فلسفۂ شہادت اور جماعت احمدیہ کی قربانیوں کے ثمرات
جب سے دنیا کی حکومتیں جماعت کو مٹانے کا عزم لے کے اُٹھی ہیں تب سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیتا چلا آرہا ہے۔ اور اپنے آپ کو طاقت کا مرکز سمجھنے والے بڑے بڑے فرعونوں کو نیست و نابود کرتا چلا آ رہا ہے۔انہیں قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا اور جماعت احمدیہ کے ہر شہید کا خون جماعت کی روز افزوں ترقیات کی صورت میں نئی شان و شوکت کے ساتھ اپنا رنگ لاتا دکھا ئی دیتا ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِۚ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔ (یٰس:۳۱) بندوں پر افسوس کہ ان کےپاس کوئی ایک رسول بھی ایسا نہیں آیا جن کے ساتھ انہوں نے ہنسی اور تمسخر نہ کیا ہو۔ دوسری طرف مومنوں کو بھی فرمایا کہ تمہیں اللہ کی راہ میں دکھ اور تکالیف دینے والے ان ظالموں کا سامنا کرنا پڑے گا اور جان و مال کےقربان کرنے کی آزمائش سے گذرنا ہوگا۔فرمایا: یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ۔ وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ۔(البقرہ:۱۵۴تا ۱۵۸)کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ (اللہ سے) مدد مانگو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جسے اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے اسے مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہے لیکن تمہیں اس بات کا شعور نہیں۔ ہم تمہیں بھی لازماً (ان مخالفین کے ہاتھوں ) خوف، بھوک، مال،جان، اور ( اپنی محنت کے ) پھلوں کے نقصان کے ذریعہ سے آزمائیں گے۔( اے نبی!) صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جو آنے والی ہر مصیبت پہ کہتے ہیں کہ ہم یقیناً اللہ کے ہی ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں ہیں۔ اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کیسی صفائی سے مومن اور غیر مومن کی پہچان واضح فرما دی ہے۔کہ ا یک طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ کے مأمور پر ایمان لانے والے، اس ایمان کے نتیجے میں ملنے والے دکھوں، تکلیفوں کو برداشت کرنے والے اور جان و مال کی قربانیاں کرنے والے ہیں اور دوسری طرف ان مومنین کو دکھ اورتکلیفیں پہنچانے والے اور ان کو شہید کرنے والے ہیں۔لیکن واضح فرما دیا کہ کامیابی کی خوشخبری ظالموں کو نہیں بلکہ ان مظلوموں کا مقدّر ہوگی جو مصائب و ابتلا اور شہادتوں پر کوئی شکوہ نہیں کریں گے۔ بلکہ ان کی زبان سے یہی نکلے گا کہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اس موقع پہ مجھے وہ منظر یاد آگیا جب ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو لاہور کی دو احمدیہ مساجد پہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران مخالفین احمدیت نے حملے کیے درجنوں احمدی نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران شہید کر دیے گئے۔ اس موقع پر لاہور میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ( مرحوم و مغفور) ناظراعلیٰ صدر انجمن احمدیہ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ اس واقعہ پہ آپ کا کیا ردّ عمل ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہمارا ردّعمل وہی ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔جس یقین اور سکون سے یہ جواب دیا گیا، یہ نہ صرف شہدائے لاہور بلکہ جماعت احمدیہ کے ہر شہید کی قربانی کو خدا کے حضور شرف قبولیت ثابت کرنے والا جواب تھا۔کیونکہ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کے جواب پر مبنی ردّ عمل درج بالا آیات کے مطابق انہیں کو نصیب ہوتا ہے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہاُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ کہ ان پر اللہ کی برکتیں اور رحمتیں ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے مقدّر میں کامیابی لکھ دی گئی ہے۔ کیونکہ قتل اور خودکش دھماکے اَور جگہوں پہ بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے مواقع پہ کسی نے بھی صبر و استقامت کا دامن تھامتے ہوئے قرآن کریم کے اس بیان پہ مبنی ردّ عمل نہیں دیا۔ بلکہ ہر ایک کی طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سےدینے، مقتولوں کے خون کا بدلہ لینے اور بڑھکیں مارنے والے ردّ عمل پر مبنی جواب دیے جاتے ہیں۔جبکہ قرآنی تعلیم کے مطابق صبر و استقامت پر مبنی یہ جواب دینے کی توفیق صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہی کے بزرگوں کے حصّہ میں آتی ہے۔
شہداء کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ۔( آل عمران: ۱۷۰) کہ اللہ کی راہ میں جان دینے والے کو مردہ مت کہا کرو۔ وہ تو زندہ ہیں اور ان کے رب کی طرف سے انہیں رزق ملتا ہے۔ پس یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شہید اور شہادت کا مطلب کیا ہے؟ وہ کونسا رزق ہے جو شہداء کو شہادت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے؟ نیز یہ کہ کیا طبعی طور پہ وفات پا نے والے بھی شہادت کا رتبہ پا سکتے ہیں یا اس کے لیے قتل ہونا یا جان دینا ضروری ہے؟
مفردات امام راغب میں شہید کے معنی درج ہیں کہ ’’الحضورُ معَ المُشَاھَدَۃِ امَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِکہ کسی جگہ حاضر ہونا اور کسی چیز کا مشاہدہ کرنا خواہ وہ مشاہدہ آنکھوں سے ہو یا بصیرت کے ذریعہ سے۔ پھر لکھا ہے کہ الشھادۃ: قَولٌ صَادِرٌ عن عِلْمٍ حَصَلَ بِمُشَاھَدَۃِ بَصِیْرَۃٍ او بَصَرٍ ( مفردات)۔ یعنی وہ بات جو علم کی بنا پہ کہی جائے، خواہ وہ علم مشاہدۂ بصر ( یعنی آنکھ) سے حاصل ہو یا بصیرت سے حاصل ہو۔ اور التَشَھُّدُ: ھُوَ اَنْ یَقُولَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ الَّااللّٰہُ و اَنَّ محمّدًا رَسُولُ اللّٰہِ یعنی تشہد اس گواہی کا نام ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پس جب کوئی انسان کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لےتو پھر اس کا انکار کیسے کر سکتا ہے ؟کیونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یا کسی چیز کو پوری طرح پرکھنے کے بعدانسان پر جو سچائی ظاہر ہو اور اس کے دل کوپورا یقین اور بصیرت حاصل ہو جائے تو وہ اس کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا تو وہ جھوٹ ہو گا۔ اسی طرح مومن جب پوری بصیرت سے ایک چیز پہ یقینِ کامل حاصل کر لے تو اس کا انکار نہیں کر سکتا۔جس مومن کو اللہ اور اس کے رسول پر اس یقین پر مبنی ایمان نصیب ہوجائے تو پھر وہ اس راہ میں اپنی جان، مال، وقت اورعزّت قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ اس کی زندگی اس بات کا عملی اعلان ہوتی ہے کہ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (الانعام: ۱۶۳) وہ جان تو دے سکتا ہے لیکن انکار کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔
پس شہید وہ مومن ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کو سمجھ کر اس کی پیروی کرتا ہے۔ اللہ کے لیے جان، مال وقت اور عزّت قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ کیونکہ اس کا دل شہادت دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ جان تو دے دیتا ہے لیکن اس گواہی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ کیونکہ یہ گواہی اس کی زندگی اور اس سے پیچھے ہٹنا اسے موت دکھا ئی دیتی ہے۔اس کا اس گواہی پہ قائم رہتے ہوئے اپنی جان دینا ہی اس کی ابدی زندگی کا ثبوت بن جاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میںایسی قوّتِ ایمانی اور قوّتِ اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوےکہ جو خارقِ عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن، جلد۱۵صفحہ ۵۱۶)
اب سوال ہے کہ کیا یہ رتبہ ہر ایک کو مل سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ (النساء: ۷۰) کہ جو بھی اللہ اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ ان لوگوں کے ساتھ شمار ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیے۔یعنی نبیوں میں، صدّیقوں میں، شہداء میں اور صالحین میں (شمار) ہو گا۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ صرف قتل ہونے والا ہی شہید ہو گا بلکہ شہادت کے رتبے کی شرط اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے مطابق زندگی گزارنا قرار دیا۔لہٰذا یہ غلط فہمی ہے کہ صرف اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا ہی شہید ہے۔اصل شہادت کامل اطاعت اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ مقتول شہید تو قتل ہی اسی اطاعت کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ لوگ اسے اس گواہی سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت پر قائم رہتاہے۔ اس کا قتل ہو کر جان دینا اللہ اور رسول اللہ ؐکی اطاعت کا ثبوت بن جاتا ہے۔
لیکن وہ مومنین جو زندہ ہیں اور ہر قسم کی تکالیف اٹھا رہے ہیں، قربانیاں پیش کر ہے ہیں۔اگر دشمن نے انہیں قتل نہیں کیا تو کیا وہ خود کشی کر کے اپنی وفا کا ثبوت دیں ؟ ہر گز نہیں کیونکہ خود کشی حرام ہے۔ پھر زندہ لوگوں کو کیسے شہادت کا رتبہ ملتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دیگر شہداء کی طرح وہ اپنی زندگیاں اسی گواہی کی حالت میں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزارتے ہیں۔ دنیا ان کو دکھ اور تکلیفیں دیتی ہے۔ ان پہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں۔ وہ سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں لیکن اللہ اور رسول کی اطاعت نہیں چھوڑتے۔ اس راہ میں جان، مال وقت اور عزت کی قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ایسے لوگ خواہ قتل نہ بھی ہوں اور طبعی طور پہ وفات پا جائیں،خدا کے حضور انہیں شہادت کا درجہ ملتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وبا میں مر گیاوغیرہ مگر میں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوّت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کر سکتا۔وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہےیہاں تک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لیے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اس کو ملتا ہے۔اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کیے اپنا سررکھ دیتا ہےاور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں‘‘ ( الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱، مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ءبحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جلد سوم، جدید ایڈیشن، صفحہ ۳۲۶-۳۲۷، سورۃ النساء آیت ۷۰)
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا۔ لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَیُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡۚ(الاحزاب:۲۵،۲۴) مومنوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کیا ہے۔ ان میں سے کچھ تو ( اپنی جان دے کے) اپنی مراد کو پا چکے ہیں۔ اور کچھ ابھی انتظار میں ہیں۔ لیکن انہوں نے ( دُکھ اُٹھانے کے باوجود اپنے عہد کو) بالکل تبدیل نہیں کیا ( بلکہ اس پہ قائم ہیں)۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ ایسے صادقوں کو ان کے صدق کا بدلہ عطا فرمائے گا اور منافقوں کو اگر وہ چاہے گا تو عذاب دے گا یا ان کی توبہ قبول کرلے گا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شہید کو زندہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًاؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ (آل عمران: ۱۷۰) کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں ان کے ربّ کے حضور رزق دیا جاتا ہے۔
ا س سلسلہ میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زندگی کیا ہے؟ کیا یہ ختم ہو جائے گی؟ سو واضح ہو کہ انسانی زندگی خواہ مومن کی ہو یا کافر کی، ختم نہیں ہو گی۔ کافر خیال کرتا ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موت زندگی کا اختتام نہیں ہے۔ موت تو زندگی کے ایک دَور یا دنیا سے دوسرے دَور یا دوسری دنیا میں داخل ہو جانے کا نام ہے۔کسی شاعر نے کہا ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبح دوام زندگی
زندگی کی دو اقسام ہیں۔ایک جسمانی اور ایک رُوحانی۔ خدا کے نزدیک اصل زندگی رُوحانی زندگی ہے۔ جسمانی زندگی تو ماں کے پیٹ کی طرح ہوتی ہے۔ جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں ترقی پاتا ہے لیکن وہاں ایک مدّت تک ہی رہ سکتا ہے۔پھر وہ ایک نئی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے۔ اسی طرح انسان موت کے ذریعہ اس سے بھی اگلی دنیا میں آنکھ کھو لے گا۔ انسانی رُوح اس جسم کو چھوڑ کر اگلی دنیا میں منتقل ہوجائے گی۔ لہٰذا اصل زندگی یہ جسمانی زندگی نہیں بلکہ رُوحانی زندگی ہے۔ فرمایا:وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ(العنکبوت:۶۵)کہ اصل زندگی تو یقیناً آخرت کا گھر ہی ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ لہٰذا جب زندگی کی دو اقسام ہیں تو زندگی کے لیے دنیا میں رزق بھی دو قسم کا ہے۔ جسم کے لیے جسمانی غذا کی ضرورت ہے جبکہ اصل جسم یعنی رُوح کے لیے روحانی غذا کی ضرورت ہے۔ وہ رُوحانی غذا محبت الٰہی ہے جو رسول کی اطاعت سے ملتی ہے۔ فرمایا: إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(آل عمران: ۳۲) کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ کافر روٹی کو رزق سمجھتا ہے۔ روٹی یا جسمانی غذا جسمانی زندگی کے لیے ہے۔جبکہ مومن کارزق اللہ کی رضا اورمحبت ہے۔ یہ بات صرف قرآن کریم میں ہی نہیں بلکہ پہلی آسمانی کتب میں بھی اللہ نے یہی تعلیم عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جو خدا وند کے منہ سے نکلتی ہے وہ جیتا رہتا ہے‘‘ ( استثنا ء۳:۸)
پس انبیاء کی تعلیم کے مطابق محبت الٰہی ہی ایک ایسی چیز ہے جو کافر کے پاس نہ اس دنیا میں ہوتی ہے اور نہ اسے اگلے جہان میں ہو گی۔ جبکہ شہید کا رزق اور زندگی اس دنیا میں بھی اللہ اور رسولؐ کی محبت و اطاعت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اسے یہ رزق ملتا رہے گا۔ پس اللہ فرماتا ہے شہید کی زندگی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا رزق ختم ہوا۔ میرا یہ بندہ اس دنیا میں بھی میرے لیے ہی جیتا تھا اور میری محبت ہی اس کا اصل رزق اور غذا تھی۔ جسم کی موت کے بعد تو یہ مکمل طور پہ اپنے اصل رزق یعنی اپنے ربّ کے پاس آگیا۔ اس کی زندگی اور رزق یعنی محبت الٰہی جیسے دنیا میں جاری تھی، آخرت میں بھی جاری ہے۔ لہٰذا اس کا تو کچھ بھی ختم نہیں ہوا۔ سب کچھ جاری ہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر جاری ہے۔
کافروں کو جو صرف اِس دنیا کے لیے جیتےہیں فرمایا: وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ۔(الواقعۃ:۸۳) تم نے تو اپنی جھوٹ بولنے کی عادت کو اپنا رزق بنا یا ہوا ہے۔ اس رزق پہ دنیا میں ہی موت آجائے گی اور یہ آخرت میں نہیں پہنچے گا۔ فرمایا:فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَمَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ (البقرہ: ۲۰۱) کہ لوگوں میں سے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا میں عطا فرما۔ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔پس یہ دنیا کے رزق اور مال و دولت کی خاطر جھوٹ بولنے والے لوگ جب اگلے جہان میں جائیں گے تو وہاں ان کے لیے کوئی رزق نہیں ہوگا۔ جبکہ شہید نے اس دنیا میں بھی اللہ کی ذات کو جو حق اور سچ ہے،اپنا رزق بنایا تھا اس کے لیے آخرت میں بھی یہ رزق جاری رہے گا۔
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ آج مسلمانوں میں بہت سے فرقے موجود ہیں اور ان کی آپس میں چپقلش بھی رہتی ہے اور قتل بھی ہوتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ سب مقتولین شہداء کے زمرے میں نہ آتے ہوں۔ پھر کیسے معلوم ہو کہ کس گروہ کے مقتول شہید ہیں اور کس کے نہیں ؟ اس ضمن میں یاد رہے کہ جہاں تک کوشش، جدّو جہد اور قربانی کا تعلق ہے، یہ تو کافر بھی کرتاہے۔ کسی مامور من اللہ کے ظاہر ہونے پر لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ایک مومن اور دوسرے کافر۔ مومن لوگ مامور من اللہ پر ایمان لا کر کمزور ہونے کے باوجود اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے اور تبلیغ کرتےہیں۔ جبکہ کافر اس تبلیغ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور ہر قسم کے ظلم و ستم کو روا رکھتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے کام میں کوشش اور جدّ وجہد کرتے ہیں۔ مال اور وقت خرچ کرتے ہیں۔ بلکہ کافر زیادہ خرچ کرتا ہے۔کیونکہ مومن تو عموماً کمزور اور غریب ہوتے ہیں۔پھر فرق کیا ہوا؟فرق یہ ہے کہ کافروں کی کوششیں،محنتیں اور ان کا خرچ کیا ہوا ما ل سب کچھ ناکام و نامراد ہو جاتا ہے۔ جبکہ مومنوں کی محنتیں، کوششیں اور جانی و مالی قربانیاں رنگ لاتی ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران ہو جاتے ہیں۔اللہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ لِیَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا ثُمَّ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ حَسۡرَۃً ثُمَّ یُغۡلَبُوۡنَ ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ یُحۡشَرُوۡنَ۔(الانفال:۳۷) کہ یقیناً وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے روکیں۔ پس وہ اُن کو (اسی طرح) خرچ کرتے رہیں گے پھر وہ (مال) اُن پر حسرت بن جائیں گے پھر وہ مغلوب کر دیے جائیں گے۔اوروہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جہنم کی طرف اکٹھے کرکے لے جائے جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف جو لوگ ہدایت پہ ہوں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے ہوں، ان کے بارے میں فرمایا کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔( آل عمران: ۱۰۵)
آنحضورﷺ کے دَور پہ غور فرمائیں۔اس زمانے میں جنگیں لڑنا پڑیں جن میں صحابہؓ نے بھی جان و مال کی قربانیاں پیش کیں اور کافروں نے بھی جنگوں پہ خرچ کیا، ان کے لوگ بھی قتل ہوئے۔ لیکن انجام کیا ہوا؟ صحابہؓ دنیا پہ غالب آگئے لیکن کافروں کے خرچ کیے ہوئے اموال ان پر حسرت بن گئے۔
آج جماعت احمدیہ کی حالت پر غور فرمائیں۔ اس جماعت کے فدائین ابتدا سے ہی قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح جان، مال، وقت اور عزّت کی قربانیا ں پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف جماعت احمدیہ کو مٹانے کی کوشش کرنے والے تو اس سے کہیں بڑھ کر خرچ کر رہے ہیں کیونکہ مخالفین کے اخراجات حکومتیں برداشت کر رہی ہیں۔ ان کی پشت پر حکومتوں کی طاقت اور دولت کے انبار ہیں۔ ان کا تکبّر فرعون اور نمرود سے بڑھ کے ہے۔۱۹۷۴ء میں تو پاکستان میں حکومتی سطح پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا اور ایک کے بعد دوسرا فرعون جماعت کو مٹانے کے لیے کھڑا ہوتا رہا اور مزید سخت قوانین کا سہارا لیا جاتا رہا۔ ان سب منصوبوں کا کون کون محرِک اور حصہ دار ہے اس کی نشاندہی ملک کے معروف دانشور اور سیاستدان متعدد مرتبہ کر چکے ہیں۔ ان طاقتوں نے مخالفین احمدیت کا ساتھ دینے اور جماعت کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ لیکن جماعت احمدیہ کی پشت پہ صرف اور صرف ایک ہی طاقت ہے اور وہ ہمارا خدا ہے۔ بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام:’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں۔کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہرایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔‘‘(کشتی ٔ نوح، روحانی خزائن جلد۱۹، صفحہ۲۲،۲۱)
پس یہ خدا ہی ہے جو ہماری حفاظت فرما رہا ہے۔ جب سے دنیا کی حکومتیں جماعت کو مٹانے کا عزم لے کے اُٹھی ہیں تب سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیتا چلا آرہا ہے۔ اور اپنے آپ کو طاقت کا مرکز سمجھنے والے بڑے بڑے فرعونوں کو نیست و نابود کرتا چلا آ رہا ہے۔انہیں قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا اور جماعت احمدیہ کے ہر شہید کا خون جماعت کی روز افزوں ترقیات کی صورت میں نئی شان و شوکت کے ساتھ اپنا رنگ لاتا دکھا ئی دیتا ہے۔
جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں اُٹھنے والی تحریکوں اور حکومتی اقدامات کا جائزہ لیں تو خود دشمن کی اپنی کوششیں ہی ان کے ہر اقدام کی ناکامی اور خدائی جماعت کی کامیابی کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔مثلاً جماعت کے قیام سے ہی مخالفین اسے مٹانے کے درپے تھے لیکن ناکام ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے اعلان ہوئے۔ ناکام کون ہوا؟ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں مخالفت کی اس تحریک نے پھر شدّت اختیار کی اور شہیدوں کا خون بہایا گیا۔ لیکن ناکام کون ہوا؟ پھر مخالفین نے سازشیں کیں اور ۱۹۷۴ء میں شہدائے احمدیت کے خون سے ہولی کھیلی گئی، املاک تباہ کیے گئے اور ہمیں حکومتی سطح پہ غیر مسلم قرار دے کے خیال کیا کہ اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی۔لیکن ناکامی کس کا مقدّر بنی؟ جب پھر بھی کامیابی نہ ملی تو مزید سخت اقدامات اُٹھائے گئےاور ۱۹۸۴ء میں ایک فوجی ڈکٹیٹر نے آرڈیننس نافذ کر کے اللہ کی قائم کردہ خلافتِ احمدیہ پر حملہ کرکے اسے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ناکامی کا داغ کس کے حصے میں آیا؟ ہماری اذانوں،نمازوں اور عبادت ِ الٰہی پر پابندی لگا کے سخت سے سخت سزائیں مقرر کر دی گئیں اور خیال کیا گیا کہ اب یہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اللہ کا نام لینا چھوڑ دیں گے۔ لیکن اب بھی نام نہاد دانشور، علماءُھم کی نسل اور حکومتوں میں بیٹھے طاقت کے نشّے میں عقل و خرد سے عاری لوگ چیختے چلاّتے بلکہ جھلّاتے نظر آتے ہیں کہ قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر لیں تو ہم انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ ان کو حقوق دیں گے۔ لیکن کیا کریں کہ یہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے۔
قارئین کرام ! کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ ۱۹۷۴ء سے لے کے اب تک، اگر اِن دشمنان دین کا کوئی ایک قدم بھی درست اور کامیاب ہوتا تو انہیں اگلا قدم اُٹھانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔لیکن ان بیچاروں کا ایک کے بعد دوسرا سخت سے سخت تر قدم اٹھانا، ان کے پہلے قدم کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ پھر اللہ تقدیر اور تدبیر کی کامیابی ملاحظہ فرمائیں کہ کبھی حکومت کا سربراہ اپنی طاقت کے نشے میں جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں کشکول پکڑانے کا دعویٰ کرتا تھا۔ آج وہی حکومت ا پنے ہاتھ میں کشکول لیے در بدر بھیک مانگتی پھرتی ہے۔ قرض کی بھیک کے لیے دنیا کے نت نئے مطالبے تسلیم کرنے پڑ رہے ہیں۔ اور حکمران اپنے عوام کو طفل تسلّیاں دیتے ہوئے سمجھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ Beggars can’t be choosers کہ بھئی ہم تو مجبور اًمنگتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی نہیں کر سکتےاور ملک کے سیاستدان اور پڑھا لکھا طبقہ یہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہے کہ اب تو ہمیں کوئی بھیک دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ جو قانون ہم پر ظلم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، وہی آج ان کے اپنے گلے پھندا بن چکے ہیں۔ جبکہ جماعت احمدیہ پر اللہ کے فضلوں کی بارش اسی طرح جاری ہے۔دشمن نے خلافت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تو خدا تعالیٰ نے خلافت کی نہ صرف حفاظت فرمائی بلکہ خلیفۂ وقت کو پوری دنیا میں وہ عزّت اور شان و شوکت عطا فرمائی جس پہ دشمن کے سینے پہ انگارے لوٹتے ہیں کہ کسی ملک کا سربراہ نہ ہونے کے باوجود انہیں ایسا پروٹوکول کیوں ملتا ہے؟ انہیں کیا معلوم کہ بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار
ملک رُوحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر
گو بہت دنیا میں گزرے ہیں امیر و تاجدار
دشمن ایک احمدی کو شہید کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ہزروں سعید روحیں جماعت میں داخل کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایک مسجد کو نقصان پہنچاتے ہیں، تو خدا دوسرے ممالک میں سینکڑوں بنی بنائی مساجد نمازیوں سمیت عطا فرماتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایک گھر جلاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اتنا کچھ عطا فرماتا ہے جس پہ اس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئے ممالک میں مشن ہاؤسز کا قیام، مساجد کا قیام، نئی جماعتوں کا قیام،غرض حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا الہام کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ پوری آب و تاب سے پورا ہورہا ہے۔ یہ بات صرف ہم ہی بیان نہیں کرتے بلکہ ہمارا دشمن اس ترقی پہ پہلے سے کہیں زیادہ پریشان ہے اورسوشل میڈیا پہ مولویوں کا رونا دھونا بڑھتا چلا جارہا ہے کہ احمدی پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جماعت احمدیہ دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا فرقہ بن گیا ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کس شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے جس میں دشمنوں کے بارے میں فرمایا کہ يُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ فَسَيُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُوْنَ۔ وہ اسی طرح اپنے مال خرچ کرتے جائیں گے۔پھر آخر یہ خرچ ان کے لیے حسرت کا موجب بن جائے گااور وہ مغلوب کر دیے جائیں گے۔
پس سلام اے شہدائے احمدیت! کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے خون کی سچائی اور اللہ کے حضور ان کی قبولیت کا اعلان کر رہی ہے اور تمہارے خون کا وہ بدلہ عطا فرما رہی ہے جس پہ ہمارے دل اس کی حمدو ثنا سے پر ہیں اور خدا تعالیٰ کی اس شہادت پہ ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان ہے اور ہم پُرامید ہیں کہ یقیناً تم بھی اللہ کے حضور،اس کی رحمت و شفقت کے سایہ میں اور اپنے محبوب رسول محمد مصطفیٰﷺ کی رفاقت میں ہو گے۔ یہ بابرکت رفاقت تمہیں مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو۔ اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد وبارک وسلّم انّک حمید مجید
٭…٭…٭