تمام سچی تعریف اللہ کے لیے ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۰؍جولائی۲۰۱۲ء)
عموماً ہم جب اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام کو دیکھتے ہیں تو اکثریت کے منہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام کے ذکر پر اَلْحَمْدُلِلّٰہ نکلتا ہے، چاہے اُسے اَلْحَمْد کے گہرے معنی کا علم ہو یا نہ ہو۔ ایک ماحول میں اُٹھان کی وجہ سے یہ احساس ضرور ہے کہ چاہے تکلفاً ہی کہا جائے، اَلْحَمْدُلِلّٰہ ضرور کہنا ہے۔ کم علم سے کم علم کو بھی یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ضرور کہے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پس ایک احمدی کے منہ سے ہر ایسے موقع پر جس سے خوشی پہنچ رہی ہو، جس پر جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام مل رہا ہو، یا کسی بھی طریقے سے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے نواز رہا ہے تو اَلْحَمْدُلِلّٰہ ضرور نکلتا ہے، چاہے وہ کسی کی ذاتی خوشی ہو یا جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو۔ اور یہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کے الفاظ کی ادائیگی ہر ایسے موقع پر ایک احمدی کے منہ سے ہونی بھی چاہئے۔ لیکن ان الفاظ کی ادائیگی کا اظہار الفاظ کہنے والے کے لئے اور بھی زیادہ برکت کا موجب بن جاتا ہے جب وہ سوچ سمجھ کر، اُس کی روح کو جانتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور مسیح موعود کو مانا ہے، مہدی موعود کو مانا ہے اور اس ایمان کی وجہ سے ہمیں اَلْحَمْدُلِلّٰہ یاکسی بھی قرآنی لفظ کے معانی اور روح کو سمجھنے میں دقت نہیں ہے، بشرطیکہ ہماری اس طرف توجہ ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس کی روح سے ہمیں روشناس کروایا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کی مختلف رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ اس وقت مَیں ایک مختصر وضاحت حَمْد کے لفظ کی آپ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’واضح ہو کہ حمد اُس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے۔ نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو۔ اور حقیقتِ حمد کما حقہٗ صرف اُسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوارکا مبدء ہو اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے۔ اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور وہی محسن ہے اور اول و آخر میں سب احسان اُسی کی طرف سے ہیں۔ اور سب تعریف اُسی کے لئے ہے، اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔ اور ہر حمد جو اُس کے غیروں کے متعلق کی جائے، اُس کا مرجع بھی وہی ہے‘‘۔ (اردو ترجمہ عربی عبارت از اعجازالمسیح۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول۔ سورۃ فاتحہ۔ صفحہ 75-74)
پس یہ وہ تفصیل ہے جس کا لفظ حَمد حامل ہے۔ اور جب ان باتوں کو سامنے رکھ کر اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا جائے تو وہ حقیقی حمد بنتی ہے جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ حمد بہت سی جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے استعمال ہوا ہے۔ بہر حال اس وقت مَیں اس اقتباس کے حوالے سے بات کروں گا، اس کی تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حمد کی وضاحت کے حوالے سے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہ یہ ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ ایسی تعریف جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر ہو۔ اور انسانوں میں سے بھی مختلف لوگوں کی تعریف ہوتی ہے۔ لیکن فرمایا کہ جو تعریف کا مستحق ہے اور تعریف کا سب سے زیادہ مستحق اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ پس ایک بات تو یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی اس لئے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ تعریف کاحقدار ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایسے انعام دینے والے کی تعریف جس نے اپنے ارادے سے انعام دیا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کے انعام جب نازل ہوتے ہیں تو انعام حاصل کرنے والے کے اپنے عمل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ رحمانیت کا جلوہ دکھاتے ہوئے بغیر کسی عمل کے بھی نواز دیتا ہے یا اُس عمل سے ہزاروں گنا زیادہ بڑھا کر نوازتا ہے جتنا کہ عمل کیا گیا ہو یا پھر رحیمیت کے جلوے کے تحت اگر انعام دیتا ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بندے کو توفیق دیتا ہے کہ وہ کوئی کام کرے یادعا کرے اور اُس کے نتیجے میں نیک نتائج ظاہرہوں اور پھر اللہ تعالیٰ بندے کو نوازے۔
اور پھر تیسری چیز یہ فرمائی کہ اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنی مشیت کے مطابق کوئی احسان کرتا ہے یا کوئی بھی کام کرتا ہے، اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں پر احسان کرے۔ اس لئے اُس نے اپنی رحمت کو وسیع تر کیا ہوا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے وعدے اُس کی مشیت کے ساتھ شامل ہو جائیں تو پھر انعاموں اور فضلوں اور احسانوں کی ایسی بارش ہوتی ہے جس کا انسان احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔ اور یہ صورتحال اس دَور میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ نظر آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور فیصلہ آپ کے غلبہ کا اعلان کرتا ہے۔ پھر اگلی بات آپ نے یہ فرمائی کہ حمد کی حقیقی حقدار وہ ذات ہوتی ہے جس سے تمام فیض اور نور کے چشمے پھوٹ رہے ہوں۔ پس جب انسان اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہے تو یہ سوچ کر کہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس سے انسان کو سب فیض پہنچ رہے ہیں اور وہی ذات ہے جو زمین و آسمان کا نور بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض (النور: 36) جب وہ نور ہے تو اُسی کی طرف انسان رجوع کرے۔ اُس کی طرف بڑھے۔ اُس کے آگے جھکے اور یوں پھر ایسا انسان حقیقی حمد کرنے والا بن کر اندھیروں سے روشنیوں کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور یہاں پھر اللہ تعالیٰ کے احسان کا ایک اور مضمون شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ(البقرۃ: 258) کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا دوست ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اُنہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور جس بندے کا اللہ تعالیٰ دوست اور ولی ہو جائے پھر اُسے اَلْحَمْدُلِلّٰہ کا بھی ایک نیا اِدراک حاصل ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گویا حقیقی حمد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے اور پھر اس وارث بننے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا فضل ہوتا چلا جاتا ہے۔
پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کسی پر غیر شعوری طور پر احسان کرتا ہے، نہ کسی مجبوری کے تحت بلکہ علی وجہ البصیرت یہ احسان ہے۔ جانتا ہے کہ مَیں یہ احسان کر رہا ہوں اور اس احسان کا بدلہ بھی نہیں لینالیکن بندے کو یہ بھی بتا دیا کہ اگر تم شکرگزار بنو گے، حقیقی حمد کرتے رہو گے، بندگی کا حق اداکرو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ اور بھی زیادہ تمہیں ملے گا۔ میرے یہ انعامات اور احسانات بڑھتے چلے جائیں گے اور نہ صرف یہ انعامات اور احسانات اس دنیا میں تم پر ہوتے رہیں گے بلکہ اُس دنیا میں بھی یہ انعامات اور احسانات تم پر ہوں گے اور حقیقی حمد کے نہ ختم ہونے والے پھل تم کھاتے چلے جاؤ گے۔
پھر یہ بھی فرمایا کہ اس بات کو بھی یاد رکھو کہ اس دنیا میں جو تعریف اللہ تعالیٰ کے غیر کی یا اُس کی مخلوق کی تم کرتے ہو وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف لے جاتی ہے اور لے جانے والی ہونی چاہئے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کا اِدراک اور فہم ہونا چاہئے کہ تمام تعریف کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ وہ تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ زمین و آسمان اور اس کی ہر چیز پیدا کرنے والا خدا ہے، چاہے وہ جاندار مخلوق ہے یا غیر جاندار مخلوق۔ نباتات ہیں، حیوانات ہیں، انسان ہے، سب کا پیدا کرنے والا اور اُن میں وہ خصوصیات پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے جس سے ایک انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
٭…٭…٭