حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

علم وہی ہے جو تقویٰ کی طرف لے جانے والا ہو

ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور دیکھا کہ مسجد میں دو حلقے بنے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ تلاوت قرآن کریم اور دعائیں کر رہے ہیں اور کچھ لوگ پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں گروہ نیک کام میں مصروف ہیں۔ یہ قرآن پڑھ رہاہے اور دعائیں مانگ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے۔ یعنی ان کی دعائیں قبول کرے یا نہ کرے اور دوسرا گروہ پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہے۔ فرمایا: خداتعالیٰ نے مجھے معلم اور استاد بنا کر بھیجا ہے اس لئے آپ پڑھنے پڑھانے والوں میں جا کے بیٹھ گئے۔(سنن ابن ماجہ کتاب المقدمہ فضل العلماء والحث علی طلب العلم)

تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے والوں کو یہ مقام دیا ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو کہ جو پڑھنے پڑھانے والے تھے وہ بھی تقویٰ پر قائم رہنے والے تھے اور ایمان لانے والوں کا گروہ ہی تھا۔ آپؐ کی گہری نظر نے یہ دیکھ لیا کہ پڑھنے پڑھانے والے بھی نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں، تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور تقویٰ کے ساتھ پھر غور فکر اور تدبر سے علم سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے آپؐ ان میں بیٹھ گئے۔

ایک اور جگہ روایت ہے کہ اصل میں علم وہی ہے جس کے ساتھ تقویٰ ہو۔ تو اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کبھی کسی قسم کا علم بھی تقویٰ سے دور لے جانے والا نہ ہو۔ علم وہی ہے جو تقویٰ کے قریب ترین ہو اور تقویٰ کی طرف لے جانے والا ہو، خداتعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہو۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ صحیح اور حقیقی فقیہہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونے دیتا اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا جواز بھی مہیا نہیں کرتا اور نہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف بناتا ہے۔ قرآن کریم سے ان کی توجہ ہٹا کر کسی اور کی طرف انہیں راغب کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یاد رکھو علم کے بغیر عبادت میں کوئی بھلائی نہیں اور سمجھ کے بغیر علم کا دعویٰ درست نہیں۔ (اگر سمجھ نہیں آتی صرف رٹّا لگا لیا تو وہ علم، علم نہیں ہے)، اور تدبر اور غور و فکر کے بغیرمحض قرا ءت کا کچھ فائدہ نہیں۔ (سنن الدارمی۔ المقدمہ باب من قال العلم الخشیۃ وتقویٰ اللہ)

تو فرمایا کہ ایسا علم جو عمل سے خالی ہے ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ علم تو انسان کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سکھانے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر پھر علم حاصل کرنے کے باوجود وحشی کا وحشی رہنا ہے تو ایسے علم کا اسے کیا فائدہ۔ جیسا آج کل کے علماء دعویٰ کرتے ہیں اور پھر ان کی حرکتیں ایسی ہیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸؍جون ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲؍جولائی ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button