حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قبولیتِ دعا

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۵؍جون ۲۰۱۲ء)

آدابِ دعا کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں‘‘۔فرمایا ’’بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے۔ بعض ایسے ہیں جو سِرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آدابِ دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں‘‘۔ (یعنی دعا کے آداب نہیں آتے اور جب دعا کے آداب نہیں آتے تو دعائیں قبول نہیں ہوتیں، لیکن فرمایا کہ اصل تو یہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو دعا کے اصل معنی ہیں اُس طرح دعا کی نہیں جاتی۔) فرمایا ’’اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں۔ ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے۔ دعا کے لئے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اﷲ تعالیٰ پر یہ سُوء ظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں ہونی چاہئے کہ بہت لمبا عرصہ مَیں نے دعا کرلی اب کچھ نہیں ہوگا)۔ (ملفوظات جلدنمبر۲صفحہ ۶۹۲-۶۹۳)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کی حقیقت و آداب کا یہ ادراک ہمیں عطا فرمایا اور سب سے بڑھ کر اپنے اُن صحابہ کو عطا فرمایا جن کی براہِ راست تربیت آپؑ نے فرمائی۔ بلکہ آپ کی آمد سے جو دنیا میں ایک ہلچل مچی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی جو تحریک چلی، اُس نے بھی بہت سے ایسے لوگوں کو جن کی اللہ تعالیٰ اصلاح کرنا چاہتا تھا، اُن میں بھی دعا کی حقیقت اور آداب کا ادراک پیدا فرما دیا۔ اور یوں اُن لوگوں کا آپؑ پر ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا۔ اس وقت مَیں آپ کے زمانے کے اور آپ سے فیض پانے والے چند صحابہؓ کا ذکر کروں گا جنہوں نے دعا کی حقیقت کو جانا اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُن کی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دکھائے جس سے اُن کے ایمان بھی مضبوط ہوئے اور وہ لوگ دوسروں کی ہدایت کا بھی باعث بنے۔

حضرت میاں محمدنواز خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’۱۹۰۶ء میں یہاں سیالکوٹ میں طاعون کا از حد زور و شور تھا۔ رسالہ بند ہو گیا۔ ہر طرف مردے ہی مردے نظر آتے تھے۔ مولوی مبارک صاحب صدر میں مولا بخش صاحب کے مکان پر درس دے رہے تھے۔ مَیں لیٹا ہوا تھا۔ مجھے بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے دعا کی کہ یا مولا! میں نے تو تیرے مامور کو مان لیا ہے اور مجھے بھی گلٹی نکل آئی ہے۔ پس اب مَیں تو گیا۔ مگر خدا کی قدرت کہ صبح تک وہ گلٹی غائب ہو گئی اور میرا ایک ساتھی محمد شاہ ہوا کرتا تھا، اُسے میں نے دیکھا کہ مرا پڑا ہے۔ محمدشاہ اور میں دونوں ایک کمرے میں رہتے تھے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر۱۰صفحہ نمبر۱۴۳روایت حضرت میاں محمدنواز خان صاحبؓ)

پھر حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ جموں سے پیدل براہ گجرات کشمیر گیا۔ راستہ میں گجرات کے قریب ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ والی دعا نہایت زاری اور انتہائی اضطراب سے پڑھی۔ اللہ تعالیٰ میرے حالات ٹھیک کر دے۔ کہتے ہیں اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے کبھی تنگی نہیں ہوئی اور باوجود کوئی خاص کاروبار نہ کرنے کے غیب سے ہزاروں روپے میرے پاس آئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر۱۲صفحہ نمبر۶۸روایت حضرت خلیفہ نورالدین صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ۱۹۱۵ء کو میرے بچے عبداللہ خان کو جبکہ میں بمع عیال قادیان میں تھا طاعون نکلی اور دو دن کے بخار نے اس شدت سے زور پکڑا کہ جب میں دفتر سے چار بجے شام کے قریب گھر میں آیا تو اُس کی نہایت خطرناک اور نازک حالت تھی۔ اُس وقت میرے یہی ایک بچہ تھا۔ والدہ یعنی بچے کی ماں جو کئی دنوں سے اُس کی تکلیف کو دیکھ دیکھ کر جاں بہ لب ہو رہی تھی، مجھے دیکھتے ہی زار زار رو دی اور بچے کو میرے پاس دے دیا۔ سخت گرمی کا موسم اور مکان کی تنگی اور تنہائی اور بھی گھبراہٹ کو دوبالا بنا رہی تھی۔ (مکان بھی تنگ، گرمی کا بھی موسم، اکیلے اور اس پر یہ کہ بچہ بھی بہت زیادہ بیمار، تو گھبراہٹ اور بھی زیادہ بڑھ رہی تھی) کہتے ہیں مَیں نے بچے کو اُٹھا کر اپنے کندھے سے لگا لیا۔ بچے کی نازک حالت اور اپنی بے کسی، بے بسی کے تصور سے بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس اضطراری حالت میں بار بار اُن دعائیہ الفاظ کا اعادہ کیا کہ اے خدا! اے میرے پیارے خدا! اس نازک وقت میں تیرے سوا اور کوئی غمگسار اور حکیم نہیں، صرف ایک تیری ہی ذات ہے جو شفا بخش ہے۔ غرضیکہ میں اس خیال میں ایسا مستغرق ہوا کہ یکا یک دل میں خیال ڈالا گیا کہ تو قرآنِ کریم کی دعا قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ پڑھ کر بچے کے سر پر سے اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے کی طرف لا اور بار بار ایسا کر۔ چنانچہ مَیں نے بچشم تر (روتے ہوئے) اسی طرح عمل شروع کیا۔ یہاں تک کہ چند منٹوں میں بچے کا بخار اُتر گیا۔ صرف گلٹی باقی رہ گئی جو دوسرے دن آپریشن کرانے سے پھوٹ گئی اور چار پانچ روز میں بچے کو بالکل شفا ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر ۶ صفحہ نمبر ۱۵۰-۱۵۱روایت حضرت چوہدری امیر خان صاحبؓ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button