حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضورﷺ بطور رحمۃ للعالمین

جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کہا کہ ان کافروں کو، مشرکین کو، اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا لینے والے خیالات رکھنے والوں کو، خبردار کر کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو ایک عذاب تمہارے لئے منہ کھولے کھڑا ہے۔ تم لوگ اس کی پکڑ کے نیچے آنے والے ہو۔ تو اِس رحمۃٌ للعالمین کی حالت انتہائی کرب اور تکلیف کی حالت ہو جاتی ہے، بے چین ہو ہو کر ان کے سیدھے راستے پر آنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے اور دعائیں کرتے ہیں اور ان کو پیغام حق پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کیوں اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کے درپے ہو؟ کیوں اپنے آپ کو جہنم کی آگ میں جھونک رہے ہو؟ اس حد تک حالت پہنچ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا(الکہف:7) پس اگر وہ اس عظیم الشان کلام پر ایمان نہ لائیں تو کیا تو اُن کے غم میں شدت افسوس کی وجہ سے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ پس یہ سراسر رحمت کے جذبات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے تھے اس فکر میں تھے جس نے آپ کی یہ حالت کر دی تھی کہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے تھے۔ آج کوئی بتائے کہ کیا کبھی کسی کے حقیقی باپ کو بھی اپنے بچوں کی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے اتنی فکر ہوتی ہے جتنی آپؐ کو ان لوگوں کے لئے تھی جن سے آپؐ کا رشتہ صرف یہ تھا کہ وہ آپؐ کے پیارے خدا کی مخلوق ہیں۔ اور اللہ کا اپنی مخلوق سے جو تعلق ہے اور ان کو شیطان کے پنجے سے بچانے کے لئے جو اس نے آپؐ کو مبعوث فرمایا ہے، اس کا حق ادا کرنے والے بن سکیں۔ صرف یہ آپؐ کی غرض تھی۔

اور پھر مومنوں کے لئے بھی آپؐ کتنے حریص رہتے ہیں اس کا اظہار بھی اس آیت میں ہے۔ ایمان لانے والوں کو دیکھ کر آپؐ کو بڑی خوشی ہوتی تھی اور ان کو مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے آپ رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ ہر وقت یہ فکر تھی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں لپٹے رہیں۔ حدیث میں سے ایک دو مثالیں دیتا ہوں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا، آپ مجھے کوئی دعا سکھائیں جو میں نماز میں کیا کروں۔ آپؐ نے فرمایا تو کہہ اے اللہ! یقیناً مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے۔ تُواپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھے رحمت سے نواز۔ یقیناًتُو ہی غفور اور رحیم ہے۔ (بخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام۔ حدیث نمبر 834)

پھر ایک اور روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا فرشتے تم میں سے اس شخص کے لئے جو نماز والی اپنی اس جگہ پر رہتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو، بشرطیکہ وہ کوئی ناگوار بات نہ کرے، یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما۔ (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب الحدث فی المسجد۔ حدیث نمبر 445)

تو یہ بھی ترغیب دلانے کے لئے ہے کہ نمازوں کی طرف آؤ، اللہ کی بخشش اور رحمت طلب کرو۔ اللہ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے بنو۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍فروری ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍مارچ ۲۰۰۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button