جماعت احمدیہ کی خدمت و اشاعتِ قرآن میں غیر معمولی برکت
ساری دنیا میں خلافت احمدیہ کے زیرِسایہ جماعت احمدیہ وہ واحد جماعت ہے جس نے تن تنہا اتنی زبانوں میں قرآن کریم شائع کرنے کی توفیق پائی ہے۔اور قرآن کی یہ ایسی خدمت ہے جو آج تک کوئی دوسرا مسلمان فرقہ،جماعت،ملک یا قوم بجا نہیں لا سکی
قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس عظیم الشان رسول کے مبعوث ہونے کی دعامانگی تھی،اُس کے اہم کاموں میں سے، خصوصیت کے ساتھ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ اپنی قوم پر تلاوت آیات کرنا اور وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ انہیں اس عظیم الشان کتاب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس عظیم الشان صحیفےکے حقائق و معارف پر مبنی حکمتیں بھی سکھانا تھا۔ (البقرۃ:130)
اس عظیم الشان دعا کی قبولیت کا ظہور حضرت محمد رسول اللہﷺ کے ظہور سے ہوا۔اوراِس پاک کلام کی اصل شان اس وقت اظہر من الشمس ہوئی،جب خود خدا کا رسولؐ اپنی زندگی بھر اس کی تلاوت،حکمت اور اس کلام الٰہی کے ذریعہ تزکیہ نفوس کرتا رہا۔اس امر مذکور کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود قرٓان میں دی ہے۔
دور اوّلین کے عشّاق قرآن، کے نیک نمونے
رسول اللہﷺ اور آپ کے پاک صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اِس سوز و گداز،عجب جذب، عشق و محبت،اور خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ تلاوت کرتے تھے کہ خود عرش سے ربّ العالمین نے گواہی دی کہ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖیعنی جیسے تلاوت قرآن کا سچا حق ہے،ویسے یہ اس کلام الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں۔(البقرة:122)
نیز کتب احادیث ان واقعات کے تذکرہ کے ساتھ بھری ہوئی ہیں، بطور نمونہ،مشتے از خروارے، صرف ایک مثال پیش ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو کہ خود کشتہ قرآن تھے،قبولیت اسلام کے بعد عشق قرآن میں اس قدر غرق ہوئے کہ آپؓ کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ راتوں کو اپنی نماز تہجد میں بلند آواز سے تلاوت کرتے تھے’’ يُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ‘‘جس پر اِس عاشق قرآن کو، رسول اللہﷺ نے کیا ہی پیاری نصیحت فرمائی کہ اے عمر! اِخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًاتم آواز کچھ دھیمی کرلو۔(أبو داؤد۔ کتاب التطوع، باب فی رفع الصوت حدیث نمبر1329)
اسی طرح لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ قرآن کریم کی تلاوت اس قدر سوزو گدازسے کرتے تھے اور تلاوت قرآن کے دوران اللہ تعالیٰ کی خشیت اور ہیبت آپؓ پر اس قدر طاری رہتی کہ مسلسل رونے سے ہچکی بندھ جاتی۔ ایک مقتدی آپ کی اقتدا میں اپنی ادائیگی نماز کا حال کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں ’’ إِنَّمَا أَشْكُوْ بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰهِ‘‘ یعنی مىں تو اپنے رنج واَلَم کى صرف اللہ کے حضور فرىاد کرتا ہوں(یوسف:87)کی تلاوت فرما رہے تھے اور اُس دوران آپ پر ایسی رقت طاری تھی کہ’’سَمِعْتُ نَشِيْجَ عُمَرَ، وَأَنَا فِي آخِرِ الصُّفُوفِ‘‘ رونے کی آواز آخری صفوں تک سنائی دے رہی تھی۔ (بخاری کتاب الاذان باب اذا بکی الامام )
حقیقت میں یہی پاک اور مقدس نمونے تمام صحابہؓ میں ملتے ہیں۔
قرآں کتابِ رحماں سِکھلائے راہِ عرفاں
جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں
دور اوّلین میں مخالفین قرآن کا قابل تاسف طرز عمل
متذکرہ نمونے کے بالمقابل مخالفین قرآن نہ صرف تلاوت قرآن کے وقت انتہائی بےشرمی سے شور مچاتے تھےوَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۔(حم السجدۃ: 27) اور اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کىا، کہا کہ اس قرآن پر کان نہ دھرو اور اُس کى تلاوت کے دوران شور کىا کرو تاکہ تم غالب آ جاؤ۔بلکہ شور کے ساتھ ساتھ یہ مخالفین عملاً جسمانی تکالیف بھی پہنچاتے، بطور نمونہ صرف دو مثالیں پیش ہیں۔ مثلاً بخاری شریف میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تلاوت قرآن کے مسحور کن ماحول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہےکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ہوئی تھی اور اس میں نماز ادا کیا کرتے’’وَيَقْرَأُ القُرْآنَ‘‘اور قرآن پڑھا کرتے۔انہیں سن کر مشرکوں کی عورتیں اور ان کے بچے، حضرت ابوبکرؓ کے پاس آن جمع ہوتے اورمتعجب و متجسس ہوکر آپ رضی اللہ عنہ کو سنتے اور دیکھتے رہتے۔ حضرت ابوبکرؓ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی آپ پر تلاوت قرآن کے وقت خصوصیت سے رقّت طاری رہتی اور آپ بہت پُر نم ہوتے تھے’’ لَا يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ‘‘ یعنی جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھتے۔چنانچہ لکھا ہے کہ’’وَأَفْزَعَ ذَالِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ المُشْرِكِيْنَ‘‘اس بات نے مشرکین قریش کے بڑے بڑے آدمیوں کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔چنانچہ اس کیفیت کو روکنے کے لیے منکرین و مخالفین قرآن نے آپ کی تلاوت قرآن پر پابندی لگوانے کی کوشش کی ،چنانچہ ان مشرکین قریش نے ابن الدغنہ وہ سردار جس نے حضرت ابوبکرؓ کو مکہ میں دوبارہ پناہ دی تھی کو بلوایا اور اُسے حکم دیا کہ ہم نے تو تمہاری پناہ کی وجہ سے ابوبکرؓ کو اس شرط پر مکہ میں رہنے دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں ہی اپنے ربّ کی عبادت کرے۔مگر وہ(یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) اس سے بہت آگے بڑھ گیا ہے اور اس نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی ہے اور اس مسجد میں ’’فَأَعْلَنَ بِالصَّلَاةِ وَالْقِرَاءَةِ فِيْهِ‘‘ اور اس میں نماز اور قرآن اعلانیہ پڑھنا شروع کر دیا ہے اور ’’وَإِنَّا قَدْ خَشِيْنَا أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا ‘‘ اور ہمیں اب یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو ہی بہکا نہ دے۔ اور پھر ان صداقت حق کے دشمنوں نے ابن الدغنہ کو حکم دیا کہ ’’فَانْهَهُ‘‘اس لیے تم اس کو روک دو۔(بخاری، كتاب مناقب الأنصار۔بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ۔حدیث نمبر: 3905)
اسی طرح حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کے متعلق بطور خاص لکھا ہے کہ بہن کے قبول اسلام کی خبر ملنے پر پہلے تو گھر جا کر اپنی بہن کو مارا، اوربعدہ جب اس مقدس کلام کی حضرت خبابؓ سے چند آیات سنیں تو فوراً رام ہو گئے اور رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ (الطبقات الکبریٰ جزء3 صفحہ 142۔ 143 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
آخرین کے دور میں حقیقی تعلیمات قرآن کے غائب ہونے کی پیش خبری!
حقیقت یہ ہے کہ ایک تو وہ مبارک دَور تھا جس میں قریہ قریہ عظمت و توقیر قرآن،اور عملی نمونوں سے عَلم قرآن بلند کیے جاتے تھے۔ لیکن ایک وقت آنے والا تھا جب اس امت محمدیہ کے بہت سے افراد نے بگڑ جانا تھا۔ان لوگوں کے باہم اختلاف کا شکار ہونے کی پیشگوئیاں،قرآن و احادیث ِنبویہؐ میں بھری پڑی ہیں،حالانکہ اسلامی شریعت تو قیامت تک رہنے والی ہے۔ بہرحال ایک وقت آنے والا تھا کہ جس کا نظارہ کرکے روحیں کانپ جانی تھی حتی کہ رسولؐ نے بھی پکار اٹھنا تھا کہ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا۔ (الفرقان: 31) اے مىرے ربّ! ىقىناً مىرى قوم نے تو اس قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے۔
اسی طرح ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عالم الغیب اور علام الغیوب کے مظہر اَتم،جن کے متعلق فرمایا گیا ہے کہوَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ(التکویر:25)یعنی وہ غیب کے بیان پر بخیل نہیں۔ آپ کے بیان کردہ غیب کی خبریں جن پر شیعہ و سنی روایات متفق ہیں،ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایک وقت آنے والا ہے جب اسلام صرف نام کا باقی رہ جائے گا’’وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ‘‘اور قرآن کے صرف الفاظ یعنی رسماً لکھا ہوا باقی رہ جائے گا،مساجد بظاہر آباد ہوں گی تاہم ہدایت سے خالی ہوں گی۔ (مشکوٰۃ۔کتاب العلم) اور یہی زمانہ تھا جس کی نسبت رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ يَقْرَءُوْنَ القُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْْ(بخاری، كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ۔بَابُ مَنْ رَایا بِقِرَاءَةِ القُرْآنِ أَوْ تَأَكَّلَ بِهِ أَوْ فَخَرَ بِهِ۔حدیث نمبر: 5058)یعنی یہ لوگ تلاوت تو کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا۔
یہ کیفیات اور پیش گوئیاں کیا اب عملاً واقع ہوگئی ہیں یا نہیں؟ اس کے ثبوت کے لیے اہل حدیث عالم، نواب نور الحسن خاں صاحب آف بھوپال کا 1301ھ میں اپنی کتاب میں لکھا بیان ملاحظہ فرمائیں۔
’’اَب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے،مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں۔علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے زمین کے ہیں۔ انہیں سے فتنے نکلتے ہیں۔ انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں۔‘‘ (اقتراب الساعۃ 12۔مطبع مفید عام۔بادارۃ المنشی محمد خان)
اسی مضمون کے حوالے سے یعنی یہ کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں قرآن صرف رسماً باقی رہ جائے گا۔ اس طرح کی روایات کتب شیعہ میں بھی موجود ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’لَایَبْقِی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا رَسْمُہُ‘‘(الکافی کتاب الروضۃ صفحہ144 زیر عنوان حدیث الفقہاء والعلماء) اور اس پیش خبری کے پورے ہونے کا اقرار کرتے ہوئے بہت بڑے شیعہ مجتہد علامہ علی حائری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے’’آثار و آیاتِ اسلام و قرآن منہدم وارکان دین وایمان باطرۃ منہدم شدہ می روند روزے رسد کہ مصداق صحیح لایبقی من القرآن الارسمہ، ولا من الاسلام الّا اسمہ، بربسیار اھل ایں دیار صادق اید (غایۃ المقصود جلد 2صفحہ4)
اسی موعودہ زمانہ میں باہم تفریق و انتشار کی انتہاء کور سول اللہﷺ نے ’’ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِيْنَ مِلَّةً‘‘کہ قوم بنی اسرائیل کے فرقہ بندی کے نتیجے میں تو بہتر (۷۲)فرقے ہوئے تھے اور میری امت اس سے بھی بڑھ کر امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے۔(سنن الترمذي۔ أَبْوَابُ الْإِيمَانِ۔مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ)
آج ہم یہ روح فرسا دور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ خود مسلمان کہلانے والے قرآن کریم سے غافل و لا پروا ہوگئے،اور انہوں نے اپنے عمل سے قرآن کریم کی مقدس تعلیم اور اس کے پاکیزہ اصول و قوانین کو مسخ کردینے کی ناکام کوشش کی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چشمہ روحانیت کی برکات و فیوض سے اور بھی دور ہوگئے اور ان کی حکومت اور ظاہری عظمت و شان جاتی رہی۔چنانچہ ڈاکٹراقبال صاحب مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق خود گواہی دے کر چلے گئے ہیں کہ
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہونصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
(بانگ ِدرا زیر عنوان جواب شکوہ)
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا تھا کہ اِس زمانہ اضطراب اور انتشار کے وقت جب لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے۔’’تَكُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ فَزْعَةٌ فَيَصِيْرُ النَّاسُ إِلىٰ عُلَمَائِهِمْ فَإذَا هُمْ قِرَدَةٌ وَخَنَازِيْر‘‘(کنز العمال کتاب القیامہ من قسم الاقوال باب الخسف والمسخحدیث نمبر 38727جلد 14صفحہ 280)
اسی طرح کی پیش خبری رسولﷺ پر مشتمل روایات شیعہ لٹریچر میں بھی ملتی ہیں کہ کوئی ایسی بات بنی اسرائیل میں واقع نہیں ہوئی جو اسی طرح میری امت میں نہ ہو گی… اللہ کی قسم یہ بات بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةُ قِرَدَةً وَّ خَنَازِيْرَ ‘‘ اس امت میں بہت سے لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادے۔(بحارالانوار۔ جلد 10 صفحہ 233۔دارالاحیاء التراث بیروت)
اور بقول حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالبِ دنیا باشند۔۔کأنّھم ھم‘‘(الفوز الکبیر مع فتح الخبیر فی اصول التفسیر باب اول صفحہ10۔ مطبع مجتبائی دہلی) یعنی اگر آج آپ ان علمائے یہود کا عملی نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اردگرد اُن علمائے سوء کو دیکھ لیں گویا کہ یہ وہی لوگ ہیں۔
اسی طرح مشہور اہلحدیث عالم مولوی نور الحسن خان صاحب لکھتے ہیں:’’یہ بڑے بڑے فقیہہ،یہ بڑے بڑے مدرس، یہ بڑے بڑے درویش،جو ڈنکا دینداری،خدا پرستی کا بجا رہے ہیں ردّ حق،تائید باطل،تقلید مذہب وتقیدِ مشرب میں مخدوم عوام کالانعام ہیں۔ سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے نفس کے مرید ابلیس کے شاگرد ہیں ‘‘(اقتراب الساعۃ صفحہ۸)
اسی طرح اقبال اپنی مشہور فارسی نظم بعنوان حکمت خیر کثیر است زیر عنوان:سعید حلیم پاشا۔ میں بیان کرتے ہیں۔
’’دین کافر فکر و تدبیر جهاددین ملا فی سبیل الله فساد
کافر کا دین تو غور و فکر اور تدبیر جہاد ہے۔اور ملا کا دین خدا واسطے کا فساد ہے‘‘ (جاوید نامہ۔بحوالہ :متن،اردو و ترجمہ، تشریح۔ شرح کلیات ِاِقبال فارسی۔مترجم۔ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی۔ناشر مکتبہ دانیال۔صفحہ نمبر ۷۴۴)
دور آخرین میں حقیقت قرآن واپس لائے جانے کی پیشگوئی !
ایسے حالات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجمعۃ میں خصوصاً خبر دی تھی کہ جس طرح اوّلین دور میں محمد رسول اللہﷺ کی قوت قدسیہ کے ذریعہ کتاب و حکمت سکھا کر لوگوں کا تزکیہ نفوس کیا تھا،اسی طرح آخَرِينَ کی جماعت میں محمد مصطفیٰﷺ کا ظل و بروز آپؐ کی غلامی میں آپؐ ہی کی قوت قدسیہ سے حصہ پاکر لوگوں کو کتاب و حکمت سکھائے گا اور ان کا تزکیہ نفس کرے گا۔چنانچہ جب بمطابق پیش گوئی رسولﷺ ایمان’’ مُعَلَّقًا بالثُّرَيَّا‘‘ (بخاری کتاب التفسیر،سورۃ الجمعہ) ثریا ستارے تک اُٹھ گیا۔ اور اَب بقول ہمارے مخالفین،جیسا کہ تحریر کیا جاچکا ہے، قرآن کریم اپنی تعلیمات پر عمل کے حساب سے عملاً آسمان پر اٹھا یا جاچکا تھا، تو یقیناً یہی وہ وقت تھا کہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور انہى مىں سے دوسروں کى طرف بھى (اسے مبعوث کىا ہے) جو ابھى اُن سے نہىں ملے (الجمعة:4) میں مذکور پیشگوئی اور آنحضرتﷺ کی تصریح کے مطابق رجل فارس نے مبعوث ہونا تھا،جس نے حقیقت قرآن کو آسمان سےواپس لانے اور ایمان کو پھر سے دلوں میں قائم کرنے کا مشن سرانجام دینے آنا تھا۔
نیز آنحضرتﷺ نےاس آنے والے مسیح موعود کو چار مرتبہ نبی اللہ قرار دیا ہے (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ) نیز دوسری حدیث میں رسول اللہﷺنے آنے والے مسیح موعود نبی اللہ کو پہچاننے کی ہدایت کرتے ہوئے بتایا کہ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ میرے درمیان اور اس مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ آئندہ نازل ہونے والے ہیں۔ جب تم اسے دیکھو تو اس کو ضرورپہچانو اور اس کی بیعت کرو۔(أبوداؤد کتاب الملاحم۔باب خروج الدجال)
اسی آنے والے مسیح موعود نبی اللہ کی عظمت شان کے متعلق امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ نے ایک روایت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش کا تذکرہ اس طرح نقل کیا ہے کہ’’قَالَ اجْعَلنِي نَبِي تِلْكَ الْأمة قَالَ نبيها مِنْهَ‘‘(الخصائص الكبرىٰ، امام جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911ه)زیر عنوان،لَطِيفَة أُخْرَى فِي أَن اخذ الْمِيثَاق من النَّبِيين لنبيناﷺوَعَلَيْهِم كَإِيمَانِ الْبيعَة الَّتِي تُؤْخَذ للخلفاء۔جلد 1صفحہ 12،11)دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی اس روایت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا :اے رب ! مجھ کو اس امت کا نبی بنا دیجئے۔ ارشاد ہوا ! اس امت کا نبی اسی میں سے ہوگا۔ ‘‘(تذکرۃ الحبیبﷺ تسہیل نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیبﷺ تالیف مولانا اشرف علی تھانوی کاوش مولانا ارشاد احمد فاروقی صفحہ نمبر 281، 282زمزم پبلشرز )
اور اسی آخری زمانہ میں اُمت میں آپﷺ کے مظہر کامل مسیح اور مہدی کے مقام کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے کہ’’وَحَقٌ لَّہٗ اَنْ یَنْعَکِسَ فِیْہِ اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَﷺ وَیَزْعَمُ الْعَامَۃُ اَنَّہٗ اِذَا نَزَلَ اِلَی الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِنَ الْاُمَّۃِ کَلَّا بَلْ ھُوَ شَرْحٌ لِلاسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِیِّ وَنُسْخَۃٌ مُنْتَسَخَۃٌ مِنْہُ ‘‘ (الخیر الکثیر صفحہ۷۲مطبوعہ مدینہ پریس بجنور) یعنی آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلینﷺ کے انوار کا عکس ہوعام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو وہ محض ایک امتی ہوگا ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہوگا اور اس کا دوسرا نسخہ (True Copy)ہوگا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہوگا۔
پس ظاہر ہے کہ اس موعود امام مہدی و مسیح موعود کی جو تعلیمات جو رسول اللہﷺ کی اتباع میں ہوں گی،اور اس آخرین کی پاک جماعت کا جو نمونہ ہوگا، اور اس کے بالمقابل اس موعود اور ان کی جماعت کے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات کے متعلق رسول اللہﷺ نے واضح فرمایا تھا کہ ’’مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘(ترمذی أبواب الایمان باب افتراق ھذہ الامۃ) یعنی بالکل ہمارے جیسے احوال ہوں گے،جیسے میرے اور میرے اصحاب کے ہیں۔اور اسی موعود امام مہدی و مسیح کی جماعت کوالْجَمَاعَةُ (سنن إبن ماجہ، کتاب الفتن، بَابُ افْتِرَاقِ الْأُمَمِ۔حدیث نمبر3993) یعنی حقیقی جماعت کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے موعود امام مہدی و مسیح ہونے کا دعویٰ کیا کہ جس موعود کی پیش خبری رسول اللہﷺ نے دی تھی،وہ آپ ہیں۔چنانچہ فرمایا: ’’مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لیے بھیجا ہے تاکہ میں اس پُر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں‘‘(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 34)
موعود زمانے میں حاملین قرآن اور مخالفین قرآن کا باہم تقابل
رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہماری جماعت کے مخالفین،جماعت احمدیہ کی دشمنی کی بجائے حسب ہدایت رسول اللہﷺ سب سے بہترین لوگوں میں بننے کے لیے قرآن کی تعلیم خود بھی حاصل کریں اور دوسروں کو یہ تعلیم سکھلائیں۔’’خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ‘‘ (بخاری،کتاب فضائل القرآن،باب خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ‘‘حدیث نمبر: 5027)یہ ناعاقبت اندیش مخالفین بحیثیت جماعت اور انفرادی طور پر احباب جماعت کو قرآن کریم کی تلاوت و تفسیر کرنے اورقرآن کریم کو اپنے پاس رکھنے پر تکالیف دے رہے ہیں اور آئے روز مقدمات درج کروا رہے ہیں اور متعدد احمدی احباب کو اسی بنا پر اسیر بنایا ہوا ہے اور بہت سے اب بھی اسیران راہ مولی ہیں۔
پس عملاًآج ہمارے مخالفین کی خود اپنی حالت صرف اسلام کا نام اور قرآن کی صرف رسم رکھنے تک محدود ہے۔یہ مخالفین نہ تو قرآن کو خود سمجھ رہے ہیں،نہ تزکیہ نفوس کے لیے دوسروں کو سمجھا رہے ہیں۔اور اس بات کا خود اقرار بھی کرتے ہیں مثلاً قرآن انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام سیمینار میں قرآن پاک کے متعلق یہ حقائق پیش کیے کہ ’’دنیا بھر کے مسلمانوں میں صرف ایک فیصد قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ جانتے اور پڑھتے ہیں۔سوا ارب مسلمان تو قرآن پاک ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔(روزنامہ پاکستان 15؍ستمبر 20۰3ء۔بحوالہ الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 24؍جولائی تا 13؍اگست 2009ء صفحہ 24)
ان لوگوں کی قرآن سے دوری کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے قرآن کی ایسی تفاسیر لکھ رہے ہیں کہ جن کو بنیاد بنا کر غیرمسلم خدا پر،اس کے عظیم نبیﷺ پر،اس کی کتاب اور دین پر حملہ آور ہوتے ہیں۔مثلاً قرآن میں ناسخ و منسوخ،مسیح کا مردے زندہ کرنا،پرندے پیدا کرنا،آنحضرتﷺ کی وحی الٰہی میں نعوذباللہ شیطان کا دخل ہونا،انبیاء کی توہین،حضرت یوسفؑ پر الزام،حضرت لوطؑ پر بیٹیوں کے پیش کرنے کا الزام،حدیث کے قرآن پر قاضی ہونے کا عقیدہ وغیرہ۔
نیز ان متفرق فرقوں کے تراجم کو سب نے گستاخی قرار دیا ہے۔ اس بابت مزید معلومات کے لیے ایک عدد مضمون ’’جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے تحریف قرآن کے الزام پر ایک طائرانہ نظر‘‘ الفضل انٹرنیشنل کے حسب ذیل لنک سے پڑھا جاسکتا ہے۔
(https://www.alfazl.com/2020/11/17/24479/)
پس حقیقت یہ ہے کہ سارے فرقے ایک دوسرے کے خلاف وہی الزامات لگاتےہیں جو یہ جماعت احمدیہ پر لگاتے ہیں، گویا بقول قرآن :تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى :تو انہىں اکٹھا سمجھتا ہے جبکہ ان کے دل باہم پھٹے ہوئے ہىں (الحشر:15)
پس اگر کسی ایک فرقہ کا اپنی اکثریت یا حکومت کے بل بوتے پر ا پنے زعم میں بقول شخصے
’’وہی قاتل،وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے‘‘
کا کردار اگر مان لیا جائے تو اندھیر نگری پھیل جائے،ورنہ تو حضرت موسیٰ کے خلاف حکومت فرعون کا کفر کا فتویٰ ’’وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ‘‘(الشعراء :20)بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔نیزاگر اس دلیل پر اصرار کیا جائے کہ چونکہ ملک میں ایک ظالمانہ قانون موجود ہے اس لیے جو اس کی مخالفت کرے گا وہ مجرم ہوگا تو دنیا میں انسانی حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والے تمام بڑے نام مجرم قرار پائیں۔اگر مذہبی دنیا سے مثال پیش کی جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دینے کا فیصلہ مذہبی اور ملکی دونوں عدالتوں نے سنایا تھا۔ اور پیلاطوس نے اس کا حکم سنانے سے قبل عوام کی رائے بھی معلوم کی تھی اور سب نے یک زبان ہو کر یہی رائے دی تھی کہ آپ کو صلیب دی جائے۔لیکن کوئی ذی ہوش یہ دلیل نہیں پیش کر سکتا کہ چونکہ اس وقت ملک کے قانون نے آپؑ کے خلاف فیصلہ سنایا تھا اس لیے یہ فیصلہ درست تھا۔ اور اس کے خلاف کچھ کہنا مناسب نہیں۔اور یہ بات ہرگز درست نہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتاہے اور کوئی دوسرا انسان یا حکومت اس کے فیصلہ کی مجاز ہی نہیں اور خصوصاً جب کوئی فیصلہ خلاف قرآن ہو۔
جماعت احمدیہ کی خدمت قرآن اور مخالفین کی شہادت
بہرحال اس زمانے کے علماء و عوام الناس کے حالات کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے ایفا کے لیے اپنے فرستادہ کو مبعوث فرمایا۔آپ علیہ السلام کی بعثت کی علت غائی ہی قرآن مجید کی حفاظت اور اس کی اشاعت ہے۔اور اسی نیک کام کو جاری رکھنے کے لیے آپ علیہ السلام کی اتباع میں خلفائے سلسلہ اور آپ کی جماعت عامل ہے۔
جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کا اوّل مقصد یہی قرار دیا ہے کہ قرآن کی تعلیمات اور برکات کو دنیا میں پھیلایا جائے۔
چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ اسی کام کے لئے یہ عاجز مامور ہے تاغافلوں کے سمجھانے کے لئے قرآن شریف کی اصلی تعلیم پیش کی جائے‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 103)نیز فرمایا: ’’مجھے بھیجا گیاہے تاکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں ۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ9،ایڈیشن1988ء)
نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو خدمت قرآن کے صحیح طریق و اسلوب بھی سکھائے ہیں۔
جماعت احمدیہ کی خدمت قرآن،غیر احمدیوں کی نظر میں!
جماعت احمدیہ میں محبت قرآن اور تعلیم قرآن کی تڑپ کے بارے میں’’اَلْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ‘‘ یعنی حقیقی خوبی وہی ہوتی ہے جس کا دشمن بھی باوجود اپنی دشمنی کے اعتراف پر مجبور ہوجائے کو مدنظر رکھتے ہوئے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
مثلاً ایک غیر احمدی صحافی جناب’’میاں محمد اسلم صاحب آف امرتسر نے جب مارچ 1913ء میں قادیان کا دورہ کیا، تو واپسی پر اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا کہ ’’عام طور پر قادیان کی احمدی جماعت کے افراد کو دیکھا گیاتو انفرادی طور پر ہر ایک کو تو حید کے نشے میں سرشار پایا گیا۔ اور قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں، میں نے دیکھی،کہیں نہیں دیکھی۔صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے و بچے اور نوجوانوں کو لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا۔دونوں مسجدوںمیں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یاد رہے گا…غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا۔‘‘(بدر 13؍مارچ1913ءصفحہ6تا9بحوالہ حیات نور 614)
اسی طرح حکیم عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر رسالہ المنیر لائلپور لکھتے ہیں:’’قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلینؐ کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں۔‘‘ (ہفت روزہ المنیر لائل پور۔ صفحہ۱۰۔ ۲؍مارچ۱۹۵۶ء)
اسی طرح جناب عبد الحق صاحب اپنے مضمون ’’علمائے اسلام سے گذارش‘‘ میں لکھتے ہیں:۔’’قادیانی ٹیلیویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر،درس احادیث،حمدونعت اورتمام قوموں کے قادیانیوں خصوصاً عربوں کوباربارپیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں‘‘(ہفت روزہ الاعتصام ۲۴؍جنوری۱۹۹۷ء۔ جلد۴۹۔ شمارہ نمبر۴صفحہ۱۷)
مشہور معاند احمدیت جناب مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی نے ایک انٹرویو میں کہا:’’روسی زبان میں قادیانی جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ کروا کر پورے روس میں تقسیم کیا ہے…کم از کم سو زبانوں میں قادیانیوں نے تراجم شائع کروائے ہیں جو پوری دنیا میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔‘‘(ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد نمبر ۲۔ شمارہ ۴۷۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر ۲۰۰۰ء۔ صفحہ ۳۱)
جماعت احمدیہ کی تراجم قرآن کی مختصر تاریخ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شدید خواہش تھی کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں میں اسلام کی اشاعت کے لیے قرآن کریم کی’’ ایک تفسیر بھی تیار کرکے اور انگریزی میں ترجمہ کرا کر‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 518)بھجوائی جائے۔چنانچہ آپؑ کے مقدس خلفاء نے اس خواہش کو جس شان سے پورا کرنے کا کام سرانجام دیا ہے،یقیناً مسیح پاک علیہ السلام کی روح خدا کے دربار میں خوشی سے جھومتی ہوگی۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر انگریزی ترجمہ قرآن اور اس کے ساتھ ساتھ مختصر نوٹس تیار کروانے کا کام شروع ہوا۔
پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نےمختلف مواقع پر اور خاص طور پر 1944ء میں دنیا کی مشہور زبانوں میں ترجمۃ القرآن کی خاص تحریک فرمائی۔ (الفضل 27؍اکتوبر1944ءصفحہ4)
اور عملاً’’خلافت ثانیہ کے عہد میں اردو،ڈچ،سواحیلی،جرمن اور انگریزی۔کل پانچ زبانوں میں مکمل قرآن کریم کے تراجم طبع ہوئے۔‘‘(سلسلہ احمدیہ جلد چہارم صفحہ نمبر143) جبکہ عہد خلافت ثانیہ میں 15 زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ پر کام شروع ہواچکا تھا۔(خلاصہ:سوانح فضل عمر جلد3صفحہ173)
اسی طرح خلافت ثالثہ میں چارزبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے،اور انگریزی زبان میں ہی تفسیر القرآن کاایک خلاصہ بھی شائع ہوا۔نیز متفرق تراجم پر کام شروع ہوا۔(سلسلہ احمدیہ جلد چہارم صفحہ143)
1974ء اور 1984ءکے بدنام زمانہ قوانین کے بعد تراجم قرآن کا عظیم الشان کام
1974ء کی’’سرکاری اسمبلی‘‘ میں نام نہاد72؍فرقوں نے باہم اجماع کیا کہ جماعت احمدیہ نعوذباللہ غیر مسلم ہے۔یاد رہے کہ اس’’ سرکاری اسمبلی‘‘ میں موجود یہ سب فرقے باہم ایک دوسرے کو کافر،مرتد اور خارج از اسلام قرار دیتے ہیں۔بطور نمونہ صرف ایک مثال پیش کیے دیتا ہوں۔مثلاًاس وقت پاکستان میں موجود مسلمان فرقوں میں سب سےز یادہ تعداد بریلوی فرقے کی ہے۔بریلوی فرقہ کے امام اور ان کے مجدد دیگر فرقوں خصوصاً دیوبندی،اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’جملہ مرتدین ہیں، کہ ان کے مرد یا عورت کا تمام جہان میں جس سے نکاح ہوگا مسلم ہو یا کافر، اصلی یا مرتد،انسان ہو یا حیوان !محض نکاح باطل اور زنائے خالص ہوگا،اور اولاد ولد الزِّنا‘‘(ملفوظات اعلیٰ حضرت۔حصہ دوم،صفحہ 301۔شائع کردہ مکتبہ المدینہ دعوت اسلامی)
بلکہ موصوف نے اپنے مخالفین خصوصاً دیوبندی احباب کے چار بزرگوں کے متعلق تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’مَنْ شَکَّ فِی کُفْرِہِ وَ عَذَابِہِ فَقَدْ کَفَرَ:جو اُن کے کفر و عذاب میں شک کرے خود کافر ہے‘‘(حُسام الحرمین یعنی مسئلہ تکفیر اور علمائے حرمین شریفین۔از امام احمد رضا۔مترجم۔صفحہ نمبر74)
گویا ان کی بالکل وہی کیفیت ہے جیسا کہ فرمایا گیا تھا کہ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيْدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ان کى لڑائى آپس مىں بہت سخت ہے تو انہىں اکٹھا سمجھتا ہے جبکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہىں۔ (الحشر:۱۵)
بعد ازاں 1974ء کی اسمبلی میں ’’سرکاری اسلام ‘‘ تیار کرنے والے ان اسمبلی ممبران کی ایمانی و روحانی حالت،نیز ان ممبران اسمبلی کی نجی مصروفیات کے متعلق صدر پاکستان ضیاءالحق نے باقاعدہ ایک وائٹ پیپر شائع کیا،جس کو ضبط تحریر میں بھی لانا ہرگز مناسب نہیں۔
یاد رہے جیسے فرعون کو بھی اپنی قوم کے ایمان کی بڑی فکر رہتی تھی! کہ کہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی قوم کے ایمان کو ’’لوٹ‘‘کر ہی نہ لے جائیں!إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِيْنَكُمْ مىں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارا دىن بدل دے گا (المؤمن:27) اسی طرح ضیاءالحق نے 1984ء میں آرڈیننس جاری کرکے ثابت کردیا۔
بہرحال اصل مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے مکرر تحریر ہے کہ خصوصیت کے ساتھ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو اِس فرعون وقت کے زمانے میں بسنت مامورین ہجرت کرنا پڑی، اِس کے بعد تو گویا تراجم قرآن کی ایک بہار کا موسم آگیا۔
خلافت رابعہ کے اکیس سالہ عہد سعادت میں 47؍ نئی زبانوں میں مکمل تراجم شائع ہوئے،یعنی اختتام عہد خلافت رابعہ تک شائع شدہ تراجم قرآن کی تعداد 57؍ ہو گئی۔ اور خصوصاً صد سالہ جوبلی کی مناسبت سے آپؒ نے مختلف موضوعات پر قرآن مجید کی منتخب آیات کا سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ کروا کر بھی شائع فرمایا۔(بدر قادیان۔24؍تا 31؍دسمبر 2015ء۔خلاصہ از صفحات43 اور 44)
خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے تراجم قرآن کریم کی تیاری اور ان کی اشاعت کا یہ کام بلندی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔امسال جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے دن کے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اب تک الحمدللہ جماعت احمدیہ کی طرف سے 78؍ زبانوں میں تراجم قرآن شائع ہوچکے ہیں۔(الفضل انٹرنیشنل 29؍جولائی تا 4؍اگست 2024ءصفحہ12)جماعت احمدیہ کے ذریعہ مختلف زبانوں میں طبع شدہ مکمل قرآن کریم کے تراجم،نیز جس جس سال یہ تراجم شائع ہوئے ہیں ان کی مکمل فہرست کتاب سلسلہ احمدیہ حصہ چہارم کے صفحہ 147تا 149؍پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
الغرض ساری دنیا میں خلافت احمدیہ کے زیرِسایہ جماعت احمدیہ وہ واحد جماعت ہے جس نے تن تنہا اتنی زبانوں میں قرآن کریم شائع کرنے کی توفیق پائی ہے۔اور قرآن کی یہ ایسی خدمت ہے جو آج تک کوئی دوسرا مسلمان فرقہ،جماعت،ملک یا قوم بجا نہیں لا سکی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔
پس ہمارا تو یہی عقیدہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ’’ یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اُس کو پاش پاش کرے گا اور جو اِس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ257حاشیہ)
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
٭…٭…٭