سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

نواب صاحب کو حضرت اقدسؑ کے ساتھ غایت درجہ کاعشق اورمحبت تھی۔اس لئے کہ انہوں نے خوداپنی ذات میں ان نشانات وآیات کامشاہدہ کیاتھاجوخداکے مرسلوں کے سوا کسی اور کونہیں دئے جاتے

1: حضرت جناب نواب علی محمدخان صاحب ؓ بہادر سابق رئیس جھجر

ریاست جھجرکی بنیادعبدالرحمٰن خان نے رکھی۔موجودہ صورت میں ہریانہ کے 21 اضلاع میں سے ایک ضلع ہے۔ نواب صاحب اسی ریاست کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ 1857ء کے غدرکے بعد جھجرخاندان پربھی الزام آیا اور اس کانتیجہ خاندان کا عزل تھا۔ نواب صاحب لودھیانہ آکر آباد ہوگئے اور اپنی رہائش کے لیے ایک عالیشان کوٹھی تعمیر کی اور ساتھ ایک باغ بھی بنایا اوراس کے ساتھ ایک مسجد اور سرائے تعمیرکی۔ سرائے میں ایک مدرسہ عربیہ بھی قائم کیا۔ حضرت نواب صاحب ایک نہایت دیندار، خداترس، مخیر اور شب زندہ داربزرگ تھے۔ اکثروقت عبادت، ذکرالٰہی اور مطالعہ کتب دینیہ میں گزرتا تھا۔آپ ایک لمبے قدکے خوش روانسان تھے اوران کے چہرہ کودیکھ کرہی ان کی متقیانہ زندگی کا اثرہوتاتھا۔داڑھی کو حنا کرتے تھے۔لباس نہایت سادہ ہوتا تھا۔ہروقت تسبیح ہاتھ میں ہوتی۔

1884ء میں حضور لدھیانہ تشریف لے گئے۔ اس وقت حضور کی زیارت کے لیے سٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا جن میں نواب محمد علی صاحب رئیس جھجر بھی تھے۔ نواب صاحب نے میر عباس علی صاحب سے کہا۔ میری کوٹھی قریب ہے اور اس کے گرد باغ بھی ہے۔ بہت لوگ حضرت صاحبؑ کی ملاقات کے لیے آئیں گے اس لیے اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرا لیا جاوے۔ میر صاحب نے کہا آج کی رات تو ان مبارک قدموں کو میرے غریب خانہ میں پڑنے دیں۔ کل آپ کو اختیار ہے۔ نواب صاحب نے کہا ہاں بہت اچھا۔ غرض حضرت صاحب کو قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بٹھا کر محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان میں اتارا گیا۔

حضرت عرفانی صاحب ؓبیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ کی ارادت1882 -83ء میں شروع ہوئی اوریہ براہین احمدیہ کا اثر تھا۔نواب صاحب خودصاحب علم تھے اور علوم عربیہ دینیہ اور تصوف کے ماہرتھے۔میر عباس علی صاحب(اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں کو معاف کرے) اس وقت بڑے سرگرم معاونین میں سے تھے اور ان معاونین کی جماعت میں نواب علی محمدخان بھی پیش پیش تھے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک اس پایہ کا کوئی آدمی بھی حضرت اقدس کے ارادت مندوں میں شریک نہ ہواتھا۔اس لئے کہ گواس وقت ان کی وہ خاندانی حکومت کاجاہ وجلا ل باقی نہ تھا مگرابھی اس دورحکومت کے اثرات باقی تھے۔اوروہ اپنی خاندانی عظمت کے علاوہ اپنی عملی زندگی اور ہمدردی اسلام کے سچے جوش کی وجہ سے مشارٌ الیہ تھے۔ چونکہ حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرموں کا اڈا پاس ہی تھا اوروہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بڑے بےریا اور مخلص اورجاں نثاراوردلیرانسان تھے اکثرنواب صاحب کے ہاں ان کی نشست وبرخاست رہتی اور حضرت اقدس کے حالات اورتازہ واقعات کاتذکرہ رہتا۔نواب صاحب کو حضرت اقدس کے ساتھ غایت درجہ کاعشق اور محبت تھی۔ اس لئے کہ انہوں نے خوداپنی ذات میں ان نشانات وآیات کامشاہدہ کیاتھاجوخداکے مرسلوں کے سوا کسی اور کونہیں دئے جاتے۔حضرت اقدس نے ان نشانات کااپنی تصانیف میں بھی ذکرفرمایاہے …نواب علی محمدخاں صاحب بیعتِ اولیٰ میں شریک تھے اور سابقین الاولین کی اس جماعت میں ممتاز تھے۔‘‘ (مکتوبات احمدجلد3 صفحہ 3۵،3۴)

حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی میں ان کی سیرت وسوانح پرایک نوٹ دیاہے۔وہ بھی پیش خدمت ہے۔آپؓ لکھے ہیں:’’نواب صاحب موصوف حکمت اور تصوف میں اورعلوم شریعہ میں یدِطولیٰ رکھتے تھے اور خصوصاً تصوف میں ایسی معرفت رکھتے تھے کہ میں نے سینکڑوں درویش صوفی دیکھے مگر یہ معلومات اور یہ دستگاہ نہیں دیکھی۔ نواب صاحب اہل اللہ کے بڑے معتقد تھے اور آنحضرت ﷺ کے عاشق جانباز تھے۔ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے باوجود اس قدر وسیع معلومات اور تصوف میں ماہر ہونے کے حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور پورا اعتقاد رکھتے تھے۔ نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی۔ بعد آنحضرت ﷺ کے اگر کوئی شخص ہے تو یہی ہے اس کی تحریر میں نور اور ہدایت اس کے کلا م میں اس کے چہرہ میں نور ہے۔

…حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں تشریف رکھتے تھے۔ بوقت انتقال نواب صاحب نے دعا سلامتی ایمان اور نجات آخرت کے لئے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں وقت آتا جاتا تھا آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ آپ میرے آخری وقت میں لودھیانہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقع ملا۔ پھر بے ہوشی طاری ہو گئی لیکن جب ذرا بھی ہوش آتا تو کہتے کہ حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں آدمی جائے اور عاقبت بخیر اور اچھے انجام کے لئے عرض کرے اور جب حالت نزع طاری ہوئی تو یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تاکہ میری نجات ہو۔ ادھر حضرت اقدس بھی نواب صاحب کے لئے بہت دعائیں کرتے رہے اور ہر بار آدمی سے بھی فرماتے رہے کہ ہاں ہاں تمہارے واسطے دعائیں کیں اور کر رہا ہوں اور یہ وصیت نمازِ جنازہ بھی حضرت اقدس تک پہنچا دی اور نواب صاحب مرحوم کا انتقال ہو گیا۔ جب نواب صاحب کا انتقال ہوا تو نواب صاحب کے اقرباء ان کی اولاد اور بھائی مولویوں کے زیر اثر اور مرعوب تھے اور مولوی محمد اور مولوی عبداللہ اور مولوی عبدالعزیز یہ تینوں حضرت اقدس علیہ السلام کے مکفر اور مکفرین اولین میں سے تھے تینوں یہودی صفت بلکہ ان سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے اور اس وقت سے مکفر اور سخت مخالف تھے کہ جب سے براہین احمدیہ شائع ہوئی تھی۔ تمام مولوی خاموش یا موافق تھے مگر یہ بدقسمت اور ایک بدبخت مولوی غلام دستگیر قصوری مخالف تکفیر کے علاوہ سب و شتم کرنے والے تھے اور ان مولویوں کی یہ عادت تھی کہ جو مولوی درویش لودھیانہ میں آئے اور ان سے مل لیا تو خیر اور جو نہ ملا تو بس اس کو کفر کا نشانہ بنایا۔ یہ تینوں مثلث مولوی اس آیت کے مصداق تھےکہ اِنْطَلِقُوْا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ لَّا ظَلِیْلٍ وَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ اللَّھْبِ چلو اس تین رخے سایہ کی طرف جس میں نہ سایہ ہے نہ ٹھنڈک ہے اور نہ گرم لپٹ سے بچاؤ کی کوئی صورت ہے۔

انہوں نے اس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں ایک قیامت برپا کر رکھی تھی۔ ان مولویوں کو بھی خبر نواب صاحب کی وصیت نماز جنازہ پہنچ چکی تھی۔ ان مولویوں اور معتقدوں نے نواب صاحب کے اقربا کو کہلا بھیجا کہ اگر مرزا (امام موعود علیہ السلام) جنازہ پر آیا تو ہم اور کوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جائے گا اور آئندہ تم میں سے جو مرے گا تو نمازِ جنازہ کوئی نہ پڑھے گا۔ وہ بیچارے ڈر گئے اور یہ خیال نہ کیا کہ ان یہود صفت مولویوں کی کیا مجال ہے کہ ایسا کر سکیں۔ کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور کیا اور کوئی بندہ خدا کا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ملے گا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید لودھیانہ میں نہیں ہیں۔ ان کی کمزوری اور ضعفِ ایمانی نے ان کو ڈبو دیا۔ وہ مرحوم بھی ان سے متنفر تھا اور جب ان مولویوں کا ذکر کبھی مرحوم کے روبرو کوئی کرتا تو مرحوم کی پیشانی پر بل پڑ جاتے تھے اور وہ ان کو بدترسےبدتر خیال کیا کرتاتھا۔ ان اشر الناس مولویوں کی نماز سے تو بے نماز ہی جنازہ رہتا تو بہتر تھا اس لئے کہ مسیح وقت علیہ السلام خود دعائیں کر چکا اور مرحوم دعائیں کرا چکا اور نمازِ جنازہ بھی تو ایک دعا ہی ہے۔ ایمان ایک ایسی شے بے بہا ہے کہ کوئی شے اس کو دور نہیں کر سکتی۔ حضرت اقدس علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی ایمان پر اس دنیا سے رخصت ہو تو کوئی اس کو بول و براز میں پھینک دے تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا اور اگر کوئی بے ایمان مرے تو کیسے ہی اس کو عطر و گلاب میں رکھے تو اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ پھر یہ حدیث شریف پڑھتے اَلْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ وَ حُفْرَةٌ مِنّْ حُفَرِ النِّیْرَانِ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی نے اختصاراً اپنی کتاب اخبار الاخیار میں اور حضرت خواجہ نظام الدین ولی الاولیاء محبوبِ الٰہی رحمة اللہ علیہ کے مرید نے آپ کی زبانِ مبارک سے سن کر سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ حضرت قطب الاقطاب قطب جمال الدین احمد ہانسوی (راقم کے جدِّ امجد) تحصیلِ علوم میں مشغول ہوئے اور حدیث پڑھنی شروع کی تو جب یہ حدیث پڑھی کہ اَلْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِیَاضِ الخ تو اس قدر روئے کہ رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے اور جب تک زندہ رہے اس حدیث کو پڑھتے اور روتے اور اللہ سے پناہ مانگتے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو مدفون کرنے کے بعد گنبد کی بنیاد کھودی گئی اور قبر کے قریب ایسی اور اس قدر خوشبو آئی کہ لوگ اس کی برداشت نہ کر سکے۔…الغرض حضرت اقدس نے نواب صاحب کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پر پڑھی اور دعا مغفرت و رحمت بہت کی۔ ‘‘(تذکرۃ المہدی صفحہ72تا 75)

نواب صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قبولیت دعا کے بڑے معتقد تھے۔ حضرت اقدسؑ بطور نشان کے اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘میں ان کایہ ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ ایک صاحب نواب محمد علی خاں نام جھجر کے نوابوں میں سے لدھیانہ میں رہتے تھے اور انہوں نے لدھیانہ میں اِس غرض سے ایک سرائے بنائی تھی کہ تاجس قدر غلہ باہر سے آتا ہے اس کی اسی سرائے میں خرید و فروخت ہو۔ اور اسی سرائے میں غلہ بیچنے والے اپنا مال اُتاریں۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک اور شخص اِس کام میں ان کا رہزن ہوگیا اور نواب صاحب کی سرائے بیکار ہوگئی جس سے ان کو بہت تکلیف پہنچی۔ اُنہوں نے اِس مصیبت کے وقت دعا کے لئے میری طرف التجا کی اور قبل اس کے جو اُن کا خط قادیان میں پہنچے میرے پر خدا نے ظاہرکردیا کہ اِس مضمون کا خط اُنہوں نے روانہ کیاہے۔ اور خدا تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ کچھ عرصہ کے لئے ان کی یہ روک اُٹھا دی جائے گی اور اِس غم سے ان کو نجات دی جائے گی۔ چنانچہ میں نے اِس تمام حال سے قبل از وقت اُن کو خبرکردی۔ اور ان کو یہ سخت تعجب ہوا کہ میرا خط جو بلا توقف روانہ کیا گیا تھااِس کا علم کیونکر ہوگیا؟ اور پھر اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ایک عجیب رنگ کا اعتقاد میری نسبت اس کے دل میں بیٹھ گیا۔ اور وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی نوٹ بک میں اس پیشگوئی کو یاد داشت کے لئے لکھ چھوڑا ہے اور ہمیشہ اس کو پڑھ لیا کرتا ہوں اور کئی لوگوں کو اُس نے اپنی یہ کتاب دکھلائی اور ایک دن میرے روبرو پٹیالہ میں وزیر محمد حسین خانصاحب کو بھی کتاب میں وہ موقعہ دکھلایا اور کہا کہ میرے یقین کے لئے یہ کافی ہے کہ میرے خط کی اطلاع خدا تعالیٰ کی طرف سے خط پہنچنے سے پہلے مل گئی جس کی مجھ کو بلا توقف خبر دی گئی۔ اور دوسرے یہ کہ یہ میرا کام جو بظاہر ایک ناشدنی امر تھا اس کے ہوجانے کی قبل از وقت اطلاع دے دی۔ اور میں جانتا ہوں کہ یہ علم جو قدرت کے ساتھ ملا ہوا ہے بجز خدا کے اور کسی کی طاقت میں نہیں۔ ایساہی نواب صاحب موصوف کا اخیر زندگی تک ہمیشہ یہ حال رہا کہ اِس پیشگوئی کی یاد سے ان کو ایک وجد کی حالت ہوجاتی تھی اور ہمیشہ اس کو پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ جب ان کی موت کا وقت آیا اور میں عیادت کے لئے گیا تو اُس شام کے وقت جس کی صبح میں ان کا انتقال ہونا تھااُنہوں نے مجھ کو دیکھ کر یہ ہمت کی کہ باوجود سخت تکلیف خون بواسیر کے جس کی کثرت سے اُن کی وفات ہوئی اندر کے دالان میں چلے گئے اور وہ نوٹ بک اپنی لے آئے جس میں وہ پیشگوئی مع اُس کے پورا ہوجانے کے حالات کے مندرج تھی۔ پھر وہ کتاب مجھ کو دکھلائی اور کہا کہ میں اِس کو بڑے اہتمام سے محفوظ رکھتا ہوں کہ اِس سے خدا کی قدرت یاد آتی ہے۔ اور پھر دوسرے دِن صبح کے وقت فوت ہوگئے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ نوٹ بک ان کی جس کو بڑے اہتمام اور محبت سے وہ اپنے پاس رکھتے تھے۔اب لدھیانہ میں ان کے بیٹے کے پاس محفوظ ہوگی اورضرور ہوگی۔ سو دیکھو کس کس پہلو سے خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوئے ہیں۔ ‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ204تا206)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button