متفرق مضامین

دوسری آئینی ترمیم:کیا پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز تھی؟

(ابو نائل)

یہ صرف جماعت احمدیہ کا ہی موقف نہ تھا بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے صاحب دانش افراد بھی اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ اس طرح کی کارروائیاں جس میں کہ سیاسی اداروں کو مذہبی فیصلے کرنے کا اختیار ملے گا تو اس کے کسی طرح بھی اچھے نتائج ظاہر نہیں ہونگے

اس سال آئین پاکستان میں دوسری آئینی ترمیم کو پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں۔یہ وہ آئینی ترمیم ہے جس کے ذریعہ بزعم خود آئین اور قانون کی اغراض کے لیے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا۔ موجودہ حالات میں ایک بار پھر یہ آئینی ترمیم موضوع بحث بنی ہوئی ہےاور بہت سے تجزیہ نگار اور دانشور اس مرحلہ پر پاکستان میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری پر ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایک اہم سوال اور جماعت احمدیہ کا موقف

اس بحث میں قدرتاََ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ ایک گروہ کوکسی مذہب کی طرف منسوب ہونے کا اختیار ہے کہ نہیں؟ آج سے پچاس سال قبل جب اس سلسلہ میں کارروائی شروع ہوئی تو اس اہم پہلو کے بارے میں جماعت احمدیہ نے اپنے محضر نامہ میں یہ موقف پیش کیا تھا کہ کسی بھی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے اور اگر اس سمت میں قدم اُٹھایا گیا تو یہ امر پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کا راستہ کھولنے کا باعث بن جائے گا۔(محضرنامہ صفحہ۵) ہم اس مضمون میں اس ایک اہم سوال کا تجزیہ کریں گے۔

اس کارروائی کے آغاز سے پہلے بھی اس ضمن میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍ جون ۱۹۷۴ء میں فرمایا تھا:’’ ہزار ادب کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت اور سرشت نے حق نہیں دیا ، جس کا تمہیں حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا ، جس کا تمہیں یو۔این۔او کے Human Rightsنے (جن پر تمہارے دستخط ہیں ) حق نہیں دیا ، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے با وجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کوئی شخص professکچھ کر رہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اور کر دیا جائے۔ میں کہتا ہوں میں مسلمان ہوں ، کون ہے دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ یہ کیسی نا معقول بات ہے۔ یہ ایسی نا معقول بات ہے کہ جو لوگ دہریہ تھے انہیں بھی سمجھ آ گئی۔ پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اس دستور نے حق نہیں دیا جس دستور کو تم نے ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ دیکھو کتنا اچھا اور کتنا حسین دستور ہے۔آج اس دستور کی مٹی پلید کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس جھگڑے میں نہ پڑو اسے خدا پر چھوڑ دو کیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گا کہ کون مومن اور کون کافر ہے۔‘‘( الفضل ۲۳؍جون ۱۹۷۴ءصفحہ۸)

آئین پاکستان کے Chapter 1میں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور اس میں آرٹیکل ۲۰ میں یہ ضمانت دی گئی تھی:

قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع

(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا؛اور

(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔

اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ یہ آزادی قانون کے تحت دی گئی ہے اگر ایسا قانون بنا دیا جائے کہ جس میں یہ آزادی سلب کر دی جائے تو پھر آئین کی رو سے مذہبی آزادی کا اختیار بھی سلب ہو جائے گا۔ تو یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آئین پاکستان کا Chapter 1جس میں بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے:

کوئی قانون، کوئی رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگاجس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔

اٹارنی جنرل صاحب کا سوال

جب جماعت احمدیہ کے وفد سے سوال و جواب شروع ہوئے تو پہلے روز ہی یحییٰ بختیار صاحب نے حضرت امام جماعت احمدیہ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمیں یہ کہے کہ تم غیرمسلم ہو اور اس ضمن میں آئین کی شقوں کا حوالہ دیا ہے۔اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا

’’I rely on clauses 8 and 20ہماری جو کانسٹی ٹیوشن ہے اس کی غالباََ دفعہ 8ہے جو یہ کہتی ہے کہ اس ہاؤس کو یہ اختیار نہیں ہو گاکہ جو اس نے حقوق دیئے ہیںان میں کوئی کم کرے یا اس کو منسوخ کرے۔‘‘(کارروائی صفحہ۳۸)

اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب نے یہ سوال اُٹھایا

"I will ask a very simple question. Is the parliament competent to amend article 8 and article 20.”

ترجمہ : میں ایک بہت سادہ سوال پوچھوں گا؟ کیا پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ آئین کی آٹھویں اور بیسویں شق میں ترمیم کردے۔

اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا: ’’کانسٹی ٹیوشن کیا کہتا ہے؟‘‘

اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا:

"Yes, by two-thirds majority they can amend; through a particular procedure they can amend. I am not saying… I am coming to that ….but I am just suggesting a simple proposition.”

’’ ہاں، دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ اس میں ترمیم کرسکتے ہیں۔ میں نہیں کہہ رہا…۔میں اس کی طرف آ رہا ہوں…لیکن میں صرف ایک سادہ رائے پیش کر رہا ہوں۔‘‘

پہلے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس رائے کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار حاصل ہے لیکن پھر اگلے فقروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس رائے کے بارے میں پُر اعتماد نہیں تھے۔ اس پر حضرت امام جماعتِ احمدیہ نے فرمایا: ’’…یہ نیشنل اسمبلی ، یہ سپریم لیجسلیٹو باڈی ہے اور اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں ، سوائے ان پابندیوں کے جو یہ خود اپنے اوپر عائد کرے۔‘‘

اس پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے کہا:

"I appreciate that they should not do it, they ought not to do it; But they are legally competent to do it, to repeal Article 20 and to repeal article 8 or any other provision.”

ترجمہ: میں یہ جانتا ہوں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے مگر انہیں قانون کی رو سے اس کا اختیار ہے کہ وہ آئین کی شق بیس اور آٹھ کو منسوخ کردیں۔

حضرت امام جماعت احمدیہ : …۔وہ تو میں نے بھی یہ کہا ہے ناں کہ اس کی سپریم لیجسلیٹو باڈی کی حیثیت ہے۔ ان کے اوپر کوئی ایجنسی نہیں ہے جو پابندی لگا سکے۔لیکن کچھ پابندیاں اس سپریم لیجسلیٹو باڈی نے خود اپنے پہ لگائی ہیں۔

Yahya Bakhtiar: With that I agree

ترجمہ: میں اس سے متفق ہوں۔

Yayha Bakhtiar: Those are of political, religious nature, but not of constitutional nature.

ترجمہ: یہ (پابندیاں) سیاسی اور مذہبی نوعیت کی ہیں لیکن آئینی نہیں ہیں۔(کارروائی صفحہ ۳۶تا۴۰)

سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے مندرجہ بالا حصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم قانونی اور آئینی سوال کے بارے خود اٹارنی جنرل صاحب کا ذہن واضح نہیں تھا۔ ایک سے زائد مرتبہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے نزدیک پاکستان کی پارلیمنٹ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ آئین میں جس طرح چاہے تبدیلی کرے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں ، خواہ یہ پارلیمنٹ آئین میں دیے گئے تمام بنیادی انسانی حقوق کوترمیم کر کے منسوخ کر دے۔ اور ایک ایسا آئین بنا دے جس میں کسی قسم کے انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہ دی گئی ہو۔لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ وہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے نظریہ سے متفق ہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے اوپر خود یہ پابندی لگائی ہے کہ جن بنیادی انسانی حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، ان میں کوئی کمی بھی نہیں کر سکتی۔

ممبران اسمبلی کی رائے اور تضادات

اپنی تقاریر میں مختلف ممبران نے اس مسئلہ پر اپنی آراء کا اظہار کیاکہ آیا پاکستان کی پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اس قسم کا فیصلہ کرے۔مولوی عبد الحکیم صاحب نے جماعت احمدیہ کے موقف کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا : ’’یہی پہلا اور بنیادی فرق ہے جو مرزائیوں اور مسلمانوں میں ہے۔مسلمان اپنے فیصلے صرف قرآن اور شریعت کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسی کو قانونِ زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔مگر مرزائی اقوام متحدہ کو دیکھتے ہیں۔کبھی عالمی انجمنوں کو اور کبھی انسان کے بنائے ہوئے دستور اور قانون کو ہم تو تمام امور میں صرف دین اور اس کے فیصلے دیکھتے ہیں۔‘‘(کارروائی صفحہ ۲۳۴۹)

مولوی عبد الحکیم صاحب کا موقف تھا کہ خواہ ایک ترمیم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے خلاف ہو ، خواہ آئین پاکستان میں اس قسم کی ترمیم کرنے پر پابندی ہو، پارلیمنٹ اس لیے اس ترمیم کو منظور کرنے کی مجاز ہے کیونکہ اس کے نزدیک دینی طور پر یہ فیصلہ درست ہے۔

تمام تر کارروائی جب اختتام پر پہنچ رہی تھی تو مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے ایک اور نظریہ پیش کیا۔ جب ۳؍ستمبر کو انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو کہا: ’’محضرنامے میں دونوں طرف سے اس طرح کے سوال کئے گئے ہیں کہ کیا پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو یہ اختیار ہے یا نہیں ہے۔یہ نہایت اہانت آمیز اور اشتعال انگیز سوال ہے۔…‘‘

اس آغاز سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کو بالکل یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ایک فرقہ یا ایک گروہ کو کس مذہب کی طرف منسوب ہونا چاہیے۔ لیکن پھر چند لمحوں میں ہی انہوں نے نہ صرف اپنے اس بیان کا بلکہ قومی اسمبلی کی تمام کارروائی کا رد کر دیا۔ انہوں نے کہا: ’’میرے پاس شایداورممبران کے پاس بھی بہت سے خطوط ایسے آئے ہوں گے جن میں یہ کہا گیا کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ آپ اسمبلی کو دینی معاملات میں فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیںکہ کون مسلمان ہے کون مسلمان نہیں ہے۔کل وہ کہیں گے سود جائز ہے یا ناجائز ہے۔حالانکہ میرے نزدیک مسئلہ کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ میں بھی اسمبلی کو دارالافتاء کی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوں۔ اور نہ یہ اسمبلی ایسے ارکان پر مشتمل ہے جنہیں فتویٰ دینے کا مجاز ٹھہرایا جائے۔لیکن یہاں فتویٰ دینے کی بات نہیں ہے ہمارے فتویٰ دینے یا نہ دینے سے اس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم آج کہہ رہے ہیں کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا چاہیے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج تک وہ غیر مسلم نہیں تھے ، مسلمان تھے۔‘‘(کارروائی صفحہ۲۸۷۴۔۲۸۷۵)

مندرجہ بالا عبارت ظاہر کر رہی ہے کہ خود ظفر احمد انصاری صاحب کے نزدیک پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے افراد پر مشتمل نہیں تھی جو کہ اس قسم کے معاملات پر فیصلہ کر سکے۔ اور ان کے نزدیک کسی بھی اسمبلی کو اس قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اور جماعت احمدیہ نے بالکل یہی موقف پیش کیا تھا جسے چند لمحے پہلے ظفر احمد انصاری صاحب اہانت آمیز اور اشتعال انگیز قرار دے رہے تھے۔

کارروائی کا مقصد کیا تھا؟

معلوم ہوتا ہے کہ کارروائی کے آخر تک خود ممبران اسمبلی اس بات کو بھول چکے تھے کہ یہ سپیشل کمیٹی کس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اور قانونی طور پر وہ اسی موضوع پر کام کرنے کی پابند تھی جو کہ قومی اسمبلی نے اس کے لیے مقرر کیا تھا۔۳؍ستمبر کو سپیشل کمیٹی کی کارروائی کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔اس روز کمیٹی میں یہ گفتگو ہوئی: ’’مولانا محمد ظفر احمدانصاری:شاید مولانا صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔یہ مسئلہ ہے ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان کی دستوری اور قانونی حیثیت کو کس طریق پر واضح کریں۔

جناب چیئر مین: یہی تو میں نے کوریجہ صاحب کو کہا تھا کہ ان کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا کچھ ہم کر سکتے ہیں، کیا ہمیں سفارش کرنی چاہیے۔

مولانا عبد الحق :اچھا جی۔تو گزارش میری یہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ جو ہے یہ مسئلہ تو ہمارے آئین میں طےشدہ ہے کہ مسلمان وہ ہو سکتا ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ حضرت محمدﷺ آخری نبی ہیں اور اس کے بعد کوئی بروزی ظلی نبی نہیں آسکتا۔‘‘(کارروائی صفحہ۲۹۱۶۔۲۹۱۷)

جہاں تک مولوی عبد الحق صاحب کے نکتہ کا تعلق ہے تو اس کو پڑھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اور بہت سے اور ممبران اسمبلی کا ذہن آئین کے مندرجات کے بارے میں واضح نہیں تھا۔اس وقت تک پاکستان کے آئین کی جو شکل تھی اس میں اس قسم کی کوئی بات نہیں لکھی تھی جس کا دعویٰ مولوی عبد الحق صاحب کر رہے تھے۔آئین کی جس شق میں غیر مسلم اقلیتوں کے نام لکھے تھے۔اس شق میں۱۹۷۳ء کے اصل آئین میں احمدیوں کا نام درج نہیں تھا۔

یہاں یہ یاد دلاتے جائیں کہ یہ کارروائی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی تھی اور یہ سپیشل کمیٹی قانوناََ اس موضوع پر کارروائی کرنے کی پابند تھی جو کہ قومی اسمبلی نے اس کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور موضوع یہ تھا کہ اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو کہ آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا۔ اس سوال کو حل کیے بغیر کسی قانونی اور دستوری حیثیت کو واضح کرنے کا مرحلہ نہیں آ سکتا تھا۔ لیکن آخر میں سپیشل کمیٹی کے چیئرمین سمیت دوسرے ممبران نے اس بات سے واضح انکار کر دیا تھا کہ وہ اس موضوع پر کارروائی نہیں کر رہے۔دوسرے الفاظ میں اس کارروائی کے آخر تک ممبران خود بھی یہ بھول چکے تھے کہ انہوں نے اس سپیشل کمیٹی کے لیے کیا کام طے کیا تھا۔

بھٹو صاحب تضادات کا شکار ہوتے ہیں

۵؍ اگست کے روز سوال و جواب کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ آئین میں مذہبی آزادی کی جو شقیں ہیں ، ان سے قبل یہ لکھا ہے

Subject to law, public order and morality

یہ آزادی قانون ، امن عامہ کے تقاضوں اور اخلاقی حدود کے اندر ہوگی۔اور یہ بحث اُٹھائی تھی کہ اگر قانون سازی کرکے کسی گروہ کی مذہبی آزادی کو سلب کر لیا جائے یا محدود کر دیا جائے تو پھر آئین کی مذکورہ شق اس راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ آئین پاکستان کا CHAPTER 1جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا جو کہ ان بنیادی انسانی حقوق میں کمی کر سکے۔ لیکن اس کے با وجود اٹارنی جنرل صاحب نے خوفناک نظریہ پیش کیا تھا کہ پارلیمنٹ اگر چاہے تو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میںبنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا کہ ایسا آئین ملک پر مسلط کیا جا سکتا ہے جس میں تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کر لیے گئے ہوں۔یعنی کہ جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے تو کسی کو اپنے مذہب کو profess, practice اور propagateکرنے کی اجازت نہ ہو۔

۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ءکو بھٹو صاحب نے اس ترمیم کی منظوری سے بالکل قبل اپنی تقریر میں یہ نظریہ پیش کیا

"Every Pakistani has a right to profess his religion, his caste and his sect proudly and with confidence, and this guarantee the Constitution of Pakistan gives to citizens of Pakistan.” (The National Assembly Of Pakiatsan, Debates, Official Report, Saturday, 7th September, 1974 p 567)

ترجمہ: ہرپا کستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اعلان کرے، اپنی ذات کا اعلان کرے اور اپنے فرقے کا اعلان فخر کے ساتھ اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی خوف کے کرےاور پاکستان کا آئین پاکستان کے شہریوں کو یہ حق دیتا ہے۔

یہاں وہ اپنی تقریر میں خود مجوزہ ترمیم کی نفی کر رہے تھے۔ اگر قانون اور آئین کی اغراض کے لیے احمدی مسلمانوں کو غیر مسلم شمار کیا جائے گا تو سرکاری کاغذوں میں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں لکھ سکیں گے جبکہ وہ یہ اعلان کر چکے تھے کہ اسلام کے علاوہ ان کا کوئی اور مذہب نہیں ہے۔تو پھر یہ کس طرح دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ مذہبی آزادی مجروح نہیں ہوئی اور انہیں اپنے مذہب کا اعلان کرنے کی مکمل آزادی ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی منشور

مندرجہ بالا حقائق اس بات کو بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اراکین کا ذہن اس قسم کے بنیادی سوالات کے بارے میں واضح نہیں تھا۔اور وہ سوالات کیا تھے؟

۱۔کیا پاکستان با وجود اس کے کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور پر دستخط کر چکا ہے، اس کے خلاف قانون سازی کر سکتا ہے؟

۲۔ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیرمحدود حق ہے۔یا اس کی کوئی حدود بھی ہیں جن سے اگر تجاوز کیا جائے تو اس ترمیم کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔

۳۔کیا پارلیمنٹ کسی گروہ کی مذہبی آزادی میں کمی کر سکتی ہے یا اس کو مکمل طور پر سلب کر سکتی ہے۔

۴۔ کیا آئین میں دوسری ترمیم سے احمدیوں کی وہ مذہبی آزادی جس کی ضمانت آئین پاکستان میں دی گئی تھی متاثر ہوئی تھی کہ نہیں؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ’’ انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کیا ہے؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟ کیا پاکستان نے اس کو قبول کیا تھا؟ اس منشور کا پس منظر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو منظور کیا تھا۔ اور ابتدا میں اسے منظور کرنے والوں اور دستخط کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل تھا۔اس کی تمہید کے کچھ حصے پیش کیے جاتے ہیں۔

’’عام انسانوں کی یہ آرزو رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدہ پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں۔…

چونکہ ممبر ملکوں نے یہ عہد کرلیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اشتراک عمل سے ساری دنیا میں اصولاََ اور عملاََ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کرائیں گے۔‘‘

اور اس منشور کی دفعہ ۱۸ یہ ہے:’’ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق ہے۔اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک میں یا نجی طور پر، تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل جل کر عقیدے کی تبلیغ، عمل ، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔‘‘

پاکستان نے اسی وقت اس منشور پر اور اس کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر دستخط کیے تھے۔ اور بغیر کسی جبر کے کیے تھے۔جیسا کہ اس کی تمہید کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اس منشور کو ایک بین الاقوامی عہد کی حیثیت حاصل تھی۔اب پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کے سامنے مولوی عبد الحکیم صاحب یہ انوکھا نظریہ پیش کر رہے تھے کہ احمدی اقوام متحدہ کے منشور کی طرف دیکھتے ہیںاور ہم اس کی طرف نہیں دیکھتے۔ہم صرف اسلام کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر ان کے نزدیک یہ منشور اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں تھا تو پھر پاکستان نے اس پر دستخط کیوں کیے تھے؟ یا اب تک اس سے علیحدگی کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ یہاں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ معاہدات کی پاسداری کے بارے میں اسلامی تعلیم کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ …اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جب وہ عہد باندھتے ہیں اور تکلیفوں اور دکھوں کے دوران صبر کرنے والے ہیں اور جنگ کے دوران بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق اختیار کیا اور یہی ہیں جو متقی ہیں۔‘‘(البقرۃ۔آیت ۱۷۸)

’’…اور عہد کو پورا کرو یقیناََ عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔‘‘(بنی اسرائیل آیت:۳۵)

’’ہاں، کیوں نہیں ! جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو اللہ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے۔‘‘(آلِ عمران ، آیت :۷۷)

اور اللہ تعالیٰ مومنوں کی یہ نشانی بیان فرماتا ہے: ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں۔‘‘ (مومنون ، آیت: ۹)

’’اور وہ لوگ اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس کرنے والے ہیں۔‘‘( المعارج ،آیت: ۳۳)

تو قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے عہد کا نہ صرف پاس کرنا ہے بلکہ اس کی حفاظت کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں سوال کرے گا۔لیکن مولوی عبدالحکیم صاحب کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ پاکستان نے عالمی سطح پر ایک عہد کیا تھا۔ہر انصاف پسند اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مولوی عبد الحکیم صاحب کے نظریات اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے۔اور یہ بات نا قابل فہم ہے کہ مولوی عبد الحکیم صاحب نے اور ان کے ہمنوا گروپ نے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کر لیا تھا کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے نکات اسلام سے متصادم تھے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام سب سے زیادہ انسانی حقوق اور آزادی ٔضمیر کی حفاظت کرتا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی منشور اور حضرت سرچودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ

یہ دلچسپ حقیقت قابل ذکر ہے کہ جب جنرل اسمبلی میں یہ منشور منظور کیا گیا تو اس وقت ایک احمدی ہی پاکستانی وفد کی صدارت کر رہے تھے۔ اور وہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ حضرت چودھری سرظفر اللہ خان صاحبؓ تھے۔اور یہ اعزاز حضرت چودھری صاحبؓ کے حصے میں آیا تھا کہ انہوں نے اس موقع پر جنرل اسمبلی میں مکمل مذہبی آزادی کے حق میں سب سے زیادہ زوردار اظہارِ خیال کیا تھا اور قرآن کریم کی آیت کریمہ سے ثابت کیا تھا کہ قرآن کریم مذہب کے معاملہ میں بغیرکسی جبر کے مکمل آزادی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم انسان کو مذہب کی تبدیلی کا بھی حق دیتا ہے۔اور اس موقع پر حضرت چودھری صاحبؓ نے یہ آیت کریمہ پیش کی تھی۔’’…اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو۔پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے…‘‘(الکہف: ۳۰)

کسی اَور مندوب نے اس موقع پر انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی مقدس مذہبی کتاب کا حوالہ پیش نہیں کیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں اس بحث کے دوران مصر کے نمائندے نے مذہبی آزادی کے حوالے سے تبدیلی مذہب کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا تھا۔اور اس بارے میں انہوں نے اپنی رائے کی بنیاد کسی قرآنی آیت کو نہیں بنایا تھا بلکہ اپنے اس خیال کو بنایا تھا کہ جب کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو اکثر اوقات ایسا قدم نامناسب خارجی اثرات یا دبائو کی وجہ سے اُٹھایا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت پھسپھسی دلیل تھی۔ یہ ہر حکومت کا کام ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر شخص کو ہر طرح ضمیر اور رائے کی آزادی حاصل ہو۔اگر یہ آزادی حاصل ہو گی تو کون سے نامناسب خارجی عوامل تبدیلی مذہب پر مجبور کر سکیں گے؟ پھر تو یہ دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ خارجی عوامل بعض انسانوں کے سیاسی خیالات پر بھی نظر انداز ہو سکتے ہیں۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کلیہ کی رو سے سیاسی خیالات کی آزادی بھی حاصل نہیں ہونی چاہیے۔اور اگر تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تو پھر اس نظریہ کی رو سے گذشتہ چودہ سو سال میں بے شمار ملکوں میں کروڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے بلکہ اب تک اسلام قبول کر رہے ہیں ،ان پر بھی یہ الزام آسکتا ہے کہ انہوں نے نامناسب خارجی عوامل کی بنا پر اپنا سابقہ مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس منطق کو عقل قبول نہیں کر سکتی۔(کارروائی جنرل اسمبلی ، ۱۰؍دسمبر ۱۹۴۸ء صفحہ۸۸۹ا، ۱۸۹۱، ۹۱۲۔۹۱۳)

اس موقع پر اور اس منشور کی تیاری کے مراحل کے موقع پر جو بحث ہوئی اور چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے جو موقف اختیار کیا، اس کا ذکر علمی حلقوں میں اب تک کیا جاتا ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس منشور کی منظوری کے موقع پر سعودی عرب نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔بلکہ غیرجانبدار رہا تھا۔اور اس کی تیاری کے مراحل کے دوران سعودی عرب کی طرف سے اس شق کی مخالفت کی گئی تھی کہ ہر شخص کو مذہب کی تبدیلی کا حق بھی ہے۔وہاں ایک اَور مسلمان مندوب محمد حبیب صاحب بھی موجود تھے جو کہ ہندوستانی وفد میں شامل تھے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگرسعودی تجویز کو مان لیا گیا تو یہ ایک سانحہ ہو گا۔اس موقع پر پاکستانی وفد نے جس کی قیادت حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کر رہے تھے اس موقف کا اظہار کیاکہ ان کا وفد تبدیلی مذہب کے حق کو محفوظ کرنے کی حمایت اسلام کی عزت کی حفاظت کے لیے کر رہا ہے۔اس حوالے سے اب بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے اس موقف کے حق میں اتنے واضح طریق پر دلیری کے ساتھ جو آواز اُٹھائی تھی اس کی کیا وجہ ہے۔ اور اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ کہ چودھری صاحب پر احمدیت کا اثر ہے اور دوسری وجہ یہ بیان کی تھی کہ ان کے خیالات بانیِٔ پاکستان محمد علی جناح سے متاثر تھے۔

(Universal Human Rights: The contribution of Muslim states, by Susan Waltz, Human Rights Quarterly Vol. 26 p 813-819)

پارلیمنٹ کی اختیارات کی حدود

اب ہم دوسرے سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے۔ دوسری آئینی ترمیم کی بحث سے قطع نظراس بارے میں پوری دنیا میں قانونی اور آئینی بحثیں ہوتی آئی ہیں اور اب تک ہو رہی ہیں۔ ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پارلیمنٹ یا قانون ساز ادارے کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہوتا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کوئی غلط ترمیم کرے تو یہ ترمیم غلط تو ہو گی لیکن اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اسے ختم کرنا ہے تو صرف پارلیمنٹ ہی اسے ختم کر سکتی ہے۔ دوسرا گروہ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔مثلاََ پارلیمنٹ کسی ترمیم کے ذریعہ بنیادی انسانی حقوق سلب نہیں کر سکتی۔پارلیمنٹ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ختم نہیں کرسکتی۔ اور اگر پارلیمنٹ ایسا قدم اُٹھائے تو ملک کی اعلیٰ عدالت اس ترمیم کو ختم کر سکتی ہے۔سوال و جواب کے مرحلہ کے دوران یحییٰ بختیار صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ترمیم کا غیر محدود اختیار ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ چاہے تو آئین میں اس باب کو بھی ختم کر سکتی ہے کہ آئین میں جن انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے؟ کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ دو تہائی کی اکثریت سے آئین میں کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہیں؟ یا ان کے اختیار کی کوئی حدود ہیں۔ اس سوال کا تعلق صرف پاکستانی آئین کی دوسری ترمیم سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث ہو تی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ میںاگست ۲۰۱۵ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر ضروری ہے۔ جب پاکستان کے آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی اور اس کے تحت ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو سپریم کورٹ میں اس کے خلاف بہت سی درخواستیں درج کرائی گئیں۔ ان میں سے کئی درخواستیں بہت سی وکلاء تنظیموں کی طرف سے تھیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے جب فیصلہ سنایا تو جہاں ایک طرف یہ ترمیم برقرار رکھی گئی وہاں فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار حاصل نہیں ہے۔ اور آئین میں ترمیم کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں عدالتِ عظمیٰ آئین میں ترمیم کو ختم کر سکتی ہے۔

اس فیصلہ میں لکھا گیا:

Therefore, it can be stated unequivocally that Parliament does not have unbridled or unfettered power to amend the Constitution, and if an amendment is made the Supreme Court has the jurisdiction to examine it and, if necessary, strike down the offending whole or part thereof. The Supreme Court exercises this power not because it seeks to undermine Parliament or travel beyond its domain, but because the Constitution itself has granted it such power. The Supreme Court’s power of judicial review cannot be negated in any manner whatsoever because it is provided in the original 1973 Constitution and in its Preamble.

فیصلہ کے اس حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ آئین میں ہونے والی کسی ترمیم کا جائزہ لے یا اسے منسوخ کردے۔اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے یا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا چاہ رہی ہے بلکہ خود آئین نے اسے یہ اختیار دیا ہے۔اور یہ اختیار اس سے اس لیے واپس نہیں لیا جا سکتا کیونکہ یہ اختیار ۱۹۷۳ء کے اصل آئین میں اور آئین کی تمہید میں دیا گیا ہے۔

اس مقدمہ میںاس وقت کے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ دلیل پیش کی کہ آئین کے آرٹیکل ۲۳۹ میں یہ واضح کیا گیا ہے

No amendment to the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatsoever..

یعنی آئین میں کسی ترمیم کو کسی عدالت میں کسی وجہ سے بھی چیلنج نہیں کیا جائے گا۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے جس آرٹیکل میں کسی معاملہ کو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا گیا ہے وہاں یہ درج کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں سماعت نہیں کیا جا سکتا لیکن آرٹیکل ۲۳۹ میں جہاں’’ کسی بھی عدالت‘‘ کے الفاظ ہیں وہاں ان حدود کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا۔(عدالتی فیصلہ صفحہ ۸۵۳تا۸۵۶) سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کی نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۲۳۹ کا مذکورہ حصہ جس کا حوالہ اٹارنی جنرل صاحب دے رہے تھے، ۱۹۷۳ء کے اصل آئین میں موجود نہیں تھا بلکہ جنرل ضیاء الحق صاحب نے اسے آئین میں شامل کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ نے مجبوری کی حالت میں اس کی منظوری دی تھی کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو طویل تعطل کے بعد مشکل سے جو جزوی جمہوری عمل شروع ہوا تھا وہ بھی ختم کر دیا جاتا۔

بھارت اور بنگلہ دیش کی عدالتوں کے فیصلے

۱۹۷۶ء میں بھارت کی پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل ۳۶۸ میں ایک ترمیم کی۔اس ترمیم کے شروع میں یہ ذکر ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں جو بھی ترمیم کرے اسے کسی بھی بنیاد پر کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور آخری حصہ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار موجود ہے۔ اور پارلیمنٹ جس طرح چاہے آئین میں اضافہ یا ترمیم کر سکتی ہے یا اس کی کسی شق کو ختم کر سکتی ہے۔یہ بات اہم ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ میں آئین کی اس شق کو ختم کر دیا تھا۔بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ آرٹیکل ۳۶۸ میں شق پانچ کا اضافہ پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس لیے غیر آئینی ہے۔یہ ان ستونوں کو تباہ کردیتا ہے جس پر آئین کی تمہید قائم ہے کیونکہ یہ شق پارلیمنٹ کو ایسا آئینی اختیار دے دیتی ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں۔کوئی آئینی اختیار اس اختیار سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں آئین کی دفعات کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے، جمہوریت کو ختم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔یعنی اس کے ذریعہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو معاشی، اقتصادی اور سیاسی انصاف سے محروم کر دیا جائے۔سوچ، اظہار، عقیدے، ایمان اور مذہب کی آزادی کو غیر مؤثر کر دیا جائے۔اس عظیم مقصد کو ترک کر دیا جائے کہ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جائے گاجس میں سب برابر کے شہری ہوں۔ یہ آئین میں ترمیم کر نے کا اختیار نہیں بلکہ اسے تباہ کرنے کا اختیار ہے۔چونکہ آئین پارلیمنٹ کو ترمیم کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ اس محدود اختیار کا استعمال کر کے اسے اس میں اضافہ کر کے غیر محدود نہیں بنا سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا آئین پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے۔ ان حدود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے لفظوں میں پارلیمنٹ آرٹیکل ۳۶۸ کے تحت اپنے اختیارات کو وسیع کر کے آئین کو منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں کر سکتی۔یا اس کے بنیادی خدو خال کو ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں کر سکتی۔محدود اختیارات کا حامل ان اختیارات کو غیر محدود بنانے کا حق نہیں رکھتا۔بھارت کا آئین ریاست کے تین حصوں یعنی انتظامیہ،مقننہ اور عدلیہ کے درمیان ایک عمدہ توازن پر قائم کیا گیا ہے۔یہ ججوں کا صرف کام نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ قوانین کے جواز کے متعلق سماعت کریں اگر عدالتوں کا یہ اختیار ختم کر دیا جائے تو آئین میں بنیادی حقوق صرف ایک سجاوٹ کی چیز بن جائیں گے۔کیونکہ ایسے حقوق جن کے پامال ہونے کی صورت میں چارہ جوئی کا کوئی راستہ نہ ہو پانی پر لکیر ثابت ہوتے ہیں۔

اسی طرح بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے بعد جو فیصلہ دیا اس میں لکھا:

Basic structural pillars of the Constitution cannot be changed by amendment.

ترجمہ: آئین کے بنیادی ستونوں کو ترمیم کے ذریعہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

(Anwar Hossain Chowdhury Vs. Bangladesh, 1989, 18 CLC (AD))

اس موضوع پر بہت سی بحثیں ہو چکی ہیں اور اب بھی یہ بحث جاری ہے لیکن یہ امر قابل توجہ ہے کہ برصغیر کے تینوں پارلیمانی ممالک کی سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔

کچھ تاریخی انتباہ

اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کس طرح اس ترمیم کی وجہ سے پاکستان انتشار، افتراق اور فرقہ واریت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور کس طرح لاکھوں معصوم جانیں اس ظالم عفریت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ ۱۹۷۴ء میں اس کارروائی کے موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے محضرنامہ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا ظالمانہ قدم اٹھایا تو اس سے فتنوں کے بے شمار راستے کھل جائیں گے۔

’’ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا صورتیں عقلاً قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور بشمول پاکستان دنیا کے مختلف ممالک میں ان گنت فسادات اور خرابیوں کی راہ کھولنے کا موجب ہوجائیں گی‘‘(محضرنامہ، ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ، صفحہ۵)

یہ صرف جماعت احمدیہ کا ہی موقف نہ تھا بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے صاحب دانش افراد بھی اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ اس طرح کی کارروائیاں جس میں کہ سیاسی اداروں کو مذہبی فیصلے کرنے کا اختیار ملے گا تو اس کے کسی طرح بھی اچھے نتائج ظاہر نہیں ہونگے۔ چنانچہ ضلع جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک زیرک اور دور اندیش ممبر پنجاب اسمبلی خان نوازش علی خان نے اپنی مادری پنجابی زبان میں نہایت سادہ انداز میں احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے مختلف نقصانات گنوائے اور اپنے ساتھی ممبروں کو تنبیہ کی کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس کے نہایت خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:’’ڈوجھا جیھڑا غور کرن والا مسئلہ ہے۔ اوہ اے ہے کہ ہر آدمی اھدا ہے اناں مرزائیاں کوں اقلیت قرار ڈیو۔ میں انھاں دے خلاف ہاں۔ بھئی اھدن مرزائیاں نوں کڈھو۔ دھمی شیعاں نوں چا کڈھو۔ جھیڑ ویلے شیعا نکل گئے۔ مڑ بریلویاں کوں چا کڈھو۔ مڑ وھابیاں کوں چا کڈھو۔ مڑ سنیاں کوں چا کڈھو۔ سنیاں دے وی کئی فرقے ھن قبلہ۔ جے کر انھاں دے فرقے چا گنڑوں تاں پندرھاں پندرھاں بندے باقی رھندن۔‘‘

یعنی دوسرا نہایت اہم مسئلہ یہ ہے کہ آج کل ہر شخص یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ ان( احمدیوں) کو اقلیت قرار دے دیا جائے، کیونکہ میں ان کے خلاف ہوں۔ آج (احمدیوں) کو نکالا جائے گا کل شیعوں کے متعلق کہا جائے گا انہیں بھی نکالا جائے۔ پھر جب شیعہ نکل جائیں گے تو بریلویوں کے متعلق کہا جائے گا کہ انہیں بھی نکالا جائے۔پھر(اہل حدیث) کے متعلق کہا جائے گا اور پھر سنیوں کے متعلق بھی کہا جائے گا کہ انہیں بھی نکالا جائے۔ سنیوں کے مزید کئی فرقے ہیں اوراگر ان فرقوں کو بھی نکال دیا گیاتو پھر پندرہ بندے باقی بچ جائیں گے۔ (کارروائی پنجاب اسمبلی،۱۴جون ۱۹۷۴ء صفحہ نمبر۱۹۶۳)

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا’’ایس توں بعد قبلہ مرزائیاں دا مسئلہ اے میری عقل ایہہ نہیں مندی کہ اگر حکومت تگڑی ہوے تو کامیاب ہوے تو اوہناں نوں اقلیت قار دتا جائے۔ بالکل نہیں دینا چاہی دا۔ بھانویں لوگ میرے ایس بیان نال ناراض ہون یا میرے نال اتفاق کرن کیونکہ ایتھے اک فرقہ نہیں۔ میں شیعہ ہاں کل نوں کہن گت شیعاں نوں وی اقلیت قرار دیو۔ بریلویاں نوں وی دیو۔ چکرالویاں نوں وی دیو۔ تے ایس طرح تے صرف اسمبلی دا ہال ای رہ جائے گا باقی سارے باہر چلے جان گے۔ اک اک کرکے ساریاں نوں کڈھ دیو تے باقی کیہہ رہ جائے گا۔‘‘

’’ایہہ مولویاںدا جھگڑا اے۔ ساہنوں ایھدی بحث وچ نہیں پیناں چاہی دا۔ ایہہ حکومت دا کم نہیں۔ ایہہ سیاست دی چیز نہیں۔‘‘(کارروائی پنجاب اسمبلی،25؍جون 1974ء صفحہ نمبر 2865)

احمدیوں کو بالکل اقلیت قرار نہیں دینا چاہیے۔ بےشک لوگ میرے اس بیان سے اتفاق کریں یا پھر ناراض ہوں کیونکہ یہاں ایک فرقہ نہیں ہے۔ میں شیعہ ہوں کل کلاں کہا جائے گا کہ شیعوں کو بھی اقلیت قرار دیا جائے۔ بریلویوں کو بھی اقلیت قرار دیا جائے۔ چکڑالویوں کو بھی اقلیت قرار دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر اسمبلی کا ہال ہی بچ جائے گا باقی تمام لوگ باہر نکل جائیں گے۔ اگر ایک ایک کر کے سب کو نکال دیا تو پھر باقی کیا بچے گا؟

یہ مولویوں کا اٹھایا ہوا جھگڑا ہے۔ ہم سب کو اس بحث میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حکومت کا کام نہیں اور نہ یہ سیاست کرنے کی چیز ہے۔(کارروائی پنجاب اسمبلی،25؍جون 1974ء صفحہ نمبر 2866)

چنانچہ حالات نے ثابت کیا کہ اس وقت کے امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ نے نہایت درد کے ساتھ جن اندیشوں کا اظہار فرمایا تھا وہ لفظ بلفظ سچ ثابت ہوئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امام جماعت احمدیہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فراست اور بصیرت سے مستقبل میں پیش آنے والے ان خطرات کا مشاہدہ کر رہے تھے لیکن اسمبلی میں بیٹھے ان بصیرت سے عاری افرادسے یہ باتیں اوجھل تھیں۔

دوسری آئینی ترمیم کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟

کیا اس فیصلہ کے بعد پاکستان میں مذہبی روداری اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوا یا اس فیصلہ کے بعد ملک عدم برداشت، تعصب اور باہمی اختلافات کا نشانہ بنتا رہا۔ پڑھنے والے اس بات سے اتفاق کریں گے کہ گذشتہ پچاس سالوں میں پاکستان بری طرح مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا نشانہ بنا۔اس مضمون میں اس بات کے دلائل درج کرنے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اس کے بعد ملک کا سیاسی ڈھانچہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہا۔اس فیصلہ کو ڈھائی سال ہی گذرے تھے کہ جن مولوی حضرات کو خوش کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے احمدیوں کے خلاف یہ فیصلہ کیا تھا، انہوں نے ہی ان کے خلاف ایک ملک گیر مہم چلائی۔اس کی آڑ میں جنرل ضیاء الحق صاحب نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ہم سب یہ حقائق جانتے ہیں کہ اس کے بعد اسلام نافذ کرنے کا بہانہ بنا کر ضیاء صاحب نے ملک پر زبردستی گیارہ سال حکومت کی۔ اس دوران بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اور اس کے کئی دہائیوں بعد ملک کی سابق وزیر اعظم اور ان کی بیٹی بے نظیر صاحبہ بھی مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ اور ملک میں مذہبی تعصب کا وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہ پورا ملک ابھی تک اس کے آسیب سے جان نہیں چھڑا سکا۔

اس مرحلہ پر گذشتہ پچیس سال کے دوران کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ ۲۰۰۰ءسے لے کر اب تک ۶۸۰۰۰ پاکستانی دہشت گردی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔مذہبی دہشت گردہی کی بے شرمی ملاحظہ ہو کہ بہت سے اولیاء اللہ کے مزاروں کو بھی بموں کا نشانہ بنایا۔پشاور میں صرف ایک واقعہ میں سو سے زائد بچوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔یہ مصائب کیا کم تھے کہ سوات، بونیر اور سابق قبائلی علاقوں میں بغاوت کر کے وہاں پر مولوی حضرات نے اپنی سکھا شاہی قائم کی اور کئی سال ان علاقوں میں حکومت پاکستان کی عملداری ختم ہو گئی۔

ان المیوں نے کس کوکھ سے جنم لیا ؟ اس بارے میں بیسیوں ماہرین نے اپنی اپنی آرا شائع کی ہیں۔ میں ان میں سے صرف ایک مشہور مصنف کا تجزیہ پیش کرتا ہوں۔سید سلیم شہزاد مرحوم کی مشہور کتاب Inside Al-Qaeda and Taliban پوری دنیا میں شہرت پا چکی ہے۔اس کتاب میں مصنف نے اس بات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے کہ کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان کے شدت پسند مسلمانوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف اعلان جہاد کر دیا۔ پولیس کے سپاہیوں اور فوجیوں کے علاوہ ہزاروں نے بے گناہ شہریوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا۔ سید سلیم شہزاد لکھتے ہیں:

The conclusion arrived at by one strain of this debate is that barring small clusters in Muslim societies, the majority of the people who call themselves Muslims have in fact given up Islam. This has not come from purely academic debate or sectarian discussion of a particular clerical order, but is factually basis of Al-Qaida’s ideology which todays paradoxically aims at polarization of societies in the Muslim world .(Inside Al-Qaeda and the Taliban beyond Bin Laden and 9/11, by Syed Salim Shahzad, published by Pluto Press,2011,p 124)

ترجمہ: وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کے چند چھوٹے گروہوں کے علاوہ اکثر لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اسلام چھوڑ چکے ہیں۔یہ صرف کوئی نظریاتی یا فرقہ وارانہ بحث نہیں تھی جو کہ علماء کے ایک طبقہ کی طرف سے کی جا رہی تھی بلکہ حقیقت میں یہ القاعدہ کے نظریات کی بنیاد ہے۔اور تضاد یہ ہے کہ اس کا مقصد عالم اسلام میں اختلافات پیدا کرنا ہے۔

یہ چند سال کا قصہ نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی دردناک تاریخ ہے۔ پہلے تنگ نظر طبقہ نے حکومت کو استعمال کر کے احمدیوں سے تکفیر کے عمل کا آغاز کیا اور پھر آخر حصول اقتدار کے لیے نہ صرف اکثر مسلمانوں کو بلکہ حکومت اور عسکری اداروں کو کافر اور مرتد قرار دے کر بغاوت کا آغاز کر دیا۔

اس کے بعد سلیم شہزاد لکھتے ہیں کہ

That situation necessitated a strategy that would separate all newly popped up Islamic factions from statecraft and bring them under Al-Qaeda. Takfeer (declaring them apostate) was the best way in which to serve this cause. From the mid 1990’s carefully crafted literature was published and circulated .(Inside Al-Qaeda and the Taliban beyond Bin Laden and 9/11, by Syed Salim

Shahzad, published by Pluto Press,2011,p 134)

ترجمہ: صورت حال کا یہ تقاضا تھا کہ ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ مسلمانوں کے نئے ابھرنے والے گروہ ریاست سے دور رہیں اور انہیں القاعدہ کے ماتحت لایا جائے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ انہیں کافر قرار دے دیا جائے۔ ۱۹۹۰ء کے وسط کے بعد اس بارے میں مہارت سے تیار کردہ لٹریچر شائع کر کے پھیلایا گیا۔

اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مسلمان ممالک میں تعصب، تکفیر اور فرقہ واریت کی وبا اتنی پھیل چکی ہے کہ اس نے دنیا کا امن برباد کر دیا ہے۔اور اس دور میں اس کا آغاز جماعت احمدیہ کی مخالفت سے کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ نعرے لگائے گئے تھے کہ تمام فرقے احمدیوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ یہ سب گروہ ایک دوسرے کو کافر، مرتد، واجب القتل اور نہ جانے کیا کچھ قرار دے رہے تھے۔ اگر اس بیماری کا علاج کرنا ہے تو بیماری کی اصل بنیاد کو درست کرنا ہوگا۔ورنہ پچاس سال کے تلخ تجربات سب کے سامنے ہیں۔ اس مرحلہ پر یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیونکہ اب صرف کھونے اور مزید کھونے کے المیے سامنے نظر آ رہے ہیں۔

ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button