متفرق مضامین

جرمنی کی جلسہ گاہ، مسیحی خانقاہ اور آتش فشانی آب و گیاہ۔ کچھ ذاتی خیالات و تاثرات

(آصف محمود باسط)

اب جب کہ اس سر زمین پر مسیح موعودؑ کے خلیفہ کے ایما پر مومنین کا جلسہ منعقد کیا گیا، تو یہ روحانی آتش فشاں ضرور حرکت میں آچکا ہے کہ اس قوم میں سرد پڑ چکے ایمان کو اپنی حرارت و توانائی سے زندہ کردے

تین دہائیاں ہونے کو آئیں کہ جرمنی کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے جلسے سے کوئی مہینے بھر کے بعد ہوا کرتا ہے۔ استثنائی صورتیں بھی رہیں مگر معمول یہی چلا آتا ہے۔

اس سال بھی جلسہ سالانہ برطانیہ اپنے اختتام کو پہنچا ہی تھا کہ جلسہ جرمنی کے دوران چلنے والی ایم ٹی اے کی سہ روزہ نشریات کی تیاریوں نے زور پکڑ لیا۔ اس مرتبہ تو دونوں جلسوں کے درمیان مہینے سے بھی کچھ دن کم ہی وقت تھا۔ یوں یہ وقت پلک جھپکتے میں گزرا۔ ہمیں احساس بھی نہ ہوا کہ جلسہ سالانہ ہمارے لیے تو تیسرے دن ختم ہو گیا، مگر حضرت صاحب کا جلسہ برطانیہ تو وفود سے ملاقاتوں، دفتری ملاقاتوں میں یوں جاری ہے کہ یہ شاید جرمنی کے جلسے کے لیے روانگی کے ساتھ ہی بمشکل ختم ہو۔

ایم ٹی اے جرمنی سٹوڈیوز کے کارکنان مستعد تھے اور یہاں ہمیں بھی مستعد رکھے ہوئے تھے۔ صبح شام ان تین دن کی نشریات کی تیاریاں جاری رہیں۔ حضور کے فلاں خطاب سے پہلے یہ پروگرام دکھانے ہیں۔ حضور لوائے احمدیت لہرانے کے لیے تشریف لائیں گے تو اس سے پہلے سٹوڈیو میں کیا گفتگو ہوگی۔ جب حضور فلاں موقع پر تشریف لا رہے ہوں گے تو اس سے پہلے کون سی نظم موزوں رہے گی،اور فلاں موقع کے بعد کون سی؟

جرمنی سے یہ تین دن کی نشریات جلسہ برطانیہ ہی کی طرح براہِ راست ہوتی ہیںاور تیاری کے مراحل میں ان تینوں دن کے لمحے لمحے کی تفصیل درج کی جاتی ہے، یہاں تک کہ کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ کس پروگرام یا نظم یا گفتگو کے لیے مختص ہوں گے۔ ٹیلی وژن کی زبان میں اسے running order کہتے ہیں۔

ہمارا یہ رننگ آرڈر روز بتدریج ترتیب پاتا رہا۔ حسبِ ضرورت کچھ پروگراموں کا وقت بڑھایا جاتا، کچھ کا گھٹایا جاتا۔ مگر ہر لفظ، ہر حرف، ہر حصہ، سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد و رفت، حرکت و سکون، گفتار و کلام کے گردبُنا گیا۔

اس سب کے ساتھ ساتھ جلسہ جرمنی پرجانے کے لیے ہمارے ٹیم ممبران نے بھی حسبِ معمول سفر وغیرہ کے انتظامات کر لیے۔ ہر سال ہم اس سفر کی راہ دیکھا کرتے ہیں، کہ آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی!اور کیوں نہ دیکھا کریں۔ دنیا میں اس ذمہ داری سے اچھی کیا ذمہ داری ہوگی جس میں ہم اور ہمارا محبوب ایک جگہ پر بیک وقت موجود ہوں۔ ہم اپنے محبوب کو عشاق کے ہجوم میں محوِ خرام دیکھیں۔ ہم اس محبوب کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ انہیں ہاتھ اٹھا کر اپنے عشاق کے سلام کا جواب دیتے ہوئے دیکھیں۔اور اس طلسماتی ماحول کا لطف لیں۔

اب یہ ہمارا حال تھا۔ ہم جو کہ یہاں انگلستان میں ہونے کے باعث یہ نظارے دیکھنے کے نسبتاً زیادہ مواقع پاتے ہیں۔ سوچیں کہ جرمنی کی جماعت کا انتظار کس وارفتگی اور کس مستی سے سرشار رہا ہوگا۔

جلسے میں صرف چند روز باقی تھے کہ خبر آئی کہ حضرت صاحب جرمنی جلسے کے لیے تشریف نہیں لے جائیں گے۔

یہ خبر کس طرح سنی گئی ہوگی، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر ہم اداس ہوئے، تو جماعت جرمنی کے جذبات کیا ہوئے ہوں گے، اس پر بھی حاشیہ آرائی کی گنجائش بھلا کہاں ہے؟

مگر ساتھ یہ ہدایت بھی موصول ہوئی کہ جلسہ جرمنی کے دوران ایم ٹی اے کی نشریات حسبِ معمول جرمن سٹوڈیوز سے براہِ راست نشر ہوتی رہیں گی اور حضور بذریعہ وڈیو لنک تمام خطابات ارشاد فرمائیں گے۔

میں دوسروں کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرسکتامگر یہ بتا سکتا ہوں کہ یہ خبر ملتے ساتھ میں نے جرمنی سٹوڈیوز سے رابطہ کیا۔ فوری طور پر بدلی ہوئی صورتحال کے حوالے سے میٹنگ کی۔ یہ ان کا حق ہے سو میں ضرور بیان کروں گاکہ ان کی آوازوں میں اداسی ضرور تھی، مگر مستعد اور جاںنثار فوجیوں کی طرح وہ ہتھیار اٹھائے مورچوں پر پھر قائم ہوگئے تھے۔ ان کی آواز میں، ان کے انداز میں عزم کے شعلے تھے۔ پہلے سے کہیں بڑھے ہوئے۔ کہ اب جنگ میں اپنے جذبات کو دبانے کا چیلنج بھی درپیش تھا۔ آگے تینوں دن کی نشریات کے لمحے لمحے ، لفظ لفظ کو بدلی ہوئی صورتحال کے مطابق ڈھالنے کا کام پڑا تھا۔ اور وہ اپنی اداسی کو دل میں دبائے برسر پیکار ہوچکے تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان کی اداسی میں کہیں مایوسی کا رنگ نہیں تھا۔ لبیک کا نعرہ ان کے لہجوں میں چِلّا رہا تھا۔ وہ اپنے امام کے منشا، اپنے محبوب کے حکم اور اپنے سپہ سالارکے اشارہ پر اپنی جانیں پیش کرنے کو تیار کھڑے تھے۔

چونکہ میری ذمہ داری اس بدلی ہوئی صورتحال سے تبدیل نہ ہوئی تھی کہ نشریات تینوں دن لائیو ہونا تھیں اور جرمنی سے ہونا تھیں، لہذا میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھ کر راہنمائی لی اور جلسہ سالانہ جرمنی سے دو دن پہلے جرمنی حاضر ہوگیا۔

میں وہاں پہنچا تو بدھ کا دن تھا۔ جلسہ سالانہ اس سال نئی جگہ اور نئی طرز پر منعقد ہونا تھا۔ انتظامیہ نے مجھے ایئر پورٹ سے لیا اور جلسہ گاہ کے پاس وہاں پہنچا دیا جہاں میری رہائش کا انتظام تھا۔ گاڑی مقامِ رہائش میں مڑی ہی تھی کہ میری نظر ایک کلیسا کے بلند و بانگ برجوں اور میناروں پر پڑی۔ جہاں میں اگلے کچھ دن رہنے والا تھا، وہ عمارت اس کلیسا سے بالکل متصل تھی۔اس منظر نے میری توجہ کو بہت طاقت سے گرفت میں لے لیا۔ جو دوست مجھے گاڑی میں وہاں لے گئے تھے میں ان کی باتیں سنتا رہا، مگر میری توجہ ان برجوں میں اٹک گئی تھی جو ایک مسیح کی یاد میں آسمان کی طرف اپنی جھولی پھیلائے ایستادہ تھے۔ اور اس سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور مسیح کی محبت میں ایک عارضی شہرِ سپید آباد کیا گیا تھا۔ جہاں سے توحید کے نعرے بلند ہونے والے تھے۔ جہاں محمد رسول اللہﷺ اور اسلام کا بول بالا ہونے والا تھا۔میرا ذہن ایک مسیح کے کلیسا کے برجوں اور ایک اور مسیح کی محبت میں آبادہونے والے سفید پوش شہر کے درمیان الجھ کر رہ گیا۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر پہلی فرصت میں میں نے انٹرنیٹ پر اس کلیسا سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ معلوم ہوا کہ یہ عمارت ایک مسیحی خانقاہ یعنی monastery ہےجو گیارھویں صدی میں قائم ہوئی۔اور میری نگاہ نے اسے اکیسویں صدی میں دیکھا۔ یعنی پورے ہزار سال بعد۔

اس ایک ہزار سال کے دوران یہاں ہر دور میں monks یعنی راہب عبادات بجالاتے رہے۔ خدا تعالیٰ کی پرستش کرتے رہے۔ یسوع مسیح ؑ کے نزول کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔ اپنی زندگیوں سےتمام لذتوں کو تیاگ کر ہر لمحہ عیسیٰ مسیح ؑ کے لیے اپنی آنکھیں بچھائے بیٹھے رہے۔ میرے جسم کا رواں رواں لرز کر رہ گیا۔ کیا یہ عجیب ماجرہ نہ تھا کہ آج ان کی دعائیں قبول ہو گئی تھیں؟ آج مسیح ان کے گھر تک آگیا تھا۔ اپنے برجوں پر چڑھ کر دیکھتے تو بلا مبالغہ اس مسیح کو دیکھ لیتے جس کی جماعت اسی وادی میں خیمہ زن تھی۔ سفید براق خیموں میں پڑاؤ کیے۔

اس عجیب کیفیت میں میری آنکھ لگ گئی۔ اور علی الصبح آنکھ کھلی تو کیفیت اسی طرح قائم تھی۔ مجھ سے صرف ایک ڈیڑھ فرلانگ پر وہ راہب تھے جو نزولِ مسیح ؑ کی دعائیں مانگتے تھے۔ اور ان کے آس پاس مسیح ؑ کی آمدِ ثانی کو پالینے والے ہزاروں خوش قسمت تھے جو آج اس موعود مسیح ؑ کے نام پر توحید کے چشمے سے پانی پینے کو جمع ہو رہے تھے۔ اس مسیح کے خلیفہ کی آواز پر لبیک کہنے کو اکٹھے ہو رہے تھے۔

ہزار سال سے اس خانقاہ میں جس کے آنے کی دعائیں مانگی جاتی تھیں، وہ مسیح آج اپنی جماعت کے ساتھ ان کےدروازے پر دستک دے رہا تھا۔ میرا قیام جرمنی میں پانچ دن رہا۔ اور میں نے پانچ صبحیں ان راہبوں کی خواہشوں، حسرتوں، عبادتوں اور مسیح کے انتظار میں کی گئی گریہ و زاری کے تصور میں گزاریں۔

مگر پھر دن چڑھ آتا اور ذمہ داریاں منتظر ہوتیں۔ اور پھر میں ان راہبوں سے کچھ دور واقع جلسہ گاہ چلا جاتا اور ایم ٹی اے کے خیمے میں کام کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتا۔

اس جلسہ گاہ میں مسیح موعودؑ کے ماننے والوں کے ہزاروں چہرے نظر آتے۔ تمتماتے ہوئے چہرے۔ جو کچھ دن پہلے ڈھلک گئے تھے کہ مسیح موعودؑ کا خلیفہ ان کے درمیان نہیں ہوگا۔ مگر پھر جمعہ کے روز جب انہیں معلوم ہوا کہ دنیا میں ایجاد پذیر تمام ٹیکنالوجی مسیح ِ وقت اور اس کے خلیفہ کی خدمت پر لگی ہے، تو ان کے چہروں کی رونقیں لوٹ آئیں۔حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگلستان سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ انہوں نے جلسہ گاہ کے پنڈال میں اپنے محبوب کو براہِ راست ہم کلام پایا۔ اور عاشق اس ادا پر خوش ہوگئے۔ ان کے دلوں میں عشق کی گرمی نے جوش مارا اور ظاہری دوری کی کلفت کو کسی حد تک دور کردیا۔

یوں جلسےکے تین دن گزر گئے۔ جلسہ کامیابی سے اختتام پذیر ہوا۔ مجھے اگلے روز صبح لندن واپس جانا تھا۔ رات واپس پہنچا تو کرنے کو کچھ خاص نہ تھا۔ جلسہ ختم ہوجانے کے ساتھ جو دل میں ایک ویرانی ڈیرا ڈال لیا کرتی ہے، بس وہ تھی اور فراغت کے احساس کی کوفت۔ جلسہ سالانہ انتظامیہ سے عزیزم متین صاحب کا فون آیا جنہوں نے بتایا کہ وہ مجھے صبح ساڑھے نو بجے لے لیں گے اور ایئر پورٹ پہنچا دیں گے۔

میں رات سونے سے پہلے اس خوبصورت علاقے کے بارے میں پڑھتا رہا جہاں جلسہ سالانہ منعقد ہوا تھا۔ اور حیران ہوتا رہا۔

جرمنی کی نئی جلسہ گاہ Mendig نامی شہر میں واقع ہے۔ اور یہ شہر جرمنی کے نہایت خوبصورت علاقے Rhineland-Palatinate کی پہاڑیوں کے دامن میں بچھا ہوا ہے۔ اس شہر کے کنارے پر ایک airbase ہوا کرتی تھی جو دوسری جنگ عظیم سے ایک آدھ سال پہلے جرمن فوج نے قائم کی اور جنگ کے دوران اسے عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال کیا۔ بالخصوص فرانس سے جرمنی کی طرف متحدہ افواج کی پیش رفت کی نگرانی کے لیے۔

جب متحدہ افواج نے جرمنی پر ۱۹۴۵ء کے موسم بہارمیں گھیرا تنگ کیا تو امریکن فضائیہ کے جہازوں نے اسی ایئر بیس پر قبضہ کیا اور جرمن افواج نے رفتہ رفتہ متحدہ افواج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ جنگ کے بعد جرمنی کی تشکیل نو کے زمانے میں مینڈگ کو فضائی عسکری تربیت کے لیے استعمال کیا جاتا رہا مگر وقت کے ساتھ اس کا یہ استعمال متروک ٹھہرا اور اب ہوابازی کے شوقین اس کے کچھ حصے کو استعمال کرلیتے ہیں۔ اسی ایئرفیلڈ یا میدانِ ہوابازی میں جلسہ سالانہ جرمنی اس سال پہلی مرتبہ منعقد ہوا۔

اب اسے کون اتفاق کہے کہ جو مقام جنگ کی ریشہ دوانیوں اور تباہی و بربادی کی نیتوںپر قائم کیا گیا، وہیں سے اسلام کا پر امن پیغام بلند ہو رہا تھا۔ وہاں اس مسیح پاکؑ کے خلیفہ کی آواز گونج رہی تھی جو اس وقت کل جہاں میں قیامِ امن کا آخری پیغام لیے ہوئے ہے۔

پھر یہ پوری وادی، جس کے دامن میں جلسہ گاہ کا شہرِ سپید بچھایا گیا، Eifel نامی پہاڑی سلسلہ کے درمیان آج سے دس ہزار سال پہلے آتش فشاں پھٹنے سے وجود میں آئی۔ جب یہ آتش فشاں پھٹا تو اس سے بہ نکلنے والا لاوا چالیس کلومیٹر دور تک نشیب و فراز بناتا چلاگیا۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ یہ اتار چڑھاؤ یورپ میں آتش فشانی کے عمل سے پیدا ہونے والی youngest landscape ہے۔

جہاں اکثر ماہرین ارضیات اس بات پر متفق ہیں کہ اس زمین کے نیچے آتش فشاں مادے سرد پڑ چکے ہیں اور دوبارہ سر نہ اٹھائیں گے، وہاں بعض مکاتب ِ ارضیات کا خیال ہے کہ یہ مادے صرف گہری نیند سو رہے ہیں اور امکان ہے کہ ایک دن دوبارہ ابل پڑیں اور میلوں دور تک پھیل کراپنا رنگ دکھائیں۔

ارضیات کے علم سے ہمیں دور کا بھی مس نہیں، سو وہ جو بھی قیاس کیا کریں۔ مگر ہم اس امید میں جیئیں گے کہ جس سرزمین ِ جرمنی سے Mrs Rose نے مسیح موعودؑ کو پہچانا اور آپ ؑ سے خط و کتابت کی۔ اورآپ کو خط کے ساتھ اسی سرزمین میں اُگنے والا گلاب کا ایک پھول بھیجا کہ اسے سنبھال رکھیے کہ یہ اس سرزمین کی ایمان کی جانب پیش رفت کی نشانی ہے۔اس سرزمین کے نیچے ایمان کے آتش فشانی مادے ضرور سو رہے ہیں، مگر یہ لاوا ایمان کا لاوا ہے جو ابلنے کو تیار بیٹھا ہے۔ اور اب جب کہ اس سر زمین پر مسیح موعودؑ کے خلیفہ کے ایما پر مومنین کا جلسہ منعقد کیا گیا، تو یہ روحانی آتش فشاں ضرور حرکت میں آچکا ہے کہ اس قوم میں سرد پڑ چکے ایمان کو اپنی حرارت و توانائی سے زندہ کردے۔

پس ان پانچ دنوں میں خیال و خواب کے کیا کیا نہ سلسلے گزرے۔مگر ہم واپس چلتے ہیں متین صاحب اور صبح ساڑھے نو بجے مجھے ایئر پورٹ لے جانے کی طرف۔

میں صبح ساڑھے نو سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے تیار ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ ان کا فون آیا کہ وہ ساڑھے نو کی بجائے ساڑھے دس بجے تشریف لائیں گے کیونکہ تب ایئر پورٹ پہنچنے کا وقت زیادہ مناسب ہوگا۔

میرے پاس ڈیڑھ گھنٹہ تھا۔ میں اپنی عارضی رہائش گاہ سے نکل کر راہب خانے کی طرف چل پڑا۔ جوں جوں اس کے قریب ہوتا گیا، اس کے قدیم درودیوار اور بلندو بانگ برج اور مینار مجھے کسی اور جہان میں لے گئے۔ اس کی راہداریاں ہزار سال کی داستانیں سناتی تھیں۔ میں ان راہداریوں میں چلتا گیا اور راہب خانے کا بھاری بھرکم دروازہ کھول کر اس میں داخل ہو گیا۔ اندر ہزار سال کی تاریخ بچھی پڑی تھی۔

میں اس عمارت کے اندر مکمل طور پر تنہا تھا۔ آگے بڑھتا گیا اور در و دیوار اور ان پر بنے روایتی مسیحی نقش و نگار دیکھتا رہا۔ اچانک ایک تاریک سے کمرے سے ایک سایہ میری طرف بڑھا۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ ایک جواں سال آدمی تھا جو سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ پھر اس نے جرمن زبان میں صبح بخیر کہتے ہوئے ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں نے بتایا کہ میں کچھ دن سے اس عمارت کے طلسم میں مبتلا تھا۔ سو دیکھنے چلا آیا۔

پھر اس نے بتایا کہ وہ راہب ہے۔ میرے شوق کو دیکھتے ہوئے اس نے مجھے راہب خانے کے اندرونی گوشے دکھائے۔ لائبریری دکھائی جو نہایت قدیم اور نہایت شاندار طرز تعمیر کے باعث دل کو تو کھینچتی ہی تھی، مگر اس میں فرش سے نہایت بلند چھت تک لگے کتابوں سے بھرے شیلف ایک طالبِ علم کے دل میں عجیب جذبات پیدا کرتے تھے۔

میں نے اسے بتایا کہ میں پانچ دن سے اس عمارت کے پڑوس میں مقیم ہوں۔ اور روزانہ بہت صبح اس کلیسا میں رہنے والے راہبوں اور ان کی عبادتوں کے تصور میں کھو جاتا ہوں۔ اس نے چونک کر پوچھا، ‘‘ کس وقت؟’’ میں نے کہا کہ صبح پانچ بجے کے قریب۔ اس پر اس نے بتایا کہ ہم سب راہب صبح پانچ بجے پہلی عبادت کرتے ہیں۔اس کے چہرے پر تجسس تھا۔ کہنے لگا: ‘‘مگرتم ہمارے بارے میں کیوں سوچتے ہو؟’’ میں نے اسے بتایا کہ مجھے تم سے ایک خاص تعلق ہے۔ تم مسیح کے آنے کی دعائیں کرتے ہو۔ اور میں مانتا ہوں کہ مسیح آچکا ہے۔

اس پر اس نے دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ہماری بہت سی باتیں ہوئیں۔ وقت تیزی سے گزررہا تھا۔ جلد ہی ساڑھے دس بج گئے۔ وہ راہب تھا۔ اسے وہیں رہنا تھا۔ میں راہب نہیں تھا اورمجھے جانا تھا۔ وہ مسیحؑ کی آمدِ ثانی کا منتظر تھااور میں اس آمد ثانی کے ہو چکنے کا قائل۔ دو مسیحوں کے دو دیوانوں کے درمیان ہونے والی باتوں کی تفصیل کسی اور وقت کے لیے سہی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button