اُس نُور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاؐء کا مجمع الانوار بن گیا
حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیّت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہوچکا تھا اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہریک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہا اور اسی عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔ ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۲۸۶-۲۸۷،حاشیہ نمبر ۱۱)
دوسری قسم اُن اَخلاق کی جو ایصالِ خیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلا خُلق ان میں سے عفو ہے۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے، سزا دلائی جائے،قید کرایا جائے، جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِؕ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (آل عمران:۱۳۵) وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (الشورى:۴۱) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہولیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو، کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہونہ غیر محل پر تو اس کا بدلہ پائے گا۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ۳۵۱)
عقلِ ذکا، سرعت ِفہم، صفائی ذہن، حسنِ تحفظ، حسنِ تذکّر، عفت، حیا، صبر، قناعت، زہد، تورّع، جوانمردی، استقلال، عدل، امانت، صدق لہجہ، سخاوت فی محلّہٖ، ایثار فی محلّہٖ، کرم فی محلّہٖ، مروّت فی محلّہٖ، شجاعت فی محلّہٖ، علّوہمت فی محلّہٖ، حلم فی محلّہٖ، تحمل فی محلّہٖ، حمیّت فی محلّہٖ، تواضع فی محلّہٖ، ادب فی محلّہٖ، شفقت فی محلّہٖ، رأفَت فی محلّہٖ، رحمت فی محلّہٖ، خوفِ الٰہی، محبتِ الہٰیہ، اُنس باللہ، انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ … جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے… اُن نوروں پر ایک اور نورِآسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہوگیااور اُس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۱۹۵حاشیہ ۱۱)
ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مُدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
اُس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالَم میں
لاجَرَمْ غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ ۲۲۵ ۔ مطبوعہ ۱۸۹۳ء)