متفرق شعراء

مسیحائی

تم مسیحائی کرو گے میری؟

تم جو ہو درد جگانے والے

تم جو ہو ظلم کمانے والے

دستِ مجرم میں تمہی تیغ تھمانے والے

کتنی آنکھوں میں سیہ اشک سجانے والے

کتنی روحوں پہ کئی گھاؤ لگانے والے

امنِ عالم کا عَلم سر پہ سجانے والے

تم ہی انسان کو ہو نوچ کے کھانے والے

تم جو خالق کو بُھلا بیٹھے ہو

کیوں ضمیر اپنا سُلا بیٹھے ہو

کتنے معصوم دلوں کے آنگن

اپنے ہاتھوں سے جلا بیٹھے ہو

راکھ کے ڈھیر لگا بیٹھے ہو

جس مسیحا کو بُلاتے تھے وہ آ بیٹھا ہے

کتنی شمعیں کئی رستوں میں جلا بیٹھا ہے

کتنے مرہم کئی زخموں پہ لگا بیٹھا ہے

کتنے سوئے ہوئے مُردوں کو جگا بیٹھا ہے

تم بھی اس موت سے جاگو کہ سَحر آئی ہے

ظلم کی رات مٹا دو کہ سَحر آئی ہے

غم زدوں کو بھی بتا دو کہ سَحر آئی ہے

امن ہے، پیار ہے، بخشش ہے، مسیحائی ہے

آؤ اس نور سے پیالے بھر کر

پیاس صدیوں کی بُجھا لیتے ہیں

کچھ زمیں کو بھی پِلا لیتے ہیں

راکھ اور خون کی تلخی کو مٹا لیتے ہیں

شرم اگر تم میں سلامت ہے تو چاہو بخشش!

کوئی احساسِ ندامت ہے تو چاہو بخشش!

ورنہ سوچو گے کہاں اور کدھر جاؤ تم

مالکِ ارض و سما چپ ہے سُدھر جاؤ تم!

(امۃ القدیر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button