یادِ رفتگاں

محترم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب وفات پاگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون

(ابو سدید)

نائب ناظر اور انچارج شعبہ ترتیب و ریکارڈ دفتر صدر صدر انجمن احمدیہ، صدر مجلس صحت مرکزیہ، ماہر تعلیم، تقریباً۴۰ سال تک تعلیم الا سلام کالج ربوہ میں تدریس کی خدمات سرانجام دینے والےدیرینہ خادم سلسلہ و واقف زندگی

محترم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب وفات پاگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون

احباب جماعت کو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ نائب ناظر اور انچارج شعبہ ترتیب و ریکارڈ دفتر صدر صدر انجمن احمدیہ، صدر مجلس صحت مرکزیہ، ماہر تعلیم، ۴۰ سال تک تعلیم الا سلام کالج ربوہ میں تدریس کی خدمات سرانجام دینے والےاور دیرینہ خدمات سلسلہ کرنے والے مخلص واقف زندگی مکرم و محترم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب مورخہ ۱۲ ستمبر ۲۰۲۴ء بروز جمعرات بعمر ۸۲ سال صبح ۶ بجے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں وفات پاگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون۔

آپ کو تقریباً چار ماہ پہلے دل کا پہلا اٹیک ہوا اور اینجیو پلاسٹی کے ذریعے سٹنٹ ڈالا گیا۔ مورخہ ۵۔۶ستمبر ۲۰۲۴ء کی درمیانی رات کودل کا دوسرا اٹیک ہوا اور سانس کی تکلیف بھی ہوگئی جس کی وجہ سے طاہر ہارٹ میں داخل کرایا گیا۔ علاج معالجہ کے باوجود سانس میں بحالی نارمل نہ ہوسکی تو وینٹیلیٹر (Ventilator)لگا دیا گیا۔دل کی بیماری کےساتھ ساتھ آپ کے گردے اور جگر بھی متاثر تھے۔ وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود دو دن تک آپ کاغذ پر لکھ کر باتیں کرتے رہے۔ مورخہ ۷ستمبر کو وینٹی لیٹر پر ہی آپ کی اینجیو پلاسٹی ہوئی اور ایک مزید سٹنٹ ڈالا گیا۔ ایک ہفتہ کے دوران تین دفعہ وینٹی لیٹر اتارنے کی کوشش کی گئی لیکن سانس بحال نہ ہونے پر پھر لگا دیا گیا۔ڈاکٹرز نے علاج کے ذریعے بہت کوشش کی لیکن تقدیر غالب آئی اور یہ دیرینہ خادم سلسلہ اللہ کو پیارا ہوگیا۔

اسی دن بعد نماز عصر آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ خدا تعالی کے فضل سے موصی تھے اس لیے بہشتی مقبر دارالفضل میں تدفین ہوئی، قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا کی گئی۔ نماز جنازہ اور تدفین میں ربوہ اور گردو نواح کے شہروں سے احباب جماعت کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ خدام ربوہ نے اس موقع پر مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔

 محتر م عبدالجلیل صاحب کی پیدائش ۱۹۴۲ء کو محتر م قریشی عبدالغنی صاحب کے ہاں قادیان میں ہوئی۔آپ کے دادا حضرت میاں قطب الدین صاحب ؓ آف گولیکی ضلع گجرات اور نانا حضرت مولوی محمد عثمان صاحب ؓامیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازیخان صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ میں سے تھے۔

 محترم جلیل صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان میں ہی حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ربوہ ہجرت کر آیا۔ آپ نے ۱۹۵۸ء میں تعلیم الاسلام سکول ربوہ سے میٹرک کیااور اس کے فوراً بعد تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ لیا۔ایف ایس سی میڈیکل میں آپ کا داخلہ ہوا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ )پرنسپل کالج سے آپ کا تعارف ہوا اور پھر داخلہ ہوگیا۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۰ء تک کا عرصہ بطور طالبعلم وہاں گزارا۔ آپ کی یہ کلاس اللہ کے فضل سے تعلیم میں غیر معمولی قابلیت رکھتی تھی، اس کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات میں بھی کیا کہ ان کی وہ خوش قسمت اور تاریخی کلاس تھی کہ جس کے ۲۰ میں سے ۶ طلباء نے بورڈ میں پوزیشن حاصل کی، بلکہ پہلی، تیسری، چوتھی اور چھٹی پوزیشن ٹی آئی کالج کی آئی۔آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کےدفتر میں بیٹھ کر بطور طالبعلم پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ حضور نے ان کے اندراپنے منفرد انداز تدریس کے ذریعے اعتماد پیدا کیا۔ پھر آپ نے بی ایس سی آنرز اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے پاس کیا۔

آپ کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں علم حاصل کرنے اور مختلف حیثیتوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی زیر نگرانی اور سرپرستی کام کرنے کا بھرپور موقع میسر آیا۔

۱۹۶۴ء سے آپ نے بطور استاد تعلیم الاسلام کالج میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ تم ایم اے انگلش فرسٹ ڈویژن میں کرو، پھر میں تمہیں باقاعدہ سٹاف میں رکھوں گا اور ایک سو ایک روپے انعام دوں گا۔چنانچہ آپ نے حضور کے ارشاد پر۱۹۶۶ء میں ایم اے انگریزی کیا اور آپ کا باقاعدہ تقرر ٹی آئی کالج کے شعبہ انگریزی میں ہوگیا۔ اس وقت صدر شعبہ محتر م صاحبزادہ مرزاخورشید احمد صاحب تھے۔۱۹۷۲ء تک آپ بطور پروفیسر انگلش خدمات سر انجام دیتے رہے۔ جب کالج کو حکومت نے قومیایا گیا تو آپ کونئی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ چونکہ آ پ نے ڈبل ایم اے کیا ہوا ہے اس لیے آ پ اپنی تدریس کے لیے پولیٹیکل سائنس اور انگلش میں سے ایک مضمون کا انتخاب کر لیں۔ اس کے بعد آپ لمبا عرصہ تک شعبہ انگریزی میں ہی خدمت کرتےرہے۔تاہم آپ نے پولیٹیکل سائنس بھی شروع اور آخر میں کچھ عرصہ پڑھائی تھی۔ ۲۰۰۳ء میں آپ ٹی آئی کالج کی پروفیسر شپ سے ریٹائر ہوئے اور اس طرح آپ مسلسل ۳۹سال تک باقاعدہ تدریس کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

آپ کو ربوہ کی سپورٹس کے ساتھ گہرا تعلق تھا، والی بال کے بہت ماہر اور نیشنل لیول کے کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔۱۹۶۱ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی والی بال ٹیم میں آپ کی سلیکشن ہوئی۔ اور آپ کی ٹیم انٹر یونیورسٹی لیول پر چیمپئن رہی۔آپ پنجاب کی سطح پر بھی کھیلتے رہے۔ آپ نے چالیس سال تک ربوہ کی والی بال ٹیم کو فعال بنائے رکھا۔ آپ ہی اس کے کیپٹن تھے۔ آپ تعلیم الاسلام کالج کی فٹ بال ٹیم کے ممبر بھی رہے۔ورزش اور کھیل آپ نے آخر تک جاری رکھی عمر کے آخری ۱۳۔۱۴ سال آپ باقاعدگی سے ٹیبل ٹینس کی گیم کرتے ترہے اور اپنے گروپ کے روح و روواں تھے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے اپنی زندگی وقف کردی۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۲۶؍اکتوبر ۲۰۰۳ء کو آپ کاوقف قبول فرمایا اور تقرر دفتر صدر صدر انجمن احمدیہ کے شعبہ ترتیب و ریکارڈ کے انچارج اور نائب ناظر کے طور پر فرمایا۔ جہاں آپ یکم نومبر ۲۰۰۳ء سے تاحیات خدمات سر سرانجام دیتے رہے۔

حضور انور کی طرف سے وقف منظور ہونے سے پہلے نہایت فکر مند تھے ۔وقف کی منظوری آنے کے بعد ایسے پر جوش انداز میں خوشی کا اظہار کیا جیسے بہت بڑا خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔سب کوخوشی سے بتاتے کہ الحمدللہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت خاکسارناچیز عاجز کا وقف قبول فرمالیا ہے ۔

آپ نے ذیلی تنظیموں میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں بطور مہتمم  امور طلباء  اور مہتمم  مجالس بیرون خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ( خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کا بطورمہتمم  مجالس بیرون تقرر ہوا اس  کے علاوہ آپ کو ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۵ء مسلسل ۱۸سال بطور قائد ذہانت و صحت جسمانی مجلس انصاراللہ پاکستان خدمت کی توفیق ملی۔ جب ۱۹۹۷ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے توحضور انور اس وقت قائد ذہانت و صحت جسمانی تھے۔ ان کے بعد محترم پروفیسر صاحب کو۱۹۹۸ء میں قائد ذہانت و صحت جسمانی مقرر کیا گیا۔آپ کے دور کی نمایاں خدمات میں سالانہ سپورٹس ریلی مجلس انصاراللہ پاکستان کا کامیابی سے انعقاد تھا۔ جس کا آغاز ۱۹۹۹ء میں آل پاکستان بیڈ منٹن ٹورنامنٹ سے ہوا اور ۲۰۱۵ء کی ریلی میں ۱۶ کھیلوں کے مقابلہ جات تک اس کا دائرہ وسیع ہوگیا۔ آپ کی زیر ہدایت انصار بھائیوں کی صحتِ جسمانی اور کھیلوں کے فروغ کے لیے خدمات تاریخ انصاراللہ کا روشن باب ہیں۔ آپ ۱۲؍اگست۲۰۰۳ ء تا دم ِ آخر صدر مجلس صحت مرکزیہ کے طور پر خدمت کرتے رہے۔ ۱۹۸۳ء میں آپ کو قاضی سلسلہ بنایا گیا اس عہدہ پر تاحیات خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کو بطور صدر محلہ دارالرحمت غربی ربوہ خدمات کی طویل مدت تک خدمت کی توفیق ملی۔

آپ کو جلسہ  ہائے سالانہ  ربوہ کے مواقع پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی بطور معاون، منتظم اور نائب ناظم خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ اس کے بعد آپ کو ۱۹۸۶ء تا ۱۹۹۱ء ناظم مہمان نوازی دارالرحمت، ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۶ء ناظم لنگر خانہ نمبرسات، ۱۹۹۷ء تا۲۰۱۱ء ناظم لنگر خانہ نمبرتین، اور ۲۰۱۲ء تا وفات ناظم لنگر خانہ نمبردومقرر کیا گیا جس پر آپ نے آخر دم تک  خدمت کی توفیق پائی۔  

اسی طرح آپ  نصرت جہاں کالج ربوہ میں ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۹ء تک Masters classes کوAmerican Literature پڑھاتے رہے۔

آپ کی سیرت اور ذاتی خوبیوں کے بہت سے پہلو ہیں۔ نفیس طبع درویش صفت انسان تھے۔ آپ اکثر خاموش رہنا پسند کرتے لیکن جب بولتے تو ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کراور جانچ کر بولتے تھے۔ کردار کے صاف ستھرے اور بردبار،کسی کے کام میں بے جا مداخلت نہ کرتے تھے۔ لیکن جہاں ضرورت ہوتی اچھا مشورہ ضرور دیتے اور نیک کاموں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اگر کسی سے تکلیف پہنچتی تو کبھی شکوہ نہ کرتے، صابر اور قانع شخصیت کے مالک تھے۔۔ آپ کا اپنے دفتر کے کارکنان کے ساتھ بہت اچھا اور غیر معمولی محبت کا سلوک تھا۔ بڑی سے بڑی غلطی پر صَرف نظر کرنا اور حکمت کے ساتھ تصحیح کرنا آپ کا شیوا رہا۔ ماتحتوں کے نامناسب رویے پر بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ اسی طرح بہت سے ضرورتمند احباب کی خاموشی اور پوشیدہ ہاتھ سے مستقل مالی امداد کیا کرتے تھے۔ دفتر میں ہمیشہ بر وقت تشریف لاتے۔

خلافت سے بہت گہرا تعلق تھا، مسلسل خطوط لکھنا آپ کی عادت تھی۔ حضور انور کی خدمت اقدس میں خط لکھنے سے قبل صدقہ ضرور دیتے تھے۔ ماتحت کارکنان کو بھی خلیفہ وقت سے خطوط کے ذریعے رابطہ استوار کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔آخری عمر تک رمضان المبارک کے روزے حتی الامکان مکمل رکھتے۔ جمعرات کا نفلی روزہ بھی اکثر رکھا کرتے تھے۔ اسی طرح پنجوقتہ باجماعت نمازوں کے بھی پابند تھے۔ بلا شبہ آپ فرشتہ صفت انسان تھے۔

آپ نے ساری عمر خانگی خوشگوار تعلقات کا بہت خیال رکھا۔گھر کا ہر رشتہ کمال خوبی سے نبھایا۔ والدین کی اطاعت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اسی لیے آپ کی شخصیت کے اندر اپنے والدین کی عادات اور خصائل جمع ہوگئے تھے۔ بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھتےاور ان کے کام آنا اپنا فرض سمجھتے۔ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو اپنی کار میں ہفتہ میں ایک بار ضرور سیر کراتے۔

آپ نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ امتہ الرشید طاہر صاحبہ ایم ایس سی۔ ایک بیٹا محترم ڈاکٹر مبارزاحمد حسن صاحب امریکہ، دو بیٹیاں محترمہ ڈاکٹر ہبۃ الوحید  صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر اکرام احمد صاحب، محترمہ ڈاکٹر  ہبۃ القدیر مریم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹرعبید اللہ صاحب یوکے اور تین بھائی مکرم قریشی عبدالرشید صاحب ربوہ، مکرم قریشی عبدالصمد صاحب اور مکرم قریشی عبد الحلیم سحر صاحب ہیں۔ آپ کے سب سے چھوٹے بھائی مکرم قریشی مبشر احمد صاحب ۵؍ستمبر ۲۰۱۵ء کو وفات پاگئے تھے۔

 اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اس مخلص خادم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آ پ کے پسماندگان کو آ پ کی خوبیاں جاری رکھنے کی توفیق بخشے اور صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button