اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی ۲۰۱۷ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ ششم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
جرمنی جماعت کی نیشنل مجلس عاملہ اور صدران جماعت کے ساتھ میٹنگ
اسی شام حضور انور کی معیّت میں جرمنی جماعت کی نیشنل عاملہ، ریجنل امراء اور ملک بھر سے تشریف لائے ہوئے تمام صدران جماعت کےہمراہ ایک میٹنگ منعقد ہوئی۔ جس میں مجموعی طور پر تین سَو کے قریب افراد نے شرکت کی۔
چند جذباتی لمحات
شاید اس ملاقات کا سب سے جذباتی حصہ وہ الفاظ تھے جو حضور انور نے عہدیداران کو متفرق امور کی بابت تفصیلی نصائح کرنے کے بعد ارشاد فرمائے۔
حضور انورنے فرمایا:مَیں نے سنا ہے کہ یہاں کچھ عہدیداران یا احمدی یہ سمجھتے ہیں کہ مَیں دوسروں کے کہنے پر زیرِ اثر آ جاتا ہوں اور اپنے فیصلے دوسروں کے کہنے کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ یاد رکھیں کہ اس قسم کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہیں بلکہ یہ الزامات تو حضرت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر بھی لگائے گئے تھے اور یہ بات قرآن کریم کی سورۂ توبہ کی آیت ۶۱میں مذکور ہے جہاں بیان کیاگیا ہے کہ بعض لوگ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ تو کان ہی کان ہے۔
حضور انورنے بات کوجاری رکھتے ہوئے فرمایا:میرے لیے کسی بھی طرح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نمونہ کی پیروی کرنا ایک اعزاز کی بات ہےاور اگر لوگ میرے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ مَیں کان ہی کان ہوںاور دوسروں کے کہنے پر چلتا ہوں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم یہ ان لوگوں کے لیے ایک گہری تشویش کا باعث ہے جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، خواہ وہ عہدیدار ہوں یا دیگر احمدی، کیونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے الزامات لگانے والے منافقین تھے۔
حضور انورنے مزید فرمایا:ذاتی طور پر جب بھی مَیں کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونےاور اپنی کوتاہیوں کےلیے استغفار طلب کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے، بہرحال یہاں اگر کوئی شخص اس قسم کے خیالات رکھتا ہے یا دوسروں کو جانتا ہے جو ایسا سوچتے ہیں تو انہیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ ان کی منافقت کا خمیازہ محض بذاتِ خود ان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ خود جماعت اور نظامِ خلافت ان شاء اللہ کبھی کمزور نہیں ہوں گے اور ہمیشہ ترقی کرتے رہیں گے۔
جب حضور انورنے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تو مَیں انتہائی جذباتی ہو گیا، مَیں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیسےکوئی احمدی جس نے حضرت خلیفۃ المسیح کی بیعت کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ ایمان بھی رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مقررکیے گئے ہیں، پھر بھی ایسے بے بنیاد اورتضحیک آمیز دعوے کیسے کر سکتا ہے۔ مَیں نے حضور انورکے ردّعمل کے بارےمیں بھی سوچا۔ غصہ کی بجائےآپ نے اپنے لیے اسے باعثِ اعزاز سمجھا کہ آپ کوکسی بھی طرح سے حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ منسوب کیا جائے، یہاں تک کہ جہاں لوگ آپ کےمبارک کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور ان جذباتی الفاظ کے ساتھ ہی حضور انورکا دورۂ جرمنی اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔
ایک افسوسناک حادثہ
۲۴؍اپریل ۲۰۱۷ء کی صبح بیت السبوح سے روانگی کے بعد، دوپہر بارہ بجے کے قریب، قافلہ کو غیر متوقع طور پر ایک توقف کرنا پڑا۔ اس سے چند منٹ قبل قافلہ کی دو گاڑیاں، جو قافلہ کے پیچھے متعین تھیں، موٹر وے پر تیز رفتاری سے آپس میں ٹکرا گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےکسی کو کوئی چوٹ تونہیں آئی تھی تاہم ایک گاڑی کو کافی نقصان پہنچا۔
جب قافلہ سروسز پر رکا تو حضور انورنے مجھے طلب فرمایا اوراستفسار فرمایاکہ حادثہ کیسے پیش آیا اور اس بات کی تسلی فرمائی کہ آیا کوئی زخمی تو نہیں ہوا؟
اس کے بعد حضور انورنے فرمایا: ڈرائیورز کو ہمیشہ مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے اور بہت زیادہ قریب آنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر اچانک بریک لگانی پڑے تو اس کے لیے ردعمل اور سوچنے کا وقت درکار ہوتا ہے۔
حضور انورنے اس کے بعد جماعت جرمنی سے تعلق رکھنے والے اطہر زبیر صاحب کوطلب فرمایا اور ان سےدریافت کیا کہ کیا انہوں نے سفر شروع ہونے سے قبل کوئی صدقہ دیا تھا؟ حضور انورنے تذکرہ فرمایا کہ صدقہ آپ نے خود دیا تھا۔ جب مَیں نے یہ سنا تو میرے دل میں یقین پیدا ہوا کہ حضور انورکے دیے گئے صدقہ کی برکت سے ہی قافلہ کسی بھی قسم کے سنگین حادثہ سے محفوظ رہا۔
مزید برآں حضور انوربنفسِ نفیس تصادم میں شامل گاڑیوں کا معائنہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے نیز ان لوگوں سے ملاقات بھی کی جو ان دو گاڑیوں میں سوار تھے تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ وہ بخیریت ہیں۔
پھرحضور انوراپنی گاڑی میں واپس تشریف لے گئے اور ہومیوپیتھی کا ایک بکس نکالا نیز حادثہ میں ملوث ہر شخص کو ایک ایک کر کےطلب فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے انہیں ہومیوپیتھی کی دوا عطا فرمائی۔ اس پر کچھ خدام اور دیگر افراد جو قافلہ میں شامل تھے، جلدی سے آگے بڑھے تاکہ وہ اس برکت سے محروم نہ رہ جائیں۔
جرمنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص عبداللہ سپرا صاحب بڑی بے تابی کے ساتھ حضور انورکے قریب پہنچے اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے تاکہ حضور انورسے ہومیوپیتھی دوا حاصل کرسکیں۔یہ دیکھ کر حضور انورمسکرائے اور فرمایا: یہ مٹھائی نہیں ہے۔
عبداللہ صاحب نے جواب میں عرض کیاکہ حضور! ہمارے لیے تو یہی اصل مٹھائی ہے۔ حضور انورمسکرائے اور پھر عبداللہ صاحب کو بھی ہومیوپیتھی کی ایک خوراک عطا فرمائی۔
ایک جیب میں سمانا!
سروس اسٹیشن پر حضور انورنے ایک انتہائی طویل قدو قامت والے جرمن شخص کو دکان میں داخل ہوتےہوئے مشاہدہ کیا۔ اس پر حضور انورمیری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ عابد! تم تواس آدمی کی پتلون کی جیب میں سما سکتے ہو۔مَیں اور حضور انوردونوں اس بات پر خوب مسکرائے۔
Calaisمیں توقف
مسجدبیت السلام برسلز میں نماز اور کھانے کے وقفہ کے بعد قافلہCalaisکی طرف روانہ ہوا ،جہاں ہم شام پانچ بج کر پچاس منٹ پرپہنچے، جو یوروٹنل کی ہماری مقررہ روانگی کے وقت سے کافی پہلے تھا، اس لیے حضور انور اور خالہ سبوحی(حضور انور کی اہلیہ محترمہ) نےCalaisکے سروس سٹیشن پر جانے کا ارادہ فرمایا۔
شروع میں حضور انور مرکزی شاپنگ ایریا کے قریب انتظار گاہ میں تشریف فرما ہوئے اور مجھے چند منٹوں کے لیے اپنے پاس بیٹھنے کے لیےطلب فرمایا۔ حضورانور نے مجھ سےدریافت فرمایا کہ کیا مَیں کچھ شاپنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، جو شاید حضور انورکا اندازِ شفقت تھا کہ اگر مجھے اپنے گھر والوں کے لیے کوئی تحائف وغیرہ لینے کی ضرورت ہو تو مجھے یاددہانی ہو جائے، مَیں نے عرض کیا کہ مَیں اپنے بچوں ماہد اور مشاہد کے لیے پہلے ہی کچھ کھلونے وغیرہ خرید چکا ہوں۔
چند منٹوں کے بعد حضورانور اور خالہ سبوحی دوسری انتظارگاہ میں تشریف لے گئے جہاں وہ اگلے بیس منٹ تک تشریف فرما رہے۔ حضور انور نے اس عندیہ کا اظہار فرمایا تھا کہ وہcoffeeلیں گے اور اس لیے میرا اِرادہ Starbucksسے کچھ cappuccinosلینے کا تھا، تاہم میجر صاحب (افسر حفاظت خاص ) کا اصرار تھا کہ وہ ایک کیپوچینو پیکٹ کو ابلے ہوئے پانی اور شہد میں ملا کر خود کافی تیار کریں۔
مَیں نے تجویز دی کہ ہم دونوں optionsکو حضور انورکے پاس لے جائیں اور پھر وہ اور خالہ سبوحی جو بھی کافی پسند فرمائیں اسے منتخب کیا جا سکتا ہے۔ تاہم میجر صاحب کا اصرار تھا کہ صرف ان کی تیار کردہ کافی ہی پیش کی جائے۔
یہاں تک کہ انہوں نے میرے لیے اپنی تیار کردہ کافی کا ایک کپ بنایا اورکہا کہ مجھے اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مَیں نے ایک گھونٹ لیا تو میجر صاحب نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اب مجھے بتاؤ کہ یہ سٹاربکس سے بہتر ہےیا نہیں؟
میجر صاحب کی آنکھوں کے دباؤ کو محسوس کرنے کے باوجود مَیں نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی اورعرض کیا: میجر صاحب یہ اچھی ہے لیکن معذرت کے ساتھ مَیں پھر بھی سٹاربکس کو ہی ترجیح دوں گا!
بہرحال جب کافی تیار ہو گئی تو مَیں نے وہ کافی حضورانور اور خالہ سبوحی کی خدمت میں پیش کی۔ حضور انور نے فوراً استفسار فرمایا کہ یہ کون سی کافی ہے؟ مَیں نے جواب میں عرض کیا کہ میں سٹاربکس لانا چاہتا تھا لیکن میجر صاحب نے اصرار کیا کہ ہم ساشے والی کافی پیش کریں۔
یہ سماعت فرما کر حضور انور مسکرائے اور فرمایا: اچھا ہوا تم یہ لے آئے کیونکہ یہی بہتر ہے۔
جیسے ہی حضور انور نے یہ ارشاد فرمایا، مَیں مسکرایا اور سوچا کہ یہ ایک سبق ہے کہ ہمارے بزرگ جو کچھ بتاتے ہیں اس میں عموماً حکمت ہوتی ہے اور میجر صاحب کی رائے درست ثابت ہوئی!
(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مدثرہ ثروت)