب کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی ایمان کی تلاش میں لگا رہے اور اپنے تئیں یہ دھوکا نہ دے کہ مَیں مسلمان ہوں اور خدا اوررسولؐ پر ایمان لاتا ہوں۔ قرآن شریف پڑھتا ہوں، شرک سے بیزار ہوں، نماز کا پابند ہوں اور ناجائز اور بد باتوں سے اجتناب کرتا ہوں ۔ کیونکہ مَرنے کے بعد کامل نجات اور سچی خوشحالی اورحقیقی سرور کا وہ شخص مالک ہو گا جس نے وہ زندہ اور حقیقی نور اس دنیا میں حاصل کر لیا ہے جو انسان کے منہ کو اس کی تمام قوتوں اور طاقتوں اور ارادوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف پھیر دیتا ہے اورجس سے اس سفلی زندگی پر ایک موت طاری ہو کر انسانی روح میں ایک سچی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا کہ ہم اپنی پہچان کیسے تلاش کر سکتے ہیں لیکن ہماری بطوراحمدی مسلمان اصل پہچان کیا ہے اور یہاں جرمنی میں جب ہم اس کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ہمیں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
جرمن انسائیکلوپیڈیا آف سائیکالوجی، ڈورش (Dorsch) کے مطابق پہچان اس طریقۂ کار کو بیان کرتی ہے جس کے ذریعےانسان اپنی زندگی کی بتدریج ترقی اور سماجی ماحول کے ساتھ مسلسل تعامل کے نتیجہ میں ذاتی ادراک حاصل کرتے ہیں اور خود کوسمجھتے ہیں۔
ایمان اور پہچان اس لحاظ سے گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر مختلف طریقوں سے اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ ایسے معاشرے میں اپنے ایمان کو برقرار رکھیں جہاں اسلام کے روحانی اور پُرامن احکام کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جرمنی میں، جہاں اکثریت خود کو مسیحی سمجھتی ہے، ایک بڑا حصہ مذہبی وابستگی کا انکار کرتا ہے اور صرف ایک چھوٹا سا حصہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے،یہاں اسلامی پہچان کو برقرار رکھنا مسلمانوں کے لیے ایک فیصلہ کن امر بن جاتا ہے۔ اسلام کی حقیقت کے صرف زبانی دعوے کافی نہیں ہیں، اس کے لیے ہمیں اپنے عقائد کو مضبوطی سے اپنانا اور اپنی زندگیوں میں نافذ العمل کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دیے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟ (العنکبوت:۳)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ آزمائشیں اور امتحانات ہمیشہ ہمارے سامنے آئیں گے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے امتحانات میں ثابت قدم رہنا اور آگے بڑھنا، جب کہ حالات مشکل اور خطرناک ہوں، سچے ایمان کا اصل ثبوت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ مومنوں کو ان آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ کون واقعی سچے دل سے ایمان رکھتا ہے اور کون محض زبانی دعوے کرتا ہے۔
یہ الفاظ ہمیں بیدار کرنے والے ہیں۔ جب ہم اپنی پہچان کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اکثر ہم ثقافتوں، فیشن اور مادی رجحانات کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نام نہاد انفلوئنسرز ہمیں اپنی طرز ِزندگی کی پیروی کی ترغیب دیتے ہیں اور ہم بغیر سوچے سمجھے ان کے اثرات کو اپنی پہچان کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ کیا ہماری حیثیت احمدی مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی پیروی کریں جو مادیت پرستی کے غلام ہیں؟ ہرگز نہیں! ہم احمدی مسلمان ایک اعلیٰ مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سونپی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ تم بہترین اُمّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ (اٰل عمران:۱۱۱) یہ آیت ہمیں ہماری اصل پہچان یاد دلاتی ہے کہ ہم انسانیت کے لیے ایک بہترین مثال بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے ایک پکار ہے! ہمیں انسانیت کی بہترین مثال بننے کے لیے چنا گیا ہے۔
پاپ کلچر، ڈیجیٹل رجحانات اور جدید طرزِ زندگی ہمارے حقیقی ایمان کے لیے بے سود ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو چیزیں عطا فرمائی ہیں جو ہماری ایمانی پہچان کو ہر طرح کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے، تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک کتاب الله اور دوسری میری سُنّت۔
ہمارے پاس ہمارا راہنما اصول موجود ہے اور ہمارا راستہ بھی واضح ہے۔ جب ہم اپنی پہچان کی تلاش کرتے ہیں تو یہ دونوں چیزیں ہی ہمیں صراطِ مستقیم پر رکھتی ہیں۔
اب ہم اس حقیقت کی طرف نظر دوڑاتے ہیں جس کا سامنا ایک نوجوان مسلمان کو یہاں جرمنی میں ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جو ہمارے بہت سے بزرگوں یا والدین کو اس وقت پناہ دے چکا ہے، جب وہ اپنے ایمان کی وجہ سے اپنی سرزمین سے بے دخل کر دیے گئے تھے۔ جرمنی ہمارا نیا وطن ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے مخالف کوئی بھی چیز ہماری پہچان کو نہ بگاڑے یا اسے کمزور نہ کرے۔ چاہے جتنا بھی ہم سے مطالبہ کیا جائے یا مسلمان اپنی ایمانی پہچان کی وجہ سے امتیازی سلوک کا شکار ہوں، ہم ان شاء اللہ ہمیشہ اپنے ایمان پر قائم رہیں گے۔
ایک خوبصورت مثال ہمارے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ اللہ نے قائم فرمائی جب کہ وہ انگلینڈ میں مقیم تھے۔ ایک دفعہ وہ لندن کے Euston Stationپر تھے، جب لوگ نیو ایئر کی رات کے جشن میں مصروف تھے، انہوں نے ایک اخبار بچھایا اور اس شور و غل کے درمیان نوافل پڑھنا شروع کر دیے۔ انہوں نے اپنے ایمان کا آزادانہ اظہار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور ایک عوامی مقام پر پُرسکون انداز میں اپنے ربّ کی عبادت بجا لائے۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ہم اپنے ایمان پر قائم رہیں اور اپنی پہچان کو اسلامی روشنی میں برقرار رکھیں تو ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔
ثابت قدمی ہمیں اپنی مذہبی پہچان کو مضبوط کرنے اور اپنی خود اعتمادی کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ تصور کریں کہ آپ جرمنی میں ایک مخلص اور باعمل مسلمان کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ روزانہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جو کہ محبت، احترام، ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی، محتاجوں کی مدد اور عبادتِ الٰہی کے خوبصورت اصولوں پر مبنی ہیں۔پھر اچانک آپ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ دہشت گرد تنظیموں سے لاتعلقی کا اظہار کریں، خواتین پر ظلم بند کریں اور درمیانی دور سے نکل کر جدید دور میں آئیں۔ اچانک آپ کو دوستوں، سکول کے ساتھیوں اور کام کے ساتھیوں کی جانب سے عجیب و غریب نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ آپ تقریبات میں شراب نہیں پیتے۔ آپ کو پارٹیوں میں جانے سے انکار کرنے پر الگ تھلگ کیا جاتا ہےاور آپ کو منشیات سے پرہیز کرنے کی وجہ سے دُور کیا جاتا ہے۔ آپ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں کیونکہ آپ اسلامی اصولوں کے مطابق خواتین سے احتراماً ہاتھ نہیں ملاتے۔
بہت سے لوگ پہلے ہی اس کا سامنا کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ کیا ہم اس قدر ثابت قدم ہیں کہ بعد میں سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ ہم نے اللہ کے احکامات کو دنیاوی مفادات پر فوقیت دی؟ یا ہم سماجی دباؤ کی وجہ سے جھک گئے اور شراب کے گلاس سے گھونٹ لیا یا سگریٹ یا جوائنٹ کا کش لگا لیا؟ کیا ہم اللہ سے زیادہ ڈرتے ہیں یا گمراہ کرنے والے لوگوں سے؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو معمولی قیمت پر نہ بیچو ۔ (المائدہ: ۴۵)
ہمیں کسی کے سامنے اپنا حقیقی چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے پاس ایک دینِ کامل ہے اور قرآن کا ہر لفظ ہماری پہچان کا حصہ ہے۔ اس حوالے سے ہمارا ظاہری حلیہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔
الحمدللہ! آج جلسۂ سالانہ جرمنی کا دوسرادن ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ ہم مخصوص مواقع پر خصوصی لباس زیب تن کرتے ہیں تاکہ اظہار کر سکیں کہ ہم کون ہیں یا ہمیں کیسے دیکھا جانا پسند ہے۔ لباس عام طور پر ہماری پہچان کے بارے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسلام ظاہری حلیہ پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ چاہے وہ مَردوں کے لیے داڑھی ہو یا عورتوں کے لیے حجاب ہو، ان سب کا مرکز ہمیشہ سادگی اور حیا ہوتا ہے۔ لباس اور ظاہری شکل و صورت انسان کی سادگی کی عکاسی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی پہچان کو برقرار رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
آج کے دَور میں ایک اور رجحان دیکھنے کو ملتا ہے، خاص طور پر LGBTQکمیونٹی کے ذریعے، جس میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ اپنی جنس کو چھوڑ کر ایسی آزادی کا اظہار کیا جائے جس میں حیاتیاتی حقائق کو نظر انداز کیا جائے اور اپنی پہچان کے آخری حصے یعنی جنس کو بھی ترک کر دیا جائے۔ اسلام اس رجحان کو بھی مسترد کرتا ہے۔ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مَردوں پر لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر بھی جو مَردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں، چاہے وہ لباس میں ہو یا ان کے رویے میں۔یہ اصول البتہ کسی کے ساتھ بدسلوکی یا نفرت کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مسلمان ہر انسان کے ساتھ ہمدردی اور عزت سے پیش آئیں، اگرچہ بعض طرز عمل کی حمایت نہ بھی کی جائے، انسانیت کو ایک خاندان کی طرح دیکھا جانا چاہیے۔ مال و دولت، رتبہ یا سماجی حیثیت، نسل یا پسِ منظر نہیں بلکہ انسان کی اخلاقی عظمت اور اس کے اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا طریق اس کی اہمیت کو متعین کرتا ہے۔
اور یہی اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ہماری پہچان کی بنیاد ہیں، جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سےشناخت کیے جاؤ گے۔
تاہم آج کی دنیا میں تقویٰ کا حصول ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ دجّالی طاقتیں بار بار ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم خود سے دُور ہو جاتے ہیں اور آخرکار شیطان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔حضرت خلیفةالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۱ءکے موقع پر فرمایا کہ تقویٰ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم شیطانی طاقتوں سے محفوظ رہ سکیں۔
اس مقام پر مَیں ایک مومن احمدی مسلمان کی حقیقی پہچان پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایمان کی پہچان کے ہر پہلو کو کتاب ’’دس شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں‘‘میں پڑھا جا سکتا ہے۔ جس کا پہلا اور بنیادی نکتہ توحید ہے۔اسلامی پہچان کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم دنیا میں کسی کے سامنے ماسوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں ۔ روزمرہ کی خطاؤں پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکثر ہم اعلیٰ عہدوں کے لیے اپنے افسران کے سامنے چاپلوسی اور جھکاؤ دکھاتے ہیں۔دولت حاصل کرنے کے لیے ٹیکس چوری، غیر قانونی کام اور دھوکا دہی کے مختلف طریقے بھی ایسے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی عظمت پرکامل یقین نہیں رکھتے بلکہ دوسرے لوگوں یا اعمال کو نعوذ بالله! اللہ سے بڑا سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی اسلامی پہچان اور اسلامی تعلیمات کو پیسہ یا شہرت کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس کے نتائج کا بھی شعور ہونا چاہیے۔
موجودہ دَور میں جو جنگوں کے علاوہ اخلاقی آفات بھی لاتا ہے، ہمارے روزمرہ کی زندگی پر بھی گہرا اَثر ڈال رہا ہے، بنیادی مذہبی اقدار اکثر حملے کا شکار ہو رہی ہیں اور ہماری اسلامی پہچان، جو کہ خاندان اور ازدواجی زندگی کو اہمیت دیتی ہے، کو قدیم اور متروک سمجھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر بڑھتی ہوئی فحاشی کی رسائی اور اس کی بآسانی دستیابی سے ان اقدار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ہم ایک ایسے دَور میں ہیں جہاں مادیت اور روحانیت کے درمیان شدید لڑائی جاری ہےاور شیطانی ہتھکنڈےمسلمانوں کی پہچان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے سے گریز اں نہیں۔
سوسائٹی ایک ہائپر سیکسولائزیشن (Hyper-sexualization) کے طوفان میں غرق ہوتی جارہی ہے۔ دھوکا دہی اور جعلسازی کاروباری معاملات میں چھا گئی ہے، جو تیز رفتار دولت کے حصول کی بے رحمانہ دوڑ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہتھیاروں کی برآمد اور اسرائیل کی حمایت جو معصوم بچوں، خواتین اور مَردوں کے خلاف ظلم کی حمایت کرتی ہے، سیاست میں ناانصافی کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم چودہ سَو سال پیچھے، جاہلیت کے دَور میں واپس جا رہے ہیں جہاں خودغرضی، نسلی امتیاز اور جسمانی خواہشات لوگوں کو اپنے آپ کو ناقابل رسوخ سمجھنے اور اللہ کی پیغام رسانی کے خلاف جانے پر اکساتے ہیں۔یہاں مسلمانوں کے ایمان کی پہچان کی ایک اور بلند صفت یعنی انصاف ظاہر ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں فرماتا ہےکہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (المائدہ: ۹)
انصاف کرنا مسلمانوں کی پہچان کا ایک بنیادی عنصر ہے، چاہے ہمیں خود ناانصافی کا سامنا ہو۔ مغرب میں یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں پر حملے بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر مسلمان خواتین پرکیونکہ وہ حجاب پہن کر اپنی اسلامی پہچان ظاہر کرتی ہیں۔ یہ حملے اکثر کمزور اور بزدل لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جو اپنی نفرت اور غصہ محض کمزوروں پر نکالتے ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان جرائم اور حملوں کا موازنہ جب یہودیوں کے خلاف حملوں سے کیا جاتا ہے تو انہیں کم ہی زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی طرف سے کوئی اظہارِ یکجہتی نہیں ہوتا، نہ ہی مسلمانوں سے نفرت کے خلاف کوئی امن مارچ ہوتا ہےاور نہ ہی میڈیا میں کوئی ہنگامہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کی قدرو قیمت کم ہے۔ مگر ایسی حالت میں بھی جب مسلمانوں کو بعض لوگوں کی دشمنی کا سامنا ہو، اسلام سکھاتا ہے کہ ہمیشہ انصاف قائم رکھنا چاہیے۔ خود کو کمزور اور بزدل لوگوں کے، خاص طور پر ڈیجیٹل دنیا میں، اشتعال دلانے والوں سے نہ بھٹکائیں۔ یہ لوگ انٹرنیٹ پر اپنے خوف کو ظاہر کرتے ہیں اور اکثر ٹرول (troll)اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اپنی بزدلی کا اظہار کرتے ہیں۔
مسلمان کی پہچان ہمیں یا تو رحم اور معافی کی تعلیم دیتی ہے یا پھر ہمیں فرمایا گیا ہےکہ عفو اختیار کرو اورمعروف کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو۔ (الاعراف:۲۰۰) اور اگر اس طرح کی بدسلوکی ہماری زندگی میں ہوتی ہےاور مَیں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہاں موجود بہت سے مسلمانوں نے اپنی زندگی میں ایسے تجربات کیے ہیں، تو قرآن کریم یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں مشکلات کے وقت کیسے برتاؤ کرنا چاہیے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! (اللہ سے) صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ:۱۵۴)
ایک دَور میں، جہاں تکبر کو خوبی سمجھا جاتا ہے اور ہر قاعدے کے خلاف بغاوت کی تعریف کی جاتی ہے، ہمیں اس خطرناک رویے کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ سیاست اور ڈیجیٹل دنیا میں اکثر غرور اور خود پسندی کو سراہا جاتا ہے، لیکن عاجزی ہماری زندگی کے طرزِ عمل میں ایک مرکزی عنصر ہونی چاہیے۔
تقریباً ایک ماہ قبل، جماعتMünsterنے خلافت پر ایک پروگرام منعقد کیا، جہاں ایک شخص نےاچانک اسلام کی فرضی پسماندگی پر بات کرنا شروع کی جو موضوع سے غیرمتعلق تھا،اور ایسے الفاظ کہے جو ایک مسلمان کو مغرب میں اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں، عورتوں کو ابھی بھی حجاب کیوں پہننا پڑے؟یا ہم ایک جدید ترقی یافتہ دَور میں ہیں، جہاں ہمیں مذہبی کتابوں کی ضرورت نہیں جو ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیسے جینا چاہیے! یہ قرون وسطیٰ کی باتیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ انہوں نے جدیدیت اور ترقی کی تعریف شروع کی یعنی سگریٹ نوشی، شراب نوشی اورنفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کی مکمل آزادی۔ درحقیقت یہ خود پسندانہ رویہ کچھ اور نہیں بلکہ قدیم ہیڈونیسٹک(Hedonistic) فلسفہ ہے جو پچیس سَو سال قبل ارسطیپوس آف سائرین (Aristippus of Cyrene) نے بیان کیا تھا کہ جسمانی لذت زندگی کا واحد مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حیوانی حالت کو سورۃ الفرقان آیت۴۵ میں بیان کرتا ہے، جہاں فرمایا کہ کیا تُو گمان کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا عقل رکھتے ہیں؟ وہ نہیں ہیں مگر مویشیوں کی طرح بلکہ وہ (ان سے بھی) زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔
یہ کہہ کر کہ اسلام پسماندہ ہے یا اسلام جدید دنیا میں نہیں آتا، آپ اسی سطح پر آ جاتے ہیں جسے قرآن مجید بیان کرتا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کی پہچان میں عدم تحفظ اور کمزوری کا احساس دلایا جائے۔ متعصبانہ اور نسلی رویوں کے ذریعے اور بنیادی اسلامی اعمال جیسے کہ حجاب، نماز اور اللہ اکبر کے الفاظ کو دانستہ طور پر توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ہمارے ایمان اور یقین کو کمزور کیا جاسکے۔ یہ حملے صرف ہماری دینی پہچان پر نہیں بلکہ ہمارے اپنے یقین کو جینے اور اس کا دفاع کرنے کے حق پر بھی حملہ ہیں۔
اسی طرح اللہ ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ ہم متکبر لوگوں کے ساتھ بھی عاجزی اور امن کے ساتھ پیش آئیں۔ عاجزی، رحم دلی، نرمی اور تواضع وہ مرکزی اخلاقی اقدار ہیں جو قرآن مجید مسلمان کی فطرت کے لیے مقرر کرتا ہے۔ بایں ہمہ ثابت قدمی، بے خوفی اور خود اعتمادی مسلمان کی حریفوں کے ساتھ پیش آنے کی خصوصیات ہیں۔
آخر میں مَیں اس نعمت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہم احمدی مسلمانوں کو باقی تمام مسلمانوں سے ممتاز کرتی ہے، یعنی خلافت کی نعمت، جو ہمارے وجود کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہےکہ اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑلو۔ (النساء:۱۰۴)
ایک مسلمان گروپ کی وجہ سے، یہاں پر خلافت کے تصور کو بدنام کیا گیا، حالانکہ اصل الٰہی خلافت انسانیت کے لیے ایک قیمتی نعمت اور برکت ہے۔ خاص طور پر ہم احمدی مسلمانوں کے لیے، جو دنیا بھر میں واحد جماعت ہے، جس کے پاس خلافت ہے۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارےایمان اور اسلام کی تکمیل، خلافتِ احمدیہ کے عظیم قیام کے ذریعے پوری ہوئی ہے۔ ہماری پہچان کی تلاش جماعت احمدیہ مسلمہ کی خلافت میں ختم ہوتی ہے۔ خود کو ان لوگوں سے مت گمراہ کریں جو اپنی جرمن تاریخ کی وجہ سے کسی شخص کے سامنے سر جھکانے کو خطرناک سمجھتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ یہ لوگ خلافت کی روحانیت کا لطف نہیں جانتے اور سیب کا ناشپاتی سے موازنہ کرتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں کہ خلیفۂ وقت اور جماعت مل کر ایک وجود بناتے ہیں۔ خلیفہ دل اور دماغ ہے، افرادِ جماعت اعضاء ہیں۔ دنیا میں کبھی نہیں دیکھا گیا کہ دماغ ہاتھ کو ایک حکم دے اور وہ نہ مانے اور خودمختار طور پر عمل کرے۔
پس ہمارا وجود، ہماری زندگی، ہمارا اِیمان اور ہماری پہچان خلافت میں ہیں۔
بعد ازاں مکرم میر اسامہ نسیم صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام ’’قرآں کتابِ رحماں سِکھلائے راہِ عرفاں‘‘ سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم فرید احمد نوید صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ گھانا کی تھی جس کا موضوع تھا:
’’خلافت کی خدائی تائید‘‘
(اس تقریر کا مکمل متن آئندہ کسی شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ)
(خلاصہ تقریر: قمر احمد ظفر، جرمنی )