کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

حضرت عثمانؓ کو تو میں حضرت سلیمانؑ سے تشبیہ دیتا ہوں

مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کرکے کہتاہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی۔ خداتعالیٰ کے حضوراگرکوئی چیزجاسکتی ہے، تو وہ یہی اعمالِ صالحہ ہیں۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ (سورہ فاطر:۱۱) خودخداتعالیٰ فرماتا ہے۔ اس وقت ہمارے قلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں کے برابر ہیں، لیکن فتح اور نُصرت اسی کو ملتی ہے جو متقی ہو خداتعالیٰ نے یہ وعدہ فرمادیا ہے۔ کَانَ حَقًّاعَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْنَ (الروم:۴۸) مومنوں کی نصرت ہمارے ذمہ ہے۔ اور لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْْمِنِیْنَ سَبِیْلًا (النساء:۱۴۲) اللہ مومنوں پرکافروں کوراہ نہیں دیتا، اس لیے یادرکھوکہ تمہاری فتح تقویٰ سے ہے؛ ورنہ عرب تو نرے لکچراراور خطیب اور شاعرہی تھے۔انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ خداتعالیٰ نے اپنے فرشتے ان کی امداد کے لیے نازل کیے۔ تاریخ کو اگر انسان پڑھے تو اُسے نظر آجائے گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس قدرفتوحات کیں وہ انسانی طاقت اور سعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک بیس سال کے اندر ہی اندر اسلامی سلطنت عالمگیرہوگئی۔ اب ہم کو کوئی بتاوے کہ انسان ایسا کرسکتا ہے؟

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۱۵،۱۱۴۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا۔اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔

(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۱۱۹۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

حضرت عثمانؓ کو تو میں حضرت سلیمانؑ سے تشبیہ دیتا ہوں۔ ان کو بھی عمارات کا بڑا شوق تھا۔ حضرت علیؓ کے وقت میں اندرونی فتنے ضرور تھے۔ ایک طرف معاویہ تھے اور دوسری طرف علیؓ اور ان فتنوں کے باعث مسلمانوں کے خون بہے۔ ۶ سال کے اندر اسلام کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسلام کے لیے تو عثمانؓ تک ہی ساری کارروائیاں ختم ہو گئیں۔ پھر تو خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

(ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۷۸۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button