خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍ اگست 2024ء
رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَیّ کے بیٹے صحابیٔ رسول حضرت عبداللہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! اس خبر کی وجہ سے جو آپؐ تک پہنچی ہے اگر آپؐ میرے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مجھے حکم دیں۔ اللہ کی قسم! میں آپؐ کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے اس کا سر لے آؤں گا
رسول اللہؐ نے فرمایا اے عبداللہ! نہ میں نے اس کے قتل کا ارادہ کیا ہے اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا ہے۔ ہم ضرور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے درمیان ہے
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وحی نازل ہونے کی) یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپؐ نے میرا کان پکڑا اور میں اپنی سواری پر تھا حتٰی کہ مَیں اپنے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اے لڑکے! تیرے کان نے وفا کی اور اللہ نے تیری بات کی تصدیق کر دی یعنی وحی اسی بارے میں تھی
یہودی عالم زید بن لُصیت نے کہا مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں شک تھا اب میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ گویا کہ میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد وہ کہتا ہے کہ اب میں سچے طور پر اسلام قبول کرتا ہوں
جنگِ مُرَیْسِیْع کےحالات و واقعات کابیان نیز بنگلہ دیش و پاکستان کے احمدیوں اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
مکرم ڈاکٹر ذکاء الرحمٰن صاحب شہيد ابن چودھری عبدالرحمٰن صاحب آف لالہ موسيٰ ضلع گجرات اور محترمہ سعيدہ بشير صاحبہ اہليہ ملک بشير احمد صاحب کا ذکر خیر اورنماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍اگست 2024ء بمطابق 9؍ظہور 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جلسہ سے پہلے کے خطبات میں
جنگِ مریسیع کے حوالے سے ذکر
ہو رہا تھا۔ اس بات کا بھی ذکرہوا تھا کہ عبداللہ بن اُبی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غلط باتیں کیں اور منافقانہ رویہ اختیار کیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جنگ کے اختتام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چند دن تک مریسیع میں قیام فرمایا مگر اس قیام کے دوران منافقین کی طرف سے ایک ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس سے قریب تھا کہ کمزور مسلمانوں میں خانہ جنگی تک نوبت پہنچ جاتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موقع شناسی اور مقناطیسی اثر نے اس فتنہ کے خطرناک نتائج سے مسلمانوں کو بچا لیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت عمرؓ کا ایک نوکر جَہْجَاہْ نامی مریسیع کے مقامی چشمہ پر سے پانی لینے کے لیے گیا۔ اتفاقاً اسی وقت ایک دوسرا شخص سِنَان نامی بھی جو انصار کے حلیفوں میں سے تھا پانی لینے کے لیے وہاں پہنچا۔ یہ دونوں شخص جاہل اور عامی لوگوں میں سے تھے۔ چشمہ پر یہ دونوں شخص آپس میں جھگڑ پڑے اور جہجاہ نے سنان کو ایک ضرب لگا دی۔ بس پھر کیا تھا سِنان نے زور زور سے چِلّانا شروع کر دیا کہ اے انصار کے گروہ! میری مدد کو پہنچو کہ میں پِٹ گیا۔ جب جَہْجَاہ نے دیکھا کہ سِنان نے اپنی قوم کو بلایا ہے تو اس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو پکارنا شروع کر دیا کہ اے مہاجرین! بھاگیو دوڑیو۔ جن انصارو مہاجرین کے کانوں میں یہ آواز پہنچی وہ اپنی تلواریں لے کر بے تحاشا اس چشمہ کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک اچھا خاصہ مجمع ہو گیا اور قریب تھا کہ بعض جاہل نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جاتے مگر اتنے میں بعض سمجھدار اورمخلص مہاجرین وانصار بھی موقع پر پہنچ گئے۔ اور انہوں نے فوراً لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے صلح صفائی کروا دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ خبر پہنچی توآپؐ نے فرمایا: ’’یہ ایک جاہلیت کا مظاہرہ ہے اور اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن جب منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبَیّ بن سلول کو جو اس غزوہ میں شامل تھا اس واقعہ کی اطلاع پہنچی تواس بدبخت نے اس فتنہ کو پھر جگانا چاہا اور اپنے ساتھیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ اکسایا اور کہا یہ سب تمہارا اپنا قصور ہے کہ تم نے ان بے خانماں مسلمانوں کو پناہ دے کر ان کو سر پر چڑھا لیا ہے۔ اب بھی تمہیں چاہیے کہ ان کی اعانت سے دست بردار ہو جاؤ پھر یہ خود بخود چھوڑ چھاڑ کر چلے جائیں گے اور بالآخر اس بدبخت نے یہاں تک کہہ دیا کہ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (المنافقون:9)۔ ’’یعنی دیکھو تو اب مدینہ میں جاکر عزت والا شخص یا گروہ وہ ذلیل شخص یاگروہ کو اپنے شہر سے باہرنکال دیتا ہے یا نہیں ۔ اس وقت ایک مخلص مسلمان بچہ زید بن ارقمؓ بھی وہاں بیٹھا تھا اس نے عبداللہ کے منہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہ الفاظ سنے تو بے تاب ہو گیا اور فوراً اپنے چچا کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس حضرت عمرؓ بھی بیٹھے تھے۔ وہ یہ الفاظ سن کر غصہ وغیرت سے بھر گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کرنے لگے یارسول اللہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق فتنہ پرداز کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا ’’عمر! جانے دو۔ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہوکہ لوگوں میں یہ چرچا ہو کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا پھرتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی اوراس کے ساتھیوں کو بلوا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ وہ سب قسمیں کھا گئے کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ بعض انصار نے بھی بطریق سفارش عرض کیا کہ زیدبن ارقم کو غلطی لگی ہو گی۔ آپ نے اس وقت عبداللہ بن اُبَیّ اور اس کے ساتھیوں کے بیان کوقبول فرما لیا اور زید کی بات رد کر دی جس سے زید کو سخت صدمہ ہوا مگر بعد میں قرآنی وحی نے زید کی تصدیق فرمائی اور منافقین کو جھوٹا قرار دیا۔ اِدھر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عبداللہ بن ابی وغیرہ کو بلا کر اس بات کی تصدیق شروع فرما دی اور ادھر آپ نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا کہ اسی وقت لوگوں کو کوچ کاحکم دے دو۔ یہ وقت دوپہر کا تھا جبکہ آنحضرت ؐ عموماً کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے کیونکہ عرب کے موسم کے لحاظ سے یہ وقت سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور اس میں سفر کرنا نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے مگرآپ نے اس وقت کے حالات کے مطابق یہی مناسب خیال فرمایا کہ ابھی کوچ ہو جاوے۔ چنانچہ آپ کے حکم کے ماتحت فوراً سارا اسلامی لشکر واپسی کے لیے تیار ہو گیا۔ غالباً اسی موقع پر اُسَید بن حُضَیر انصاری جو قبیلہ اوس کے نہایت نامور رئیس تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! آپ تو عموماً ایسے وقت میں سفر نہیں فرمایا کرتے۔ آج کیا معاملہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔ ’’اُسَید! کیا تم نے نہیں سنا کہ عبداللہ بن ابی نے کیا الفاظ کہے ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہم مدینہ چل لیں۔ وہاں پہنچ کر عزت والا شخص ذلیل شخص کو باہر نکال دے گا۔‘‘ اُسَید نے بے ساختہ عرض کیا ہاں یارسول اللہ! آپ چاہیں توبے شک عبداللہ کو مدینہ سے باہر نکال سکتے ہیں کیونکہ واللہ عزت والے آپ ہیں اور وہی ذلیل ہے۔’’ پھر اُسَید بن حُضَیرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کے تشریف لانے سے قبل عبداللہ بن ابی اپنی قوم میں بہت معزز تھا اور اس کی قوم اس کو اپنا بادشاہ بنانے کی تجویز میں تھی جو آپؐ کے تشریف لانے سے خاک میں مل گئی۔ پس اس وجہ سے اس کے دل میں آپ کے متعلق حسد بیٹھ گیاہوا ہے۔اس لیے آپ اس کی اس بکواس کی کچھ پروا نہ کریں اوراس سے درگزر فرماویں۔‘‘
(ماخوذ سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ559تا561)
پھر ایک دوسری روایت میں لکھا ہے۔ عبداللہ بن ابی کے بیٹے کو جب یہ ساری بات معلوم ہوئی اور حضرت عمرؓ کی گفتگو کا علم ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس خبر کی وجہ سے جو آپ تک پہنچی ہے اگر آپ میرے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مجھے حکم دیں۔ اللہ کی قسم! میں آپ کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے اس کا سر لے آؤں گا۔
اللہ کی قسم! خزرج والے جانتے ہیں کہ خزرج میں کوئی آدمی مجھ سے زیادہ والدین سے حسن سلوک کرنے والا نہیں ہے اور یا رسول اللہ! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کے قتل کرنے کا حکم دیں تو میرا نفس مجھے نہیں چھوڑے گا کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو لوگوں میں چلتا پھرتا دیکھوں اور اسے قتل کر دوں اور آگ میں داخل ہو جاؤں۔ یہ نہ ہو کہ اگر اور کوئی قتل کرے تو میں پھر غصہ میں اس کو قتل کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاف کرنا سب سے افضل ہے اور آپ کا احسان کرنا سب سے عظیم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتیں سن کر فرمایا:
اے عبداللہ! نہ میں نے اس کے قتل کا ارادہ کیا ہے اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا ہے۔ ہم ضرور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے درمیان ہے۔
عبداللہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! بیشک اس شہر والوں نے اتفاق کر لیا تھا کہ میرے باپ کے سر پر تاج رکھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ آپ کو لے آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو پست کر دیا اور آپ کے ذریعہ ہمیں بلند کر دیا۔ اور اس کے ساتھ کچھ ایسے لوگ ہیں جو اس کے پاس آتے جاتے ہیں اور اس کو وہ باتیں یاد دلاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ غالب آ چکا ہے۔ یہ عبداللہ بن اُبَیّ کے بیٹے کہہ رہے ہیں۔
(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد 4صفحہ 348-350دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن ابی کالڑکا جس کا نام حُبَابْ تھا مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے بدل کر عبداللہ کردیا تھا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐاز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ561)
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس کی تفصیل میں مزید لکھا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن شام تک اور ساری رات صبح تک اور دن کا ابتدائی حصہ سفر کیا۔ لوگوں کو سورج تکلیف دینے لگا تو پھر آپ نے لوگوں کے ساتھ قیام فرمایا۔ وہ جیسے ہی زمین پر اترے تو سو گئے۔ اس سارے سفر میں کوئی ایک شخص بھی اپنی سواری سے نہیں اترا تھا سوائے قضائے حاجت کے لیے یا نماز کے لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو ہانکتے اور اس کے پیچھے ٹانگوں میں کوڑا مارتے۔ یہ لمبا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے کیا تا کہ لوگوں کو عبداللہ بن ابی کی وہ بات بھول جائے جو گذشتہ روز ہوئی تھی۔
(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد 4صفحہ 350دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن سفر فرما رہے تھے اور حضرت زید بن ارقمؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کی جانب اپنی سواری پر تھے۔ رسول اللہ ان کے چہرے کو دیکھ سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو ایڑھ لگاتے تو وہ ذرا تیز ہو جاتی۔ اس وقت آپؐ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی۔ حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپؐ پر سختی طاری ہو گئی اور آپؐ کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور آپ کی سواری کے اگلے پاؤں بوجھل ہو گئے حتی کہ قریب تھا کہ وہ انہیں موڑ لیتی یعنی اس کی ٹانگیں مڑ جاتیں۔ میں جان گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی جا رہی ہے کیونکہ ایسی حالت آپؐ کی اسی وقت ہوتی تھی جب آپؐ پر وحی ہو رہی ہو اور مجھے امید تھی کہ وحی میں میری خبر کی تصدیق بھی نازل ہوئی ہو گی۔
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپؐ نے میرا کان پکڑا اور میں اپنی سواری پر تھا حتی کہ مَیں اپنے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اے لڑکے! تیرے کان نے وفا کی اور اللہ نے تیری بات کی تصدیق کر دی یعنی وحی اسی بارے میں تھی۔
(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد 4 صفحہ354 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت زید بن ارقم ؓکہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جا رہا تھا اور مَیں نے غم سے اپنا سر جھکایا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے کان کو سہلایا اور میرے سامنے مسکرا دیے اور آپؐ کی اس مسکراہٹ کے بدلے میں مجھے ہمیشہ کی زندگی بھی مل جائے تو یہ میرے لیے خوشی کی بات نہ ہوتی۔ کہتے ہیں اتنی خوشی ہوئی مجھے اس مسکراہٹ کو دیکھ کر کہ مجھے اپنی زندگی سے یہ مسکراہٹ بڑی قیمتی لگی۔ بہرحال کہتے ہیں پھر حضرت ابوبکرؓ مجھے ملے اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا آپؐ نے مجھ سے کچھ نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ میرے کان کو سہلایا اور میرے سامنے مسکرائے۔ انہوں نے کہا خوشخبری ہو۔ پھر حضرت عمرؓ مجھے ملے۔ میں نے ان سے بھی وہی بات کہی جو میں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہی تھی۔
( سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ المنافقین حدیث3313)
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب سورة المنافقون نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بلا بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آیات تلاوت فرمائیں اور فرمایا إِنَّ اللّٰهَ قَدْ صَدَّقَكَ۔ یعنی اللہ نے تمہیں سچا کر دیا ہے۔
(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ واذا قیل لھم تعالوا … حدیث4904)
چنانچہ سورۂ منافقون نازل ہونے کے بعد حضرت عُبَادہ بن صامتؓ ، اِبنِ اُبَی کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اسے سلام تک نہیں کیا۔ پھر اَوس بن خَوْلِی گزرے تو انہوں نے بھی سلام نہیں کیا۔ یہ دیکھ کر اِبنِ اُبَی کہنے لگا کہ یہ کیسا معاملہ ہے جس پر تم دونوں نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے؟ اس کی یہ بات انہوں نے سن لی۔ وہ دونوں صحابی اس کے پاس آئے اور اس کی اس حرکت پر اسے خوب جھڑکا اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور بتایا کہ اس کی بات کو جھٹلانے کے لیے قرآن نازل ہو چکا ہے۔ اَوس بن خَوْلِی کہنے لگے اَب میں تیرے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کروں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ تُو اپنی حرکتوں سے باز آگیا ہے اور تُو نے اللہ سے توبہ کر لی ہے۔ ہم لوگ تیری خاطر زید بن ارقم کو کوستے رہے کہ تم نے اپنی قوم کے ایک آدمی کے بارے میں غلط بیانی کی ہے یہاں تک کہ زید کی تصدیق ہوگئی اور تیرے جھوٹ پر آیاتِ قرآنی کی مہر لگ گئی۔
(کتاب المغازی واقدی جلد 1 صفحہ 356 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو کُوچ کا حکم دیا تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ لوگوں سے آگے آکر راستے میں اپنے باپ کے لیے کھڑے ہو گئے اور جب والد کو دیکھا تو اس کو روک لیا اور کہا کہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا جب تک تم یہ اقرارنہ کر لو کہ تم ذلیل ترین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزت دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ میری عمرکی قسم! ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 50 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں اس طرح لکھا ہے کہ ’’عبداللہ بن عبداللہ بن اُبَیّ کواپنے باپ کے خلاف اتنا جوش تھا کہ جب لشکر اسلامی مدینہ کی طرف لوٹا توعبداللہ اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا خدا کی قسم! میں تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا جب تک تم اپنے منہ سے یہ اقرار نہ کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معزز ہیں اور تم ذلیل ہو اور عبداللہ نے اس اصرار سے اپنے باپ پر زور ڈالا کہ آخر اس نے مجبور ہوکر یہ الفاظ کہہ دیئے جس پر عبداللہ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔
جب واپسی کا کُوچ شروع ہواتواس دن کا بقیہ حصہ اورساری رات اور اگلے دن کا ابتدائی حصہ لشکرِ اسلامی برابر لگاتار چلتا رہا اور جب بالآخر ڈیرہ ڈالا گیا تو لوگ اس قدر تھک کر چُور ہو چکے تھے کہ مقام کرتے ہی ان میں سے اکثر گہری نیند سو گئے۔ اوراس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیدار مغزی سے لوگوں کی توجہ اس ناگوار واقعہ کی طرف سے ہٹ کر ایک لمبے وقفہ تک دوسری طرف لگی رہی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو منافقین کی فتنہ انگیزی سے بچا لیا۔
دراصل منافقین مدینہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جس طرح بھی ہوسکے مسلمانوں میں خانہ جنگی اور باہمی انشقاق کی صورت پیدا کر دیں۔ نیز اگر ممکن ہو تو ان کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت کو کم کر دیں۔ مگر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقناطیسی شخصیت نے مسلمانوں میں ایسا رشتہ اتحاد پیدا کردیا تھا کہ کوئی سازش اس میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے متعلق تو مسلمانوں کے دلوں میں عزت واحترام اخلاص وایمان اور محبت وعشق کے وہ جذبات راسخ ہو چکے تھے کہ انہیں متزلزل کرنا کسی بشر کی طاقت میں نہیں تھا۔ چنانچہ اسی موقع پر دیکھ لو کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے دو عامی مسلمانوں کے ایک وقتی جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح صحابہ میں اختلاف وانشقاق کا بیج بونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ورعب کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کی مگر اسے کیسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور خدا نے اسے خود اس کے بیٹے کے ہاتھوں سے وہ ذلت کاپیالہ پلایا جو اسے غالباً مرتے دم تک نہ بھولا ہو گا۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین ؐاز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ561-562)
دوسری روایت میں لکھا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عبداللہ بن اُبَی جب بھی کوئی ایسی ویسی بات کرتا تو اس کی قوم والے اس کو برا بھلا کہتے اور اس کو روکتے ٹوکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورتحال کا علم ہوا تو آپ نے حضرت عمرؓسے فرمایا کہ عمر اب بتاؤ۔ اللہ کی قَسم! اگر میں اسے اس دن قتل کرا دیتا جب تم نے مجھ سے کہا تھا تو لوگ مجھ سے بدظن ہو جاتے اور ناک چڑھاتے اور اب اگر انہیں لوگوں کو میں اس کے قتل کا حکم دوں تو وہ ضرور اس کو قتل کر دیں گے کیونکہ اب صورتحال واضح ہو گئی ہے۔
حضرت عمر ؓنے کہا: اللہ کی قَسم! میں نے جان لیا کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے میری رائے سے زیادہ بابرکت ہے۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ672 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بنو مُصْطَلِق اور عبداللہ بن ابی کے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ’’چونکہ کفارِ مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے اس لیے ان منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اِس موقع پر یہ جرأت کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ اس طرح انہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جو لڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اِس لیے اِس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرمائیں۔ آپؐ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ اتفاق سے یہ مکہ والا آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اس نے مدینہ والے شخص کو مارا۔ جس پر اس نے اہل مدینہ کو جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا۔ اِس طرح جوش پھیل گیا۔ کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے۔‘‘بس جوش ہوا اور لڑ پڑے۔ اسی طرح فساد پیدا ہوتے ہیں۔ ’’دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلواریں نکال لیں۔ عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیاہے۔‘‘ وہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ موقع دے دیا ہے۔’’ اس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہلِ مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اِن مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے ان کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سرپر چڑھتے جاتے ہیں۔
قریب تھا کہ اِس تقریر کا وہی اثر ہوا ہوتا جو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ عبداللہ نے اپنی شر انگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپس پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا۔
معزز ترین انسان سے اس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ بِاللّٰہِ مِن ذٰلِک)۔
جونہی یہ بات اس کے منہ سے نکلی مومنوں پر اس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے۔ ایک جوان آدمی اٹھا اور اپنے چچا کے ذریعے اس نے یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی۔
آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں۔‘‘ مکر گئے بالکل۔ ’’آپ نے کچھ نہ کہا لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی۔ وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا۔ اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں۔ اگر آپ کسی اور کو حکم دیں گے اور میرا باپ اس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ میں اس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں۔‘‘ کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کی طبیعتوں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر تو بہرحال تھا۔ انہوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے حکم دیں کہ مَیں اپنے باپ کو قتل کروں۔ ’’مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا ہرگز ارادہ نہیں۔ میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا۔ جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اَور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اس کا غصہ بھی اسی نسبت سے ترقی کر گیا۔
جب لشکرمدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گاتا وقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لوجو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کئے ہیں۔
جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خداکا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہو اسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہو گی کہ خد اکا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو۔ جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں۔ نوجوان عبداللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔ ‘‘
( دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ 265 تا 267 )
اس سفر کے دوران ایک یہ واقعہ بھی ہوا کہ ایک جگہ جب پڑاؤ تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم گئی۔ اس کی تفصیل یوں ہے’ کہ بنو مصطلق سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فُوَیْقُ النَّقِیْع یا بَقْعَاء نامی ایک چشمہ پر اترے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 671 دار الکتب العلمیۃ بیروت)بَقْعَاء، نَقِیع کے بالائی جانب ہے اورنَقِیع مدینہ سے جنوب میں چالیس کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ (سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد7 صفحہ191-192 دار السلام ریاض)بہرحال اس جگہ مسلمانوں نے اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور اس دوران میں شدید آندھی آ گئی۔ اس آندھی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی قَصْوَاءگم ہو گئی۔ مسلمان اسے ہر سمت تلاش کرنے لگے۔ زید بن لُصَیْت انصار کی ایک جماعت میں تھا، یہ منافق تھا۔ اس جماعت میں حضرت عَبَّاد بن بِشر بن وَقْش، سَلَمَہ بن سَلَامہ اور اُسَید بن حُضَیر بھی تشریف فرما تھے۔ زید بن لُصَیْت یہودی قبیلے بنو قینقاع میں سے تھا۔ اس کا شمار ان یہود علماء میں سے ہوتا تھا جو بظاہر تو مسلمان ہو چکے تھے لیکن اندر سے یہودی ہی تھے۔ اس منافق یعنی زید بن لُصَیْت نے کہا۔ لوگ کیوں بھاگتے پھر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی تلاش کر رہے ہیں جو گم ہو گئی ہے۔ لُصَیت نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ انہیں بتا نہیں دیتا کہ وہ فلاں جگہ ہے۔ صحابہؓ نے اس کی یہ بات عجیب سمجھی۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ تعالیٰ کے دشمن! رب تعالیٰ تجھے برباد کرے۔ تُو منافق ہے۔ جب اس نے یہ بات کی تو جو ایمان والے تھے ان کو پتہ لگ گیا کہ یہ تو منافقانہ بات ہے۔ انہوں نے کہا تُو منافق ہے۔ پھر حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ نے اس کی طرف توجہ کی اور کہا اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کیا ہے تو میں یہ نیزہ تمہارے آر پار کر دیتا۔ دشمنِ خدا تیرے دل میں یہ نفاق تھا تو پھر تو ہمارے ساتھ کیوں نکلا۔ اس نے کہا میں دنیاوی سامان کے حصول کے لیے نکلا ہوں۔ کھل گیا، کچھ نہ کچھ سامنے آگیا اور طنزاً کہا کہ بخدا! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں اس سے بڑے بڑے امور کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ہمیں آسمانی امور کے بارے میں بتاتے ہیں تو بھلا وہ اس اونٹنی کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ کہتے ہیں کہ بڑی پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ مجھے بتاتا ہے، غیب کی خبر دے دیتا ہے۔ اونٹنی کے بارے میں کیوں نہیں خبر ہوتی۔ منافقانہ باتیں کرنے لگا۔ وہ سب جو وہاں بیٹھے تھے اس کی طرف لپکے اور کہا کہ بخدا اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تمہارے دل میں ایسے خیالات ہیں تو ہم اور تم ایک لمحے کے لیے بھی اکٹھے نہ ہوتے۔ اب ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ وہ خوف کے مارے وہاں سے بھاگ گیا کہ صحابہ کہیں اس پہ حملہ نہ کر دیں ۔ صحابہؓ نے اس کا سامان جو وہاں پڑا تھا باہر نکال پھینکا۔ بہرحال وہ صحابہ سے چھپتا ہوا بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پناہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں جو اس نے کہا تھا آسمان سے وحی کا نزول ہو چکا تھا اس وقت جب کہ وہ منافق سن رہا تھا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافقین میں سے ایک شخص اس مصیبت پر خوشیاں منا رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کیوں نہیں بتا دیتا کہ وہ فلاں جگہ ہے کیونکہ میری عمر کی قَسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اونٹنی کے اس معاملے سے بھی بڑے معاملات کی خبر دیتے رہے ہیں۔
جب وہ وہاں بیٹھا تھا تو یہ ساری باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے علاوہ غیب کوئی نہیں جانتا۔ اس نے مجھے اس اونٹنی کے بارے میں بتا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ اونٹنی کہا ں ہے۔ وہ سامنے اس گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ تم اس طرف جاؤ۔ صحابہ کرامؓ اس کی طرف گئے اور اسے اسی طرح پایا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا تھا۔ جب منافق نے یہ دیکھا تو وہ مبہوت ہو گیا۔ جلدی سے اٹھ کر اپنے ان ساتھیوں کے پاس چلا گیا جو اس کےساتھ تھے۔ جب یہ قریب پہنچا تو صحابہ نے کہا ہمارے قریب نہ آنا۔ اس نے کہا میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ قریب ہوا اور اس نے کہا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کیا تم میں سے کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہے اور آپ کو میری بات بتائی ہے جو مَیں نے کی تھی۔ انہوں نے کہا نہیں بخدا! ہم تو اپنی اس محفل سے اٹھ کر بھی نہیں گئے۔ انہوں نے کہا مَیں نے تو لوگوں میں وہ بات ہوتے دیکھی ہے جو مَیں نے کی تھی اور انہیں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے۔ پھر اس شخص نے ان لوگوں کو وہ سب کچھ بتایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا اور یہ کہ آپؐ کی اونٹنی مل گئی ہے۔
اس نے کہا مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں شک تھا۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔گویا کہ میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد وہ کہتا ہے کہ اب میں سچے طور پر اسلام قبول کرتا ہوں۔
صحابہ کرامؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کہ وہ تمہارے لیے بخشش طلب کریں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور بخشش طلب کی اور اپنے گناہ کا اعتراف کر لیا۔
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ -351 352 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد7 صفحہ194 دار السلام ریاض)
(کتاب المغازی جلد1 صفحہ358-359 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ابن اسحاق نے کہا ہے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زید یعنی اس منافق نے توبہ کر لی تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ توبہ نہیں کی تھی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد2 صفحہ512 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بہرحال ابھی اس کے تھوڑے سے مزید واقعات ہیں جو آئندہ بیان ہوں گے۔
اس وقت میں
بنگلہ دیش کے جو حالات ہیں ان کے لیے بھی دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔
وہاں جو حکومت کے خلاف فساد ہوا تھا حکومت تو خیر ختم ہو گئی لیکن وہ فساد جاری ہے۔ (کہتے ہیں کہ اب کل سے شاید کچھ تھوڑی سی بہتری آئی ہے) اور اس وجہ سے جماعت مخالف گروہوں نے اس سے فائدہ اٹھا کر احمدیوں کو بھی نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ ہماری بعض مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور انہیں جلایا گیا۔ جامعہ احمدیہ اور جماعتی عمارات کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ وہاں بھی توڑ پھوڑ کی گئی اور سامان جلایا گیا۔ بعض احمدی وہاں زخمی بھی ہوئے ہیں، بڑے شدید زخمی ہوئے ہیں۔ احمدیوں کو مارا پیٹا گیا ہے۔ کئی احمدیوں کے گھروں کو بھی نقصان پہنچایا ہے، ان کو بھی جلا دیا بلکہ بعض گھروں کے بارے میں تو خبر ہے کہ مکمل طور پہ جلا دیا۔ بعضوں کے سامان جلائے۔ بالکل لاقانونیت ہے اور احمدیوں کو تو یہاں پہلے ایک دفعہ جلسہ کے دوران اوراب یہ دوسری دفعہ اس علاقے میں نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں مضبوط ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ کی خاطر ہم یہ بھی برداشت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ رحم اور فضل فرمائے اور احمدیوں کو اپنی حفاظت میںرکھے اور مخالفین کی پکڑ فرمائے۔
اسی طرح
پاکستان میں بھی احمدیوں کے حالات کے لیے دعا کریں۔
وہاں بھی کچھ سخت حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہر شر سے محفوظ رکھے۔ آجکل ملاں اور مفادپرست لوگ احمدیوں کے خلاف زیادہ سرگرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی جلد سامان فرمائے۔
فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں
ان پر بھی جو لوگ یہ ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کرے اور یہ ظلم ختم ہو۔
عمومی طور پر مسلمان دنیا کے لیے دعا کریں۔
یہ آپس میں ایک دوسرے پرجو ظلم کر رہے ہیں وہ بھی ختم ہوں اور
یہ اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق پیدا کرنےوالے ہوں اور زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں۔ یہی ان کی بقا کا رستہ ہے۔ یہی نجات کا رستہ ہے لیکن یہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں۔
میں اس وقت
دو جنازے
بھی پڑھاؤں گا۔ مرحومین کا ذکر کرتا ہوں۔ پہلا ذکر
مکرم ذکاء الرحمان صاحب شہید
کا ہے۔ چودھری عبدالرحمٰن صاحب لالہ موسیٰ ضلع گجرات کے یہ بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ جلسہ کے دنوں میں، 27جولائی کو تقریباً صبح ساڑھے نو بجےدو نامعلوم افراد نے ان کے کلینک میں داخل ہو کر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں یہ موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کی عمر 53سال تھی۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر ذکاء الرحمن صاحب شہید معمول کے مطابق کلینک کھول کر بیٹھے ہوئے تھے کہ دو نامعلوم نقاب پوش افراد ساڑھے نو بجے صبح موٹر سائیکل پر آئے جن میں سے ایک کلینک کے اندر داخل ہوا جبکہ دوسرا کلینک کے باہر کھڑا رہا۔ اندر داخل ہوئے شخص نے مکرم ڈاکٹر صاحب پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں آپ کو تین گولیاں لگیں جن میں سے ایک گولی سینے پر دل کے قریب جبکہ ایک گولی پیٹ پر اور ایک گولی ہاتھ پر لگی۔ وقوعے کے بعد دونوں ملزمان بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ فائرنگ کی آواز سن کر مکرم ڈاکٹر صاحب شہید کے ہمسائے کلینک میں آئے جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو زخمی حالت میں پایا۔ ڈاکٹر صاحب شہید نے موصوف کو کچھ بتانے کی کوشش کی لیکن خون کی الٹی آئی اور آپ شہید ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ بوقتِ شہادت آپ پاکستان میں اکیلے ہی تھے۔ آپ کی اہلیہ جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی غرض سے یوکے آئی ہوئی تھیں۔
ڈاکٹر ذکاء الرحمٰن صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت حافظ احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساکن چک سکندر کے ذریعہ سے ہوا جو تین سو تیرہ اصحاب میں شامل تھے۔ شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم نیک عالم صاحب نے جو کہ حضرت حافظ احمد دین صاحبؓ کے بھتیجے تھے، 10جون 1901ء میں بیعت کی جس کے بعد انہیں سفرِ جہلم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی سعادت ملی۔ ان کے خاندان میں پہلے بھی خلیل احمد سولنگی صاحب شہید ہیں جو لاہور میں شہید ہوئے تھے ڈاکٹر ذکاء الرحمٰن صاحب مرحوم کے ماموں زاد بھائی تھے۔ شہید مرحوم نے مختلف جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ کافی عرصہ سیکرٹری مال جماعت لالہ موسیٰ ضلع گجرات رہے۔ بوقتِ شہادت بطور صدر جماعت خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ چندہ جات میں باقاعدہ غریبوں، محتاجوں کی امداد کرنے والے وجود تھے۔ جوانی کے دنوں میں جب حالات بہتر تھے، دوستوں کو تبلیغ کی غرض سے زیارت مرکز کے لیے بھی لے جاتے تھے۔
ڈاکٹر ذکاء الرحمٰن صاحب شہید کے بارے میں امیر صاحب ضلع گجرات کہتے ہیں کہ شہید مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے جن میں مالی قربانی کرنا ایک نمایاں وصف تھا۔ عہدیداروں اور سب سے بڑھ کر خلافت احمدیت کی اطاعت کا خلق بھی بہت نمایاں تھا۔ ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے اور چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ خدمت خلق کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب شہید اکثر غریبوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ علاقے میں غیر از جماعت احباب کے ساتھ آپ کے اچھے تعلقات تھے۔ جن کا ذکر غیر از جماعت احباب نے آپ کی شہادت کے بعد کیا ہے اور بعض غیر از جماعت آپ کے جنازے میں بھی شامل ہوئے ہیں۔
امیر صاحب لکھتے ہیں کہ عید الاضحی 24ء سے قبل ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ سرکاری اہلکار آئے تھے اور انہوں نے کہا ہے کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا آپ عید تک کلینک پر نہ بیٹھا کریں۔ لیکن بہرحال ان میں جرأت تھی بیٹھتے رہے۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ نگینہ رفیق صاحبہ، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ دوبیٹیوں کی شادی ہوئی ہوئی ہے ایک بیٹی جرمنی میں زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ ہے
سعیدہ بشیر صاحبہ کا جو ملک بشیر احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔
یہ بھی گذشتہ دنوں 83سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ملک غلام احمد صاحب مربی سلسلہ گھانا کی والدہ تھیں جو کہ میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔
ان کے بیٹے غلام احمد صاحب مربی کہتے ہیں کہ خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت ملک اللہ بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آئی جو ایک عالم باعمل نیک شخص تھے جنہوں نے سورج اور چاند گرہن کی شہادت کو دیکھ کر لودھراں سے قادیان پیدل سفر کر کے بیعت کی سعادت پائی تھی۔ ان کی والدہ حضرت اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓکی شفقت سے بھی حصہ پاتی رہیں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ ہماری والدہ ہمیں بتایا کرتی تھیں کہ ربوہ میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مجھے بہت پیار ملا۔ کہتی ہیں کہ میں ان کے پاس رہی۔ مجھے روٹی کسی وجہ سے پسند نہیں تھی۔ اکثر باوجود تنگی کے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے پیسے دیتیں کہ جاؤ اپنے لیے بازار سے بند لے آؤ اور پھر مَیں دودھ کے ساتھ کھاتی تھی۔ کہتی ہیں ایک دفعہ میں چھوٹی تھی اور کسی وجہ سے رو رہی تھی تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بڑے پیار سے اپنی گود میں بٹھا کر پیار کیا اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک یتیم بچے کی طرح پلی تھیں مگر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اور دوسرے بزرگان کی پاک صحبت نے آپ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ساری عمر باقاعدہ تہجد ادا کی۔ نمازوں کی پابند تھیں۔ نہ صرف خود بلکہ بچوں کو بھی کہا کرتی تھیں۔ نظر کمزور ہونے کے باوجود رمضان میں قرآن دو یا تین بار ختم کرتیں۔ خلافت سے بہت پیار کا تعلق تھا، وفا کا تعلق تھا، اخلاص کا تعلق تھا۔ خلفاء کے خطبات اور خطابات بڑے اہتمام سے اور خاموشی سے سنتی تھیں۔
پھر ایک خوبی انہوں نے لکھی ہے کہ کسی سے اونچی آواز میں بات کرنا سخت ناپسند تھا بلکہ اگر بچے بھی اونچا بولتے تو انہیں منع کرتی تھیں۔ کہتے ہیں خاکسار نے انہیں ہمیشہ اپنے خاوند کا حقیقی اور سچا ساتھی دیکھا اور ہم بچوں کو نماز کا پابند کیا۔ یسرنا القرآن پڑھایا پھر قرآن پڑھایا۔ خلافت اور نظام جماعت کی محبت دل میں بٹھائی۔ مجھے یہ کہاکرتی تھیں کہ سیالکوٹ کی جو مسجد مبارک ہے وہاں جانے کو دل کرتا ہے تا کہ میں ان بابرکت جگہوں پر نماز ادا کروں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نمازیں پڑھی ہیں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ اتفاق سے میرا تقرر وہاں ہوا تو میں والدین کو سیالکوٹ لے گیا اور والدہ نے وہاں جا کے مسجد کے ہر حصہ میں نوافل اور نمازیں بڑی رِقّت کے ساتھ ادا کیں اور اپنی دلی خواہش کے پورا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر بھی کیا۔ بہت دعا گو تھیں۔ اللہ کی رضا پر راضی رہنے والی، دنیا کی آلائشوں اور خواہشات سے مکمل دور رہنے والی مخلص اور ہر لحاظ سے مثالی خاتون تھیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم فرمائے۔ نیکیاں ان کے بچوں میں بھی جاری رہیں اور آگے نسلوں میں بھی جاری رہیں۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍ اگست ۲۰۲۴ء