نصرت جہاں آگے بڑھوسکیم کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمتِ انسانیت(قسط اوّل)
’’جب پادری وہاں [افریقہ]گیا تو وہ ان کی دولتیں لوٹ کر واپس لے آیا لیکن جب محمدﷺ کے ادنیٰ غلام وہاں پہنچے تو وہ باہر سے بھی ان کے پاس روپیہ لے کر گئے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کمایا تھا وہ بھی انہی پر خرچ کر دیا ایک دھیلہ بھی وہاں سے باہر لے کر نہیں گئے اور یہ مبالغہ نہیں ہے۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ)
حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد جماعت پر ایک خوف کی کیفیت طاری ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق خلافتِ ثالثہ کے انتخاب سے امن میں بدل دیا۔
خلافتِ ثالثہ کے بابرکت دَور میں جہاں دشمن نے ہرلحاظ سے جماعت پر طرح طرح کی مصیبتیں، خوف، تکلیف اورمصائب وارد کرنے کی کوشش کی وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے ذریعہ افرادِ جماعت کے قلوب و اذہان کو صبر، سکینت اور امن سے بھر دیا۔آپؒ کی زبردست قیادت تعلیم و اشاعتِ قرآن، نشر و اشاعت، تبلیغ، قیام و استحکامِ جماعت، افرادِجماعت کو متحد رکھنا سمیت بے شمار ایسے کارناموں سے عبارت ہے جن کی ایک دنیا معترف ہے۔مخالف اپنے مکر پر انگشت بدندان رہ گیا کہ اس کی سب تدبیریں رائیگاں گئیں اور جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسولﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات اور مسیحِ محمدی کا پیغام پہنچاتے ہوئے اکنافِ عالم میں پھیلتی چلی گئی۔
قارئین کو یہ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کے حالات غیرمعمولی تھے خواہ وہ امن کے حوالہ سے ہوں یا معاشی حوالہ سے۔ ۱۹۷۱ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی۔ بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دوران وہ پُرآشوب دور بھی آیا جب ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت 74ء میں احمدیوں کے جان ومال پر حملے کیے جا رہے تھے۔ ان کے گھر، دکانیں اور کارخانے جلائے جا رہے تھے اور کاروبار لوٹے جا رہے تھے۔ کئی احمدیوں نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ جماعت احمدیہ کی کھلم کھلا مخالفت کے سبب احمدیوں کا جان و مال محفوظ نہ تھا۔ ملک بھر میں احمدیہ تعلیمی ادارہ جات کو قومیایا جا چکا تھا نیز جماعتی ملکیتی اراضی پر قبضہ کر لیا گیا۔ الغرض دنیاوی لحاظ سے یہ جماعت پر ایک نازک وقت تھا۔ لیکن خدائی مشیت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَاللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔ (آل عمران:۵۵) انہوں نے (یعنی مسیح کے دشمنوں نے) بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
پاکستانی آئین کی دوسری ترمیم کے نفاذ سے قبل خدا تعالیٰ نے اپنے چنیدہ بندے کے ذریعہ احمدیہ تعلیمی و طبی ادارہ جات کے پھیلاؤ کے لیے ایک الٰہی سکیم کا اعلان کروا دیا تھا۔ اس سکیم کے تحت انہی سالوں میں جب جماعت احمدیہ کو قانون کے شکنجے میں کسا جا رہا تھا جماعت احمدیہ براعظم افریقہ کے ممالک میںتعلیمی و طبی ادارہ جات قائم کرتی چلی گئی۔
نصرت جہاں سکیم کا ایک پہلو نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا قیام تھا۔ جس کے لیے احباب جماعت نے تین سال کے اندر اندر اپنے وعدہ جات کی ادائیگی کرنی تھی۔ جماعت پر گزرنے والے ان تمام حالات کے باوجود احبابِ جماعت نے بروقت اور بڑھ چڑھ کر اس ریزرو فنڈ کے کھاتے کو اتنا بھر دیا کہ وہ لبریز ہو گیا۔
آیئے اس روحانی سفر پر منزل بہ منزل نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم/ نصرت جہاں لیپ فارورڈ پروگرام (Leap Forward Programme)سال بہ سال ترقی کرتی چلی گئی۔
نصرت جہاں۔ آگے بڑھو کا قیام
۱۹۷۰ء کے سال سے براعظم افریقہ میں احمدیت کی تاریخ کا تابناک اور سنہری دَور شروع ہوا۔ یہی وہ سال تھا جب سلسلہ کی تاریخ میں حضرت مسیح موعودؑ کے جانشین بنفس نفیس ارضِ بلال میں تشریف لے گئے۔ یہ دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا کہ اس سرزمین کے مغربی کرّے نے پہلی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح کے قدم چومے اور محبت کا چشمہ اس سرزمین سے پھوٹ پڑا۔ اس دورے میں کئی دہائیوں سے حضرت خلیفة المسیح کی زیارت کے منتظر مخلص افریقن بھائی دیدار سے فیضیاب ہوئے۔ اور عشق و محبت کی ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ جہاں اس للّٰہی سفر نے روحانیت کی پیاسی روحوں کو سیراب کیا وہیں خدا تعالیٰ کی جانب سے گیمبیا میں حضورؒ کے دل پر ایک نہایت شاندار سکیم القا کی گئی۔ اس سکیم نے جہاں افریقن بھائیوں کے لیے تعلیم اور طب کے میدان میں سہولیات پیدا کیں وہاں یہ سکیم جماعت کی ایک خاص پہچان بن گئی۔
حضورؒ دورۂ افریقہ کے دوران گیمبیا میں تشریف فرما تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایک عظیم تحریک القا کی۔ آپؒ نے فرمایاکہ گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم کم ازکم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا۔ (ماخوذ از الفضل ۲۰؍جون ۱۹۷۰ء)
اس رقم سے افریقہ میں سکولوں اور ہسپتالوں کا ایک جال بچھانا مقصود تھا۔ چنانچہ حضورؒ نے مالی تحریک کے ساتھ واقفین ڈاکٹرز اور ٹیچرز کو تحریک فرمائی کہ افریقہ میں بے لوث خدمت کریں۔ حضورؒ نے اس سکیم کا اعلان سب سے پہلے دورۂ افریقہ کے بعد ۲۴؍مئی ۱۹۷۰ء کو مسجد فضل لندن میں فرمایا۔ حضورؒ نے اس تحریک کے لیے فنڈکا نام ’’نصرت جہاں ریزرو فنڈ‘‘رکھا۔
حضورؒ نے ۲۶؍جون ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’انگلستان میں جب میں نے تحریک کی تو وہاں کے بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور اونچی ڈگریاں لینے والے احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں کام کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کردیں۔ بہرحال ہمیں کم سے کم ۳۰ ڈاکٹروں اور ۷۰، ۸۰ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍جون ۱۹۷۰ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد۳صفحہ۱۷۱)
حضورؒ نے مجلس نصرت جہاں قائم کرکے مربوط اور ثمرآور کوشش کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضورؒ کے دورے کے چھ ماہ کے اندر اندر ستمبر ۱۹۷۰ء میں گھانا میں پہلا سکول اور نومبر ۱۹۷۰ء میں گھانا میں ہی پہلا ہسپتال قائم ہوگیا۔ خلافت ثالثہ کے اختتام تک چھ افریقن ممالک (گھانا، سیرالیون، نائیجیریا، گیمبیا، لائبیریا اور آئیوری کوسٹ) میں انیس ہسپتال اور چوبیس سکول کام کررہے تھے اور ان اداروں کا سالانہ بجٹ چارکروڑ سے تجاوز کرچکا تھا۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی کروڑوں روپوں کی عمارتیں اس کے علاوہ تھیں۔ جون ۱۹۸۲ء تک ۲۷؍لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ سکولوں سے ۲۸؍ہزار بچوں نے تعلیم حاصل کی۔
تعلیمی اداروں میں بھی خداتعالیٰ نے غیرمعمولی برکت کے سامان پیدا فرمائے۔ یہ ادارے ہر ملک میں روشنی کے مینار بن کر لوگوں کو زیور ِتعلیم سے آراستہ کرنے کا موجب بنے اور بن رہے ہیں۔ افریقہ کے لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے احمدیہ سکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ آج اپنے اپنے ملکوں میں ملکی سطح کے اہم عہدوں پر فائز ہیں اور خدمات بجالارہے ہیں۔
اس تحریک کی کامیابی کے بارے میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا: ’’نصرت جہاں سکیم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان کامیابی عطا کی ہے کہ ساری دنیا کے دماغ مل کر بھی اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ ‘‘(تقریر جلسہ سالانہ فرمودہ ۲۷؍؍دسمبر ۱۹۸۰ء)(بحوالہ کتاب خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات از مولانا عبدالسمیع خان)
نصرت جہاں ریزروفنڈکا قیام
خلافتِ ثالثہ کی ایک تحریک نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں احبابِ جماعت نے دل کھول کر خرچ کیا اور اپنے پیارے امام کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے فاستبقواالخیرات کانمونہ دکھایا۔
۱۲؍جون ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں’’ نصرت جہاں ریزرو فنڈ ‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے حضورؒ نے تین سال کے دوران ایک لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ پیش کرنے کی تحریک فرمائی اور جماعت نے دو لاکھ پاؤنڈز سے زائد رقم اپنے آقا کے قدموں میں نچھاور کر دی۔ اس تین سالہ عرصہ میں سکولز اور ہسپتالوں سے اڑھائی لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ کی آمد بھی ہوچکی تھی۔
جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۲ء کے دوسرے روز ۲۷؍دسمبر کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ اب میں نے [نصرت جہاں سکیم کے لیے ]تحریک کی تو پچاس ہزار پاؤنڈ کے قریب پہنچ گئے۔… اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جماعت مری نہیں۔ جس کے جسم میں خون نہیں ہوتا وہ بلڈ بنک میں جا کر خون کا عطیہ نہیں دیا کرتا۔ اس جسم میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں کا خون ہے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کا نظام اپنے بلڈ بنک کے لئے ان سے خون طلب کرے گا۔ یہ خون دیں گے۔(خطاباتِ ناصر جلد۱صفحہ ۴۶۸-۴۶۹)
خلافتِ ثالثہ میں مجلس نصرت جہاں کی ابتدائی مساعی
صدر جمہوریہ سیرالیون ڈاکٹر سیاکا سٹیونسن نے ۲؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو احمد یہ سیکنڈری سکول بو (Bo)کے معائنہ کے وقت تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں سب سے پہلے جماعت احمد یہ کا اس کام کے لئے جو یہ تعلیم کے میدان میں کر رہی ہے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اب اس جماعت نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی میدان میں بھی ہماری مدد کرنی شروع کر دی ہے۔ میں ان تمام گرانقدر خدمات کے لئے جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ (خطاباتِ ناصر جلد ۲ صفحہ ۱۲۴-۱۲۵)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۲ء کے دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ ہم نے پینتیس لاکھ میں سے تیس لاکھ کی رقم وہاں کے اداروں(طبی مراکز اور تعلیمی اداروں پر خرچ کر دی۔ اس وقت سولہ ہیلتھ سنٹرز مغربی افریقہ کے چار ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ اور گیارہ ہائر سیکنڈری سکولز یعنی انٹرمیڈیٹ کالجز کام کر رہے ہیں۔ (ایضاً صفحہ ۵۶۵)
٭… کتابچہ ’’انسانیت کی خدمت کا زرّیں موقع احمدی ڈاکٹروں سے بصیرت افروز خطاب‘‘از حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ میں مغربی افریقہ میں نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کا اجمالی خاکہ از یکم نومبر ۱۹۷۰ء تا ۳۰؍ اپریل ۱۹۷۲ء یوں درج ہے۔
گھانا: ۴، سیرالیون: ۳، گیمبیا: ۱، نائیجیریا: ۲۔ اس عرصہ میں ۱۶ ڈاکٹرز میدانِ عمل میں جاچکے تھے۔ اور آئیوری کوسٹ سمیت ان ممالک میں سات مزید ڈاکٹرز کی روانگی متوقع تھی۔(بحوالہ کتابچہ مذکورہ بالا صفحہ ۴۶)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۳ء دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ بہت تیزی کے ساتھ ہسپتال اور طبی مراکز قائم کئے گئے اور ہائر سکول بھی کھولے گئے۔ اس کے علاوہ مڈل اور پرائمری سکول وہ تو سینکڑوں کی تعداد میں کام کر رہے ہیں۔ مغربی افریقہ میں سو ڈیڑھ سو کے قریب سکول ہیں۔ بہرحال علمی میدان میں جماعت ان پسماندہ علاقوں کی بہت خدمت کر رہی ہے۔ ( ایضاً صفحہ ۶۳۸)
پھر فنڈز کی وصولی کی بابت فرمایا کہ نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں ۵۰ لاکھ ۶۴ ہزار ۶۲۸روپے وصول ہوچکے ہیں۔ مجھے کم سے کم جو کہا گیا تھا وہ ۲۵ لاکھ روپیہ تھا اب خدا کی شان دیکھو۔ ۲۵ لاکھ روپے مجھے خرچ کرنے کو کہا گیا تھا۔ خدا نے یہ مطالبہ کروایا تھا جماعت سے کہ کم از کم پچیس لاکھ روپیہ ان پسماندہ علاقوں کی خدمت کے لئے دو اور آپ کو یہ توفیق دی اپنی شان دکھانے کے لئے کہ ایک لاکھ کی بجائے دو لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ آپ نے دے دئیے… جو ہمارے طبی مراکز سےآمد ہوئی اور جو سکولوں کی فیسوں وغیرہ سے آمد ہوئی اس کی رقم قریباً ستر لاکھ روپیہ بنتی ہے۔ آپ نے ۵۰ لاکھ خدا کے حضور پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے خزانوں سے قریباً ستر لاکھ کے خزانے دے دیے۔ یہ بتانے کے لئے کہ آپ کی قربانیاں قبول ہوئیں۔ ( ایضاً صفحہ ۶۴۲-۶۴۳)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۴ء دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی خدمت کا جذبہ دیا ہے۔ وہاں پتہ ہے اس وقت تک کتنی عمارتیں بن گئی ہیں؟ افریقہ کے ان ملکوں میں جن کا میں نے دورہ کیا تھا اس وقت تک ’’نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم‘‘ کے تحت سولہ جگہوں پر ہسپتال کام کر رہے ہیں جن میں انیس کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں… ہمارے ان ہسپتالوں میں دس لاکھ باسٹھ ہزار مریضوں کا علاج ہوا۔ تقریباً نوہزار آپریشن کئے گئے… سولہ جگہیں ہیں، جہاں ہمارے ہسپتال کام کررہے ہیں۔ ان میں سات جگہوں پر بڑی اچھی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ ان عمارتوں میں باقی سہولتوں کے علاوہ بڑا اچھا اپریٹس بھی موجود ہے… تین جگہوں پر ہسپتال زیرِ تعمیر ہیں۔ نصرت جہاں سکیم کے ماتحت دس ہائر سیکنڈری سکول مکمل ہوچکے ہیں… جن کی عمارتیں مکمل ہوگئی ہیں اور چار کی منظور ہوچکی ہے۔ عمارتیں زیرِ تعمیر ہیں۔ (خطاباتِ ناصر جلد ۲ صفحہ ۴۹، ۵۰، ۵۱)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۵ء دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپیہ ان عمارتوں پر خرچ ہوا جو ہم نے وہاں سکولوں اور ہسپتالوں کی بنائیں اور اس اپریٹس پر خرچ ہوا اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور سکول ٹیچرز کی تنخواہوں پر جو خرچ ہوا وہ بھی اس میں شامل ہے۔ وہاں سولہ ہسپتال ہیں جن میں سے اکثر ایسے ہیں جن کی پوری عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور باقی ہسپتالوں کی عمارتیں بھی آہستہ آہستہ بن رہی ہیں۔ اللہ میاں پیسے دیتا جا رہا ہے۔
اُن لوگوں کو یہ پتہ ہے جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ جب پادری وہاں گیا تو وہ ان کی دولتیں لوٹ کر واپس لے آیا لیکن جب محمدﷺ کے ادنیٰ غلام وہاں پہنچے تو وہ باہر سے بھی ان کے پاس روپیہ لے کر گئے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کمایا تھا وہ بھی انہی پر خرچ کر دیا ایک دھیلہ بھی وہاں سے باہر لے کر نہیں گئے اور یہ مبالغہ نہیں ہے۔ ایک دھیلے کی رقم بھی جماعت احمد یہ نے ان ممالک سے باہر نہیں نکالی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے عوام بھی ہم سے پیار کرتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور یہ اللہ کا فضل ہے یہ کوئی میری اور تیری خوبی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے وہاں بڑا فضل کیا ہے۔ نیز اس نے جماعت کے نوجوان ڈاکٹروں کو وقف کی توفیق دی۔ ۱۹۷۱ء کے شروع سے کل بتیس ڈاکٹر وہاں گئے ہیں۔ بلکہ ۱۹۷۰ء کے آخر سے ہی سمجھیں اور اس وقت سولہ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں باقی تبدیل ہو کر واپس آ گئے۔ وہاں پر سولہ ہیلتھ سنٹر ہیں نیز وہاں سترہ سکول ہیں جن میں پینتیس اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ (ایضاً صفحہ ۱۲۴-۱۲۵)
٭… ۱۱؍دسمبر ۱۹۷۶ء کو دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے ۱۹۷۰ء سے قبل سکولز اور ہسپتالوں کی تعداد کا تقابل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم ۱۹۷۰ء میں شروع ہوئی تھی۔ اس سے پہلے تحریکِ جدید ہائر سیکنڈری سکول: تیرہ، مڈل: دس، پرائمری: اکاون، عربی سکول: ایک اور ایک مشنری ٹریننگ کالج چلا رہی تھی۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ بعد میں بھی بنے ہوں۔ نصرت جہاں کے ماتحت پچھلے چند سال میں، ۱۹۷۰ء کے بعد، سولہ ہائر سیکنڈری سکول اَور بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ویسٹ افریقن ممالک میں اس وقت ہمارے انتیس چھوٹے کالج کام کر رہے ہیں یہ انٹر میڈیٹ کالج کے معیار کے ہیں۔ انتیس کالج بڑی تعداد ہے اور مَیں نے بتایا ہے کہ یہ وہ ہائر سیکنڈری سکول ہیں جو بڑے مقبول ہیں اور جن پر ان کے قوانین بھی نہیں چلتے بلکہ استثناء کر دیا گیا ہے اور یہ وہ سکول ہیں کہ ان میں سے بعض میں ہر سال جتنے لڑ کے آخری امتحان دے کر سرٹیفکیٹ لے کر جاتے ہیں وہ سارے کے سارے لڑکے بیعت فارم پر کر کے جاتے ہیں، عیسائی بچے اور دوسرے بھی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت کا سامان پیدا کیا ہے۔ انتیس سکولوں کو چلانا کوئی معمولی کام نہیں، انٹر میڈیٹ کالج کے سٹائل کے انتیس سکول۔ اور میں نے بتایا ہے کہ یہ سکول اور دوسرے سب ملا کر آٹھ کم سو سکول ہیں جو تحریکِ جدید اور نصرت جہاں کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔
اسی طرح تحریک جدید کے ماتحت نصرت جہاں سے پہلے صرف تین ہسپتال کام کر رہے تھے دونائیجیریا میں اور ایک گیمبیا میں اور اس وقت نصرت جہاں کے ماتحت سولہ نئے ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء سے لے کر اب تک خدا تعالیٰ نے نصرت جہاں کو ان کے قائم کرنے کی توفیق دی۔ یہ ایک نئی سکیم ہے جس کی طرف خدا تعالیٰ نے اپنے منشا کے مطابق مجھے افریقہ کے دورے میں توجہ دلائی تھی اور حکم ملا تھا کہ یہ کرو۔ اس میں خدا نے اتنی برکت ڈالی ہے کہ اس تھوڑے سے عرصے میں سولہ ہسپتال ہم نے وہاں قائم کر دیے ہیں اور انیس ڈاکٹر وہاں کام کر رہے ہیں اور وہ بے حد مقبول ہیں۔(ایضاً صفحہ ۱۹۴-۱۹۵)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۷ء کو دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ سترہ کے قریب ہمارے ہاسپٹل اور سولہ نئے ہائر سیکنڈری سکول، وہ جو چھوٹا کالج ہے وہ ہیں۔(ایضاً صفحہ ۳۴۰)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۹ء کو دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ مجلس نصرت جہاں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اُن ممالک میں مغربی افریقہ کے جن کے لئے یہ منصوبہ تھا سترہ ہسپتال کھولے اور بہت سے سکول۔ نصرت جہاں کے ہسپتالوں میں اب تک اکیس لاکھ دو ہزار سات سو سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ اللہ نے بڑی توفیق دی ان کی خدمت کرنے کی۔ جن میں سے ایک لاکھ تہتر ہزار آٹھ سو مریضوں کا علاج مفت کیا گیا۔ کوئی اُن سے پیسہ نہیں لیا گیا۔(ایضاً صفحہ ۱۹۴-۴۲۳)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۸۰ء کو دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ منصوبہ یہ تھا کہ ہر ملک میں چار چار ہسپتال اور چار چار نئے سکول کھولے جائیں گے۔ اس میںاللہ تعالیٰ نے اتنی برکت ڈالی کہ ساری دنیا کے دماغ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
جو منصوبہ ترپن لاکھ روپے کے سرمایہ سے شروع ہوا تھا اس سے جو کام ہو رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ صرف گھانا میں اس دفعہ جب میں گیا ہوں تو چلتے وقت میں نے عبدالوہاب بن آدم وہاں کے امیر جو ہیں ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس وقت ریز رو میں کتنے پیسے ہیں نصرت جہاں کے تو انہوں نے کہا کہ two and half million پچیس لاکھ سیڈیز اور ایک سیڈی تین روپے پچپن پیسے کا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ قریباً اسی لاکھ روپیہ ایک ملک کے ریزرو میں اور کام شروع کیا تھا ترپن لاکھ سے۔ چار ملکوں میں سولہ ہسپتال اور سولہ سکول۔ سولہ سے زیادہ ہی کام کر رہے ہیں وہاں… اور عمارتیں بھی شاندار بن چکی ہیں۔ خدا تعالیٰ پیسے دیے جاتا ہے اور ان ہی پر ہم خرچ کرتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ نہ ہمیں ان کی سیاست سے کوئی غرض ہے نہ ہمیں ان کی دولت سے کوئی دلچسپی ہے۔ ان کا مال ہے ان پر خرچ ہو رہا ہے اور یہ تو ہم نے نظارہ دیکھا خدائے قادر و توانا کی قدرتوں کا مگر دنیا اتنی اندھی ہےکہ دنیا سمجھتی ہے کہ امریکہ کسی کو دولت دے سکتا ہے دنیا سمجھتی ہے کہ اسرائیل کسی کو دولت دے سکتا ہے دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سعودی عرب کسی کو دولت دے سکتا ہے لیکن اندھی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ اگر کوئی نہیں دے سکتا تو خدا تعالیٰ کسی کو دولت نہیں دے سکتا۔ لیکن ہر احمدی یہ سمجھتا ہے کہ إِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (اٰل عمران: ۳۸) اگر پیسہ دیتا ہے تو خدا ہی دیتا ہے وہ پیسہ جو برکتوں والا، وہ پیسہ جو افادیت والا، وہ پیسہ جو اسلام کے نور کو پھیلانے والا۔ وہ پیسہ جو قائم رہنے والا۔ باقی ساری دولتیں عارضی۔ ظلمتیں پھیلانے والی۔ خدا سے دُور لے جانے والی ہیں۔ (ایضاً صفحہ ۴۸۱-۴۸۲)
٭… ۲۷؍دسمبر ۱۹۸۱ء کو دوسرے روز کے خطاب میں حضورؒ نے فرمایا کہ نصرت جہاں نے زیادہ ہسپتال بنائے ہیں سترہ… اور نصرت جہاں کے اکیس سکول مغربی افریقہ میں ہائر سیکنڈری سکول یعنی جو ایف ایس سی تک ہے اچھے نتائج نکالنے والے، اچھے کھلاڑی پیدا کرنے والے اور بااخلاق انسان بنا کے ان کو باہر بھیجنے والے… فرمایا کہ ایک سال کا بجٹ آمد و خرچ تین کروڑ گیارہ لاکھ چھتیس ہزار آٹھ سو چھبیس اور ریزرو میں بھی کافی وہاں پڑے ہوئے ہیں… مجھے یہ سوچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ میں بڑا عاجز انسان ہوں اور خدا تعالیٰ پھر انتظام کر دیتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور میں تو حیران ہوں، حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانے میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز انسان کو اس نے ہاتھ میں پکڑا اور اعلان کیا دنیا میں کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کر دوں گا اور کر دیا۔ (ایضاً صفحہ ۵۴۸)
(باقی آئندہ)