عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہےوہی حقیقی اسلام ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۳۰؍مارچ۲۰۱۲ء)
اس عقیدے کا اظہار فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے فانی ہے آپؑ نے واضح فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک انسان تھے، نبی اللہ تھے اور اس لحاظ سے اُن کی بھی ایک عمر کے بعد وفات ہوگئی۔ ہاں صلیبی موت سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچا لیا اور صلیب کے زخموں سے صحت یاب فرمایا اور پھر انہوں نے ہجرت کی اور کشمیر میں آپ کی وفات ہوئی۔ بہر حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے کے عقیدے کے بارے میں آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’مَیں حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ اور داخل موتیٰ ایماناً و یقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں۔ اور کیوں یقین نہ رکھوں جب کہ میرا مولیٰ، میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفّیوں کی جماعت میں داخل کرچکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چُپ ہوگیا۔ لہٰذا اُن کا زندہ بجسدہٖ العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رُو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیاتِ مسیح کو نصوص بیّنہ قطعیہ یقینیہ قرآن کریم کی رُو سے لغو اور باطل جانتا ہوں۔‘‘ (آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ 315)
یعنی قرآنِ کریم کی جو بڑی یقینی اور قطعی اور کھلی کھلی آیات ہیں، اُن کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فوت شدہ سمجھتا ہوں اور اُن کی حیات کے خیال کو لغو اور باطل سمجھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اعتقادی لحاظ سے تم میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ارکانِ اسلام کو ماننے کا اُن کا بھی دعویٰ ہے، تمہارا بھی ہے۔ ایمان کے جتنے رُکن ہیں، جس طرح ایک احمدی اُن پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے، دوسرے بھی منہ سے یہی دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ یہاں تک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد ایک طبقہ حضرت عیسیٰ کی وفات پر یقین کرنے لگ گیا ہے۔ پھر خونی مہدی کا جو نظریہ تھا کہ مہدی آئے گا اور قتل کرے گا اور اصلاح کرے گا، اُس کے بارے میں بھی نظریات بدل گئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ سے پہلا جمعہ جو گزرا ہے، جس میں مَیں نے صحابہؓ کے واقعات سنائے تھے۔ اُن میں ایک صحابی نے جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے پوچھا کہ آپ نے خونی مہدی کا انکار کیا ہے اور لوگوں کو آپ کچھ کہتے ہیں، ویسے سنا ہے انکار کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب یہ کہتے ہیں کہ خونی مہدی کوئی نہیں آئے گا تو اس پر آپ اعتراض کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ جاؤ، تم نے مرزا صاحب کی بیعت کرنی ہے تو کرو۔ اس چکر میں نہ پڑو۔ جو میرا نظریہ تھا یا ہے۔ تو وہ ڈھٹائی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف چپ کھڑے ہوں گے تو یہی کہیں گے کہ خونی مہدی نے بھی آنا ہے اور مسیح نے بھی آنا ہے لیکن ویسے کئی ایسے ہیں جن کے نظریات بدل چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے مسلمانوں میں بعض عقائد میں بھی درستی پیدا ہوئی ہے بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے چھہتر سال پہلے اعتقادی اور عملی اصلاح کے موضوع پر، ایک خطبہ میں نہیں بلکہ اس موضوع پر خطبات کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں کئی خطبے تھے۔ اُن میں آپؑ نے یہاں تک فرمایا کہ ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں میں سے شاید دس میں سے ایک بھی نہ ملے جو حیاتِ مسیح کا قائل ہو۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد17صفحہ317 خطبہ جمعہ 22؍مئی1936ء)
اسی طرح قرآنِ کریم کی آیات کی منسوخی کا جہاں تک سوال ہے عموماً اب اس میں ناسخ و منسوخ کا ذکر نہیں کیا جاتا، وہ شدت نہیں پائی جاتی جو پہلے تھی۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد17صفحہ318 خطبہ جمعہ 22؍مئی1936ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد بعض عقائد پر دوسرے مسلمان جو بڑی شدت رکھتے تھے، وہ بھی اب دفاعی حالت میں آ گئے ہیں، وہ شدت کم ہو گئی ہے، یا مانتے ہیں یا خاموش ہو جاتے ہیں۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد17صفحہ329 خطبہ جمعہ 29؍مئی1936ء)
اور یہی بات آج تک بھی ہے۔ بلکہ اب تو بعض علماء اور سکالر جن میں عرب بھی شامل ہیں، جہادی تنظیموں اور شدت پسندوں کے نظریہ جہاد کے خلاف کہنے لگ گئے ہیں۔ بلکہ جہاد کے بارے میں ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ آجکل کا یہ جہاد جو ہے یہ غلط ہے۔ پس جن کو وہ اپنے بنیادی عقائد کہتے تھے، اُن نظریات میں تبدیلی، اُن عقائد میں تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے بعد آئی ہے اور ان میں جو پڑھے لکھے لوگ کہلاتے ہیں، جن کا دنیا سے واسطہ بھی ہے، رابطہ بھی ہے، وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں، مثلاً جہاد وغیرہ کے بارے میں کہ یہ غلط ہے۔ یہ تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد اور آپؑ کی جہاد کی صحیح تعریف کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ چاہے وہ احمدیت کو مانیں یا نہ مانیں۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ کے جہاں تک عقائد کا سوال ہے، اس کو غیروں میں سے بھی ایک بڑا طبقہ جو ہے وہ ماننے پر مجبور ہے۔ اب آ جا کے زیادہ بحث اس بات پر ٹھہر گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام نبی کا ہے یا نہیں ہے؟ یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن طے ہو جائے گا۔ اسی طرح جو ہمارا عمومی مؤقف ہے، تعلیم ہے، عقائد ہیں اُس کو سمجھنا نہیں چاہتے اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اُن کے پاس دلیل بھی کوئی نہیں ہے۔ ہمارے عقائد کے تعلق میں بحث پر جب لاجواب ہو جاتے ہیں تو مار دھاڑ اور قتل و غارت پر آ جاتے ہیں اور یہی کچھ آجکل اکثر مسلمان فرقوں کی طرف سے احمدیت کے خلاف ہو رہا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں یا بعض جگہ ہندوستان میں۔ اور یہ پھر اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کے پاس ہمارے عقائد کو غلط ثابت کرنے کے لئے نہ ہی کوئی قرآنی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی عقلی دلیل ہے۔ جب گھیرے جاتے ہیں، قابو میں آ جاتے ہیں تو ماردھاڑ پر اتر آتے ہیں۔ پس عقیدے کے لحاظ سے دلائل و براہین کی رُو سے احمدی اُس مقام پر ہیں جہاں اُن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جو کم علم احمدی ہیں اُن کو بھی چاہئے کہ اپنے علم میں اس لحاظ سے پختگی پیدا کریں۔ آجکل تو ایم ٹی اے پر بعض پروگرام مثلاً راہِ ہدیٰ وغیرہ اسی لئے دئیے جا رہے ہیں کہ ان سے زیادہ سے زیادہ سیکھیں اور کسی قسم کے احساسِ کمزوری اور کمتری کا شکار نہ ہوں، اُس میں مبتلا نہ ہوں۔ بہر حال جماعت احمدیہ کی اکثریت بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہ سب ہی اپنے عقیدے میں پختہ ہیں۔ اگر کوئی کمزور بھی ہے تو وہ یاد رکھے کہ جو عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے، وہی حقیقی اسلام ہے اور غیروں میں اس کو کسی بھی دلیل کے ساتھ رَدّ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ پس چند ایک جو کمزور ہیں وہ بھی اپنے اندر مضبوطی پیدا کریں۔ کسی قسم کی کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عقیدے اور علمی لحاظ سے ہمیں نہایت ٹھوس اور مدلّل لٹریچر عطا فرمایا ہے۔ اسی طرح عملی باتوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دلائی ہے۔