حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر جرأت کا مظاہرہ کیا ہے

اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ایک خُلق بہادری اور جرأت بھی ہوتا ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ پر یقین اور توکّل کی وجہ سے مزید ابھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کام ان کے سپرد کئے ہوتے ہیں وہ اس وقت تک انجام نہیں دئیے جا سکتے جب تک جرأت اور بہادری کا وصف ان میں موجود نہ ہو۔ دوسرے اوصاف کی طرح یہ وصف بھی انبیاء میں اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، ان میں تو یہ وصف تمام انسانوں سے بلکہ تمام نبیوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ جس کی مثالیں نہ اُس زمانے میں ملتی تھیں، نہ آئندہ زمانوں میں مل سکتی ہیں۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر جرأت کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں کسی لیڈر کی ایسی مثال نظر نہیں آتی بلکہ سوواں، ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آتی۔ انتہائی مشکل حالات میں بھی قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے، اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے، ان کو صبر اور استقامت اور جرأت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی تلقین نہ کی ہو۔ اور خود آپؐ کا عمل یہ تھا کہ اگر تنہا بھی رہ گئے اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں تب بھی کبھی کسی قسم کے خوف کا اظہار نہیں کیا۔

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اس سے ڈرتے رہتے تھے اور اللہ کے سواکسی اور سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑھ کر اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے۔ آپؐ کا عمل اور صحابہؓ کی گواہیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے واحد کا پیغام پہنچانے میں جس جرأت کا مظاہرہ آپؐ نے کیا وہ بے مثال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں یہ جرأت اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ کرنا۔

آپؐ میں اس وقت بھی یہ وصف تھا جب آپؐ پر ابھی اللہ تعالیٰ کی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپؐ کے اُس زمانے کے معمولات کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک روایت میں اس طرح کیا ہے۔ آپؓ بیان کرتی ہیں کہ شروع شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوا تو وہ رؤیائے صالحہ کی شکل میں ہوتا تھا یعنی خوابیں وغیرہ آیا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ آپؐ رات کے وقت (یہ پہلی وحی سے پہلے کا واقعہ ہے) جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت اچھی لگنے لگی توآپؐ غار حرا میں بالکل اکیلے، کئی کئی راتیں خداتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے۔ اور جتنے دن آپؐ وہاں قیام کرتے آپؐ اپنا زادِراہ ساتھ لے جاتے اور جب یہ ختم ہو جاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے اور کھانے پینے کا مزید سامان ساتھ لے کر دوبارہ غار حرا میں چلے جاتے اور عبادتوں میں مشغول ہو جاتے۔ یہاں تک کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ کے پاس حق آ گیا۔ (بخاری -کتاب بدء الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ)

تو اس میں جہاں آپؐ کی خداتعالیٰ سے محبت اور عبادتوں کا پتہ چلتا ہے وہاں آپؐ کی اس جرأت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپؐ بغیر کسی خوف اور ڈر کے کئی کئی راتیں غار میں اور جنگل میں، جہاں کئی قسم کے خطرات ہوتے ہیں، گزارا کرتے تھے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍اپریل ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۶؍مئی ۲۰۰۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button