جماعت احمدیہ کی مخالفت اور دشمن کے لیے دعا اور ہمدردی۔جماعت احمدیہ کا وصف
’’اگر تم نےان مولویوں کو کھلاچھوڑ دیا تو اس کانتیجہ سارےملک کے لیے خطرناک ہوگا‘‘…
حضرت مصلح موعودؓ کی اس نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ آج پاکستان کا ہر خطہ بھگت رہا ہے
سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہؐ کا موعود’’ مسیح و مہدی‘‘ بنا کر مبعوث فرمایا۔ چنانچہ آپؑ نے اعلان فرمایا کہ امت محمدؐ یہ کی اصلاح کے لیے آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے وجود جنہیں رسول اللہﷺ نے عیسیٰ ابن مریمؑ کا نام اور امام مہدی کا لقب عطا فرمایا تھا، ان کا مقام و مرتبہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ نبی کریمﷺ نے آنے والے مسیح موعود کو حکم و عدل، الامام المہدی، خلیفۃ اللہ، نبی اللہ اور رسول اللہ اور خلیفۃ الرسول کے القابات سے یاد فرمایا تھا۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام انہی پیش خبریو ں کے مطابق اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مسیح موعود اور مثیل عیسٰی علیہ السلام کے طور پر مبعوث ہو ئے اور آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا تھا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہو ں جس کے ہاتھ پر بالآخر عیسائیت کے باطل عقائد کو شکست ہو گی اور اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ نصیب ہو گا۔
رسالہ ’’فتح اسلام ‘‘میں حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چا ہو تو قبول کرو۔‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۱۰)
اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مجلس میں فرمایا:’’جو کچھ مسیح موعود کے لیے مقدر تھا وہ ہو گیا۔ اب کوئی مانے نہ مانے مسیح موعود آگیا اور وہ میں ہو ں۔ ‘‘(ملفو ظات جلد۲صفحہ۲۸۵، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
آپ کا یہ دعویٰ کرنا تھا کہ مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہوا۔ کیا اپنے کیا بیگانے ہر ایک میدان مقابل میں نکل کھڑا ہوا۔ آریوں کی طرف سے لیکھرام تو عیسائیوں کی طرف سے عبداللہ آتھم، ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی اور دیگر معاندین کمربستہ ہو گئے۔ خود مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین بٹالوی، عبد اللہ غزنوی، پیر مہر علی شاہ، اور کئی اور نامور قسمت آزمائی کو نکلے۔ لیکن جس کےساتھ خدا تعالیٰ ہو اُسے کون ہرا سکتا ہے؟
آپؑ فرماتے ہیں ’’یہ صاف امر ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور اور مسیح موعود کے نام سے دنیا میں بھیجا ہے۔ جو لوگ میری مخالفت کرنے والے ہیں وہ میری نہیں، خدا تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ‘‘ (ملفوظات جلد ۱صفحہ ۱۸۹-۱۹۰۔ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
قارئین ! مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت تو اس وقت سے ہو رہی ہے جب ابھی باقاعدہ جماعت کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا اور آپ علیہ السلام نے بیعت بھی نہیں لی تھی۔ مسلمانوں نے بھی اور غیر مسلموں نے بھی اپنا پورا زور آپ کی مخالفت میں لگایا اور اب تک لگا رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنجاب ہندوستان میں مبعوث ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ سے آپ کو ایک بڑی تعداد مخلصین اور محبین کی عطا فرمائی۔ جنہوںنے اخلاص اور فدائیت کی وہ مثالیں قائم کیں جن کی نظیر قرون اولیٰ کےسوائے اور کہیں نظر نہیں آتی۔ لیکن اسی خطہ سے مخالفین کا گروہ بھی کھڑا ہوا۔ آپ نےشروع سےہی اپنےفدائین کو مخالفین کے ظلم و ستم کو برداشت کرنے کی نصائح فرمائیں۔
ابتدائی دور میںمولوی محمد حسین بٹالوی فتویٰ کفر لیے گھومتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف ثناء اللہ امرتسری ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتا دکھتا ہے۔ مولوی غلا م محمد قصوری مباہلہ کی زد میں آخر ہلاک ہوا تو پیر مہر علی شاہ تفسیر نویسی کے مقابلہ میں جان بچاتا نظر آتا ہے۔
اس مخالفت نے خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں مباحثات مناظرات کا رنگ اختیار کر لیا۔ مباحثہ رامپور، مباحثہ امرتسر، مباحثہ شملہ، مباحثہ منصوری وغیرہ بے شمار مباحثات کا تسلسل نظر آتا ہے۔ اس کے بعد احمدیت کے مقابل پر جماعت احرار آئی اور قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانےکے دعاوی کیےجانے لگے۔ مینارۃ المسیح کو شہید کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے الٰہی منشاء کے مطابق تحریک جدید کے ذریعہ اس مخالفت کو ختم کردیا اور احمدیہ مسلم جماعت ساری دنیا میں اسلام احمدیت کےپیغام میں مصروف عمل ہو گئی۔
۱۴؍ اگست۱۹۴۷ء کو ایک نئی مملکت اسلامیہ پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ پاکستان کے مخالف علماء اپنی جانیں بچا کر پاکستان میں آ گئے۔ اور جلد ہی اپنی سیاسی دکانیں چلانے کے لیے موقع تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی یہ موقع جماعت کے خلاف فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی شکل میں ظاہر ہوا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مذہب کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا منظم ذریعہ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیے مذہبی اور غیر مذہبی سیاسی پارٹیاں برابر کی شریک تھیں۔ اس سلسلہ میں پہلے تو بار باراس بات کو دہرایاگیا کہ پاکستان کا قیام مذہب کےنام پر عمل میں آیا، اس لیے اسےایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے۔ مذہبی ریاست کا مطلب ہے کہ وہ تمام اقلیتیں کہ جن کا تعلق اکثریتی فرقے سےنہیں انہیں قوم کی تشکیل اور اس کے دائرے سے نکال دیا جائے۔
اس ہدف کو پورا کرنے کے لیےمنظم طریق پر فتاویٰ سازی کا بازار گرم کیا گیا۔ اشتہارات، پمفلٹوں اور کتابوں کے ذریعہ نظریات کے بارے میں مبالغہ آمیزی سےپراپیگنڈا کیا گیا۔ جلسوں، اجتماعات تقریروں کے ذریعہ لوگوںکے مذہبی جذبات کو جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف مشتعل کیا گیا۔
اس کےنتیجہ میں جو فسادات پھوٹےاُس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لےلیا۔ چُن چُن کر احمدیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ منظم طریق پر معصوم احمدیوں کے مال و اسباب کو لوٹا گیا، گھروںکو نذر آتش کیا گیا۔ احمدیوں پرحملے کیے گئے۔ پہلی بار مخالف عقائد رکھنے والی مذہبی جماعتیں سیاسی جامہ اوڑھ کر مخالفت میں پیش پیش نظر آئیں۔
ایسےنازک موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کوظلم کے بدلہ صبر کرنے، تعصب کے بدلہ محبت سےپیش آنےکی نصیحت فرمائی۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور دشمن کے لیےدعائیں کرنے کی نصیحت فرمائی۔
حضرت مصلح موعو دؓ ایک موقع پر فرماتےہیں:’’دوستوں کو معلوم ہےکہ فتنہ بڑھ رہا ہے… اس لیےمَیں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ مستعد رہے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے۔ اور جماعتی طور پر اس کی جو ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اُسےکما حقہ پورا کرے۔ اور حکومت کےساتھ پورا پورا تعاون کرے۔… ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومت کی تائید کرے تا مسلمان اس فتنہ سےبچ جائیں جو برپا کیا گیا ہے۔‘‘ (بحوالہ خطبات محمود۱۹۵۳ء صفحہ۵۶۔ خطبہ جمعہ۶ مارچ۱۹۵۳ء)
عوام الناس اور ملک کی فلاح و بہبود کےلیےحضرت مصلح موعودؓ نے لوگوں کو واضح کر دیا کہ ان فتنوںکا اصل مقصد جمہوریت کی روح کو ختم کرنا ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹرشپ کو قائم کرنا ہے۔ حضورؓ اہل ملک کو نصائح کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ان [ فتنہ پھیلانےوالے] لوگوںنےجو طریق اختیار کیا ہےوہ جمہوری نہیں اور نہ ہی ملک کےلیے مفید ہے۔ اگر عوام ان لوگوں کو یہ کھیل کھیلنے دیں گےتو وہ جان لیں کہ یہ آگ اُن کے گھروں تک بھی پہنچے گی۔ … پس تم ملک کی حفاظت کرو، تم قوم کی حفاظت کرو اور ان مولویوں کوملک کا امن برباد نہ کرنےدو۔ اگر تم نےان مولویوں کو کھلاچھوڑ دیا تو اس کانتیجہ سارےملک کے لیے خطرناک ہوگا۔ ‘‘(خطبات محمود ۱۹۵۳ء صفحہ۶۴)حضرت مصلح موعودؓ کی اس نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ آج پاکستان کا ہر خطہ بھگت رہا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی کامیاب راہنمائی اور قیادت کےنتیجے میں جماعت پاکستان سےنکل کر سارے اکناف عالم میں اسلام احمدیت کی تبلیغ میں مصروف ہوگئی۔ سر زمین ربوہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا مرکز بن گیا۔ دار الہجرت ربوہ سیاسی، علمی، عددی رنگ میں ترقیات کی دن دُگنی رات چوگنی منازل طےکرنے لگا۔
مخالفین اُسے کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ حاسدین حسد کی آگ میں لَوٹنے لگے۔ احمدیت کی ترقی اُن کی آنکھوں میں خار کی طرح چبھنے لگی۔ ایسے حالات میں ۱۹۷۴ء میں حاکم وقت ذو الفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی کرسی بچانے کے لیے جماعت احمدیہ مسلمہ کی تکفیر کا حربہ استعمال کیا۔
۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف نہ صرف ملکی بلکہ طاقتور سربراہوں پر مشتمل عالمی جتھے اکٹھے کرلیے گئے۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ عوام کو بھڑکایا گیا۔ جانیں لی گئیں، اموال لوٹے گئے، تحریکات چلائی گئیں اور یہ خیال کیا گیا کہ بس اب احمدیت کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔ عین اس وقت اس الٰہی جماعت کا محافظ خدا یہ ارشاد فرما رہا تھا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ اے احمدیو اٹھو اور اپنے مکانوں کو وسیع تر کرنے کی تیاریاں کرو کیونکہ یہ مصائب اور مخالفت کی آندھیاں تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں پس جاؤ اور اپنی آئندہ آنے والی ترقیات کی تیاری کرو۔
ایسے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے احبابِ جماعت کو نصیحت کرتےہوئے فرمایا کہ ’’۷؍ ستمبر۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے مذہب کے متعلق ایک قرارداد پاس کی ہے۔‘‘
اس پر احمدی مسلمانوں کے ردعمل کا ذکر کرتےہوئے حضورؒ فرماتےہیں کہ ’’ایک احمدی کا رد عمل ۷؍ ستمبر کی قرارداد پر ایسا نہیں ہوگا کہ اس میں دنیا ظلم کا شائبہ دیکھے اور نہ ایسا ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں فساد پیدا ہو اور لوگوں کی حقوق تلفی ہو یا ان کے حقوق تلف ہونے کے حالات پیدا ہوجائیں۔
مَیں دوستوں سے کہتا ہوں کہ تمہارا ردعمل یہ ہونا چاہیے کہ نہ تم ظالم بنو خدا کی نگاہ میں اور نہ تم مفسد بنو خدا کی نگاہ میں۔ اس لیے جماعت احمدیہ کا کوئی رد عمل ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ جس میں سے ظلم کی بُو آتی ہو یا اس کے اندر فساد کی سٹراند پائی جاتی ہو ہمارا رد عمل بالکل ایسا نہیں ہوگا ۔ ‘‘(خطبہ جمعہ۱۳؍ ستمبر۱۹۷۴ء)
اسی طرح باوجود اس کے کہ اہل وطن ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ اور ہر طرح کےمظالم روا رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے احباب جماعت کو وطن سے محبت اور اُس کے لیےہر قربانی دینےکی ہدایت فرمائی۔ فرمایا:’’ہمارے دلوں میں اپنے ملک کے لیے جو محبت ہے یہ وہی محبت ہے جس پر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ نے یہ مہر لگائی ہے۔ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ(موضوعات کبیر امام ملا علی قاریؒ صفحہ۴۰ مطبوعہ محمدی پریس لاہور۱۳۰۲ھ)
یعنی وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے۔ یہ وہ صادق محبت ہے۔ یہ وہ گنا ہوں سے پاک محبت ہے، یہ وہ دُکھ دینے کے خیالات سے مطہّر محبت ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو آنحضرتﷺ کی سنت کی اقتدا اور آپؐ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے دلوں میں پیدا کی گئی ہے اور یہی وہ محبت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ خواہ ہمیں ہر طرف سے بُرا بھلا ہی کیوں نہ کہا جائے۔‘‘ (خطبات ناصر جلد سوئم صفحہ۵۵۲)
بالاخر بھٹو کا جو انجام ہوا اُس سے ساری دنیا با خبر ہے۔ اُسے ایک عرصہ تک جیل کی کالی کوٹھڑیوں میں رکھا گیا اور پھر پھانسی دے دی گئی۔
۱۹۸۴ء کے ابتلاؤں کے دوران بہت سے احمدیوں کو صحابہؓ کے نمونوں کے مطابق تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑا۔ پاکستان کےصدر جنرل ضیاء نے برسرِ اقتدار آنے کے چند ہفتے بعد ہی احمدیت کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا ۔ چنانچہ اس نے متکبرانہ بیان دیا کہ ’’ہم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے ہیں۔ ‘‘(نوائے وقت ۱۳؍ستمبر۱۹۷۷ء صفحہ ۴)
۶تا۸؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو ضیاء حکومت کے زیرِ اہتمام پہلی ایشیائی کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی جس میں احمدیوں کے غیر مسلم ہونے اور ان کے بائیکاٹ کرنے کی قرار داد منظور کی گئی۔ (مطبوعہ رپورٹ کانفرنس صفحہ ۶۹ تا ۷۱)
۲۴؍ مارچ ۱۹۸۱ء کو جنرل ضیاء نے عبوری آئین کے لیے ایک نئی شِق کا اضافہ کر کے وضاحت کی کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔
۳۰؍ مئی ۱۹۸۱ء کو ضیاء حکومت نے تفسیر صغیر کو ضبط کر لیا جس کے بعد مخالف احمدیت سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا۔
۱۸؍ نومبر ۱۹۸۳ء کو جنرل ضیاء نے بیان دیا کہ میں قادیانیوں کو کافر سے بھی بد تر سمجھتا ہوں۔ (روزنامہ جنگ ۱۸ دسمبر ۱۹۸۳ء)اور اُس نےیہ بھی کہا کہ مَیں قادیانیت کے کینسر کو جڑ سے ختم کر دوں گا۔
اس پسِ منظر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے عہدِخلافت کے دوسرے جلسہ سالانہ (دسمبر ۱۹۸۳ء) کے موقع پر اپنی ایک پُر شوکت نظم میں جو اِنذار فرمایا وہ بعد میں حیرت انگیز طور پر ایک نشان کی صورت میں پورا ہوا۔ آپ نے تمام احمدیوں کو صبر اور دعا کے ساتھ کام لینےکی تلقین فرمائی۔ آپؒ نے فرمایا:
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفتِ ظلمت و جَور ٹَل جائے گی
آہِ مومن سے ٹکرا کے طُوفان کارُخ پَلٹ جائے گا، رُت بدل جائے گی
تُم دعائیں کرو یہ دُعا ہی تو تھی، جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیرِ نمرودیت، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
یہ دُعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا، ساحروں کے مقابِل بنا اَژدھا
آج بھی دیکھنا مردِ حق کی دعا، سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی
ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا، ساتھ میرے ہے تائید ربّ الوریٰ
کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغِ دعاآج بھی اِذن ہو گا تو چل جائے گی
دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں،قول اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن
سُنّت اللہ ہے، لا جَرَم بالْیَقِیں، بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی
(بحوالہ کلام طاہر)
۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو جنرل ضیاء نے جماعت احمدیہ کے خلاف بدنامِ زمانہ صدارتی آرڈیننس نمبر۲۰ نافذ کر دیا جس کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
ضیاء حکومت کی وسیع اور خطرناک سازش کو پاش پاش کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خداتعالیٰ کے فرشتوں کے جلو میں بخیریت ۳۰؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو انگلستان پہنچ گئے۔
اس رُسوائے عالَم آرڈیننس کے بعد جنرل ضیاء کے دَور میں پاکستان کے احمدیوں پر قافیۂ حیات مزید تنگ کر دیا گیا۔ اذانیں بند کر دی گئیں۔ کلمہ طیبہ پڑھنے، لکھنے اور اس کے بیج اپنے سینوں پر آویزاں کرنے کی پاداش میں بہت سے مظلوم احمدی جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔ جماعت کی متعدد کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ضیاء الاسلام پریس ربوہ کو سربمہر کر دیا گیا۔ روزنامہ الفضل کو بند کر دیا گیا۔ جلسہ سالانہ اور دوسرے اجتماعات بھی ختم کر دیے گئے۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کا اضافہ کیا گیا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں ظالم جنرل اور دیگر ملائوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔ گو کہ حضور چاہتےتھے کہ ضیاء الحق خدا کے قہری نشان کی عبرت نہ بنے اور آپ کو ہر گز اس بات سے خوشی نہیں تھی کہ جنرل ضیاء اپنے مظالم کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نے اسے بار بار تنبیہ فرمائی، نجات کے رستے بتائے اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر دنیوی وجاہت کھل کر توبہ کرنے میں مانع ہے تو کم از کم ظلم سے ہاتھ روک لیں اور خاموش رہیں۔ ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ظلم سے باز آ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یکم جولائی ۱۹۸۸ء کے خطبہ جمعہ میں ضیاء الحق کو بتایا کہ چونکہ وہ ائمۃ التکفیر کے سردار ہیں اور معصوم احمدیوں پر ظلم کر کے لذّت محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے خواہ چیلنج قبول کریں یا نہ کریں اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو ان کا یہ فعل چیلنج قبول کرنے کے مترادف ہو گا۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنی انا میں اس آخری چھوٹ سےفائدہ نہ اٹھایا۔ اپنے ظلم و تعدّی میں بڑھتا چلا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے نہایت پُر جلال لب و لہجہ میں انہیں آخری بار انتباہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ اس مو قع پر جبکہ مبا ہلہ کی دعوت غیروںکو دی گئی ہے اس وجہ سے خصو صیت سے کہ یہ استہزاءمیں بڑھ رہے ہیںاور اپنے گزشتہ کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر رہے۔ استہزاء میں بھی بڑھ رہے ہیں، ظلم میں بھی بڑھ رہے ہیں اور حکو مت کا جہاں تک تعلق ہے وہ معصوم احمدیوں پر قانونی حربے استعمال کر کے طرح طرح کے ستم ڈھارہی ہے۔ ‘‘ (خطباتِ طاہر جلد۷صفحہ ۵۵۵)
آخر خدا کے مقدّس خلیفہ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور جنرل محمد ضیاء الحق جس نے احمدیت کو کینسر قرار دے کر مٹا دینے کی دھمکی دی تھی ۱۷؍ اگست۱۹۸۸ء کو C-۱۳۰ طیارہ میں حادثہ کا شکار ہو گیا اور خدائے ذوالجلال نے اس کے پرخچے اڑا دیے اور ان جرنیلوں کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جو اس کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق صدر ضیاء الحق کے تابوت میں مرحوم صدر کے صرف جبڑے کی ہڈی تھی کیونکہ ان کی لاش میں صرف یہی ایک جزو تھا جس کی شناخت کی جا سکی۔ ( روزنامہ ملّت لندن۲۸،۲۷، اگست۱۹۸۸ء)
حضورؒ نے اس موقع پر احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’بہرحال یہ ایک ایسا عظیم الشان تاریخی نوعیت کا نشان ہے جس کے اوپر ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہونے کے نتیجہ میں شکر واجب ہو گیا ہے اور یہ شکر خداتعالیٰ کی حمد کے ذریعہ ظاہر ہونا چاہیے۔ ‘‘(خطبات ِ طاہر جلد ۷ صفحہ ۵۶۳)
قارئین کرام! مخالفت کا یہ سفر جاری رہا اور پھر مئی ۱۹۹۹ء کے وہ دردناک ایام بھی آئے جب ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ہمارے موجودہ امام کو جو اس وقت ناظر اعلیٰ تھے ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرکے قید میں ڈال دیا گیا۔ جماعت کے لیے یہ بہت تکلیف دہ وقت تھا لیکن وہ اسیر راہ مولا اپنی اس قید کے حالات یوں بیان کرتے ہیں جنہیں سن کر رشک آجاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’میں تمہیں کیا بتاؤں؟ مجھے احساس تک نہیں ہوا کہ خدا کی راہ میں اسیری کے میرے یہ دن کتنی جلدی گزر گئے۔ میں صرف اللہ کی نعمتوں کا مشاہدہ کیا کرتا تھا۔ یہ موسم گرما کے ایام تھے اور اللہ تعالیٰ گرمی کو ٹھنڈی ہوا میں بدل دیا کرتا تھا۔ ہم جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہےلیکن میرے دل میں کسی قسم کی پریشانی اور ذہنی دباؤ نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ میرے خلاف لگائے گئے [جھوٹے] الزامات کی سزا یا تو عمر قید ہوسکتی ہے یا سزائے موت اور مجھے ان دونوں میں کوئی ایک سزا ملنے کا امکان تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اللہ ہی ہے جس سے میں مدد مانگوں گا اور اسی کی رضا حاصل کروں گا۔ میں نے سوچا کہ اگر مجھے جماعت کی وجہ سے سزا دی جائے گی تو یہ واقعی بہت بڑی نعمت ہوگی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا تھا۔(بنگلہ دیش کے مربیان سے آن لائن ملاقات ۸؍نومبر۲۰۲۰ء)
یہ تھے وہ بابرکت اسیر جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس قید سے باعزت نکالا، بلکہ کروڑوں دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بھی بنا دیا۔ اور آج آپ جس جانب بھی جاتے ہیں یہ عزت اور تکریم آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ پھر چاہے وہ ملکوں کے ایئرپورٹ ہوں یا راستے۔ دیوان عام ہوں یا دیوان خاص۔ کیپیٹل ہل ہو یا یوروپین پارلیمنٹ۔ ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہوں یا مذہبی راہنماؤں سے۔ ہر ایک جانب، ہر ایک راستے پر آپ کے ادب اور احترام کےلیے غیر معمولی اہتمام کیا جاتا ہے۔
قارئین کرام ! پاکستان میں احمدیت پر مظالم کی تاریخ میں ایک سنہری الفاظ میں لکھے جانے والے واقعہ شہدائےاحمدیت لاہور کی عظیم الشان قربانیاں ہیں۔ یوں توجاں نثارانِ احمدیت کی لازوال اور عجوبہ روزگار قربانیوں سے جماعت کی صدسالہ تاریخ معطر ہے۔ لیکن سال ۲۰۱۰ء میں ۲۸؍ مئی کو جمعۃ المبارک کا دن تاریخ احمدیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا جب لاہور شہر کی مرکزی مساجد میں دنیا کی مصروفیات چھوڑ کر محبت الٰہی کی خاطر جمع ہونے والے سینکڑوں نہتے اورمعصوم احمدیوں پر مسلح اور سفاک دہشت گردوں نے نہایت بے دردی سے گولیوں اور گرنیڈوں کی بوچھاڑ کردی اور ان احمدی پیروجوان نے اجتماعی شہادت کو مومنانہ شان سے قبول کیا اور خدا کے پیارے ٹھہرے۔ جماعتی تاریخ کی اس سب سے دردناک اور سب سے بڑی اجتماعی قربانی میں ۸۶؍احمدی شہید اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔ یہ سب لوگ احمدیت کی تاریخ میں ان شاء اللہ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔
اجتماعی قربانی کے اس واقعہ پر حضرت امیر المومنین مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۸؍ مئی سے ۹؍ جولائی تک اپنے خطبات جمعہ میں ان شہداء اور زخمیوں کی جرأت وبہادری، عزم و ہمت اور ان کے پسماندگان کے صبرو استقامت کے عظیم الشان اور درخشندہ نمونوں اور شہدائے لاہور کے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا بہت ہی قابل رشک اور دلگداز تذکرہ فرمایا۔ اسی تسلسل میں حضور انور ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو استقامت اور صبر کا دامن تھامنےکی نصیحت فرمائی۔ فرمایا: ’’پس صبر اور دعائیں کرنے والوں کے لیے خدا تعالیٰ نے خوشیوں کی خبریں سنائی ہیں۔ اپنی رضا کی جنت کا وارث بننے کی خبریں سنائی ہیں۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو بھی جنت کی بشارت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس دنیا میں رہنے والوں کے لیے بھی جنت کی بشارت ہے۔ ایسے لوگوں کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول بن جاتی ہیں۔ …
آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقیناً یہ خوشبو آ رہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے، اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے۔ ابتلاء کا لمبا ہونا تمہارے پائے استقلال کو ہلا نہ دے۔ کہیں کوئی نا شکری کا کلمہ تمہارے منہ سے نہ نکل جائے۔‘‘ ( بحوالہ الفضل انٹرنیشنل جلد۱۷ شمارہ۲۶ مورخہ ۲۵جون تا یکم جولائی ۲۰۱۰ء)
پاکستان میں مظالم کا یہ دور آج بھی چل رہا ہے۔ اور مسلسل احمدیوں کو جانی مالی، قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔باوجود اہل وطن کی حوصلہ شکنی اور مظالم کے اللہ تعالیٰ ان قربانیوںکے صدقے اپنےعظیم الشان افضال جماعت پر نازل فرما رہا ہے۔
ایک پاکستانی احمدی کا فرض ہےکہ وہ اپنےوطن کی خیرو بھلائی کے لیے کوشاں رہے۔ اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۳؍ مارچ۲۰۱۲ء کے خطبہ جمعہ میں پاکستان کے لیےاحباب جماعت کو دعائیں کرنے کی نصیحت کرتےہوئے فرمایا: ’’آج مَیں نے احتیاطاً پاکستان کے حوالے سے کچھ نوٹس رکھ لیے تھے۔ پاکستان میں بھی ۲۳؍مارچ کو یومِ پاکستان منایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی پاکستانی احمدیوں کو مَیں کہوں گا کہ دعا کریں کہ جس دورسے آج کل ملک گزر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے۔ احمدیوں کی خاطر ہی اس کو بچائے۔ کیونکہ احمدیوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر بہت دعائیں کی ہیں لیکن پھر بھی یہی کہاجاتا ہے اس لیے چند حقائق بھی مَیں پیش کروں گا کہ احمدی کس حد تک اس ملک کے بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے؟
ممتاز ادبی شخصیات میں سے مولانا محمد علی جوہر صاحب ہیں۔ اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘ مؤرخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۲۷ء میں لکھتے ہیں کہ: ’’ناشکری ہو گی کہ جناب میرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات، بلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لیے وقف کر دی ہیں …اور وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سواد ِ اعظم اسلام کے لیے بالعموم اور ان اشخاص کے لیے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں، مشعل راہ ثابت ہو گا‘‘۔ (اخبار ’’ہمدرد‘‘ مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۲۷ء بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ ۷)
یعنی مولانا محمد علی جوہر صاحب بھی نہ صرف جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہ رہے ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کومسلمان فرقہ میں شمار کر رہے ہیں۔ جبکہ آجکل تاریخِ پاکستان میں سے احمدیوں کا نام نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور آئینی لحاظ سے مسلمان تو وہ لوگ ویسے ہی تسلیم نہیں کرتے۔ پھر اسی طرح ایک بزرگ ادیب خواجہ حسن نظامی نے گول میز کانفرنس کے بارے میں لکھا کہ ’’گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے جو چوہدری ظفر اللہ خان کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور بے کار بات زبان سے نہیں نکالتا اور نئے زمانے کی پولیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ خان ہے‘‘۔ (اخبار ’’منادی‘‘ ۲۴؍اکتوبر۱۹۳۴ء بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردارصفحہ ۲۴)
حضور انور نے مختلف حوالہ جات پیش کرنے کےبعد فرمایا کہ’’جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر و باہر ہے۔ اس لیے آج کے، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لیے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل۲۰۱۲ء)
قارئین کرام ! باوجود اس کے کہ پاکستان میں احمدیہ مسلم جماعت پر مظالم کےپہاڑ توڑےگئےاور آج تک توڑےجا رہےہیں۔ اس کے باوجود کہ دشمنوں کے ظلم و ستم سےتنگ ہزاروں احمدیوں نے ہجرتیں کیں۔ جیلوں میں ڈالے جا رہے ہیں، شہید کیے گئے اور جان و مال پر حملےہو رہےہیں۔
بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت فرمائی کہ اسلام بلا کسی امتیازیا تفریق مذہب و قوم کے خدمت خلق اور اخلاق سےپیش آنے کی تعلیم دیتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’…تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۱۹)
ایک اَور مقام پر حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دےتو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لیے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۸)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کی روشنی میں آپؑ کے منشاء کے مطابق بنی نوع انسان کی خدمت اور اُن کی بے لوث خدمات کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کو صبر و استقامت کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مولیٰ کریم جلد وہ دن لائے کہ جماعت پر مظالم کی کالی رات کا خاتمہ ہو۔ آمین
گالیاں سن کر دعا دو پاکے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار
(درثمین)
٭…٭…٭