جلسہ سالانہیورپ (رپورٹس)

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کی مفصل رپورٹ (اجلاس مستورات)

جلسہ سالانہ جرمنی کے دوسرے روز مورخہ ۲۴ اگست ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ کو مستورات کي جلسہ گاہ ميں کارروائي کا آغاز صبح ساڑھے دس بجے ہوا۔ اجلاس کي صدارت مکرمہ منورہ ناصر واگس ہاؤزر صاحبہ اہلیہ مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی نے کی جب کہ ان کے ساتھ مکرمہ حامدہ سوسن چودھری صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ جرمنی تشریف فرما ہوئیں۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرمہ فریحہ اسلام صاحبہ نے سورة الزمر کي آيات ۱۰ تا ۱۵ کی تلاوت کی۔ اردو ترجمہ مکرمہ نداء احمد صاحبہ نے پيش کيا۔ بعد ازاں حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم اردو کلام

مجھے اس یار سے پیوندِ جاں ہے

وہی جنت، وہی دارالاماں ہے

سے چند منتخب اشعار مکرمہ عائشہ محمود صاحبہ نے پيش کیے۔

جلسہ گاہ مستورات کی پہلی تقریر جرمن زبان میں محترمہ فارعہ محی الدین صاحبہ کی جرمن زبان تھی جس کا موضوع تھا :

’’دین کو دنیا پر کیسے مقدم رکھا جا سکتا ہے؟‘‘

موصوفہ نے کہا کہ آج کی دنیا جو سائنسی ترقیات، تعلیم اور ٹیکنالوجی سے مزین ہے، ہم ایک ایسے دَور سے گزر رہے ہیں جو انسانیت کی تاریخ میں کبھی اتنا پُر ہیجان اور مصروفیات سے بھرپور نہیں رہا۔ ہمارا روزمرہ کا معمول کاموں اور ذمہ داریوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم اپنی تعلیمی کامیابیوں، یونیورسٹی کی کارکردگی اور کام کی پریشانیوں کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ گھریلو خواتین اپنے وقت کو نہ ختم ہونے والے گھر کے کاموں، خریداری اور خاندان کی دیکھ بھال میں مصروف رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مسلسل دستیاب اور قابل دسترس بھی رہنا پڑتا ہے، جو ہمارے موبائل فونز اور سوشل میڈیا جیسے انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ وغیرہ کی وجہ سے ہے۔ خاص طور پر نوجوان خواتین اور لڑکیاں نت نئے فیشن، برینڈڈ کپڑوں، سمارٹ فونز اور اپنے ظاہری حلیے کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند رہتی ہیں۔ نئی سیریز یا فلمیں ہماری دلچسپی کو بیدار کرتی ہیں اور ہمارے وقت کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہم ایک کشیدہ اور اکثر سطحی دنیا میں زندہ ہیں جہاں کامیابی کو زیادہ تر مادی دولت اور ظاہری شکل و صورت کے ذریعہ ماپا جاتا ہے، جن میں ہم اکثر گم ہو جاتے ہیں۔

لیکن ہم بطورِ مومن احمدی مسلمان اور خواتین بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اور ہمیں انہیں کہاں رکھنا ہے؟ ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیدھا راستہ دکھایا ہے اور قرآن مجید عطا فرمایا ہے تاکہ ہم اپنی ترجیحات کو صحیح طریقے سے مرتب کر سکیں۔ جو بار بار یاد دلاتا ہےکہ ہمیں اپنی زندگی میں کس چیز پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ اور مَیں نے جنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔(الذّٰرِیٰت:٥٧)

اسی طرح سورۃ الحدید آیت ۲۱ میں بھی بیان ہواہے کہ جان لو!کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ (یہ زندگی) اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار (کے دلوں) کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر تُو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں سخت عذاب (مقدر) ہے نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم پر واضح فرماتا ہے کہ ہماری زندگی کا حقیقی مقصد اس کی عبادت اور محبت حاصل کرنا ہے۔ دنیا کی تمام عارضی خوشیوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔ آخرت میں ہمیں یا تو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر اللہ تعالىٰ کی رحمت اور قربت حاصل ہوگی۔

ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ ہماری زندگی میں جو کچھ ہے، جیسے کہ ذمہ داریاں، دولت، کامیابیاں، ناکامیاں اور دنیاوی لذتیں، ان سب کے باوجود ہم دین کو کس طرح مقدم رکھ سکتے ہیں اور اپنے زندگی کے مقصد کے قریب جا سکتے ہیں؟ یہ سوال اس تقریر کا مرکزی نقطہ ہے، جو اسلامی ذرائع اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ

ہم سب نے یہ جملہ سنا ہو گا کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدّم رکھوں گا۔ یہ ہماری بیعت کی ایک بنیادی شرط ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دین کی خدمت اور اسے ہمیشہ اولیت دینے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہم دنیوی کامیابیوں کو چھوڑ دیں؟

اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے۔ صرف مذہبی یا دنیوی ذمہ داریوں کو پورا کرنا کافی نہیں ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے ہمیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جب کچھ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ وہ رات بھر عبادت کریں گے، ہمیشہ روزہ رکھیں گے اور نکاح نہیں کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ کی اور فرمایا کہ سن لو! مَیں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن مَیں روزہ بھی رکھتا ہوں اور اسے افطار بھی کرتا ہوں، رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور مَیں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ پس جو شخص میری سُنّت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔

ہمارا دنیا میں سرگرمِ عمل رہنا ضروری ہے، لیکن اس دوران اپنے دین کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، باوجود ان سب رکاوٹوں کے جو ہمارے راستے میں حائل ہوں۔

دین کو دنیوی معاملات پر مقدم رکھنے کا پہلا اور سب سے اہم ذریعہ ہمارا بنیادی فرض نماز ہے۔ بہت سے لوگ ایک دلچسپ سیریز یا فلم دیکھنے میں مشغول ہوتے ہیں یا اپنے فون میں مصروف ہوتے ہیں اور نماز کا وقت گزر جاتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نماز ہمارے دین کا ستون ہے اور اس کے بغیر ہمارا دین قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ نماز صرف ہماری ذمہ داری ہی نہیں بلکہ روحانی قوت کا بھی ایک ذریعہ ہے جو اللہ کی محبت اور قربت حاصل کرنے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ جب ہم نماز کو تاخیر سے ادا کرتے ہیں یا اسے چھوڑ دیتے ہیں تو ہم اس قیمتی وقت سے محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ سے تعلق قائم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تم نمازوں کو باقاعدگی سے ادا کرو۔ بعض لوگ ایک نماز پڑھ کر ہی مطمئن ہو جاتے ہیں، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، حتّیٰ کہ انبیاء بھی۔

اگر ہم اپنے آپ کو سچا مومن کہتے ہیں تو ہمیں نماز کو اپنے دین کا بنیادی ستون سمجھنا ہوگا۔

پیغمبروں کی طرح ہمیں بھی نماز کے فرائض کی پابندی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں نماز سکھائی ہے، نہ اس لیے کہ اسے اس کی ضرورت ہے، بلکہ اس لیے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ نماز کی پابندی ہمیں دنیاوی مشکلات اور برائیوں سے بچاتی ہے، جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ اور نماز کو قائم کرو۔ یقیناً نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔ ( العنکبوت :٤٦)

پس ہمیں اپنے اعمال میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ آیا یہ اللہ کو پسند آئیں گے یا نہیں؟ اگر ہم اپنے اعمال اللہ کی رضا کی پرواہ کیے بغیر بجا لائیں گے تو ہم نے اپنے عہدِ بیعت کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیوی چیزیں ہمارے دین سے زیادہ اہم ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نماز اور تعلق باللہ کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مَیں تمہیں دوبارہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کی خواہش رکھتے ہو تو نماز کو اس حد تک مضبوطی سے تھام لو کہ تمہارا جسم، زبان، روحانی مقاصد اور جذبات سب کے سب نماز کی عملی تصویر بن جائیں۔ جو شخص نماز سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ بھیڑ بکری سے بہتر نہیں۔ صرف کھانا پینا اور وقت کو بے کار گزارنا دین نہیں ہے۔ یہ کافروں کی عادت ہے۔

پس ہمیں اپنے دن کی منصوبہ بندی میں پنجوقتہ نمازوں کو شامل کرنا چاہیے۔ جیسے کہ خریداری یا مطالعہ کو فجر اور ظہر کی نماز کے درمیان اور ظہر اور عصر کی نماز کے درمیان کر سکتے ہیں تاکہ نمازیں وقت پر ادا ہو سکیں۔ آج کل ہر کسی کے پاس سمارٹ فون ہے اور یاددہانیوں کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں، تو کیوں نہ نماز کے لیے بھی یاددہانی ترتیب دی جائے؟ اللہ نے اوقاتِ نماز یاد رکھنے کے لیے بہت سی سہولتیں فراہم کی ہیں، ہمیں انہیں استعمال کرنا چاہیے۔

مزید برآں نماز کے علاوہ دین کو مقدم رکھنے کا ایک اور ذریعہ خلیفۂ وقت کے ساتھ محبت، اطاعت اور وفا کا تعلق بھی ہے۔ خلیفۂ وقت حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج کے دور میں خدا کے مقرب ترین وجود ہیں اور خلیفۂ وقت کا سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق ہوتا ہے۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ خلیفہ کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو خلافت کے مقام پر فائز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بھی بڑھا دیتا ہے۔

پس جب ہم اپنے مسائل کے بارے میں حضور انور ایّدہ اللہ کو لکھتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ دعا کی درخواست کرنی چاہیے تاکہ ہم دنیاوی فتنوں سے بھی محفوظ رہیں اور اپنے دین کو ہمیشہ مقدم رکھیں۔ گذشتہ ماہ ہم نے عالمی بیعت کے موقع پر اس عہد کی تجدید نَو بھی کی تھی کہ ہم خلیفۂ وقت کی تمام معروف ہدایات پر عمل کریں گے۔ اگر ہم ان ہدایات پر بھرپور طریقے سے عمل پیرا ہوں گے اور اعمال صالحہ بجا لائیں گے تو خلیفۂ وقت کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوں گی اور ہم برائیوں سے محفوظ رہیں گے۔

جماعتی پروگراموں میں شرکت بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ایک طریق ہے۔ اگرچہ کبھی ہم مصروفیت یا عدم دلچسپی کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کرتے، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم دنیاوی کاموں کے لیے وقت نکالنا ضروری سمجھتے ہیں تو دینی پروگراموں کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے۔ اجلاس میں شامل ہونا صرف سال کے بارہ دنوں کا وقت طلب کرتا ہے جو کہ ہمارے دین کی مضبوطی کے لیے بہت اہم ہے۔

ایک حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے گناہ معاف فرماتا ہے جو اللہ کی یاد اور اس کی حمد کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ جماعتی پروگراموں میں شرکت سے ہمیں اللہ کی برکتیں اور رحمت حاصل ہوتی ہے اور ہم اپنی دینی تعلیم میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

مزید برآں پردہ بھی ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ مروجہ فیشن کے دباؤ کے باوجود پردے کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ حضور انور ایّدہ اللہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ پردے کے لیے کم از کم معیار ایک لمبا کوٹ اور ہیڈ سکارف ضروری ہے اور میک اپ کے ساتھ چہرہ بھی ڈھانپنا چاہیے۔ پردہ ہماری عصمت اور عفت کی حفاظت کے لیے اہم ہے اور ایک بے لگام، جنسی بےراہ روی اور غیر اخلاقی معاشرے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

حضور انور ایّدہ اللہ نے یہاں ہمارے لیے پردے کے صحیح طریق کی وضاحت فرما دی ہے کہ ایسا پردہ جو بال، گردن، ٹھوڑی، کان، ٹخنے دکھاتا ہو یا جسم کو نمایاں کرنے والی، کڑھائی والی یا چھوٹی چادریں پہنی جائیں، تو یہ شرعی پردہ کے حکم کے مطابق نہیں ہے۔

اگر ہم اپنی عصمت کو محفوظ نہیں رکھتے اور صرف معاشرتی دباؤ کی وجہ سے پردہ کو نظرانداز کرتے ہیں یا اتارتے ہیں تو ہم کس ترقی کی توقع کر سکتے ہیں؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں فرمایا کہ اگر مرد و زن کی آزادی نے ان کی پاکدامنی اور اخلاقی اقدار کو بڑھانے میں مدد دی ہے تو ہم بخوشی تسلیم کریں گے کہ ہم نے غلطی کی ہے…لوگوں کو دیکھو، ان کا طرزِ عمل کتنا بے لگام ہے! نہ انہیں خدا کا خوف ہے اور نہ ہی وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ صرف دنیاوی لذتوں کی عبادت کرتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انسانوں کی بے حیائی پر ایک صدی پہلے تنقید فرمائی تھی اور آج کی حالت اس سے بھی کہیں بدتر ہے۔ لوگ فردی آزادی کے نام پر اپنی پوشاک، جسم اور ہر حد پار کرتے ہیں تاکہ معاشرتی مقام اور دولت حاصل کر سکیں۔ مگر کیا ہم واقعی چاہتے ہیں کہ اللہ کی محبت سے زیادہ معاشرتی تعریف ہمارے لیے اہم ہو؟ معاشرہ ہمیشہ ہمارے پردے پر تنقید کرتا رہے گا اور اگر ہم فیشن کے پیچھے دَوڑتے رہیں تو ممکن ہے کہ ہم اپنا پردہ مکمل طور پر کھو بیٹھیں۔ معاشرہ کبھی بھی مطمئن نہیں ہو گا اور ہم نہ تو اس میں پورے طور پر شامل ہو سکیں گے اور نہ ہی اللہ کے احکام کی مکمل پیروی کر سکیں گے۔

اگر ہم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالیں تو اللہ ہمیں محفوظ رکھے گا اور ہم کبھی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کریں گے۔ اللہ کی محبت ہی ہمارا اصل مقصود ہونا چاہیے، جو ہمیں اطمینان عطا کرے گی۔ پردے کو بہتر بنانا بعض لوگوں کے لیے فوراً ممکن ہو سکتا ہے، جبکہ دوسروں کے لیے یہ ایک تدریجی عمل ہو سکتا ہے۔ مگر ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم یہ سب اللہ کی محبت کے لیے کر رہے ہیں۔

شرائطِ بیعت کے مطابق ہم نے جھوٹ، بے حیائی، تکبر اور خودپسندی سے پرہیز کرنے، اپنی زندگی کو سادگی، انکساری، شفقت، نرمی اور قناعت سے گزارنے اور دین کو اپنی زندگی، دولت، عزت، بچوں اور تمام تر عزیز چیزوں سے زیادہ قیمتی ماننے کا عہد کیا ہے۔

سوشل میڈیا کے دَور میں انکساری، سادگی اور سچائی کو برقرار رکھنا مشکل ہے کیونکہ یہ ہمیں مادی خواہشات کی طرف مائل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اور (نخوت سے) انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پُھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور) فخرومباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمٰن:۱۹)

مادیت، زندگی کے انداز اور دولت کا دکھاوا عام ہے اور یہ چیزیں انسان کو دین سے دُور کر دیتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تکبر کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ تکبر انسان کو خدا کے مقام پر اٹھاتا ہے اور یہ ایک سنجیدہ گناہ ہے جس سے ہر احمدی کو بچنا چاہیے۔

اگر ہم اپنے دین کومقدم رکھنا چاہتی ہیں تو ہمیں خود پسندی سے بچنا ہوگا۔ ایک احمدی لڑکی یا عورت کی خصوصیات انکساری، سادگی، عفت، صبر، شفقت اور نرمی ہونی چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے ساتھ احترام اور شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں، چاہے ہماری مہربانی کا جواب ہمیشہ نہ ملے۔ دنیاوی چیزوں کے ساتھ مطمئن رہنا مشکل ہے، کیونکہ جو لوگ سب کچھ رکھتے ہیں وہ بھی اکثر خوش نہیں ہوتے۔ حقیقی خوشی اور سکون اللہ کے ذکر اور اس کی عطا کردہ چیزوں پر شکر گزار ہونے سے ملتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگنا زخم لگانے کے مترادف ہے اور اگر ہم اللہ کے ذکر اور دعا پر توجہ دیں، تو سب مسائل خود بخود ہی حل ہوجائیں گے۔

محترم بہنو! ایک احمدی لڑکی اور عورت کی زندگی میں بہت سے چیلنجز ہوتے ہیں جو دین کے ساتھ تعلق کو متاثر کرتے ہیں۔ ان چیلنجز میں دوسروں کے حقوق کی پامالی، غصے پر قابو نہ رکھنا، خودغرضی، جھوٹ اور غیبت شامل ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے جو دنیاوی چیزوں پر دین کو ترجیح دیتے ہیں اور بدی سے بچتے ہیں۔ ہمارے دوست ہمارے کردار پر بڑا گہرا اثر ڈالتے ہیں اور اگر وہ اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہیں تو ہم بھی اس راستے پر چل سکتے ہیں۔

محترم بہنو! آپ شاید سوچ رہی ہوں کہ یہ سب اپنی زندگی میں کیسے نافذ کریں؟ اسلام ایک توازن کا دین ہے۔ ہمیں دنیاوی اور دینی امور کے درمیان توازن برقرار رکھنا چاہیے۔ ہم دنیاوی کامیابیوں کے حصول کے لیے فکر مند رہتے ہیں، مگر کیا ہم اپنے دین کے لیے بھی اتنی ہی فکر رکھتے ہیں؟ کیا ہم نماز کو دل سے ادا کرتے ہیں یا جلدی میں کر دیتے ہیں؟ کیا ہم قرآن کریم کے مطالعہ اور تلاوت میں بھی اتنی ہی لگن رکھتے ہیں جتنی کہ دنیاوی تعلیم میں؟ کیا ہم جماعت کی تقریبات میں بھی اسی طرح باقاعدہ اور سنجیدہ رہتے ہیں؟ ہم اپنے ظاہری حلیے اور لباس پر توجہ دیتے ہیں، کیا ہم پردے کے معاملے میں بھی اتنی ہی سنجیدگی دکھاتے ہیں؟

ہم دنیوی اشیاء پر خرچ کرتے ہیں، مگر کیا ہم اپنے دین کے لیے بھی مالی قربانی پیش کرتے ہیں؟ ہم مشہور شخصیات کی زندگیوں پر توجہ دیتے ہیں، مگر کیا ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا ان کے خلفاء کی زندگیوں سے بھی سیکھتے ہیں؟ ہم کھیلوں کے مقابلے کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں، کیا ہم اپنے خلیفۂ وقت کی تقاریر کو بھی اسی دلچسپی سے سنتے ہیں؟ ہم سوشل میڈیا پر لائکس اور فالوئرز کے لیے محنت کرتے ہیں، کیا ہم اللہ کی محبت اور قرب کے لیے بھی ویسا ہی عزم رکھتے ہیں؟

یہ سوالات ہمارے لیے اہم ہیں۔ ہمیں توازن برقرار رکھنا چاہیے اور اللہ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہیے۔ اللہ ہمارے چھوٹے چھوٹے اقدامات کو بھی قبول کرتا ہے۔ اگر ہم نماز کو تین بار سے پانچ بار کریں، پردے کو بہتر بنائیں، سوشل میڈیا سے وقت نکال کر دعا اور قرآن کی تلاوت میں وقت گزاریں یا دنیوی خواہشات کو اللہ کے لیے قربان کریں تو اللہ تعالیٰ خود ہمیں اپنا قرب عطا فرمائے گا۔

یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہر کوشش کو قبول کرے گا اور اپنی قربت اور برکت عطا فرمائے گا، جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندے کی سوچ کے مطابق اس کے قریب ہوتا ہے۔ اللہ کی محبت اور قرب کو حاصل کرنا دنیوی عزت و مقام سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔

محترم بہنو! دنیا میں آٹھ ارب لوگ ہیں، لیکن اللہ نے ہمیں اپنی برکتوں والی جماعت میں شامل ہونے کا شرف عطا کیا ہے۔ آج کے دَور میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں درست راستہ دکھایا ہے اور اسلام و احمدیت کا خزانہ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت سے فائدہ اٹھائیں، اپنے دین کو مضبوط کریں اور دنیاوی فریب سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اسلام پھیلے گا اور ہمیں اپنے دین کی کامیابی میں شریک ہونا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہمیں اپنے ایمان میں ثابت قدم رہنا چاہیے، اپنے نفس کو پاک کرنا چاہیےاور اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اللہ ہمیں اس راہ پر ثابت قدم رکھے اور ہمارے دلوں میں تبدیلی پیدا فرمائے تاکہ ہم اپنے ربّ کی روشنی سے اس دنیا کو منور کر سکیں۔ آمین!

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان باتوں پر عمل کرنے، تمام دنیاوی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے اور دین کو ہمیشہ مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جلسہ مستورات کی دوسری تقریر محترمہ نازیہ خان صاحبہ (سیکرٹری تحریک جدید و وقفِ جدید لجنہ اماء اللہ جرمنی) نے اردو زبان میں بعنوان

’’روحانی اور اخلاقی انقلاب کے لیے پیار، ہمدردی اور بھائی چارے کی ضرورت‘‘

کی۔ (اس تقریر کا مکمل متن آئندہ کسی شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ)

تیسری تقریر جرمن زبان میں محترمہ نفیسہ ملہی صاحبہ (معاونہ صدر واقفات نو لجنہ اماء اللہ جرمنی) کی بزبان تھی جس کا موضوع تھا :

’’بےشک دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے‘‘

اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

اللہ کا ذکر کیا ہے؟اسے سمجھنے کے لیے، مَیں آپ کے سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے الفاظ پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عربی لفظ ذکر کا مطلب یاد کرنا ہے۔ اللہ کے ساتھ اس کا تعلق اللہ کو مختلف طریقوں سے یاد کرنے سے ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مختلف صفات کو ذہن میں لانا، انہیں زبان سے بار بار دُہرانا، دل سے ان کو تسلیم کرنا اور اس کی قدرت اور طاقت کو یاد رکھنا۔

ذکرِ الٰہی کی کتنی اہمیت ہے؟ مختصراً یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ انتہائی بنیادی اور بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بیان محض رسمی نہیں ہے، بلکہ یہ خود اللہ تعالیٰ کے الفاظ کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اور اللہ کا ذکر یقیناً سب (ذکروں) سے بڑا ہے۔ (العنکبوت:٤٦)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ذکر تمام عبادات میں سب سے اعلیٰ درجے کا ہے۔ یہ بیان کہ یہ موضوع بنیادی اور اہم ہے، خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ اور اپنے ربّ کے نام کا صبح بھی ذکر کر اور شام کو بھی۔ (الدھر:٢٦)

ذکرِ الٰہی ہمیں دل کا سکون فراہم کرتا ہے اور ہمیں اندرونی امن سے بھر دیتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی کی مصروفیات اور چیلنجز کے درمیان ہمیں ذکرِ الٰہی کے ذریعے وہ سکون اور سہارا ملتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم کسی عظیم تر ہستی کا حصہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت ہمیشہ ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہماری راہنمائی کرتی ہے۔

لیکن میری پیاری بہنو! ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟

انسان ہمیشہ خوشی، حقیقی مسرت اور دل کی گہرائیوں سے محسوس کیے جانے والے اطمینان کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ خاص طور پر اس جدید مادیت پرست دَور میں یہ ایک بنیادی خواہش ہے۔ انسان جو بھی کرتا ہے چاہے وہ نیا گھر یا گاڑی خریدنے کا معاملہ ہو، شادی کرنے کا ہو یا کوئی اور اہم فیصلہ ہو، ہمیشہ اسے اطمینان اور خوشی کی جستجو ہوتی ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں کوئی دیرپا نتائج مرتب نہیں کر پاتیں۔

ہم اکثر ایسے امیر لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو بظاہر سب کچھ رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو مادی خوشحالی کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اپنی خوشی کو صرف انہی چیزوں سے جوڑتے ہیں۔ لیکن مادی دنیا میں اندرونی سکون کی یہ تلاش بے سود ہے۔

حقیقی اندرونی سکون نہ تو بیرونی املاک میں پایا جاتا ہے اور نہ ہی عارضی خوشیوں میں۔اس کے لیے ہمیں اس ہستی کی طرف دیکھنا ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے، ہمارا آئیڈیل، ہمارا بادشاہ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ مطمئن اور مسرور نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کو زیادہ مسکراتا ہوا پایا جیسے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔

یہ کیا تھا جس نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہمیشہ مسکرانے، خوش رہنے اور اپنے آپ سے اور دنیا سے امن میں رہنے کے قابل بنایا؟

کیا یہ تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تکلیف نہیں جھیلی؟ کیا یہ تھا کہ انہوں نےکبھی بھوک کا سامنا نہیں کیا؟ کیا یہ تھا کہ وہ کبھی بیمار نہیں ہوئے؟ کیا یہ تھا کہ انہیں کبھی کسی پیارے کے انتقال کا صدمہ نہیں اٹھانا پڑا؟ نہیں، میری بہنو! ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ برداشت کیا جو انسان سوچ بھی سکتا ہے۔ کون سا غم تھا جو انہیں جھیلنا نہیں پڑا؟

آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی آپؐ کے والد وفات پاگئے اور کچھ عرصہ بعد آپؐ کی والدہ بھی وفات پا گئیں۔ آپؐ کے دادا نے آپؐ کی پرورش کی، لیکن وہ بھی جلد ہی انتقال فرما گئے۔ جب آپؐ کو نبوت عطا ہوئی تو آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ کے پیارے صحابہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان پر تشدد کیا جا رہا ہے اور انہیں بے رحمی سے شہید کیا جا رہا ہے۔ آپؐ خود بھی پتھروں سے زخمی کیے گئے۔

اور اس سب کے باوجود آپؐ وہ تھے جو سب سے زیادہ مسکراتے تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ انسانِ کامل، ہمارے آئیڈیل، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر وہ مصیبت برداشت کی جو انسان سوچ سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آپؐ نے ان سب چیزوں کا سامنا کرنے کے لیے طاقت کہاں سے حاصل کی؟ آپؐ نے ہمیشہ آگے بڑھنے اور مسکرانے کی طاقت کہاں سے حاصل کی؟ اور جواب یہ ہے کہ اللہ سے محبت کے ذریعے۔ یہ اللہ کا ذکر تھا جو آپؐ کو ہر حال میں مطمئن اور خوش رہنے کی طاقت فراہم کرتا تھا۔

آپؐ قرآن پاک کی اس آیت کی کامل مثال تھے کہ سنو! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔ (الرّعد:٢٩)

میری پیاری بہنو! جب ہم اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوتا ہے تو پھر دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جس سے ہمیں خوف محسوس ہو۔

ہمارے پیارے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اکثر فرماتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو اور پھر جو چاہو کرو۔ کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، وہ کبھی کوئی بُرا عمل نہیں کرے گا، وہ کبھی ایسا کچھ نہیں کرے گا جو اس کے محبوب خدا کو ناراض کرے۔ اور یہی تقویٰ کا مفہوم ہے، جسے ہم اکثر سنتے ہیں۔

ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

میری پیاری بہنو! اللہ تعالیٰ اس شخص سے دوستی کرتا ہے جو اس کے ذکر کے لیے وقت نکالتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ پس میرا ذکر کیا کرو مَیں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔ (البقرہ:١٥٣)

جس طرح دنیا کے بادشاہ ان افراد کو اپنے دربار میں مدعو کرتے ہیں جن سے وہ راضی ہوتے ہیں، اسی طرح اللہ بھی کرتا ہے۔

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے، اور ان میں سے ایک قسم وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔

مزید برآں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے ذکر کے فضائل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے الفاظ مبارک میں بیان کیا کہ جب میرا بندہ دل میں میرا ذکر کرتا ہے تو مَیں خاموشی سے اس کا ذکر کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر علانیہ کرتا ہے تو مَیں بھی اس کا ذکر اعلانیہ کرتا ہوں۔ یہ حدیث قدسی ظاہر کرتی ہے کہ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ پاک ہے تُو اَے اللہ! تو اللہ اسے جواب دیتا ہے کہ تم بھی پاک اور صاف ہو جاؤ۔ جب اللہ تعالیٰ ایسا کہتا ہے تو تطہیر یقیناً ہو جائے گی۔

میری پیاری بہنو! ہمارے لیے دلوں کا حقیقی سکون حاصل کرنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ اس سلسلے میں، مَیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیش کرنا چاہتی ہوں جو دل کے اصل سکون کی حقیقت کو ہمارے سامنے رکھتی ہے کہ کیا مَیں تمہیں سب سے بہترین عمل اور سب سے زیادہ عظیم کام بتاؤں، چاہے وہ بادشاہوں کے لیے ہو؟ ایک عمل جو تمہارے مقام کو بلند کرتا ہے اور سونے اور چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے اور دشمن کا سامنا کرنے اور اسے قتل کرنے یا شہید ہونے سے بھی بہتر ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہمیں آگاہ فرمائیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کا ذکر ہے۔

میری پیاری بہنو! اگر ہم آج کی دنیا پر نظر ڈالیں، ایک ایسا دَور جو سرمایہ داری، مادی دولت کے بڑھانے کی خواہش اور بڑے خوابوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس وقت کا ہم پر کیا اثر ہے؟

مادی دنیا میں، جہاں ہم آج رہ رہے ہیں، اکثر سوال ہوتا ہے کہ کیا پیسہ حقیقی خوشی فراہم کر سکتا ہے یا نہیں؟ کچھ کہتے ہیں کہ اگر آپ امیر ہیں تو خوش ہیں، جبکہ دوسرے مثالیں دیتے ہیں ایسے کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی جو سب کچھ ہونے کے باوجود حقیقی خوشی نہیں پا سکے اور ،یہاں تک کہ خودکشی کر لی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مادیت پرستوں کی حالت کو بیان کرتے ہیں کہ پہلی نظر میں یہ لگتا ہے کہ وہ لوگ جو دولت کو اپنا معبود بنا چکے ہیں، خوشی اور بڑی مسرت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ تصور دھوکا دہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مَیں سچ کہتا ہوں کہ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں میں خوش نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ اندر سے جل رہے ہیں اور غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

پھر وہ رحم دل انداز میں فرماتے ہیں کہ تم ان لوگوں کے چہرے دیکھتے ہو، لیکن مَیں ان کے دل دیکھتا ہوں، وہ ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گھرے ہوئے ہیں اور زنجیروں اور لوہے کے طوقوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

دولت حاصل کرنا واقعی کچھ بُرا نہیں ہے۔ امام الزّماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں کہ اکثر امراء وہ کام کر سکتے ہیں جو غریب اور محتاج نہیں کر سکتے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، پہلے خلیفہ بنے، ایک کامیاب تاجر تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش فرمائیں اور صدیق کا درجہ پایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دولت کے فوائد کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دولت کو اسلام کے لیے وقف کیا اور ثابت کیا کہ دولت کی اصل قدر یہ ہے کہ وہ انسان کی خدمت کرے نہ کہ انسان اس کا غلام بنے۔

دولت، میری پیاری بہنو! ہمارا مقصد نہیں ہے، پیسہ تنہا ہمیں خوشی نہیں دے سکتا۔ اندرونی سکون اور خوشی کی راہ کھلی ہے، چاہے ہم امیر ہوں یا غریب، جب تک کہ یہ ایک ذریعہ ہے ہمارے اصلی مقصد کو حاصل کرنے کا اور ہم خواہشات کے غلام نہ بن جائیں۔

پیاری بہنو! مقصد کیا ہے؟ وہ مقصد کیا ہے جو ہمیں سچی اور ہمیشہ کی تشفی عطا کرے؟، جو ہر قسم کی تکلیف اور درد سے آزاد ہو۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ آج کی مادی دنیا میں پیسہ سب کچھ نہیں ہے بلکہ وہ خزانہ اہم ہے جو ایک قیمتی جوہر ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہؤا اور بےبہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا چاندی ہے۔

وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا۔ اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا۔

پھر فرماتے ہیں کہ پس اس قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ مَیں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور مَیں عیش کروں۔ یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہو گا۔ میرا دل ان کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے۔ ان کی تاریکی اور تنگ گزرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامنِ استعداد پُر ہو جائیں۔

سچی دولت، میری پیاری بہنو! زندگی میں اللہ ہے۔ جیسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کمال خوبصورتی سے فرمایا کہ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں، کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اَے محرومو! اس چشمہ کی طرف دَوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔

اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً خدا تمہارا ہی ہے، تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لیے جاگے گا، تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا۔

پھر فرماتے ہیں کہ تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں۔ اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتاکہ تم دنیا کے لیے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لیے ایسے بے خود کیوں ہوتے؟ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارامددگار ہے تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔

پھر فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو، چاہے وہ دنیاوی معاملہ ہو یا دینی، اللہ کی مدد اور حمایت طلب کرو اور یہ تمہاری زندگی کا مستقل اصول ہونا چاہیے۔ لیکن یہ مدد طلب کرنا صرف زبان کا اظہار نہ ہو، بلکہ تمہارے دل کی گہرائیوں سے یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہر نعمت صرف آسمان سے آتی ہے۔

پیاری بہنو! امید ہے کہ ہر ایک پر بخوبی واضح ہے کہ ہمارا بہشت، ہمارا خزانہ، ہمارا خدا ہے۔اگر ہم کسی اور چیز سے محبت کریں گے، تو درد اور تکلیف مقدر ہو گی، کیونکہ جب کوئی شخص اپنی محبوب چیز سے جدا ہوتا ہے تو وہ غم اور درد محسوس کرتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ واضح ہے کہ دنیاوی خوشیوں کی مختلف صورتیں کبھی بھی سکون کے ساحل تک نہیں پہنچا سکتیں۔ جیسے کاغذ کی کشتی ہے، یہ اپنے مسافروں کے ڈوبنے کے لیے مقدر ہے۔

ہمارا سکون، ہماری تسلی، ہماری خوشی براہِ راست اللہ سے جڑی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

یہ رستہ پُراخلاص نماز کی ادائیگی سے شروع ہوتا ہے، جو کہ پانچ وقت کی نماز ہے۔ نماز ایک ایسا فریضہ ہے جسے اللہ چاہتا ہے کہ ہم زمین پر قائم کریں۔

اللہ چاہتا ہے کہ ہم صرف خود نماز نہ پڑھیں بلکہ ہم اپنے خاندان کے لیے بھی ذمہ دار بنیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض اس بات پر راضی نہیں تھے کہ صرف وہ خود نماز پڑھیں، بلکہ وہ ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ ان کے اہل خاندان، دوست اور ارد گرد کے لوگ بھی نماز پڑھیں۔

یہاں ماں کی بہت اہم ذمہ داری ہے۔ جب ہمارے پیارے حضور انور ایّدہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ آپ اپنی والدہ کو یاد کرتے وقت کیا یاد کرتے ہیںتو آپ نے فرمایا کہ تم نے نماز پڑھی ہے؟ یہ آپ کی والدہ کے الفاظ ہیں جو ہمارے پیارے خلیفہ کے ذہن میں نقش ہیں۔

کتنے بچے اپنی ماں کے بارے میں ایسا کہیں گے؟ کیا ہمارے بچے بھی ان الفاظ کو یاد رکھیں گے؟ اگر نہیں، تو ہم کچھ غلط کر رہے ہیں۔

اس طرح حضور انور ایّدہ اللہ نے ایک سچی عورت، ایک سچی ماں کی ذمہ داری کو واضح کیا ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو روزانہ ہر نماز کی یاد دلائیں۔ ہر روز، پانچ بار یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود بھی نماز پڑھیں۔

جماعت جرمنی بہت جلد ملک میں سَو مساجد تعمیر کرے گی، ان شاء اللہ! جب ہم ہر شہر اور ہر گاؤں میں اللہ کے گھر بنا رہے ہیں تو ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ان مساجد کو مومنوں سے بھر دیں۔ یہ سچ ہے کہ عورت کو مسجد جانے کی ضرورت نہیں، وہ گھر پر بھی نماز پڑھ سکتی ہے اور اللہ ہمیں وہی ثواب دے گا جو مَردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر ملتا ہے۔ اللہ نے عورتوں پر کئی مواقع پر یہ فضل نازل کیا ہے اور ان کی زندگی آسان بنائی ہے۔ لیکن ہماری بھی ایک اہم ذمہ داری ہے کہ ہم مساجد کو نماز پڑھنے والوں سے بھر دیں۔

ہمارے پیارے حضور انور ایّدہ اللہ نے مورخہ ٢٧؍جنوری ٢٠١٧ء کے خطبہ جمعہ میں واضح فرمایا تھا کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کرنا اور انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالنا نیز مَردوں اور نوجوانوں کو مسلسل یاد دلانا کہ وہ مساجد میں جائیں، یہ خواتین کی ذمہ داری ہے۔ اگر خواتین اپنی ذمہ داری پوری کریں تو ایک غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔

نماز پڑھنا صرف پہلا قدم ہے، یہ اللہ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اللہ کے ہر حکم کی پیروی کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ قرآن مجید میں سات سَو احکام خداوندی ہیں اور کوئی بھی حکم نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پہلی نظر میں بہت مشکل یا ناممکن لگ سکتا ہے، لیکن ہمارا اللہ بہت رحم کرنے والا اور بہت مہربان ہے، وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم درحقیقت اس کے احکام کی پیروی کرنے کی کوشش کریں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اگر میرا کوئی بندہ مجھ سے ایک قدم قریب ہوتا ہے تو مَیں اس کے دو قدم قریب ہوتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں اس کی طرف دَوڑ کر جاتا ہوں۔

یہ ہمارا پیارا اللہ ہے، جو ہمیشہ ہمارا کھلے بازوؤں سے استقبال کرنے کے لیے تیار ہے۔

پیاری بہنو!آخر میں مَیں یہ ذکر کرنا چاہوں گی کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس ایک خلیفہ ہے، جس کی روشنی سے ہم زمانے کی مشکلات کو پہچان سکتے ہیں اور جس کے کلمات ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے دکھاتے ہیں۔

آئیے ہم اللہ تعالیٰ کی سچی خادمائیں بنیں، خلیفہ وقت کی سچی مددگار بنیں، اپنے خلیفہ کی دعاؤں سے معاونت کریں اور اپنے کردار کو بطور عورت اور ماں پورا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

(خلاصہ تقریر:قمر احمد ظفر۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button