السلام علیکم کے آداب
موبائل فون کی گھنٹی کافی دیر سے بج رہی تھی ۔ دادی جان شایدنماز ادا کرنے سے پہلے فون سائیلنٹ کرنا بھول گئی تھیں۔ محمود میاں جوباہرکھیل رہے تھے گھنٹی کی آواز سن کرکمرے میں داخل ہوئے اور فون اٹھاتے ہوئے بولے۔ ہیلو کون بول رہا ہے؟ اسی دوران دادی جان نماز مکمل کر چکی تھیں۔ انہوں نے جائے نماز تہ کرتے ہوئے محمود میاں کو مخاطب کرکے کہا: یہ ہیلو کیا ہوتا ہے آپ السلام علیکم نہیں کہہ سکتے ؟
محمود فون پکڑاتے ہوئے: معذرت دادی جان۔ بس بے دھیانی میں خیال نہیں رہا۔
دادی جان: ٹھیک ہے۔ آپ میرا انتظار کریں میں آپ سے تفصیل سے بات کرتی ہوں ذرا فون سن لوں۔ دو تین منٹ کی گفتگو کے بعد جب فون بند ہوا تو دادی جان نے محمود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ہاں بھئی محمود میاں اب بتائیں آپ کو میری نصیحت دیر سے کیوں یاد آتی ہے؟بھلا یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے؟
محمود: دادی جان!آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔
دادی جان: شاباش۔ چلیں دیکھیں اگر احمد بھائی اور آپی کا ہوم ورک مکمل ہوگیا ہے تو انہیں بُلا لائیں آج میں اپنے بچوں کو السلام علیکم کی اہمیت کے بارے میں بتاتی ہوں تاکہ آپ کو علم ہوسکے کہ یہ کتنی پیاری اور ضروری دعا ہے۔
کچھ دیر میں تینوں بچے دادی جان کے پاس بیٹھ گئے۔
دادی جان: تو بچو! بات کچھ یوں ہے کہ ہمارا مذہب اسلام ہے جس کا مطلب ہی سلامتی ہے اور السلام علیکم کی دعا سے ہم ایک دوسرے کو سلامتی سے رہنے کی دعا دیتے ہیں۔ اور انسان کے اچھے اخلاق میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں سے اچھے طریق سے پیش آئے اور مسکراتے چہرے سے اُن کا استقبال کرے۔ پس اگر خوش دلی اورمسکراہٹ کے ساتھ ہر ایک کو امن اور خیر کی دعا دی جائے تو اس سے یقیناً آپس میں پیار اور محبت میں اضافہ ہوگا۔ انسانی فطرت کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے میل ملاقات کے وقت اپنے ماننے والوں کو السلام علیکم کہنے کی ہدایت کی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم جب تک ایمان نہیں لاؤ گے جنت میں داخل نہیں ہو گے، اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم آپس میں محبت قائم نہ کرو۔ نیز آپؐ نے فرمایا :کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جس سے آپس میں محبت پیدا ہو؟ صحابہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ (وہ ذریعہ یہ ہے کہ) تم آپس میں سلام کرنے میں پہل کرو۔
نبی کریمﷺ نے سلام کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق قراردیا ہے۔ پس ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب بھی اپنے کسی مسلمان بھائی سے ملے، وہ اُسے سلام کرے اور خیر وبرکت عطا کرنے والی اس دعا سے اُس کا استقبال کرے۔
آنحضورﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے اے لوگو! سلام کو رواج دو، لوگوں کو کھانا کھلاؤاور جب لوگ سوجائیں تواس وقت نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔
آپ ﷺ نہ صرف اس کی نصیحت کرتے تھے بلکہ آپ کا اپنا عملی نمونہ بھی یہی تھا۔ حضورؐ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی حُسن خلق سے پیش آتے تھے۔ بچوں کے پاس سے گزرتے۔ بچوں سے ملتے تو ہمیشہ انہیں سلام کرتے۔ حدیث میں آتا ہے، حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریمﷺ کے ہمراہ ہوتے اور اگر رستے میں چلتے ہوئے کوئی درخت ہمیں الگ کر دیتا (یعنی ہم چلے جا رہے ہیں اور بیچ میں کوئی درخت آ گیا) توجب دوبارہ آپس میں ملتے تو پھر ایک دوسرے کو سَلَام کہتے تھے۔
محمود:کیا نبی کریم ﷺ بچوں سے بھی سلام میں پہل کرتے تھے ؟
دادی جان: جی محمود میاں وہ تو ہر ایک سے سلام میں پہل کرتے تھے چاہے وہ کوئی بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ حضرت انس ؓ کے بارے میں روایت کیا گیا ہے کہ وہ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کیا کرتے تھے۔ بچے بازار میں کھیل رہے ہوتے اور آپؓ وہاں سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے اور فرماتے کہ نبی ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے یعنی جب آپ ﷺ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کیا کرتے تھے۔
احمد:دادی جان کیا آپ کو اس حوالے سے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی سیرت کا اور بھی کوئی واقعہ یاد ہے ؟
دادی جان: جی احمد بیٹا ایک دفعہ مدینہ کے کچھ بچے ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گئے تا وہ اچانک اپنے آقاؐ کو سلام کہہ کر پہل کریں۔ جونہی آنحضورﷺ تشریف لائے، آپؐ بھانپ گئے اور بلند آواز سے’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر پہل کی۔ ایک دفعہ حضرت انسؓ کو نصیحت فرمائی کہ اے بچے ! گھر میں جاؤ تو پہلے سلام کہا کرو۔ یہ تیرے اور تیرے گھر والوں کے لیے باعث برکت ہے۔
اور یہی سنت آپ ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعودؑ کی بھی تھی ۔ حضرت مسیح موعودؑ کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ حضورؑ اگر چند لمحوں کے لیے بھی جماعت سے اٹھ کر گھرجاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السلام علیکم کہتے۔
حافظ محمدابراہیم صاحب محلہ دارالفضل قادیان کہتے تھے کہ اکثر حضورؑ السلام علیکم پہلے کہا کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے بارے میں روایت ہے کہ آپؓ گھر میں تشریف لاتے تو بلند آواز سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے پھر جوں جوں گھر کے ایک ایک فرد سے ملاقات ہوتی ان کو الگ الگ بھی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے۔ بچوں سے مصافحہ کرتے، چھوٹے بچوں کو پیار سے اٹھا لیتے اور کافی دیر تک خاص محویت کے عالم میں خاموش صحن میں ٹہلتے رہتے اور لبوں پر دعائیں جاری ہوتیں۔
جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ ایک ضروری چیز یہ ہے کہ یہاں آنے والے ایک دوسرے کو سلام کرنے کو بھی رواج دیں، زیادہ سے زیادہ اس طرف کوشش کریں۔بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہمیں سکھائی گئی ہے۔ جب میزبان اور مہمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں توجہاں وہ ہر ایک قسم کے خوف اور فکر سے آزاد ہوتے ہیں وہاں یہ دعاایک دوسرے کو فیضیاب کرنے والی ہوتی ہے۔ پس اس طرف ان دنوں میں بہت توجہ دیں تاکہ ہم ہر طرف سلامتی، پیار اور محبت پھیلانے والے بن جائیں اور یہ ماحول خالصتاً للہ محبت اور بھائی چارے کا ماحول بن جائے۔
تو محمود میاں اب تو یاد رہے گا ناں کہ السلام علیکم کہنا ہے چاہے کسی کا فون ہی کیوں نہ ہو۔
محمود: جی دادی جان ان شاء اللہ میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
دادی جان: شاباش میرے بیٹے جیتے رہو۔
(درثمین آصف۔ جرمنی)