متفرق مضامین

مَردوں کے فرائض

عائلی مسائل اور ان کا حل

خاوند کے ذمّہ بیوی کے حقوق

عورتوں کے حقوق کے ضمن میں حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنےایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’حضرت وہبؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمانؓ اور حضرت ابو درداء ؓکے درمیان بھائی چارہ کروایا۔ حضرت سلمانؓ، حضرت ابودرداء ؓکو ملنے آئے تو دیکھا کہ ابو درداء کی بیوی نے پراگندہ حالت میں کام کاج کے کپڑے پہن رکھے ہیں اپنا حلیہ عجیب بنایا ہوا تھا۔ سلمان ؓ نے پوچھا تمہاری یہ حالت کیوں ہے؟ اس عورت نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابودرداء ؓ کو تو اس دنیا کی ضرورت ہی نہیں وہ تودنیا سے بے نیاز ہے۔ اسی اثناء میں ابودرداء ؓبھی آگئے۔ انہوں نے حضرت سلمانؓ کے لئے کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ آپ کھائیں میں تو روزے سے ہوں۔ سلمانؓ نے کہا جب تک آپ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نےروزہ کھول لیا(نفلی روزہ رکھا ہو گا)۔ ا ور جب رات ہوئی تو ابو درداءؓ نماز کے لئے اٹھنے لگے۔ سلمانؓ نے ان کو کہا ابھی سوئے رہو چنانچہ وہ سو گئے۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ نماز کے لئےاٹھنے لگے تو سلمانؓ نے انہیں کہا کہ ابھی سوئے رہیں۔ پھر جب رات کا آخری حصہ آیا تو سلمانؓ نے کہا کہ اب اٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمانؓ نے کہا اے ابودرداءؓ ! تمہارے پروردگار کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ پس ہر حقدار کو اس کا حق دو، اس کےبعد ابودراءؓ آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا حضورﷺ نے فرمایا سلمانؓ نے ٹھیک کیا ہے۔ ‘‘ (بخاری کتاب الصوم باب من اقسم علی اخیہ لیفطر فی التطوع)

زہد یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حقوق بیوی بچوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں ان کو انسان بھول جائے یا کام کاج کرنا چھوڑ دے۔ دنیاوی کام کاج بھی ساتھ ہوں لیکن صرف مقصود یہ نہ ہو۔ بلکہ ہر ایک کے حقوق ہیں وہ ادا کئے جائیں‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍مئی۲۰۰۴ءبمقام مسجد بیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍مئی ۲۰۰۴ء)

اسی حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین سے خطاب فرماتےہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ ’’پھر عورت کی آزادی کا ہر حق قائم کرنے کے لئے اسلام عورت کو ایک ایسا حق دلواتا ہے جو کئی حقوق کا مجموعہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا۔ (النساء:۲۰)کہ اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبر دستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ پھرلے بھاگو۔ سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرواور اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اﷲ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔

تو یہ ہے ایک حق عورت کا۔ مثلاً ایک خاوند اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے، اسے نا پسند کرتا ہے، حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتا اور چھوڑتا بھی اس لئے نہیں کہ اس کی جائیداد سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ یا عورت بے چاری کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ بسترِ مرگ پہ پہنچ گئی ہے اور کوشش ہو کہ اس کے مرنے کے بعدپھر اس کی جائیداد سے فائدہ اٹھائے۔ بسااوقات عورت کو بدنام کرکے ایسی جھوٹی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں اور اس کے حق سے محروم کرنے والی وہ باتیں قضا میں بھی اور عدالتوں میں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ یا بعض دفعہ ان ملکوں میں یوں بھی ہوتا ہے کہ عورت کی کچھ جائیداد یا نصف جائیداد عدالتوں میں جا کر ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ اس کو مکمل طور پر نا جائز قرار دیتا ہے۔ پھر یہ بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ رشتہ دار بیوہ کو اس لئے شادی نہیں کرنے دیتے کہ اس عورت کے خاوند کی جائیدادپر ان کا تصرف رہے اور قبضہ رہے۔

یہ واقعات آج کل بھی ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں۔ بہت ساری شکایتیں آتی ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن کو پندرہ سو سال قبل قرآنِ کریم نے بیان فرما کر ان سے بچنے کی طر ف مردوں کو توجہ دلا دی تاکہ عورت کے حق قائم رہیں۔

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ۱۷۱-۱۷4)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button