خطاب حضور انور

خطاب برموقع تقریب تقسیم اسناد جا معہ احمدیہ برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی ۲۰۲۴ء

ہمیشہ یاد رکھیں کہ وفا ،محنت اور دعا سے کام لیتے رہیں گے تو کامیاب بھی ہوں گے اور یہی کامیابی کا راز ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

آپ لوگ اس ارادے سے اور اس نیت سے اور اس عہد سے جامعہ میں آئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنا ہے۔

… اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا اور خود اپنے عملی نمونوں سے احباب جماعت کے معیار کو بھی اس نہج پر لے کے جانا

جس سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں

’’عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

(مبلغ میں )عملی امتیاز ہونا چاہیے اور یہ امتیاز صرف دوسرے فرقوں کے علماء کے مقابلے میں نہ ہو بلکہ اپنے لوگوں کی اصلاح کے لیے بھی آپ لوگوں کو ایک عملی نمونہ بننا ہو گا

اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق بہت ضروری ہے

ہم پرانے بزرگوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ دعائیں قبول ہونے کی مثالیں دیتے ہیں۔ ہماری اپنی عملی حالت ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بھی ان مثالوں کے مصداق بن جائیں۔

عبادت کے معیار بلند کرنے کی ضرور ت ہے۔ تہجد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے

اخلاقی حالت کو بھی بلند کرنے کی ضرور ت ہے

مربی کو بلند حوصلہ ہونا چاہیے

زبان میں نرمی بھی بہت ضروری چیز ہے

ایک خاص خصوصیت لغویات سے پرہیز کرناہے جوایک مربی میں ہونی چاہیے

اپنے تنقیدی جائزے روزانہ لیں

علم کو بڑھاتے رہیں۔ … حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کریں

سب سے پہلی اور بڑی بات یہی ہے کہ جامعہ کے طالبعلم کو اور جب مربی بن جائے تو خاص طور پہ اُسے خود گہرائی سے مطالعہ کر کے سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں

دعا ہی ہے جو ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی

یہ بہت ضروری چیز ہے کہ خلافت کے ساتھ آپ کا وفا کا تعلق ہو۔ آپ لوگ خلافت کے سپاہیوں میں شامل ہیں

مربی کو انتظامی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے

یہ بھی بہت ضروری چیز ہے کہ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کریں۔ غلط بحثوں میں نہ پڑیں

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت میں جو اکائی ہے وہی اس کی کامیابی کی نشانی ہے اور مربیان کواس کا سب سے بڑھ کر نمونہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ ایک جان ہونے کا اظہار ہونا چاہیے

قرآن کریم پر غور اور تدبر بڑا ضروری ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں ایک کامیاب مبلغ کی خوبیوں کا بیان

جامعہ احمدیہ کینیڈاسے 2019ء تا 2023ء جبکہ جامعہ احمدیہ جرمنی اور جامعہ احمدیہ برطانیہ سے 2023ء میں فارغ التحصیل ہونے والے مبلّغینِ سلسلہ کی تقریبِ تقسیمِ اسناد سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز تاریخی خطاب فرمودہ مورخہ یکم جون2024ء بروز ہفتہ بمقام جامعہ احمدیہ Haslemere، ہمپشئر، یوکے

(خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

آج یہ سندات حاصل کرنے والے مربیان وہ ہیں جو اس وقت میدان عمل میںہیں کیونکہ گذشتہ دو تین سال کے بھی مربیان ہیں، یا میدانِ عمل میں جا رہے ہیں۔

آپ لوگ اس ارادے سے اور اس نیت سے اور اس عہد کے ساتھ جامعہ میں آئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مشن کو پورا کرنا ہے۔

اس مشن کو پورا کرنا ہے جو آپ علیہ السلام کے سپرد اس زمانے میں کیا گیا تھا

اور وہ یہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا اور خود اپنے عملی نمونوں سے احباب جماعت کے معیار کو بھی اس نہج پر لے کے جانا جس سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں

اور یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب آپ خود بھی اس کا حق ادا کرنے والے بنیں۔

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر نصائح کرتے ہوئے واعظین کو ایک بڑا بنیادی راہنما اصول بتایاتھا بلکہ تین باتیں فرمائی تھیں۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔ یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کر کے دکھائیں تا کہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے۔

عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔

جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے بلکہ ان کا وعظ بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں اس لئے سب سے اوّل جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اس کی عملی حالت ہے۔

دوسری بات

جو ان واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ

ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے عقائد اور مسائل کی ہو۔

جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں۔ غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے۔‘‘ فرمایا ’’اور

تیسری بات

یہ ہے کہ

ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو۔ یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف وہر اس کےاظہار حق کے لئے بول سکیں۔‘‘

بغیر کسی قسم کے خوف کے اظہارِ حق کے لیے بول سکیں ’’اور حق گوئی کے لئے ان کے دل پر کسی دولتمند کا تمول یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کر سکے۔ یہ تین چیزیں جب حاصل ہوجائیں۔ تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ369-370 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ وہ راہنما بنیادی اصول ہیں جو آپؑ نے بیان فرمائے۔ اپنے جائزے لیں۔ پہلی بات جو آپؑ نے عملی نمونے کی فرمائی۔ آپ میں اور دوسرے میں کیا امتیاز ہے؟ صرف علم اگر حاصل کر لیا جو کہ جامعہ کے سات سالوں میں بھی مکمل حاصل نہیں ہو سکتا۔ ساری عمر پڑی ہے علم حاصل کرنے کے لیے۔ یہ تو کافی نہیں۔ اس کے علاوہ

عملی امتیاز ہونا چاہیے اور صرف یہ امتیاز دوسرے فرقوں کے علماء کے مقابلے میں نہ ہو بلکہ اپنے لوگوں کی اصلاح کے لیے بھی آپ لوگوں کو ایک عملی نمونہ بننا ہو گا

جیسا کہ میں نے کہا۔ اور

اپنی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق بہت ضروری ہے۔

یہ سب سے بڑی اہم بات ہے۔ ہر مربی کو اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہیں تو زندگی میں کامیابیاں نہیں مل سکتیں۔

ہم پرانے بزرگوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ دعائیں قبول ہونے کی مثالیں دیتے ہیں۔ ہماری اپنی عملی حالت ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بھی ان مثالوں کے مصداق بن جائیں۔ عبادت کے معیار بلند کرنے کی ضرور ت ہے۔ تہجد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اِلّا ماشاء اللہ سوائے کسی خاص مجبوری کے عموماً تہجد کی طرف، تہجد پڑھنے کی طرف ہر ایک کی خاص توجہ ہونی چاہیے۔ عبادت کے معیار بلند ہوں گے تو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق بھی پیدا ہو گا۔

اخلاقی حالت کو بھی بلند کرنے کی ضرور ت ہے۔ اخلاقی لحاظ سے آپ لوگوں کو ایک عملی نمونہ بننے کی ضرورت ہے۔

عملی حالت کو بہت بلند کرنے کی ضرور ت ہے۔ بلند حوصلہ ہونے کی ضرور ت ہے۔ بعض دفعہ مربیان بھی ذرا ذرا سی بات پر اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔

مربی کو بلند حوصلہ ہونا چاہیے۔

تنقید سننے کی عادت ہو اور پھر اس کا احسن رنگ میں جواب حوصلے سے دیں۔

زبان میں نرمی بھی بہت ضروری چیز ہے۔

نرم زبان دوسرے کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے۔ برداشت کا مادہ پہلے بھی میں نے کہا بہت زیادہ ضروری چیز ہے۔ بلند حوصلہ ہو گا تو برداشت کا مادہ بھی زیادہ ہو گا۔

ایک خاص خصوصیت جوایک مربی میں ہونی چاہیے لغویات سے پرہیز کرناہے۔

آج کل بےشمار لغو پروگرام آتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی بعض دفعہ کیونکہ انٹرنیٹ پہ اور سوشل میڈیا پہ اور ٹی وی پہ انسان بیٹھا ہوتا ہے تو دیکھ لیتے ہیں لیکن ایک مربی کا کام ہے کہ ان لغویات سے پرہیز کرے۔

جب آپ خود پرہیز کر رہے ہوں گے تو تب ہی دوسروں کو نصیحت کر سکیں گے کہ تم لوگ بھی ان چیزوں سے بچو کیونکہ یہ اخلاق کو خراب کرنے والی چیزیں ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ سے دُور لے جانے والی چیزیں ہیں۔ یہ تمہیں گندگی کی طرف لے جانے والی چیزیں ہیں۔ معاشرے کی برائیوں کی طرف لے جانے والی چیزیں ہیں۔

پس ہر مربی کو اپنے عملی نمونے پہلے دکھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ یہ اباحت پھیلانے والی بات ہو گی۔ یعنی اپنے لیے بعض چیزوں کو جائز کر لیا اور دوسروں کے لیے پابندی۔ دوسروں کو نصیحت کر رہے ہیں اور خود میاں فضیحت ہیں۔ آپ خود نہیں دیکھ رہے کہ ہماری اپنی حالت کیا ہے۔

پس یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے عمل اور قول کو ایک کریں اور جب یہ خود اپنے جائزے لیں گے تبھی آپ کو پتہ لگے گا کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد تو نہیں۔

کوئی دوسرا اس سے پہلے کہ آپ پہ تنقید کرے خود اپنا جائزہ لیں۔

اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا باتیں اثر کرنے والی نہیں ہوتیں۔ پس

اپنے تنقیدی جائزے روزانہ لیں۔

بجائے اس کے کہ دوسروں کے نقص تلاش کریں پہلے اپنے آپ کو دیکھیں۔ ہر ایک اپنے گریبان میں نظر ڈالے کہ ہمارے اندر کیا برائیاں ہیں؟ ہمارے اندر کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟ ہمارے کیا معیار ہونے چاہئیں؟ ایک مربی کی حیثیت سے ہمارا تعلق باللہ کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ ہمارے اخلاق کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہمارے علمی معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہمارے روحانی معیار کیا ہونے چاہئیں؟ اگر وہ حاصل کر لیے تو پھر سمجھیں کہ ٹھیک ہے۔ پھر خود بخود تنقیدی جو دوسروں پہ تنقید کرنے والی نظر ہے وہ ختم ہو جائے گی بلکہ دوسرے کے لیے ایک ہمدردی کا اظہار، اصلاح کا پہلو سامنے آئے گا اور اس ہمدردی کے ساتھ اصلاح کریں گے تو اس کے لیے دعا بھی کریں گے اور جب اصلاح کے ساتھ دعا کر رہے ہوں گے تو اسی میں برکت پڑے گی۔ اسی میں آپ کی کامیابی ہو گی۔

پھر اسی طرح

علم کو بڑھاتے رہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ سات سال میں علم حاصل نہیں ہوتا ۔ علم حاصل کرنا تو ساری زندگی کا کام ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔

بہت سے سوالوں کے جواب یہیں مل جائیں گے۔ بہت سے مربیان بعض دفعہ سوال لکھ دیتے ہیں حالانکہ اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو تو وہیں جواب بھی آپ کو مل جائیں گے۔ا س لیے پہلے خود تلاش کریں۔ پہلے بھی شاید میں نے کسی جگہ بیان کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں جو سوال و جواب کی مجلس تھی۔ ایک لڑکے نے کھڑے ہو کے سوال کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا اوربہرحال سوال اچھا علمی تھا لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال پیدا ہوا کہ یہ پڑھنے والا لڑکا لگتا ہے۔ لگتا ہے کچھ نہ کچھ علم ہے اسے۔ اس لیے انہوں نے کہا تم کیا کرتے ہو۔ تو اس نےعرض کیا کہ میں جامعہ کا طالبعلم ہوں۔ تو آپؓ نے فرمایا اگر تم جامعہ میں پڑھتے ہو تو پھرتمہارے سوال کا جواب مَیں نہیں دوں گا۔ تم خود اس کا جواب تلاش کرو اور تمہیں یہ جواب مل جائے گا۔ اس لیے

سب سے پہلی اور بڑی بات یہی ہے کہ جامعہ کے طالبعلم کو اور جب مربی بن جائے تو خاص طور پہ اُسے خود گہرائی سے مطالعہ کر کے سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔

اللہ کے فضل سے بہت سارے ہمارے مربیان ہیں، میدان عمل میں ہیں، تبلیغ کے میدان میں ہیں، تربیت کے میدان میں ہیں، غیروں کے بھی جواب دیتے ہیں، اپنوں کے بھی جواب دیتے ہیں اس لیے کہ ان کو علم حاصل کرنے کا شوق ہے، ایک لگن ہے اور تلاش کرتے ہیں کہ کہاں کہاں سے علم حاصل کریں اور پھر اپنی علمی حالت کو بہتر کریں جس کا فائدہ ان کو خود بھی ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی یہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔

پھر یہ ہے کہ

جرأت ہو ہر بات کہنے کی لیکن حکمت کے ساتھ۔

حکمت بھی ساتھ ضروری ہے۔ خوف نہ ہو۔ تبلیغ کرتے ہوئے خوف کی ضرورت کوئی نہیں لیکن حکمت سے بات کریں تو وہی بات مَوْعِظَۃُ الْحَسَنَۃِ کے ضمن میں آ کے دوسروں پہ آپ کا اثر ڈالنے والی ہوتی ہے اور پھر اس سے لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں۔

اسی طرح تربیت کے میدان میں غلط کو دیکھ کر ردّ کریں لیکن وہاں بھی حکمت سے سمجھائیں۔ بہت ساری شکایتیں آتی ہیں۔ مربیان کے بارے میں بھی آ جاتی ہیں۔ عہدیداروں کے بارے میں بھی آ جاتی ہیں کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اس رنگ میں ہماری بات کی، ہماری کمزوری کو ظاہر کیا جس سے ہماری سبکی ہوئی۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ اصلاح کا پہلو ضروری ہے اور اگر کسی میں کوئی برائی یا کمزوری دیکھیں تو اس کے لیے دعا کریں۔ پھر اس کو علیحدگی میں سمجھائیں اور دعا مسلسل کرتے رہیں۔

اسی طرح جس جماعت میں بھی آپ متعین ہیں یا جس جگہ بھی آپ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہاں اس شعبہ کے بارے میں اور جو اگر فیلڈ میں ہیں تو وہاں کے ماحول کے بارے میں مکمل علم حاصل کریں اور وہاں کی جو کمزوریاں ہیں، جو تربیتی کمزوریاں ہیں ان کو دُور کرنے کے لیے ان کی تربیت کا ایک plan بنائیں اور پھر حکمت سے لوگوں کو سمجھائیں اور پھر ان کے لیے دعا بھی مسلسل کرتے رہیں۔

دعا ہی ہے جو ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی۔

پھر

یہ بہت ضروری چیز ہے کہ خلافت کے ساتھ آپ کا وفا کا تعلق ہو۔ خلافت کے سپاہیوں میں آپ لوگ شامل ہیں۔

لکھتے ہیں ہم سلطانِ نصیر بن جائیں تو پھر سلطانِ نصیر بغیر وفا اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ کیا ان کا وفا کا معیار ایسا ہے کہ جو چاہے ہو جائے کبھی ان کے دلوں میں شکوہ نہ پیدا ہو۔ اطاعت ایسی ہے کہ چاہے مرضی کے خلاف حکم ملے بلا چون و چرا اس کی تعمیل کریں گے۔ اور عملی حالت جب ایسی ہو گی تبھی اس کا فائدہ ہے۔ اگر یہ نہیں ہے، عملی حالت ایسی نہیں ہے تو پھر یہ نہ وفا ہو سکتی ہے نہ اطاعت ہو سکتی ہے اور اس کے لیے بھی دعا ضروری ہے۔

دعاؤں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامل وفا کرنے کی توفیق دے اور اطاعت میں سب سے بڑھ کر نمونہ دکھانے والے ہوں۔

اسی طرح پھر ایک چیز ہے

انتظامی صلاحیتیں۔ مربی کو انتظامی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بعض وفات یافتہ مبلغین کے حالات مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ کل ہی مَیں نے چودھری منیر صاحب کے بھی حالات بیان کیے تھے۔ تو اُن کو جس کام پر بھی لگایا گیا خود اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور پھر اس کام میں کسی بھی ماہر سے کم رائے نہیں رکھتے تھے حالانکہ مربی تھے، کوئی ٹیکنیکل تعلیم نہیںتھی۔پس انتظامی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے بھی علم حاصل کرنا مربی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔

اسی طرح آج کل سوشل میڈیا پہ بحثیں شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلے بھی ایک غالباً کینیڈا کے مربیان سے میری میٹنگ ہوئی تھی تو اُن کو بھی مَیں نے کہا تھا کہ غلط بحثوں میں نہ پڑیں۔ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کریں اور جہاں دیکھیں کہ بحث برائے بحث ہو رہی ہے اور کج بحثی شروع ہو گئی ہے اور ہر ایک نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے تو وہاں اس بحث سے باہر آ جائیں اور یہ کہہ کے آئیں کہ اب یہ بحث فائدے کے لیے نہیں ہو رہی بلکہ نقصان دہ ہے اس لیے مَیں اس سے نکل رہا ہوں۔ تو پھر دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہو گی کہ وہ بھی اس کج بحثی میں نہ پڑیں۔ پس

یہ بھی بہت ضروری چیز ہے کہ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کریں۔ غلط بحثوں میں نہ پڑیں۔

یہ دیکھیں کہ جماعت کے مفاد میں کیا ہے اگر کوئی ایسی بحث جو جماعت کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کا کوئی انسانیت کو فائدہ نہیں، کسی جماعت کو فائدہ نہیں، آپ کی تبلیغ کے لیے وہ ممد نہیں ہے، تربیت میں اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہو رہا تو پھر اس بحث میںپڑنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ ہاں علمی بحثیں ہیں اگر تو اس کا ایک محدود دائرہ بنائیں اور اس میں اپنی علمی رائے دیں نہ کہ پھیلاتے ہوئے دوسروں کو بھی اس میں involveکریں اور

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت میں جو اکائی ہے وہی اس کی کامیابی کی نشانی ہے اور مربیان کواس کا سب سے بڑھ کر نمونہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ ایک جان ہونے کا اظہار ہونا چاہیے۔

اس کا پھر دوسروں پر بھی اثر ہو گا۔

قرآن کریم پر غور اور تدبر بڑا ضروری ہے۔

ابھی پہلے بھی مَیں نے کہا اپنے علم کو بڑھاتے رہیں۔ اس علم کے لیے قرآن کریم پر غور بہت ضروری ہے۔ اسی سے آپ کو جواب بھی مل جائیں گے اور اس کے لیے جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ آپؑ کی تفاسیر ہیں وہ پڑھیں۔ اس سے آپ لوگوں کا علم بھی بڑھے گا اور روحانیت بھی بڑھے گی اور پھر اس سے آپ کے کام میں برکت بھی پڑے گی ۔ اسی طرح جماعتی تفاسیر ہیں، خلفاء کی یا پرانے بزرگوں کی تفاسیر ہیں وہ بھی علم کو بڑھانے کے لیے پڑھیں۔

بہرحال ایک مربی کے لیے بےشمار کام ہیں خود اس کو کام نکالنے پڑتے ہیں۔

یہ کہنا کہ جی میرے لیے محدود وسائل ہیں، محدود جگہ ہے، کام نہیں ہے میں کیا کروں؟ جو کرنے والے ہوتے ہیں وہ محدود وسائل میں ہی کام نکال لیا کرتے ہیں۔ گھانا میں ہمارے بہت محدودوسائل تھے۔ ہمارے ایک مربی صاحب تھے انہوں نے تبلیغ کے لیے خود ہی نکالے ہوئے تھے جبکہ باقی کمزور حالت والے جو مربی تھے تووہ اس طرح تبلیغ نہیں کرتے تھے جس طرح یہ کرتے تھے حالانکہ ان کے وسائل ان سے کم تھے۔ اخبار لے کے نکل جانا، لٹریچر لے کے نکل جانا، تبلیغ کرتے رہنا، سڑکوں پہ ایک عاجزی اور انکساری سےکھڑے ہو جانا۔ ساتھ دعائیں کرتے رہنا، ساتھ پیغام پہنچاتے رہنا اور ان کے کام میں پھر برکت پڑتی تھی۔ تو اسی طرح خود مربی کو اپنے ذرائع exploreکرنے پڑتے ہیں کہ کس طرح وہ نئے نئے ذرائع نکالے اور تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھے، تربیت کے میدان میں آگے بڑھے، جماعت کی بہتری کے لیے کام کرے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لیے کام کرے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ وفا ،محنت اور دعا سے کام لیتے رہیں گے تو کامیاب بھی ہوں گے اور یہی کامیابی کا راز ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب دعا کرلیں۔

الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍ اگست ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button