آنحضرت ﷺ تمام دُنیا کے لئے رحمت ہیں
قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپؐ کو کس قدر سوزش اور گدازش لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ فرمایا: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ(الشعراء:۴) یعنی کیا تُو اپنی جان کو ہلاک کردے گا اس فکر میں کہ یہ مومن کیوں نہیں بنتے۔ یہ پکی بات ہے کہ ہر نبی صرف لفظ لے کر نہیں آتا بلکہ اپنے اندر وہ ایک درد اور سوز وگداز بھی رکھتا ہے جو اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے۔ اور یہ درد اور اضطراب کبھی بناوٹ سے نہیں ہوتا، بلکہ فطرتاً اضطراری طور پر اس سے صادر ہوتا ہے، جیسے ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں مصروف ہوتی ہے۔… یہ بات کہ جذب اورعقدِ ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتاہے اور ظِلُّ اللہ بنتا ہے۔پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کُل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے آپؐ مخلوق کی تکالیف دیکھ نہیں سکتےتھے۔چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ یعنی یہ رسولﷺتمہاری تکلیف کو نہیںدیکھ سکتا۔ وہ اس پر سخت گراں ہے اور اُسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں۔
(ملفوظات جلد۲صفحہ ۵۴-۵۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
یاد رہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی و جمالی ہیں اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جلّ شانہٗ کے مظہر اتم ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے۔ جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے۔ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ یعنی ہم نے تمام دنیا پر رحمت کرکے تجھے بھیجا ہے۔
(اربعین نمبر ۳، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۱،حاشیہ)
دوسری جگہ فرمایا وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ یعنی ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کرنے کے لئے تجھے نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جائے۔ پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دُنیا کے لئے رسول ہیں اور تمام دُنیا کے لئے رحمت ہیں اور آپ کی ہمدردی تمام دنیا سے ہے نہ کسی خاص قوم سے۔ اور خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو بھی وہ کامل اور عام ہمدردی کی تعلیم دی ہے۔
(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۸۸)