حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت عثمانؓ پر بعض اعتراضات کے جواب

حضرت عثمانؓ کے غزوۂ بدر سے پیچھے رہنے، اُحُد میں فرار اور بیعتِ رضوان میں شامل نہ ہونے کی بابت اعتراض کیا جاتا ہے۔ یہ منافقین نے بھی آپؓ پہ اعتراض کیے تھے۔ عثمان بن مَوْہَبْ بیان کرتے ہیں کہ اہلِ مصر سے ایک شخص حج کے لیے آیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ فتنہ پیدا کرنے کے لیے اس نے باتیں کیں۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ قریشی ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بوڑھا شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔ اس نے کہا اے ابن عمرؓ ! آپؓ سے ایک بات کے متعلق پوچھتا ہوں۔ آپؓ مجھے بتائیں کیا آپؓ کو علم ہے کہ حضرت عثمانؓ اُحُد کے دن فرار ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے پوچھا کیا آپؓ جانتے ہیں کہ وہ جنگِ بدر سے غیر حاضر رہے اور اس میں شریک نہ ہوئے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا کیا آپؓ جانتے ہیں کہ وہ بیعتِ رضوان سے بھی غیر حاضر تھے اور اس میں شریک نہیں تھے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر اس شخص نے تعجب سے کہا اللہ اکبر۔ حضرت ابن عمرؓ نے اسے کہا ادھر آؤ۔ تم نے اعتراض تو کیا ہے۔ مَیں تمہیں حقیقت حال کھول کر بتاتا ہوں۔ جنگِ اُحُد کے دن جو اُن کا بھاگ جانا تھا تو مَیں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو معاف کر دیا تھا اور آپؓ سے مغفرت کا سلوک فرمایا تھا۔ اس وقت جب ایسی ہنگامی حالت تھی یہ مشہورہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کافروں نے شہید کر دیا ہے تو اس وقت پھر بہرحال ایسی حالت تھی جو ایک وقتی اضطراب کے طور پہ آپؓ چلے گئے تھے۔ کہتے ہیں جہاں تک بدر سے حضرت عثمانؓ کا غائب رہنا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی جو آپؓ کی بیوی تھیں وہ بیمار تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے فرمایا تھا کہ تم اپنی بیوی کے پاس ہی رہو۔ تمہارے لیے بدر میں شامل ہونے والوں کی مانند اجر اور مال غنیمت میں سے حصہ ہو گا۔ اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے آپؓ کی غیر حاضری ہے تو یاد رکھو اگر وادیٔ مکہ میں حضرت عثمانؓ سے بڑھ کر کوئی اَور شخص معزز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ کی جگہ اس شخص کو کفار کی طرف سفیر بنا کر بھیجتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو بھیجا اور بیعتِ رضوان اس وقت ہوئی جب آپؓ مکہ والوں کی طرف گئے ہوئے تھے۔ بیعتِ رضوان کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے اور آپؐ نے اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر زور سے رکھتے ہوئے فرمایا یہ عثمانؓ کے لیے ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے یہ بیان فرمانے کے بعد اس شخص سے کہا۔ اب یہ باتیں اپنے ساتھ لے جاؤ اور یاد رکھنا یہ کوئی اعتراض کی باتیں نہیں ہیں۔ جاؤ۔ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عثمان……حدیث نمبر 3698) یہ بخاری کی روایت ہے۔

(خطبہ جمعہ ۱۹؍مارچ ۲۰۲۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍اپریل۲۰۲۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button