جلسہ سالانہیورپ (رپورٹس)

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کی مفصل رپورٹ (اجلاس سوم)

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کے تیسرے اجلاس کی کارروائی کا آغاز شام ساڑھے پانچ بجے ہوا۔ اجلاس کي صدارت مکرم عبد الباسط طارق صاحب مربی سلسلہ جرمنی نے کي۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرم جری اللہ راجپوت صاحب نے سورة الحجرات کي آيات ۱۱ تا ۱۴ کی تلاوت کي اور مکرم سجیل احمد ملک صاحب مربی سلسلہ نے اردو اور مکرم Cengiz Varli صاحب نے جرمن ترجمہ پيش کيا۔ بعد ازاں درثمين سے منظوم اردو کلام

دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں

نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں

سے چند اشعار مکرم فواد احمد قمر صاحب نے پیش کیے۔

اجلاس سوم کی پہلی تقریر محترم طاہر احمد مربی سلسلہ و نیشنل سیکرٹری تربیت جرمنی کی ’’مومنین کے درمیان محبت و بھائی چارہ‘‘ کے موضوع پر تھی۔ (اس تقریر کا مکمل متن آئندہ کسی شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ)

اس اجلاس کی اگلی تقریر سعید احمد عارف صاحب، مربی سلسلہ شعبہ تربیت جرمنی کی تھی جس کا موضوع

’’ہم آہنگ عائلی زندگی کے لیے سنہری اصول‘‘

تھا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

مقرر نے تشہد، تعوذ کے بعد قرآن مجید کی سورةالرّوم کی آیت بائیس کی تلاوت کی نیز ترجمہ پیش کیا کہ اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لیے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔

مکہ سے ۲۰؍کلومیٹر جنوب کی جانب مدینہ کی طرف ایک قصبہ جس کا نام ’صراف‘ ہے وہاں ایک پرانی قبر واقع ہے۔ یہ قبر آج تک اس محبت کا نشان ہے جو آنحضرتﷺ اپنی زوجہ کے لیے رکھتے تھے۔

یہ قبر حضرت میمونہ بنت الحارثؓ کی ہے جو ایک بیوہ تھیں اور آپﷺ کے عقد میں آئیں۔یہ عقد محض قلیل دورانیہ پر محدود تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ شادی کے تین سال بعدہی وفات پا گئے لیکن آپؐ کا پیار حضرت میمونہؓ کے قلب میں ہمیشہ کے لیے ایک یاد بن گیا۔ جب حضرت میمونہؓ  آنحضرتﷺ کی وفات کے پچاس سال بعد بعمر اسی سال بستر مرگ پر تھیں تو انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسی جگہ پر دفن ہونا چاہتی ہیں جہاں پر وہ پہلی مرتبہ رسول کریم ﷺ سے ملیں۔

ابھی تلاوت کی گئی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے ایک مثالی شادی کی فطری حالت کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ایسی مثالی شادی کی تین اہم خصوصیات ہیں۔تسکین، محبت اور رَحمت۔

ہمارے لیے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اسلامی فارمولا کیا ہے جو ہمیں اس فطری ہم آہنگی کی حالت تک پہنچاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود مرد اور عورت کے درمیان رکھی ہے؟

اسلامی تعلیمات شادی کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں اور اسے ایک مضبوط قلعے سے تشبیہ دیتی ہیں، جس میں میاں بیوی محفوظ رہتے ہیں۔

مزید برآں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورة النساء کی آیت تین میں، جو نکاح کے موقع پر تلاوت کی جاتی ہے، ارشاد فرماتا ہےکہ اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے۔ شادی کے ذریعےدونوں اپنی اصل حالت کے قریب آجاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا انسانیت عورت ہے، غلط ہے۔ انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے۔ وہ ایک نفسِ واحدہ ہے اور اس کے دو ٹکڑے کیے گئے ہیں۔ آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت۔ جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں، تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے، اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی۔ وہ تبھی کامل ہوگی جب اس کے دونوں ٹکڑےجوڑ دیے جائیں گے۔

اسی وجہ سے اسلام میں رہبانیت ممنوع ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید ی نصیحت فرمائی کہ شادی میری سُنّت کا حصہ ہے اور جو میری سُنّت پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ مزید یہ کہ آپؐ نے شادی کی اہمیت کو اس قول مبارک کے ذریعے بھی واضح فرمایا کہ جب کوئی آدمی شادی کرتا ہے، تو اس نے اپنے دین کا نصف مکمل کر لیا، تو اُسے باقی نصف کے لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو اتنی اہمیت دی ہے کہ شادی کو دین کا نصف قرار دیا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ واضح ہے کہ شادی کرنا حکم ِخداوندی ہے اور جان بوجھ کر شادی سےگریز نہیں کرنا چاہیے۔کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو صدمات کی وجہ سے شادی نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا وہ جو ارادہ کے باوجود شریک ِحیات نہیں پاتے۔ آئیے ہم ان تمام بھائیوں اور بہنوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں امید نَو عطا فرمائے اور ان کے لیے نئے راستے کھولے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر سکیں اور ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے ساتھ نوازے جائیں۔ آمین۔

تقویٰ:محترم سامعین و ناظرین!نکاح کے موقع پر جو چار آیات تلاوت کی جاتی ہیں، ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف اور پرہیزگاری کا ذکر آتا ہے۔ تقویٰ ایک کامیاب زندگی گزارنے کی بنیاد ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔ جو شخص تقویٰ کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے، وہ ہر کام کو بڑی احتیاط سےسر انجام دیتا ہے اور ہر وقت اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کہیں دوسرے کے حقوق پامال نہ ہوں۔ اسی لیے نکاح کی آیات میں تقویٰ پر اتنا زور دیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آیاتِ نکاح کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ نکاح کے اعلان کے وقت سب سے اہم نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ کو اپنایا جائے۔ جب آپ اپنے نکاح کی منظوری دیتے ہیں تو آپ اس بات کی منظوری دیتے ہیں کہ آپ ان الٰہی احکامات پر عمل کریں گے جو اس وقت تلاوت کیے جا رہے ہیں۔ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف رکھتے ہیں، اس اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں جس نے آپ کی پیدائش سے لے کر بلکہ آپ کی پیدائش سے بھی پہلےآپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھا تو آپ ہمیشہ وہی کریں گے جو اسے پسند ہو اور اس کے نتیجے میں آپ اس کی برکتوں کے وارث بنیں گے۔

ایک اَور موقع پر فرمایا کہ جب مقصد سامنے ہو تو ایک نیا شادی شدہ جوڑا ہر قدم اس خیال کے ساتھ اٹھائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کو پورا کر رہے ہیں۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو پورا کرتا ہے تو اس کی سوچ کے ہر پہلو کو اس جانب مبذول کرنے کی کوشش ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہو۔ اس سے باہمی تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور انسان دوسرے کی دیکھ بھال کرنے والا اور اس کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے والا بنتا ہے۔ اس طرح یہ رشتہ اور باہمی معاہدہ محض ایک دنیاوی معاہدہ نہیں رہتا،بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جوڑے کو نیک صالح اولاد ملتی ہے اور یہی ایک احمدی مسلمان کے لیے شادی کا مقصد ہونا چاہیے۔

نکاح کی آیات میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ؛ اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔یہ آیت مرد اور عورت کی برابری کو ثابت کرتی ہے، کیونکہ دونوں ایک ہی جان کے دو حصے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کے لیے یہ سمجھ اور یقین بنیادی ہے تاکہ وہ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار سکیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرد خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں۔ ایسی سوچ نہ صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ ایسے رویے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ازدواجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ مرد اور عورت کی برابری کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں ایک جیسی ہیں۔ قرآن پاک واضح کرتا ہے کہ مَرد اور عورت کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ خاندان کی کفالت کی پہلی ترجیح مرد پر ہے اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عورت پر ہے۔ کبھی بھی ایسا ماحول پیدا نہیں ہونا چاہیے جو بچوں کی تربیت کے لیے نقصان دہ ہو، کیونکہ بچے ہی کل کے معاشرے کی تشکیل کریں گے۔

ان وضاحتوں کے بعد جو شادی کی اہمیت اور بنیادی سوچ کے بارے میں تھیں، ہم اب عملی حصے کی طرف آتے ہیں، جو ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔

دعا:پہلا اور سب سے اہم قدم دعا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید میں ہماری عائلی زندگی کے لیے ایک دعا سکھائی ہے کہ وَالَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا هَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔(الفرقان:٧٥):اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

یہ خوبصورت دعا غیر شادی شدہ افراد کو بھی کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ کے ہاں کوئی دعا ضائع نہیں جاتی، بلکہ اپنے وقت پر قبولیت پاتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ کوئی ایسی دعا نہیں ہے جس میں آپؑ اپنے اہل و عیال کے لیے دعا نہ کرتے ہوں۔

کسی نے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی الله عنہ سے پوچھا کہ آپ نے کون سا عمل کیا تھا،جس کی بدولت آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے داماد بنے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو مَیں نے اس قدر دل سوزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی جیسے کوئی بکری کا بچہ ذبح ہو رہا ہو۔ آنسوؤں سے روتے ہوئے مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! خود ہی اس کا خیال رکھ اور اسے ایسا مقام عطا فرما جو دنیا میں کسی کو پہلے نہیں ملا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس دل سوز دعا کو قبولیت بخشی، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے داماد بنے۔ الحمدللہ!

استخارہ :دعا کے ساتھ ساتھ استخارہ کی نماز بھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا طلب کی جاتی ہے۔ یہ ہر احمدی مسلمان کے لیے روزمرہ کا معمول ہونا چاہیے، خاص طور پر جب شادی کا معاملہ ہو۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپروا ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔آپؑ نے استخارہ کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی کہ استخارہ کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ جو کام ہمارے لیے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہو جاتا ہے۔ بغیر دقّتوں کے حاصل ہو جاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہو جاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو سالہا سال کے تعلقات کے بعد، جب وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیتے ہیں، شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، یہ جان پہچان کامیاب شادی کی ضمانت نہیں ہے، کیونکہ ان جوڑوں میں بھی اکثر طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ انسان کا علم محدود ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اسی لیے ہمیں اللہ تعالیٰ سے راہنمائی طلب کرنی چاہیے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور اسی مقصد کے لیے استخارہ کی نماز ہے۔

شریکِ حیات کا انتخاب: لوگ مختلف مقاصدِ زندگی رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ ہر دن کو بغیر کسی مقصد کے گزار دیتے ہیں یا اس کی فکر نہیں کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اس نے کائنات کو بے مقصد یا کھیل تماشے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ مَیں نے کیا پیدا کیا ہے اور کیوں پیدا کیا ہے؟اور میں نے جنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔(الذّٰرِیٰت:٥٧)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے پیدا کرنے کا مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں، اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کریں۔ یہی زندگی کا مقصد ہے جو کہ ہمارے خالق نے خود مقرر کیا ہے۔اب ذرا سوچیں! کتنا غیر معقول ہوگا کہ ہم اپنے خالق کی طرف سے مقرر کردہ مقصد کو نظرانداز کر دیں اور اپنی زندگی کے لیے دیگر مقاصد مقرر کریں۔ اگر انسان اس مقررہ مقصد کو پورا نہ کرے تو وہ کبھی حقیقی خوشی حاصل نہیں کر سکتا۔لہٰذا ہمیں ایسا شریکِ حیات تلاش کرنا چاہیے جس کے ساتھ ہم زندگی کا مقصد بانٹ سکیں تاکہ دونوں ایک ہی مقصد کی طرف گامزن ہوں اور زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ مشترکہ مقصد اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا حاصل کرنا ہونا چاہیے۔

اسلامی تعلیمات ہمیں شریکِ حیات کے انتخاب کے لیے بہت واضح رہنمائی فراہم کرتی ہیں جو کہ ایک خوشگوار عائلی زندگی کی بنیاد ہیں۔ ہمارے درمیان ایسے افراد ہیں جو پہلے ہی اس معاملے میں غلطی کرتے ہیں کیونکہ وہ آنحضرتؐ کی تنبیہ کے باوجود اس نصیحت پر عمل نہیں کرتےکہ شریکِ حیات کے انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت دینداری کو دی جائے۔

اگلے مرحلے میں جب کوئی ممکنہ شریکِ حیات زیرغور ہوتو سچائی اور صداقت کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور قرآن مجید کے مطابق بلا مبالغہ سچائی بیان کرنا یعنی قولِ سدیدلازم ہے۔جب کوئی شادی کرتا ہے تو وہ مستقبل کی امیدوں اور توقعات کے ساتھ دیکھتا ہے۔ وہ ایک خاندان قائم کرنا چاہتا ہے اور اسے کامیابی کے ساتھ پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن اگر شادی سے پہلے کچھ اہم باتیں جیسے جسمانی یا ذہنی مرض، قرض یا دوسری عادتیں،جو شریکِ حیات کو متاثر کرسکتی ہیں، چھپائی جائیں، جیسے کہ سگریٹ نوشی وغیرہ، تو یہ ایک احساسِ مایوسی پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد جب بھی کوئی جھگڑا ہوتا ہے، تو انسان کو یہ خیال ستاتا ہے کہ اس کے شریکِ حیات نے شادی سے پہلے کچھ چیزیں چھپائی تھیں اور اس طرح اسے دھوکا دہی کا احساس ہوتا ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کو بھی ختم کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔

ایک مضبوط بنیاد کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمیشہ سچ بولا جائے اور کچھ بھی نہ چھپایا جائے جو بعد میں شادی کو منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی تمام کمزوریوں کو ظاہر کریں، کیونکہ اللہ ستّارہے، جو ہماری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے، لہٰذا ہمیں بھی انہیں ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ یہاں ان پہلوؤں کو ظاہر کرنے کی بات کی گئی ہے جو بعد میں شریکِ حیات کو متاثر کر سکتے ہیں اور اس پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔سچ بولنا نہ صرف شادی سے پہلے بلکہ شادی کے بعد بھی انتہائی ضروری ہے۔ جھوٹ بولنے سے وقتی فائدہ تو حاصل ہو سکتا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں اعتماد کا جو نقصان ہوتا ہے، وہ شادی پر گہرا منفی اثر ڈالتا ہے۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ اتنا قریبی اور گہرا ہوتا ہے کہ سچائی بالآخر سامنے آ ہی جاتی ہے، جو اعتماد کے ٹوٹنے کا باعث بنتی ہے۔ جب شادی میں اعتماد کا فقدان پیدا ہو جائے تو قرآن کریم میں بیان کردہ تسکین، محبت، اور رحمت پر مبنی خوشگوار اور پُرسکون زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے بطور لباس ہیں:اگر ہم قرآن مجیدکی ہدایت کے مطابق ایک خوشگوار عائلی زندگی گزارنے کے لیے راہنمائی حاصل کریں تو ہمیں قرآن مجید میں ایک بہت خوبصورت مثال ملتی ہے جو میاں بیوی کے تعلق کو بیان کرتی ہے کہ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ (البقرہ:۱۸۸) لباس یا دوسرے الفاظ میں کپڑے کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہمارے عیب اور شرمگاہ کو چھپاتا ہے، خوبصورتی کا ذریعہ بنتا ہےاور ہمیں موسم کی سختیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔اس مثال کا پیغام یہ ہے کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ لباس کی طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے۔

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کے حوالے سےارشاد فرمایا کہ جب ایک مرد اور عورت شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں اور ایک معاہدہ کرتے ہیں تو انہیں اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ایک دوسرے کو قبول کریں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کو چھپائیں۔ نہ مردوں کو اور نہ عورتوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنا چاہیے۔ احمدی میاں بیوی کا باہمی تعلق ان کی خوبصورتی کو بڑھانے والا ہونا چاہیے اور یہ خوبصورتی ہر احمدی جوڑے سے جھلکنی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیےایک مثال بن سکیں۔

غصہ:جذبات کا طوفان ایک ایسی وجہ ہے جس کی بنا پر بہت سی شادیاں دباؤ کا شکار ہوتی ہیں اور غصہ اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ غصہ عقل کو زائل کر دیتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ غصہ اور عقل دونوں ایک وقت میں موجود ہوں۔ اس لیے جب کوئی شخص غصہ کرنے والا ہو تو اسے یہ شعور ہونا چاہیے کہ وہ غصے کی حالت میں نہ تو عقلمندی سے کام لے سکتا ہے اور نہ ہی دانشمندانہ فیصلے کر سکتا ہے۔ایک مددگار طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس پچھتاوے کو ذہن میں لایا جائے جو انسان کو بعد میں غصے اور اشتعال کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ اس پچھتاوے کا پہلے سے تصور کر لینا اور یہ سوال کرنا کہ آیا غصہ کرنے کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں، اس بات میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکے۔

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غصے کے حوالے سے فرمایا کہ جب مَیں ایسے تنازعات کے بارے میں سنتا ہوں جہاں چھوٹے چھوٹے اختلافات علیحدگی کا باعث بنتے ہیں، تو مجھے ہمیشہ ایک نوجوان لڑکی کی کہانی یاد آتی ہے جس نے ایک جوڑے کو ایک بہترین سبق دیا۔ اس لڑکی نے دیکھا کہ ایک جوڑا لَڑ رہا تھا اور یا غصے میں ایک دوسرے سے بلند آواز میں بات کر رہا تھا۔ وہ اس منظر پر اتنی حیران ہوئی کہ انہیں بار بار دیکھنے لگی۔ جوڑے نے یہ نوٹ کیا اور اس لڑکی سے پوچھا کہ کیا ہوا، کیا اس نے کبھی اپنے ماں باپ کو جھگڑتے ہوئے نہیں دیکھا؟ کیا وہ کبھی غصے میں نہیں آئے؟ لڑکی نے جواب دیا کہ ہاں! وہ جھگڑتے تو تھے، لیکن جب اس کی ماں غصے میں ہوتی تو اس کا باپ خاموش رہتا اور جب اس کا باپ غصے میں ہوتا تو اس کی ماں خاموش رہتی ہے۔

عدم برداشت:بہت سی شادیوں کے ناکام ہونے کی ایک اور بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور یہ باتیں شادی کے لیے آزمائش بن جاتی ہیں۔ حالانکہ شادی میں ضروری ہے کہ اپنی برداشت کی حد کو وسیع کیا جائے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے بہن بھائیوں کی عادات اور مزاج میں فرق ہوتا ہے، تو شریکِ حیات جو مختلف خاندان اور ماحول سے آیا ہو، وہ آپ سے بہت مختلف ہو سکتا ہے۔اس کی شخصیت اور عادات کو تشکیل پانے میں اگر پچیس سال کاوقت لگا ہے تو انہیں بدلنے میں بھی سالوں لگ سکتے ہیں۔ جیسے ہمیں اپنی عادات بدلنا مشکل لگتا ہے، ویسے ہی ہمیں اپنے شریکِ حیات کے معاملہ میں بھی صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میاں بیوی کے درمیان عدم برداشت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ کبھی کبھی نوجوان جوڑے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ جب ان کے تعلقات کی گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جاتا ہےتو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اپنی شادی کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنی ذاتی انا اور عزتِ نفس پر اصرار نہ کریں تو ایسے تنازعات کبھی پیدا نہ ہوں۔

مثبت رویہ:ایک خوشگوار اور ہم آہنگی والی شادی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا رویہ مثبت ہو اور وہ شریکِ حیات کی خامیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرے اور ان کی خوبیوں پر توجہ دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سنہری اور عملی نصیحت عطا فرمائی ہے کہ جس سے ہم اپنی عائلی زندگی میں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، آپؐ نے فرمایا کہ مومن کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے، اگر اسے اس کی کوئی بات ناپسند ہو، تو اسے اس کی دوسری بات پسند آئے گی۔

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو نصیحت فرمائی ہےکہ وہ ایک دوسرے میں اچھائی تلاش کریں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم ایک دوسرے میں خامیاں پاؤ یا کوئی عادت پسند نہ ہو، تو تمہیں ان کی دوسری عادات پسند آئیں گی، جنہیں تم سراہو گے۔ اگر انسان بے غرض ہو، تو اسے یہ اچھی چیزیں یاد رکھنی چاہئیں تاکہ گھر میں ایک دوستانہ اور مصالحتی ماحول پیدا کیا جا سکے۔ یہ نصیحت مَرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ اگر دونوں اپنے جذبات پر قابو پائیں تو خاندانوں میں ہونے والے چھوٹے موٹے جھگڑے ختم ہوجائیں گے اور بچے متاثر نہیں ہوں گے۔ کبھی کبھی یہ چھوٹی باتیں بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہیں اور انسان سوچتا ہے کہ کیا اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔

پیارے سامعین!یہ چند پہلو ہیں جو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک خوشگوار عائلی زندگی کے لیے راہنمائی فراہم کرتے ہیں، جو تسکین، محبت اوررحمت سے بھرپور ہو۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو اس طرح اپنی زندگیوں کا عَملی حصہ بنائیں کہ ان کا اثر واضح طور پر نظر آئےتو ہم ان سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

ان تعلیمات پر عمل کیے بغیر کوئی اثر مترتب نہیں ہو سکے گا اور شادی کا قلعہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا جیسا کہ جس معاشرےمیں ہم آج کل رہ رہے ہیں ایسا وقوع پذیر ہورہا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال جرمنی میں شادیوں کی تعداد ١٩٥٠ء کے بعد سے دوسری نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اوسط شادی کی عمر میں اضافہ ہوا ہے اور مَردوں اور عورتوں کی شادی کی اوسط عمر تقریباً ٣٤؍سال ہو گئی ہے۔ شرح پیدائش میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، جو اب فی عورت ایک اعشاریہ تین پانچ بچے تک گر چکی ہے، آخری بار اتنے کم بچے سال ٢٠١٣ء میں پیدا ہوئے تھے۔عورتیں آج کل اپنا پہلا بچہ ٣٠؍سال کی عمر میں پیدا کرتی ہیں۔ کوئی بھی شادی اس نیّت سے نہیں کرتا کہ اُسے طلاق دینی پڑے، لیکن پھر بھی جرمنی میں ہر تیسری شادی اوسطاً پندرہ سال بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد بچے متاثر ہوتے ہیں۔

خود عائلی نظام کو عصرِ حاضر میں ایک بحران کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے ایک ایسے طرزِ زندگی کے ذریعے کھوکھلا کیا جا رہا ہے جہاں انسان زیادہ سے زیادہ آزادیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے لیکن کم سے کم ذمہ داریوں اور پابندیوں کے ساتھ۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں زیادہ تر اپنے حقوق کی فکر کی جاتی ہے، بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔

محترم سامعین و ناظرین!ہم اور ہمارے بچے خود بخود ان چیلنجز سے محفوظ نہیں ہیں، بلکہ ہم صرف اس وقت اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب ہم نہ صرف ان کا علم رکھتے ہوں بلکہ ان تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذالعمل بھی کریں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر نماز باجماعت کے فقدان کو خاندانوں میں بے سکونی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ آپ اس کی بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ نماز ایک حفاظتی ڈھال کی مانند ہے، کیونکہ یہ ہمارے دلوں میں تقویٰ پیدا کرتی ہے اور تقویٰ ہمیں ان کمزوریوں سے محفوظ رکھتا ہے جو ہماری خاندانی زندگی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النّور میں فرماتا ہے کہ جن گھروں میں الله تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ روحانی طور پر بلند ہوتے ہیں، اس کے برعکس جن گھروں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا اور جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی، وہ اللہ کی نظر میں گرے ہوئے ہیں۔

آیئے!ہم ایسے افراد بنیں جو اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سجائیں، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، ایک خوشگوار عائلی زندگی بسر کرسکیں اور ایسی نسل کے ساتھ برکت حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی خدمت گزار بنے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کو حقیقتاً زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(خلاصہ تقریر: قمر احمد ظفر، جرمنی )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button