زندگی کے ہر کام میں تقویٰ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۵؍فروری ۲۰۱۰ء)
… اگر زندگی میں ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھو گے، پھونک پھونک کر قدم نہیں اٹھاوٴ گے، حلال، حرام کے فرق کو نہیں سمجھو گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ جو بھی گناہ کرو گے اس کی سزا ملے گی۔ یہ بہانے کام نہیں آئیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں چلا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں ایک اصولی بات یہ بیان فرمادی کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس لئے تمہیں ہوشیار ہونا چاہئے حلال حرام کے فرق کو پہچانو۔ جس کام سے خداتعالیٰ نے روکا ہے اس سے رک جاوٴ۔اِثْم کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرمادیا کہ اس ہدایت کے باوجوداگر تم باز نہیں آتے اور غلط راستے پر چلانے والوں کی باتوں میں آتے ہو تو یہ ایسا گناہ ہے جو ظاہر ہے پھر تم جان بوجھ کر کررہے ہو۔ اور جو گناہ جان بوجھ کر کئے جائیں وہ سزا کا مورد بنا دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اِثْم ،گناہ کے حوالے سے قرآن کریم میں متعدد احکامات دےئے ہیں جن میں سے بعض اور بھی مَیں یہاں بیان کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے سورة الاعراف میں اس بات کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ اَنۡ تُشۡرِکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (الاعراف:34) تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے محض بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی جو اس میں سے ظاہر ہو اور وہ بھی جو پوشیدہ ہو۔ اسی طرح گناہ اور ناحق بغاوت کو بھی اور اس بات کو بھی کہ تم اس کو اللہ کا شریک ٹھہراوٴ جس کے حق میں اس نے کوئی حجت نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بات کو مزید واضح فرمایا کہ تمام قسم کے غلط اور شیطانی کام کی اسلام سختی سے مناہی فرماتا ہے۔ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کی تلاش میں رہے کہ کون سے کام تقویٰ پر چلانے والے ہیں اور کون سے کام تقویٰ سے دور لے جانے والے ہیں اور خداتعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں۔ بیشک بعض غلط کام انسان سے پوشیدہ بھی ہوتے ہیں اور شیطان اس تلاش میں ہے کہ کب مَیں ابن آدم کو آدم کی طرح ورغلاوٴں اور ان گناہوں کی طرف راغب کروں۔ اور ایسے خوبصورت طریق سے ان غلط کاموں اور گناہوں کا حُسن اس کے سامنے پیش کروں کہ وہ غلطی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھتے ہوئے اسے کرنے لگے اور پھر ان برائیوں میں ڈوب کر ان کو کرتا چلا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہوشیار کرد یا کہ ان سے بچو یہ حرام چیزیں ہیں۔ یہ تمہیں سزا کا مستوجب ٹھہرائیں گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ (الاعراف:34) کہ میرے ربّ نے بےحیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ظاہری بے حیائیاں ہیں اور بداعمال ہیں یا چھپی ہوئی بے حیائیاں ہیں یا بُرے اعمال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ بے حیائی کی باتیں حرام ہیں بات ختم نہیں کردی بلکہ جہاں بے حیائی کی باتوں کی نشاندہی فرمائی ہے کہ کون کون سی باتیں بے حیائی کی باتیں ہیں وہاں اس کا علاج بھی بتایا ہے کہ فواحش سے تم کس طرح بچ سکتے ہو ایک جگہ فرمایاکہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ (العنکبوت:46) کہ یقیناً نماز فحشاء اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ اور کیونکہ بےحیائی اور فحشاء اس زمانہ میں تو خاص طور پرہر وقت انسان کو اپنے روزمرہ کے معاملات میں نظر آتے رہتے ہیں اور اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے پانچ وقت کی نمازیں رکھ کر ان سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کاراستہ دکھایااور اس کی تلقین فرمائی ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے۔ اب ذرا غور کرو‘‘۔ فرمایا ’’اب ذرا غور کرو۔ نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے۔ اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل و آخر اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے ۔ پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے۔ ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے۔ اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 37۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)
پس اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس فقرے پر غور کریں کہ انسان کا اسم اعظم استقامت ہے تو ایک کوشش کے ساتھ اُس نماز کی تلاش میں رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو اسے وہ نماز ادا کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتی ہے، جو فحشاء سے روکتی ہے، جو حسنات کا وارث بناتی ہے۔ ظاہری اور باطنی فواحش سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
ایسی نمازوں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہماری مزید راہنمائی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی۔… نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بےحیائی سے بچایا جاتا ہے مگر… اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دعاوٴں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاوٴں سے خالی نہ ہو۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403 ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
٭…٭…٭