واقعہ افک کے تناظر میں سیرت النبیﷺ کے بعض پہلوؤں کا بیان :خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍ اگست۲۰۲۴ء
٭… حضرت عائشہؓ حضرت حسان بن ثابتؓ سے بڑی کشادہ پیشانی سے ملتی تھیں اور کہتی تھیں
کہ میں اس بات کو نہیں بھول سکتی کہ حسانؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اور کفار کے خلاف شعر کہا کرتا تھا
٭… واقعہ افک ميں صرف ايک پاک دامن اور نہايت درجہ متقي اور پرہيزگار عورت کي عصمت پر ہي حملہ کرنا مقصود نہ تھا بلکہ بڑي غرض بالواسطہ مقدس باني اسلام ؐکي عزت کو برباد کرنا اور اسلامي سوسائٹي پر ايک خطرناک زلزلہ وارد کرنا تھا
٭… خلافت ایک نُور ہے جو نُور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے۔اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے
٭… جرمنی کے جلسہ کے ذریعہ میڈیا اور خبروں کے ذریعہ سےکئی ملین لوگوں تک احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچا ہے
٭… امام مکرم محمد بیلو صاحب آف سوڈان کی وفات پران کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
٭… سوڈانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍اگست۲۰۲۴ء بمطابق۳۰؍ظہور ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۳۰؍اگست ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب(مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: جلسہ جرمنی سے پہلے کے خطبات میں سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ذکر ہورہا تھا جس میں حضرت عائشہؓ کے واقعہ افک کا بھی ذکر تھا۔اس بارے میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں داخل کر رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار، دعا اور صدقے سے ٹال دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن و حدیث سےثابت ہے کہ
حضرت عائشہؓ کی نسبت منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ جو تہمت لگائی تھی اس تذکرے میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے۔
ایک صحابی ایسے تھےجو حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے دو وقت کی روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطاپر قسم کھائی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی:وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕاَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔تب حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگادی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاًاگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اُس کی توبہ اورتضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہےتا تخلقوا باخلاق اللّٰہ ہو جائے مگر واضح کہا تخلف جائز نہیں۔ترکِ وعدہ پر باز پرس ہوگی مگر ترک وعید پر نہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں واقعہ افک بخاری کی روایت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس معاملہ میں یہ روایت ساری روایتوں سے مفصل اور مربوط ہے۔ اس روایت سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی پر ایک ایسی بصیرت افزا روشنی پڑتی ہے جسے کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا
اور صحت کے لحاظ سے بھی یہ روایت ایسے اعلیٰ ترین مقام پر واقع ہوئی ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھی جا سکتی۔ اب غور کا مقام ہےکہ یہ کس قدر خطرناک فتنہ تھا جو منافقین کی طرف سے کھڑا کیا گیا۔
اس میں صرف ایک پاک دامن اور نہایت درجہ متقی اور پرہیزگار عورت کی عصمت پر ہی حملہ کرنا مقصود نہ تھا بلکہ بڑی غرض بالواسطہ مقدس بانی اسلام ؐکی عزت کو برباد کرنا اور اسلامی سوسائٹی پر ایک خطرناک زلزلہ وارد کرنا تھا اور منافقین نے اس گندے اور کمینے پراپیگنڈا کو اس طرح پر چرچا دیا تھا کہ بعض سادہ لوح لوگ مگر سچے مسلمان بھی ان کے دامن تزویر میں الجھ کر ٹھوکر کھا گئے۔ان لوگوں میں حسان بن ثابتؓ، حمنہ بنت جحش اور مسطح بن اثاثہ کا نام خاص طور پر مذکور ہوا ہےمگر حضرت عائشہؓ کا یہ کمال اخلاق ہے کہ انہوں نے ان سب کو معاف کردیااور ان کی طرف سے اپنے دل میں کوئی رنجش نہیں رکھی۔
حضرت عائشہؓ حضرت حسان بن ثابتؓ سے بڑی کشادہ پیشانی سے ملتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اس بات کو نہیں بھول سکتی کہ حسانؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اور کفار کے خلاف شعر کہا کرتا تھا۔
ایک دفعہ حضرت حسانؓ نے حضرت عائشہؓ کی تعریف میں ایک شعر کہا میور صاحب کی عربی دانی یا تعصب ملاحظہ کریں کہ اس نے بالکل غلط اور خلاف قواعد معنی کرکے لکھےلیکن
میور صاحب نے حضرت عائشہؓ کی معصومیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عائشہؓ کی قبل اور بعد کی زندگی بتاتی ہے کہ وہ اتہام سے بَری تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس الزام لگانے والوں کے سبب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اصل غرض کو دیکھنا چاہیے۔اس کا سبب یہ نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہؓ سے کوئی دشمنی تھی۔
اس الزام کے بارے میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو یہ الزام سچا ہوجس کو کوئی مومن تسلیم نہیں کرسکتا خصوصاً اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کو ردّ کیا ہے۔
اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ الزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کو نقصان پہنچانے کے لیے لگایا گیاہوکیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی۔یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے دشمنیوں کےلحاظ سے بعض لوگوں کے لیے فائدہ بخش ہوسکتی تھی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے انہیں خطرہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنے اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔
وہ دیکھ رہے تھے کہ آپؐ کے بعدخلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکرؓ ہی ہے۔
پس اس خطرے کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگا دیا تاکہ حضرت عائشہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور اور اس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہےاوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآپؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے۔تاریخ بتاتی ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلوں اوس اور خزرج نے آپس کی لڑائی اور قتل و خون ریزی کو ترک کرکے صلح کرلی اور عبداللہ بن اُبی بن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنادیا۔مدینہ کے کچھ لوگوں نے مکہ سے واپس آکر بتایا کہ آخری زمانے کا نبی مکہ میں ظاہر ہوگیا ہے اور ہم اُس کی بیعت کر آئے ہیں۔
کچھ اور لوگوں کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ؓکو مبلغ بناکر مدینہ بھیجا تو مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔
عبداللہ بن اُبی بن سلول نے جب دیکھا کہ اُس کی بادشاہت جاتی رہی اور اُس نے غور کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظر حضرت ابوبکرؓ کی طرف اُٹھتی ہے تو اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کر دیا جائے اور لوگوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی آپؓ کو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہؓ کے جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپؓ پر ایک نہایت گندا الزام لگا دیا۔
حضرت مصلح موعودؓ واقعہ افک کا حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے ساتھ تعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سورہ نُور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ پہلے حضرت عائشہؓ پر لگنے والے الزام کا ذکر کیا گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے معاً بعد خلافت کا ذکر کیااور فرمایا کہ
خلافت بادشاہت نہیں وہ تو نُور الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لیے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔
پس وہ اس نُور کو ضرور قائم کرے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک نہیں بلکہ متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کر کے اس نُور کے زمانے کو لمبا کر دے گا۔ تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ۔
نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابو بکرؓ کو خلافت سے محروم کر سکتے ہوکیونکہ خلافت ایک نُور ہے جو نُور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے۔اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کسی عمل پر اطلا ع دیتا ہے تو وہ اس سے ہٹ جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں۔ دیکھو افک عائشہؓ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل کوئی اطلاع نہیں۔ یہاںتک نوبت پہنچی کہ حضرت عائشہؓ اپنے والد کے گھر چلی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر ارتکاب کیا ہے تو توبہ کر لے۔ان واقعات کو دیکھ کرآپؐ کو کس قدر اضطراب تھا مگر یہ راز ایک وقت تک آپؐ پر نہ کھلا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے تبریہ کیا اور فرمایا کہ اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَالۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَالطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰت ِتوآپؐ کو اس افک کی حقیقت معلوم ہوئی۔اس سے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی فرق آتاہے۔ ہرگز نہیں۔ وہ شخص ظالم اور نا خدا ترس ہے جو اس قسم کا وہم بھی کرے اور یہ کفر تک پہنچتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی دعوی نہیں کیا کہ وہ عالم الغیب ہیں۔عالم الغیب ہونا خدا کی شان ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداران اوس اور خزرج کے درمیان صلح کروانے کا ذکر بھی ملتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند دن بعد حضرت سعد بن معاذؓ اور چند صحابہؓ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس گئے اور وہاں کھانا کھایا۔ پھر چند دن بعد حضرت سعد بن عبادہؓ اور چند صحابہ ؓکو ساتھ لے کر حضرت سعد بن معاذؓ کےگھر گئے اور وہاں تھوڑی دیر باتیں کیں اور کھانا کھایاتاکہ رنجشیں ختم ہوں۔
آپس میں پیار ومحبت پیدا کروانے اور صلح کروانے کایہ بھی آپؐ کا ایک طریقہ تھا۔
حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے والوں کی روایات میں مختلف تعداد بیان ہوئی ہے۔بعض روایات میں تین، دس، پندرہ اور چالیس بھی بیان ہوئی ہے۔ان الزام لگانے والوں کی سزا کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ آپؐ نے دو مردوں اور ایک عورت کے متعلق قذف کی سزا کا حکم دیااور ان میں حضرت حسان بن ثابتؓ اور مسطح بن اثاثہ تھے۔نفیلی کہتے ہیں کہ وہ عورت حمنہ بنت جحش تھی۔ایک قول یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو بھی حد نہیں لگائی اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپؐ نے عبداللہ بن اُبی، مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابتؓ اور حمنہ بنت جحش کو حد لگوائی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ حضرت عائشہؓ پرالزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کو کوڑے لگے تھے جن میں سے ایک حسان بن ثابتؓ ہے۔ایک مسطح تھا جو اس قدر غریب تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں ہی رہتا تھا۔ وہیں کھانا کھاتا اور آپؓ ہی اس کے لیے کپڑے بنواتے تھے اورایک عورت ان کے ساتھ تھی۔ ان تینوں کو سزاہوئی۔حضرت مصلح موعودؓ سورہ نُور کی آیت ۳۶ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ان الزام لگانے والوں میں سے جیسے جیسے کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اسے مل جائے گا۔
اس فتنہ کے بانی عبداللہ بن اُبی کو وعید کے مطابق کوڑوں کی سزا بھی دی گئی اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عذاب مل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہو گیا۔
بعد ازاں حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی کے حوالے سےفرمایا کہ شامل ہونے والوں میں جو غیر شامل ہوئے تھے یا جو لوگ پہلی مرتبہ آئے تھےانہوں نے بڑے مثبت تاثرات اور بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے۔میڈیا اور خبروں کے ذریعہ سےکئی ملین لوگوں تک احمدیت اور اسلام کا پیغام بھی پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے نیک اور دُوررس نتائج پیدا فرمائےاور احمدیوں کو بھی حقیقی رنگ میں ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور رحمتوں کی چادر میں ہمیں ہمیشہ لپیٹے رکھے۔
حضور انور نے آخر میں امام مکرم محمد بیلو صاحب آف سوڈان کی وفات پر ان کاذکر خیر اور ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کا نماز جنازہ غائب بعد نماز جمعہ پڑھانے کا اعلان بھی کیا۔بعد ازاں سوڈانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے
٭…٭…٭