تاریخ احمدیت

شہادت حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب

(’ایچ ایم طارق‘)

آج سے ٹھیک سو سال قبل 31؍اگست 1924ء کو کابل میں مخلص،وفاشعار مولوی نعمت اللہ صاحب کو قبول احمدیت کے ’’جرم‘‘ میں شہید کردیاگیا تھا۔سرزمینِ افغانستان میں دی گئی یہ تیسری جانی قربانی تھی۔

اسلام کی نشأةِ اولیٰ کےجلالی دوراورخلافت راشدہ میں مسلمان محض نصف صدی کے عرصہ میں ہی جزیرۂ عرب سے نکل کر ایک طرف شام وعراق اور ایران پر فتح یاب ہوئےتو دوسری طرف یورپ میں داخل ہو کر قیصرکی حکومت بھی پامال کردی۔ انہوں نے جان ومال،وقت اور عزت قربان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔رسول اللہﷺ کی معیت میں صرف میدان احد میں 70صحابہؓ ہی شہید نہیں ہوئے بلکہ واقعہ رجیع میں تو 70مبلغینِ اسلام بکروں کی طرح ذبح کیے گئے۔جانی قربانی کا یہ سلسلہ بعد میں بڑھتا ہی رہا۔

کابل میں شہادتوں کی پیشگوئی

ہر چند کہ اسلام کی نشأةِ ثانیہ کا جمالی دَور صدیوں کا سفر ہے،اور قربانیاں اس کی ’’زادِراہ‘‘ ہیں۔چنانچہ دور وَآخَرِينَ مِنْهُمْ(الجمعہ:3) کےمصداق فارسی الاصل مسیح اور مہدئ دوراں کو 188۳ء میں دوبکریوں کے ذبح ہونے کی پیشگوئی کے مطابق1901ء میں شاہ افغانستان عبدالرحمان کے دور میں پہلے احمدی حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی شہادت کے بعد 1903ء میں امیر حبیب اللہ خان کے دور حکومت میں حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کابل کی شہادت ہوئی۔تیسری شہادت کی خبر یکم جنوری 190۶ء کو تین بکروں کے ذبح ہونے کے الفاظ میں دی گئی۔(تذکرہ صفحہ۵۵۴ ایڈیشن۲۰۲۳ء)جومولوی نعمت اللہ خاں صاحب کے حق میں 31؍اگست 1924ءکو پوری ہوئی۔

شہزاد ہ صاحبؓ کی شہادت کے بعد حضرت بانی جماعت احمدیہؑ نے ایک کشفی نظارہ میں بھی دیکھا تھاکہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ… جونہایت خوبصورت اور سر سبز تھی آپؑ کےباغ سے کاٹی گئی ہے تو کسی نے کہا کہ اِس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی، اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی الٰہی ہوئی کہ’’کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا‘‘ (تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد20صفحہ57)(تذکرہ صفحہ40۴،40۳)

اللہ تعالیٰ نے 1924ء میں جب اس کشف کی عملی تعبیر ظاہر فرمادی توحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:’’بیری جو پہلے کاٹی گئی تھی اس سے مراد سید عبداللطیف صاحب تھے۔انہیں بیری قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ پھلدار یعنی صاحبِ اولاد تھے اور سرو کی شاخ سے یہ مراد تھی کہ بیری کے بعد جو شاخ کاٹی جائے گی وہ پھلدار نہیں ہوگی۔چنانچہ مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی ابھی تک شادی بھی نہ ہوئی تھی کہ شہید کردیئے گئے۔ (الفضل مورخہ11؍دسمبر1924ء صفحہ5)

مولوی نعمت اللہ خان صاحب کابل کے قریبی گاؤں سے حصولِ تعلیم کےلیےخلافتِ ثانیہ میں قادیان آکرمدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ 1919ء میں دورانِ تعلیم ہی انہیں افغانستان کے احمدیوں کی تربیت کے لیے کابل بھجوانا پڑا۔ جہاں امیر امان اللہ خاں کے دورِ حکومت میں سب کےلیے مذہبی آزادی کا اعلان کردیاگیا تھا۔ مگر وہاں جانے کے بعد حکومتِ وقت نے مخالفین کے دباؤ کے باعث اپنے اعلانِ آزادئ مذہب کے برخلاف 1924ء میں آپ کو قیدبامشقت میں ڈال دیا۔جواں سال بہادرنعمت اللہ صاحب نے کمال عزم و استقامت اور ہمت وجرأت کا مظاہرہ کیااورقید خانہ سےامام وقت کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ’’میں خدا تعالیٰ سے ہر وقت یہ دعا مانگتا ہوں کہ…الٰہی اس بندہ ٔنالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر۔‘‘

المناک شہادت

اور پھر جب اس اسیرِ راہ مولیٰ کےمہدیٔ دوراں پر ایمان کے جرم میں سنگسار کرنے کا فیصلہ ہوا تو نہایت ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئےوہ آخری دم تک اپنے ایمان پر چٹان کی طرح قائم رہے بلکہ آخری لمحات میں بھی موت سے بےپرواہ ہوکر صحابی رسولؐ حضرت خبیبؓ کی طرح دو رکعت نماز پڑھنے کی دلی تمناپوری کی پھر نماز سے فارغ ہو کر کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہوکرو۔کسی نے کیا خوب کہا؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

الغرض مولوی صاحب موصوف کی سنگساری کے فتوے پر عمل کرنے کے لیےانہیں زمین میں گاڑنے کے بعدپہلےمفتی کابل نے پتھر چلانے کا آغاز کیا۔ پھرچاروں طرف سے سنگ باری شروع ہوگئی۔اس المناک شہادت کا دل خراش نقشہ اس دور کےایک صحافی جناب سیدممتاز علی صاحب نے یوں کھینچا ہےکہ’’ جس وقت اس بے گناہ مظلوم کو میدان میں کھڑا کرکے پتھر مارنے شروع کیے ہوں گے اور وہ اس کے منہ اور آنکھوں پر لگے ہوں گےاور سر کی ہڈیاں ٹوٹ کے ہرطرف خون کی دھاریں فواروں کی طرح چل رہی ہونگی اس وقت اس عاجزوبے بس کا کیا حال ہوگا؟ اس شدید عذاب سے اس کی روح جسم سے مفارقت کرگئی تو ان کے دل فگار ر فیقوں نے پتھروں میں سے ان کی نعش نکالنی چاہی تو اشقیاء نے انہیں اس کی بھی اجازت نہ دی۔‘‘(تہذیب نسواں 12 اکتوبر 1924ء)

یوں بالآخر مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو 31؍اگست 1924ء کوکا بل میں شہید کر دیاگیا۔

پیغام حضرت مصلح موعودؓ

شہید مرحوم کی شہادت پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی جماعت کوسفرلنڈن کے دوران اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ ظالم امیر نے ہمارے بھائی کو قتل کیا ہے لیکن وہ ا س کی روح کو قتل نہیں کرسکتا اور وہ زندہ ہے۔غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرائض کو نہیں بھولنا چاہیےجو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے۔ اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہم نے پورا کرنا ہے۔ یہ مصمم ارادہ کرلیں توہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک کہ ہم ان شہیدوں کی زمین فتح نہ کرلیں گے۔( یعنی وہاں احمدیت نہ پھیلالیں گے)۔(الفضل11؍دسمبر1924ء)

سالِ رواں 2024ء تک جماعت احمدیہ اپنی گذشتہ ایک سو سالہ تاریخ میں چارسو سے زائد شہیدوں کی قربانی پیش کرچکی ہےمگرراہ خدا میں اس زندہ الٰہی جماعت کا یہ جذبہ قربانی کبھی سرد نہیں پڑا بلکہ نعمت اللہ خان شہید کی بہادرانہ قربانی کے وقت توجوش وجذبہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ جیسے سپوت احمدیت نے پیغام حق پہنچانے کی خاطر کابل جاکر قربان ہونے کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا بلکہ خودجماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے کابل میں تبلیغ کے لیےجان کی قربانی کی اپنی دلی تڑپ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کہ میری ذمہ داریاں مجھے اجازت نہیں دیتیں اورنہ میری کوئی بالغ اولاد ہی ہےکہ وہ میری دلی تڑپ کو پورا کرے۔اس لیے میں خونِ دل پی کر خاموش ہوں اور چونکہ کسی کو دل کھول کر دکھایا نہیں جاسکتا اس لیے اپنی حالت کا اظہار نہیں کرسکتا ورنہ ؎

خدا شاہد ہےاس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں

مرا ہر ذرہ تن جھک رہا ہےالتجا ہو کر

(الفضل 4؍اکتوبر 1924ء )

جماعت کا جذبۂ قربانی

پھرکیا تھافدائیان احمدیت میں ہر طرف سےلبیک لبیک میرے آقا!کی صدائیں بلند ہونے لگیں، اور کم وبیش 46 وفاشعار واقفین زندگی اور علماء سلسلہ نے کابل جا کر پیغام حق پہنچانے کے لیےاپنے آپ کو پیش کر دیا۔

اس موقع پرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نصیحت جماعت کو یہی رہی کہ ہمیں اپنی پوری توجہ اس کام کے جاری رکھنےکے لیے کرنی چاہیے جس کی خاطر مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے جان دی ہے اورہمیں ان لوگوں کی یاد کو تازہ رکھنا ہے تاکہ ہمارے تمام افراد میں قربانی کا جوش پیدا ہو۔

حضور نے جماعت کو امیر کابل سےبغض رکھنے کی بجائے اس کے لیے ہدایت کی دعا کی تحریک کی اور فرمایا کہ شہید کےاصل قاتل وہ گندےخیالات وا عتقادات ہیں جن کو بدلنے کی ضرورت ہے۔(الفضل11؍دسمبر1924ء)

ایک احمدی کی شہادت پرردّعمل

مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت رائیگاں نہیں گئی بلکہ اس موقع پر کابل کے علاوہ برصغیر میں احمدیت کا نام گونجا اور ایک غلغلہ تبلیغ بلند ہوا۔ متعدداخبارات نے اس پر زبردست احتجاجی تبصرے لکھے:

مشہور ہفتہ وار اخبار ذوالفقار نے لکھاکہ ایک احمدی مسلمان کو ظالمانہ سزا سے قتل کیا گیا…ایسی حکومت دیرپا نہیں رہ سکتی۔(ذوالفقار 8؍ستمبر1924ء)اور یہ زبان خلق نقّارہ خدا ٹھہری۔

صوبہ بنگال کے بااثر ہندو اخبار کلکتہ کےمطابق یہ قتل ہر رنگ میں بالکل خلاف انسانیت اور وحشیانہ تھا۔(کلکتہ 9؍ستمبر1924ء)

اخبار مسلم لاہور نےحکومت افغانستان کا یہ فعل مسلمان کہلانے والوں کے لیے باعث شرم قرار دیا۔(مسلم لاہور 17؍ستمبر1924ء)

پیسہ اخبار نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے لکھا کہ’’معزول خلیفة المسلمین سلطان عبدالمجید خان نے سوئٹزر لینڈ سے کابل کے اس مذہبی قتل پر سخت صدا ئے احتجاج بلند کی ہے۔‘‘(پیسہ اخبار 18؍ستمبر1924ء)

انگریزی اخبارلیڈر کے مطابق یہ خلاف انسانیت اور انتہائی درجہ کا یہ سفاکانہ طریقہ قتل ساری دنیا کی مہذب اقوام کے دل ہلادے گا۔(لیڈر 25؍ستمبر1924ء)

اخبار وکیل امرتسر کے مطابق حکومت افغانستان نے محض ارتداد کو موجب رجم قراردینےمیں غلطی کی اور شریعت سے منسوب کرکے اس غلطی کو اور بھی غلیظ بنا دیا…انہیں اسلام کے دامن کو اس سیاہ دھبہ سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (وکیل امرتسر 27؍ستمبر1924ء)

اخبار اودھ لکھنؤ نے واقعہ سنگساری کو نہایت سخت تاریک خیالی اور عدم رواداری کا ثبوت قرار دیا۔(اودھ لکھنؤ 5؍اکتوبر1924ء)

مسلم آؤٹ لک نے لکھا:کلام الٰہی میں مذہبی آزادی کے حکم لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: 257)پر عمل کرنا فرض ہے۔نعمت اللہ خان صاحب کے متعلق افغانی شرعی عدالتوں کے فیصلہ کا ایسا نمونہ قبول کرنے سے ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کی نظر میں جنہیں ابھی اسلام میں داخل کرنا ہے جو نقصان اسلام کو پہنچا ہے اس کا اندازہ حدّتصور سے باہر ہے۔ (مسلم آؤٹ لک17؍ستمبر1924ء)

اس واقعہ قتل کا دوسرامثبت ردّ عمل انسانی ہمدردی کی صورت میں شریف النفس طبقہ پر بھی نمایا ں طور پر ظاہر ہوابلکہ ایک غیر از جماعت محمد ابدالی نےتو اس جاہلانہ قتل پر سخت صدمہ کااظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ پہلے احمدی نہ تھے۔اب خیالات بدل گئے ہیں اور تبلیغ کے لیے احمدی مبلغین کے ساتھ کابل جانے پر تیار ہیں۔(الفضل 30؍اکتوبر1924ء)

اس شہادت کے موقع پر جماعت کے ولولہ کا ذکرہوچکا ہےاحمدی شعراء نے بھی معصوم ومظلوم بھائی کی شہادت پردلی عقیدت اور محبت بھرےجذبات کا خوب اظہار کیا۔

معاندین کاعبرتناک انجام

شہدائے کابل کی شہادتوں کا ایک نتیجہ والیان ریاست افغانستان کا عبرت ناک انجام تھا جو ان شہادتوں کے بعد ظاہر ہوا اور جس کا سلسلہ آج تک جاری ہےتاآنکہ وہ توبہ کی توفیق پائیں۔اس خوفناک انجام کی کہانی دردناک اور طویل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے شہید مولوی عبدالرحمٰن احمدی صاحب کا قتل امیر عبدالرحمان خان نے کیاجوخوداسی سال 1901ء میں فالج کے حملہ سے ہلاک ہوگیا۔

حضرت شہزادہ سیّد عبداللطیف صاحبؓ کی شہادت کے بعد کابل میں ہیضہ پھوٹ پڑا اور آپؓ کاقاتل امیر حبیب اللہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بن کر راہئ ملک عدم ہوا۔

حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت امیر امان اللہ خان کےوقت ہوئی جسے1926ء میں حضرت مصلح موعودؓنےامیرامان اللہ خان کےلیےایک خط بطوراتمام حجت بصورتِ کتاب’’دعوۃالامیر‘‘ تحریر فرمایا۔ جس سے اس نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔چنانچہ واقعہ شہادت کے چار سال بعد ہی اکتوبر1928ءکو بچہ سقہ نے کابل پر حملے شروع کیے۔ اور امیر امان اللہ خان 14؍جنوری1929ءکو حکومت اپنےچھوٹےبھائی عنایت اللہ خان کے سپرد کرکے بھاگ گیا اور اسی جلاوطنی میں ہلاک ہوگیا۔

جانی قربانی کی برکات اورافغانستان کا تابناک مستقبل

جہاں تک جانی قربانیوں کے دیرپا اثرات اور برکات کا تعلق ہے حضرت مسیح موعودؑ نے شہزادہ عبداللطیف صاحبؓ کی شہادت پر فرمایا تھا کہ’’شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بارآور ہوکر ہماری جماعت کو بڑھا وے گا۔‘‘ (تذکرةالشہادتین، روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ5۷)

یہ پیشگوئی جس طرح سو سال سے پوری ہوتی چلی آرہی ہےاور بڑی شان سے پوری ہونی باقی ہے جیسا کہ افغانستان میں احمدیت کے بارے میں بزرگانِ جماعت کی عظیم الشان رؤیاسے بھی پتا چلتا ہے۔

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی اپنی ایک رؤیا کی تعبیر کے مطابق کابل کی سرزمین میں یکلخت احمدیت پھیلے گی۔ (حیات قدسی صفحہ291)

صوبہ سرحد کے مشہور بزرگ حضرت مولوی محمد الیاس صاحب فرماتے تھے کہ افغان قوم کی گذشتہ تاریخ کے مطابق ان کے ملک میں احمدیت بھی بطور قوم قبول کی جائے گی۔وہ حضرت مولوی غلام نبی صاحب کی اس رؤیا کا بھی ذکر کرتے تھے جس میں انہوں نے افغانستان کے بادشاہ کو حضرت مسیح موعودؑ کا خطبہ الہامیہ پڑھتے دیکھاتھااور جس کی حکومت آٹھ پشت تک شمالی ہندوستان تک ہوگی۔افغانستان کے اس تابناک مستقبل کے نقطۂ نظر سے بھی اس ملک میں نفوذ احمدیت کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی تاریخ محفوظ کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ جماعت کی ایک اہم تاریخی امانت ہے۔

شہداء کی یاد

حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کی شہادت کے موقع پر بھی یہ تحریک فرمائی تھی کہ’’ہمیں ان لوگوں کی یادوں کو تازہ رکھنا چاہئے‘‘…نیز فرمایا کہ ایک کتاب تیار ہو جس میں تاریخی طور پر تمام شہداء کے حالات جمع ہوتے رہیں تا آئندہ نسلیں ان کے کارناموں پر مطلع ہوتی رہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔(الفضل 4؍اکتوبر 1924ء)

یہ خوش کن امر لائق تحسین ہے کہ حال ہی میں ارشادمذکورکی تعمیل کی مشترکہ مساعی جمیلہ کی توفیق مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نائب امیر امریکہ اور مکرم شیخ مجاہد احمدشاستری صاحب ایڈیٹر البدر نے حاصل کی ہے اور مولوی نعمت اللہ صاحب کے تعارف اور المناک شہادت کے احوال پر مشتمل ایک کتاب تیار کرچکے ہیں جس کی اشاعت زیرکارروائی ہے۔فجزاھمااللہ احسن الجزاء

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے جذبہ ایمان و اخلاص کو ہمیشہ بڑھاتا رہے اور ہمیشہ خلافت احمدیہ کے زیرسایہ جماعت احمدیہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کاسفر طے کرتی رہے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button