حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرت ﷺسے حقیقی محبت کا اظہار درود شریف پڑھنے سے ہے

…ایک احمدی کا ایک بہت بڑا کام اس طریق پر چلنا بھی ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام ایک جوش کے ساتھ بھیجو۔ گو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ایک مومن کو حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کیوں یا کس لئے کا سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔ ظاہر ہے عموماً اٹھاتا بھی نہیں۔ جُوں جُوں کسی کا ایمان اور دینی معاملات کا علم اور دعاؤں کا فہم بڑھتا ہے حکم کی حکمت اور فوائد بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں یا سمجھ آ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ علم حاصل کر کے سیکھنا بھی اسلامی تعلیم کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ علم حاصل کرو اور سیکھو بھی اور یہ فہم اور ادراک حاصل کرنے کی کوشش بھی کرو۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بھی بڑھاؤ۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ سیکھو تا کہ حکمت جلد سے جلد سمجھ آ جائے۔ نہ کہ اس انتظار میں رہو کہ آہستہ آہستہ سیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا فہم اور ادراک بھی حاصل ہو جائے اور پھر یہ فہم اور ادراک حاصل ہونے کی وجہ سے بہتر رنگ میں اس پر عمل ہو سکے۔

پس اس حوالے سے اس وقت میں بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات پیش کروں گا جو درود شریف کی اہمیت اور اس کے فوائد کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبّت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس محبت کے تقاضے کی وجہ سے ہمارے دل اُس وقت چھلنی ہوتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نازیبا الفاظ کہے جائیں یا کسی بھی طرح غلط رنگ میں آپ کی طرف کوئی بات منسوب کی جائے۔ لیکن اس محبت کا حقیقی اظہار اور اس کا فائدہ کس طرح ہو گا، اس بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعوؓد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔ (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ …حدیث نمبر484) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا اظہار جس کے نتیجے میں آپؐ کا قرب ملے درود شریف پڑھنے سے ہی ہے۔… دعا کرنے کے صحیح طریق کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور دعا کرتے ہوئے کہا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تُو نے جلدی کی۔ چاہئے کہ جب تُو نماز پڑھے اور بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثنا کرے۔ پھر مجھ پر درود بھیجے۔ پھر جو بھی دعا وہ چاہتا ہے مانگے۔ راوی کہتے ہیں پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَیُّھَا الْمُصَلِّی اُدْعُ تُجَبْ۔ کہ اے نماز پڑھنے والے دعا کر، قبول کی جائے گی۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی جامع الصلوات عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر3476)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۶؍فروری ۲۰۱۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button