جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کی مفصل رپورٹ (اجلاس چہارم)
جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کے چوتھے اجلاس کی کارروائي کا آغاز مورخہ ۲۵ اگست ۲۰۲۴ء بروز اتوار صبح گیارہ بجے ہوا۔ اجلاس کي صدارت مکرم حیدر علی ظفر صاحب مربی سلسلہ جرمنی نے کي۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرم فیصل محمود صاحب متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی نے سورة النور کی آيات ۵۳تا۵۷کی تلاوت کی اور مکرم شکیل احمد عمر صاحب مربی سلسلہ نے اردو ترجمہ اور مکرم یونس یوسف صاحب متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی نے جرمن ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم اردو کلام
جو خاک میں مِلے اُسے ملتا ہے آشنا
اَے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما
سے منتخب اشعار مکرم عمران قمر صاحب نے پيش کيے۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر اردو زبان میں مکرم صمداحمد غوری صاحب مربی سلسلہ البانیا کی تھی جس کا موضوع تھا:
’’میں خدا کو کیسے پاسکتا ہوں؟‘‘
(اس تقریر کا مکمل متن آئندہ کسی شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ)
بعد ازاں مکرم نور الدین اشرف صاحب مربی سلسلہ نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
قوم کے لوگو! اِدھر آؤ کہ نکلا آفتاب
وادیٔ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار
سے چند اشعار پیش کیے۔
اجلاس کی دوسری تقریر اردو زبان میں حفیظ اللہ بھروانہ صاحب مربی سلسلہ جرمنی کی تھی جس کا موضوع تھا:
’’قرآن کو مہجور کی طرح مت چھوڑو‘‘
(اس تقریر کا مکمل متن آئندہ کسی شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ)
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی کی جرمن زبان میں
’’مادیت کے اس دور میں تقویٰ کی اہمیت‘‘
کے موضوع پر تھی۔ امیر صاحب نے تشہد و تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کی اور کہا کہ ایک بار حضرت مسیح موعودؑ نظم تحریر فرما رہے تھے کہ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اس وقت آ پ کو الہام ہوا کہ
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! یہ کوئی معمولی لمحہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر لمحے کے لیے آسمان کو کھولا تاکہ ہمیں بتائے کہ ہماری پوری زندگی، ہماری ساری کوششیں، ہماری تمام کامیابیاں ایک ہی بنیاد پر قائم ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف میں جو تقویٰ ہے۔ لیکن کیا ہم نے واقعی سمجھا ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟کیا حقیقی تقویٰ محض اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا نام ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ دنیا میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتا ہے؟ کیا وہ ہمیں خوفزدہ کر کے بے یار و مددگار اور پست حوصلہ مخلوق بنانا چاہتا ہے، جو صرف سزا کے خوف سے عمل کرتی ہے؟ نہیں! بلکہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے خوف کا حقیقی عرفان اس سے کہیں بالا ترہے۔ تقویٰ دراصل اللہ تعالیٰ کی محبت ، قربت اور اس کی رضاکھونے کا خوف ہے۔ یقیناً یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر دن، ہر لمحہ ہمارے قریب ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وہ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں؟ کیا ہم نے بھی اس کی قربت کا صحیح احساس کیا ہے؟ کیا ہماری روحانی حالت اور عبادات اس قربت کو ظاہر کرتی ہیں؟ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ہم واقعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمیشہ متصل ہیں اور کیا ہم نے اس کی قربت کی ’’فریکوئنسی‘‘ کو صحیح طریقے سے محسوس اور قائم کیا ہے؟مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اس چھوٹی سی ڈبیایعنی فضا میں بہت کچھ موجود ہے۔ اگر صحیح رسیور ، اینٹینا ہو تو ہم موسیقی، باتیں اور بہت کچھ سن سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے صحیح رسیور ہوناضروری ہے۔ جتنا بہتر ہم اپنے رسیور کو سنبھالیں گے، اتنا ہی صاف سگنل ہوگا۔ ہم اپنے رسیور کو تب مضبوط کریں گے جب ہم نماز پڑھیں، روزےرکھیں، صدقہ دیں اور برائی سے بچیں۔ پھر ہمارا رسیور بہتر اور زیادہ طاقتور ہوگا۔
اس تبدیلی کا آغاز بتدریج بھی ہو سکتا ہے یا اچانک ایک بڑی تبدیلی کی صورت میں بھی یہ وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ جب ایسی حالت پیدا ہوتی ہے تو جو علم اور تجربات ہم نے حاصل کیے ہیں، وہ سب کچھ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اللہ ہمارے ارادوں کے مطابق ہمیں پرکھتا ہے۔ ہم کبھی بھی ایسے عوامل کو برداشت نہیں کریں گے جو ہماری روحانی حالت کو متاثر کریں۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ خود کو پاکیزہ رکھ سکیں اور کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کو متاثر نہ کرسکے۔
ابھی ہم گرمیوں کے موسم میں سے گزر رہے ہیں اور ہر سال کی طرح ہم ایک ایسے رجحان کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو آج کی مادی دنیا میں، خاص طور پر مغرب میں، ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ چاہے وہ سکول ، یونیورسٹی یا پھر کام کی جگہ ہو، جیسے ہی درجۂ حرارت بڑھتا ہے اور سورج کی تمازت میں اضافہ ہوتا ہے، لوگوں کے لباس کم ہونے لگتے ہیں۔ اس معاشرے کی خواتین کو اس بات کا عادی بنایا گیا ہے کہ وہ کم سے کم لباس پہنیں، اپنے جسمانی حسن کا مظاہرہ کریں اور مردوں کے ذہنوں کو پریشان کریں۔
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کی فطرت کو سب سے بہتر جانتا ہے کیونکہ اس نے اسے خودتخلیق کیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور جذبات پر قابو پانے کا حکم دیتا ہے کیونکہ مرد کی بشری کمزوری ہے کہ حسن اور کشش کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اشتہارات، فلم، ٹیلی ویژن، موسیقی، سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز اور پورنوگرافی جیسی صنعتیں اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور مردوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطےآپ کو اس لہو و لعب میں جان بوجھ کر شامل نہیں ہونا چاہیے۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ عورتوں کو اپنی زینت چھپانے کا حکم دیتا ہے کیونکہ عورت کی فطرت میں اپنی خوبصورتی کو نمایاں کرنے کی خواہش شامل ہے۔ کاسمیٹکس، پلاسٹک سرجری، فیشن اور ماڈلنگ جیسی صنعتیں اس رجحان کو فروغ دیتی ہیں اور خواتین پر خوبصورتی کے مقابلے کا دباؤ بڑھاتی ہیں۔ مسلمان خواتین کو اس مقابلے میں شامل ہونے سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔یہ معاشرہ ہماری خواتین کے لیے ہر دن مزید مشکل بنا تا چلا جارہا ہے مگر چاہیے کہ وہ خود کو پیچھے رکھیں اور اس مقابلے میں حصہ نہ لیں۔ اس سے بچنے کے لیے زبردست قربانی اور اندرونی طاقت کی ضرورت ہے۔
اسی لیے میرے عزیز بھائیو! ہمیں اپنی خواتین کی قربانیوں کی قدر کرنی چاہیے اور انہیں وہ احترام دینا چاہیے جس کی وہ حقدار ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ پہلی نظر آپ کی ہے اوردوسری شیطان کی۔ ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا کے فتنوں سے بچنا کیوں ضروری ہے؟ یہ صرف ہمارے دلوں کو پاک رکھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ہمارے اللہ تعالیٰ، اپنے شریک حیات، اپنی فیملی اور اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات کی حفاظت کے لیے بھی ہے۔
اگر ہم ان چیلنجز کا سامنا کریں گے تو ہماری عبادات میں خلوص اور گہرائی آئے گی کیونکہ ہمارا دل دنیاوی خواہشات سے آزاد ہوگا۔ ہماری عائلی زندگیاں زیادہ ہم آہنگ ہوں گی، کیونکہ ہم اپنے شریک حیات کی خوبصورتی اور پاکیزگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بیرونی فتنوں کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ ہماری فیملی اور بچے احترام اور عزت پر مبنی ماحول میں پروان چڑھیں گے۔اس جلسہ ۲۰۲۴ء سے اس چیلنج کو قبول کریں اور اسے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں خوشحالی آئے گی، روحانی ترقی، عمومی اطمینان اور اندرونی سکون ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ احکامات بغیر کسی مقصدکے نہیں دیے۔اگر ہم ان پر عمل کریں گےتو ہمیں ان برکتوں کا تجربہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔
ہمارے پیارے خلیفہ ایّدہ اللہ نے امسال مئی میں برطانیہ کے وقف نَو اجتماع کے موقع پر فرمایا کہ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آنکھیں صرف وہی چیز دیکھیں جو اچھی اور اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہو اور کبھی بھی غیر اخلاقی یا بے حیائی کی چیزوں کی طرف نہ دیکھیں۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھوں کو دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ کسی کو نقصان یا تکلیف پہنچانے کے لیے۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ پاؤں اور ہر قدم اللہ کی طرف بڑھیں اور گناہوں اور سرکشی سے دُور ہوں۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ دماغ برائی، ناپاک خیالات یا بد ارادوں سے پاک رہے ۔ خلیفۂ وقت نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ آجکل کے منفی اثرات پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور ہر جگہ چھپے ہوئے ہیں۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام کا خدا محبت کرنے والا خدا ہے، اللہ تو بس بےچینی سے انتظار کر رہا ہے کہ اس کی محبت کا جواب انسانوں کی طرف سے ملے۔
تقویٰ خدا کے خوف اور غیب پر ایمان، دلائل، ذاتی اور روحانی تجربات کے ذریعے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک ناقابلِ شکست ایمان میں تبدیل ہو جاتا ہےسے پیدا ہوتا ہے۔ تقویٰ ایک گہری تعظیم، شکرگزاری اور اس ذات کے احترام سے پیدا ہوتا ہے جس کے پاس ہر علم اور ہر طاقت ہے اور جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ یہ ایک پختہ یقین سے پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی خوشی اور اندرونی سکون صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ یہ یقین کہ ہر قدم، ہر لفظ اور ہر خیال اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔لیکن یہ سب کچھ ہماری زندگی میں تب تک نہیں آسکتا جب تک کہ ہم اسے واقعی چاہتے نہ ہوں۔ جب تک ہم دن رات اس کے لیے دعا نہ کریں اور جب تک ہم حضرت خلیفۃالمسیح ایّدہ اللہ سے اس ضمن میں مدد کی درخواست نہ کریں۔ نیز وہ دعا نہ کریں جو ہمیں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے کہ اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت اور ان لوگوں کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور ان اعمال کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کرتے ہیں۔
مَیں ان لوگوں کو بھی کہنا چاہتا ہوں جو پرانے ثقافتی نظریات میں پھنسے ہوئے ہیں، جو بے صبر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو پلک جھپکنے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جو سخت دل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو طاقت کے زور سے بدلا جا سکتا ہے۔ تبدیلی زبردستی اور جبر کے ذریعے نہیں بلکہ محض اندرونی محبت اور خلوص سے ممکن ہو سکتی ہے اس لیے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم دوسروں میں تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں نہ یہ کہ ہم اپنی سختی اور ضد سے لوگوں کو دُور کر دیں۔ایک فرانسیسی مصنف نے کہا تھا کہ اگر تم ایک جہاز بنانا چاہتے ہو تو تم لکڑیاں اکٹھی کرنے، تختے کاٹنے اور کام تقسیم کرنے سے شروع نہ کرو، بلکہ لوگوں کے دلوں میں سمندر کے بڑے اور وسیع حسن کی خواہش پیدا کرو۔لہٰذا صبر اور محبت ہمیشہ ہماری بنیاد ہونی چاہیے۔ جرمنی میں کہا جاتا ہے کہ اچھی چیزوں میں ہمیشہ وقت لگتا ہے۔
والدین کو تربیت اولاد کے حوالہ سے اپنی ذاتی کوشش کے علاوہ نوجوان مربیان کرام سے استفادہ کی جانب توجہ دلانے کے بعد امیر صاحب نے کہا کہ اگر مَیں ایک بار پھر اس فرانسیسی مصنف کے جہاز بنانے کے حوالے کو بنیاد بناؤں تو مَیں کہوں گا کہ اگرآپ، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانا چاہتے ہیں تو قواعد و ضوابط وضع کرنے، ہدایات دینے اور ان کی ملامت کرنے سے شروع نہ کریں بلکہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں محبت، اس کی رحمت اور دعا کے ذریعے اس سے لقاکی خواہش پیدا کریں۔
تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوطی سے قائم رکھناآج کے دَور میں واقعی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم یہ بات خاص طور پر مالی قربانیوں کی طرف پائے جانے والے عمومی رجحان میں دیکھتے ہیں۔ یہاں جرمنی میں ہماری جماعت میں بھی یہ صورتحال واضح ہو رہی ہے کہ جماعت کی تعداد، تعلیم و تربیت اور مالی خوشحالی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم کچھ افراد جماعت کے ساتھ اپنے تعلق کھو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایمانداری اور دیانتداری سےماہانہ چندے کی ادائیگی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔یہ بات ایمان کی بنیادی شرطوں میں سے ایک ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے، اس میں سے اس کے راستے میں خرچ کریں۔ یہ نہ صرف مالی ذمہ داری ہے بلکہ ایک روحانی اصول بھی ہے۔ حقیقی قربانی یہ ہے کہ انسان اپنے محبوب مال سے کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے، چاہے اس سے دل کو تکلیف ہی کیوں نہ محسوس ہو۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارا اللہ تعالیٰ پرکامل بھروسہ ہےاور ہم تیار ہیں کہ اس کے دیے ہوئے مال کو اس کی راہ میں خرچ کریں۔ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ جماعتِ احمدیہ دنیا میں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتی اور نہ ہی ہم کسی ملک کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ ہمارے تمام اخراجات اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ برکات سے پورے ہوتے ہیں، لیکن اس میں تقویٰ اور اللہ کی خشیت بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ کی گئی برکات ہم پر نازل نہیں ہوں گی جو کہ اکثر روزمرہ زندگی میں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔جب ہمیں یہ تجربہ حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کئی گنا بڑھا کر واپس عطا کرتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی اعتبار سے بھی کامیاب بناتا ہے اور ہمیں دنیا کے سامنے مثال بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں فرماتا ہے کہ (ان پر) جنہوں نے اپنے دین کو لغویات اور کھیل کود بنا رکھا تھا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکا میں مبتلا کر دیا۔ (الاعراف: ۵۲) یہ ایک انتباہ ہے کہ صرف نام کا احمدی ہونا ہمیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔
آج کی دنیا میں جہاں بحران، جنگیں اور قدرتی آفات ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، احمدیوں کو بھی اپنے ایمان کے لیے کھل کر سامنے آنا ہوگا، جیسا کہ ہمارے بہن بھائی پاکستان میں کر رہے ہیں۔ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ نے حال ہی میں ہمیں ترغیب دی ہے کہ ہم اپنی گاڑیوں پر ’’جنگ بندی‘‘ کے سٹکر لگائیں اور دنیا کو امن کا پیغام پہنچائیں۔ آپ نے مبلغین کو خاص طور پر یہ ہدایت دی ہے کہ وہ اس سٹکر کو اپنی گاڑیوں پر لگائیں ۔ لیکن حضورانور ایّدہ الله نے یہ بھی فرمایا کہ ہر احمدی مبلغ ہےاور اس لحاظ سے یہ ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ایسا کریں اور اسے تبلیغ کا ایک مؤثر ذریعہ بنائیں۔کیا آج اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم اپنی جماعت کا نصب العین ’’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘‘کو دنیا کے سامنے زیادہ زور سے پیش کریں؟ ہر انسان دل میں یہ بات محسوس کرتا ہے کہ یہی حقیقی امن کا راستہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس پیغام کو نہ صرف اپنے دلوں میں جگہ دیں بلکہ عملی طور پر دنیا کے سامنے بھی پیش کریں۔
ایک اَور اہم بات متکبرانہ خیالات ہیں ،جو دہریت اور مادیت پسندی سے پنپتے ہیں، یعنی وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ صرف مادی دنیا اور وہ چیزیں جو ہم اپنے حواسِ خمسہ کے ذریعے محسوس کر سکتے ہیں وہی اہم ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی موجود ہے، وہ صرف سائنس کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے اور اخلاقیات اور اقدار صرف سماجی ارتقاکا نتیجہ ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور ارتقا محض اتفاقات اور ضروریات کی بنا پر چلتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان صرف مادی جسم ہے اور اس کی کوئی روح نہیں ہے۔ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ موجود ہےوہی حقیقت ہے اور زندگی کی قدر محض مادی اشیاء اور مالی خوشحالی میں ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله عنہ نے تو ۱۹۳۸ء میں ہی اپنےایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ اسلام اور الله تعالیٰ کی محبت، نیکی، سچائی، ہمت اپنے دلوں میں پیدا کر لو۔دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جاؤ اور بنی نوع انسان کی خدمت کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کر لو۔اسلام کا کامل نمونہ بن جاؤ ،پھر خواہ دنیا تمہیں سانپ اور بچھو بلکہ پاخانہ اور پیشاب سے بھی بدتر سمجھے، تم کامیاب ہو گے۔اور خواہ کتنی طاقتور حکومتیں تمہیں مٹانا چاہیں، وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور تم جو آج اس دنیا میں اس قدر کمزور سمجھے جاتے ہو تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ بنو گے۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تمہیں بلند مقام نہیں مل جاتا اور تم پر ظلم کرنے والے سب سے نچلے درجے پر نہیں پہنچ جاتے۔
یقیناً آج ہمارے درمیان بھی کچھ لوگ ہوں گے جو کہیں گے کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں یا مبالغہ آرائی ہے۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک جدید دنیا میں رہتے ہیں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ لیکن یہ سوچنا غرور اور تکبر ہے کہ ہم صرف مادی وسائل اور انسانی عقل کے ذریعے دنیا اور اپنی زندگی کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔
جی ہاں! اس جہادیعنی اپنے نفس کے خلاف جنگ میں ہمیں کبھی کبھار کچھ ساتھیوں کو بھی کھونا پڑے گا۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما راستہ ہے، جو ہم سے بہت سی مشقت، صبر اور نظم و ضبط کا تقاضا کرتا ہے تاکہ ہم حقیقی تقویٰ حاصل کر سکیں۔ کبھی ناکامیاں بھی آئیں گی، کمزوری کے لمحات بھی آئیں گے، جب ہم یا ہمارے ساتھی راستے سے بھٹک جائیں گے، لیکن اسی وقت ہار نہ ماننا اہم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد، حوصلہ افزائی کریں اور مل کر دوبارہ کھڑے ہوں۔ اسی لیے ہمیں اس طرح کے جلسۂ سالانہ کی بھی ضرورت ہےتاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔یاد رکھیں کہ اس راستے پر ہر قدم ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتا ہے اور یہ جدوجہد جو پاکیزگی اور ضبطِ نفس کی ہے، بہت ہی فائدہ مند ہے۔ مَیں انتہائی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اب بہت سے قابل اور ذہین افراد موجود ہیں، جو مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہاں بہت محتاط رہنا چاہیے، کیونکہ ذرا سا بھی غرور بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ دَور میں ہمیں یہ سوچنے پر مائل کیا جاتا ہے کہ انسان سب کچھ اپنے بل بُوتے پر اور بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے کر سکتا ہے۔
انسان ہمیشہ سے یہ سمجھتا رہا ہے کہ وہ دیگر تمام مخلوقات سے برتر ہے۔ اس نے جال بچھائے، ہتھیار بنائے، جنگلی جانوروں کو قابو میں کیااور فطرت کو اپنا غلام بنایا۔ انسان نے حیرت انگیز عمارتیں بنائیں، پیچیدہ شہر تعمیر کیے اور ایک اعلیٰ ترقی یافتہ زبان اختیار کی۔ وہ اپنے خیالات کو بیان کر سکتا ہے اور نسل در نسل علم کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس نے آگ پر قابو پایا، اَوزار ایجاد کیے، زراعت کی داغ بیل ڈالی اور قدرتی قوانین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے ہوائی جہاز بنائے، فضاؤں کو مسخر کیااور سمندروں کو عبور کیا۔ اس نے ستاروں کا مطالعہ کیا اور ہر تحقیق کے ساتھ اپنی برتری کا جشن منایا۔پھر انسان نے دریافت کیا کہ وہ بہت سی صلاحیتیں جو وہ اپنا خاصہ سمجھتا تھا، جانوروں میں بھی موجود ہیں۔ پرندے بہت ہی ہنر مندی سے اپنے گھونسلے بناتے ہیں، ڈولفن پیچیدہ طریقوں سے بات چیت کرتی ہیں، شہد کی مکھیاں اپنے رقص کے ذریعے معلومات فراہم کرتی ہیں، ہاتھی اپنے مردہ ساتھیوں کا سوگ مناتے ہیں اور بندر اَوزار کا استعمال کرتے ہیں۔ ان انکشافات نے انسان کے غرور کو چیلنج کیا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مادیت پرستوں کو جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اور وہ جانتا ہے جو بروبحر میں ہے۔ کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کا علم رکھتا ہے اور کوئی دانہ نہیں زمین کے اندھیروں میں (چھپاہوا) اور کوئی تر یا خشک چیز نہیں مگر (اس کا ذکر) ایک روشن کتاب میں ہے۔ (الانعام:۶۰)
پھر سرمایہ داری نے دولت اور مادی آسائشیں دیں اور اچانک ایسا لگنے لگا کہ انسان کو خدا کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی تاکہ وہ خود کو محفوظ اور کامیاب محسوس کرے۔ صنعتی انقلاب نے ایسی ٹیکنالوجیز فراہم کیں جنہوں نے زندگی کو یکسر بدل دیا اور ایسا لگنے لگا کہ خدا کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ پھر ڈیجیٹل دنیا آئی، انسان نے روبوٹ بنائے، مصنوعی ذہانت تیار کی اور وہ خود کو ایک تخلیق کار سمجھنے لگا، ایک طرح سے وہ نعوذ بالله! اللہ کے برابر بننے کی کوشش کرنے لگا۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اور جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے جبکہ وہ خود پیدا کیےجاتے ہیں۔(النحل:۲۱)
سائنس اور ٹیکنالوجی کی دریافتوں نے دنیا کے بہت سے رازوں کو حل کیا، لیکن اس کے بعد ایک غلط فہمی نے جنم لیا کہ شاید مذہب کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ وہ خدا کے بغیر بھی زندگی گزار سکتے ہیں، کیونکہ وہ سوچتے تھے کہ ان کے پاس اپنے مستقبل کو تشکیل دینے کی صلاحیت ہے۔ لیکن اس کوشش میں کہ وہ قدرت اور زندگی پر کنٹرول حاصل کریں، ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: کیا انسان نے واقعی وہ سب کچھ سمجھا جو اس نے پیدا کیا ہے یا وہ اپنی اصل حقیقت سے دُور ہو رہا ہے؟محققین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو جلد ہی انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گی تاکہ وہ آگے بڑھ سکے، سیکھ سکے اور فیصلے کر سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کا متبادل ممکن ہے، کیونکہ مشینیں اور الگورتھم (algorithm) زیادہ مؤثر، درست اور محنتی ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ شاید انسان محض زندگی کی ان نئی شکلوں کو جنم دینے اور توانائی فراہم کرنے والے ہوں گے۔
الله تعالیٰ قرآن مجید میں اس بے کار گفتگو کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَے انسانو! ایک اہم مثال بیان کی جا رہی ہے پس اسے غور سے سنو۔ یقیناً وہ لوگ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ہرگز ایک مکھی بھی نہ بنا سکیں گے خواہ وہ اِس کے لئے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اُس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ کیا ہی بے بس ہے (فیض کا) طالب اور وہ جس سے (فیض) طلب کیا جاتا ہے۔(الحج:۷۴)
ہمیں مصنوعی ذہانت کی ترقی کو ایک نعمت کے طور پر دیکھنا چاہیے، جو ہمیں خود پر غور کرنے اور یہ جاننے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان کی اصل اہمیت کیا ہے۔ جیسے جیسے مشینیں تیز تر اور زیادہ ذہین ہوتی جائیں گی، یہ واضح ہو جائے گا کہ صرف ذہانت یا تکنیکی صلاحیتیں انسان کی حقیقی قدر کا تعین نہیں کرتیں۔
انسان کی ایک وہ صلاحیت جو اسے واقعی منفرد بناتی ہے اور جسے کوئی مشین کبھی تبدیل نہیں کر سکتی، وہ ہے اللہ تعالیٰ کی تلاش، اس کی پہچان، اس سے تعلق قائم کرنا اور دل و جان سے اس سے محبت کرنا۔ بدقسمتی سے انسانیت کا ایک بڑا حصہ اس حقیقت سے بے بہرہ ہے۔ بہت سے لوگوں نے مادی ترقی کی جستجو میں اپنی زندگی کے روحانی پہلو کو بھلا دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے اور ہر قوم میں اپنے پیغمبر بھیجے تاکہ انسانوں کو یہ منفرد صلاحیت، یہ کھوئی ہوئی فنکاری سکھائیں۔ یہ پیغمبر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری حقیقی قدر ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق میں ہے۔ زندگی کے حقیقی معنی اور سب سے بڑی تکمیل اللہ تعالیٰ کی تلاش، اس کو پانے اور اس سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرنے میں ہے۔ یہی وہ تعلق ہے جو انسان کو اس کی اصل تقدیر تک پہنچاتا ہے اور اسے ہر جدید مشین سے برتر بناتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے دل میں جگہ دینا اتنا ضروری ہے۔
امیر صاحب نے کہا کہ آخر میں آئیے یمن، سوڈان، شام، افغانستان، لیبیا، صومالیہ، عراق، مالی، لبنان اور غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں۔ خود دفاع کے نام پر اسرائیل نے مغربی ممالک کے تعاون سے ان علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق چالیس ہزار سے زائد افراد قتل ، نوّے ہزار سے زائد افراد زخمی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے پندرہ ہزار سےزائد بچے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں کھو دی ہیں، ہزاروں مکانات، ہسپتال، سکول اور مساجد بمباری کے نتیجے میں شدید متاثر یا مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ دس ہزارسے زیادہ افراد ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور پینے کے صاف پانی اور بنیادی خوراک کی شدید قلت ہے۔دنیا کی آنکھوں کے سامنے یہ ناقابل یقین ظلم ہو رہا ہے اور ستّر سال سے زائد عرصے سے ایک قوم اپنے ملک کو آہستہ آہستہ کھو رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً قتل عام ہوتا ہے، دیواریں بنائی جاتی ہیں اور فوجی، آبادی کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں، حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں، لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور زمین کو آباد کاروں کے قبضے میں دے دیا جاتا ہے۔ مغربی طاقتیں اور تقریباً جرمنی کی تمام سیاسی جماعتیں ان لوگوں کو مالی معاونت، اسلحہ اور سفارتی مدد فراہم کر رہی ہیں جو اس ظلم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے بیشتر ممالک اور تمام بڑی انسانی حقوق کی اور امدادی تنظیمیں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں، کچھ اس کی حمایت اور کچھ اسےنظر انداز کرتے ہیں نیز کچھ کو بے عملی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک واحد ملک کی عالمی بالادستی کے سامنے انسان بے بس ہے، جس نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ وہ جو چاہے اور جہاں چاہے کر سکتا ہے، کوئی ریڈ لائن باقی نہیں بچی جو عبور نہ کی گئی ہو۔ لیکن امسال مئی میں امید کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب عالمی عدالت انصاف کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور حماس کے راہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ یہ ایک انتہائی جراتمندانہ قدم تھا۔ ان کی پیشرو کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے برسوں نگرانی میں رکھا اور دھمکیاں دیں اور اب کریم خان، ان کے خاندان، ادارے اور ملازمین کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ لیکن کریم خان کہتے ہیں کہ وہ انصاف کے ساتھ ہیں، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ جی ہاں! کریم خان ایک احمدی مسلمان ہیں اور احمدی مسلمان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انصاف کے لیے کھڑا ہونا ہماری ذمہ داری ہے، چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔ ظلم کے وقت ہم خاموش نہیں رہ سکتے، ہمیں بہادر اور متقی ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا چاہیے، پھر کسی بھی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
امیر صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله عنہ کی ارشاد فرمودہ تقویٰ کی وضاحت سے کیا کہ اگر کوئی جماعت تقویٰ پر قائم ہو جائے تو پھر وہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا، نہ وہ دشمن سے ذلیل ہو گی اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کر سکیں گی۔ اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہو جائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔
(خلاصہ تقریر: قمر احمد ظفر۔ جرمنی)