غزوۂ خندق کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍ستمبر۲۰۲۴ء
٭… رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے خود بھي کھدائي ميں حصہ ليا اور مٹي اپني پيٹھ پر اُٹھائي يہا ں تک کہ آپؐ کي پشت اور پيٹ غبار آلود ہو جاتے
٭… حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو جب ٹوکرياں نہ ملتيں تو جلدي ميں اپنے کپڑوں ميں مٹي منتقل کرتے تھے
٭… خندق کي کھدائي ميں آپؐ کي شرکت اور آپؐ کي دعاؤں کي برکت سے صحابہ اپنے غم اور محنت کي کلفت کو بھول ہي جاتے تھے
٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی خطرے کی اس گھڑی میں مردانہ وار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں
٭… رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلام کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا۔پس تم خدا کے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا
٭… دنیا کے عمومی حالات اور احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍ستمبر۲۰۲۴ء بمطابق۱۳؍تبوک ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۳؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب مربی سلسلہ کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
جنگ احزاب کے حوالے سےگذشتہ خطبے میں ذکر ہو رہا تھا
کہ کس طرح خیبر کے یہودیوں کی عہدشکنی اوربغض کی وجہ سے کفار کا ایک لشکر تیار ہوا تاکہ مسلمانوں پر حملہ کر کے اُنہیں ختم کیا جا سکے۔ اس کی مزید تفصیل تاریخ سےیوں ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُلَیط اور سفیان بن عوف اسلمی کو لشکروں کی خبر لانے کےلیے بھیجا۔یہ دونوں گئے تو دشمن کی ان پر نظر پڑ گئی اور یہ دونوں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ان دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور ایک قبر میں دفن کیا گیا۔جب خندق کھودنے کا فیصلہ ہو گیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اورآپؐ کے ساتھ کئی مہاجرین و انصاربھی تھے۔آپؐ نے لشکر کے پڑاؤ کےلیے جگہ تلاش کی اور مسلمانوں نے بنو قریظہ سے کھدائی کے بہت سے آلات کدالیں،بڑے کلہاڑے اور بیلچےوغیرہ مستعار لیے اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کی ہر جانب کی کھدائی ایک قوم کے سپرد کر دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی اپنی پیٹھ پر اُٹھائی یہا ں تک کہ آپؐ کی پشت اور پیٹ غبار آلود ہو جاتے۔ جو مسلمان اپنے حصے سے فارغ ہو جاتے وہ دوسرے کی مدد کےلیے پہنچ جاتےیہاں تک کہ خندق مکمل ہو گئی۔خندق کھودنے میں کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو جب ٹوکریاں نہ ملتیں تو جلدی میں اپنے کپڑوں میں مٹی منتقل کرتے تھے۔
اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی بیان فرمائی ہے۔ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے لشکر کی نقل و حرکت کا مخفی رکھنا کفار کےلیے مشکل تھا اور پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جاسوسی کا انتظام بھی نہایت پختہ تھا۔
ابھی قریش کا لشکر مکہ سے نکلا ہی تھا کہ آپؐ کو ان کی خبر پہنچ گئی جس پر آپؐ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔اس مشورہ میں ایران کے ایک مخلص صحابی سلمان فارسیؓ بھی شریک تھے جو عجمی طریق جنگ سے واقف تھے انہوں نے یہ مشورہ پیش کیا کہ مدینہ کے غیر محفوظ حصہ کے سامنے ایک لمبی اور گہری خندق کھود کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا جاوے۔آپؐ نے اس تجویز کو منظور فرمایا۔ مدینے کا شہر تین طرف سے ایک حد تک محفوظ تھا اور صرف شامی طرف ایسی تھی جہاں دشمن ہجوم کر کے مدینہ پر حملہ آور ہو سکتا تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ ہ وسلم نے اس غیر محفوظ طرف میں خندق کے کھودے جانے کا حکم دیا اور
آپؐ نے خود اپنی نگرانی میں موقع پر نشان لگا کر تقسیم کار کے اصول کے ماتحت خندق کودس دس ہاتھ یعنی پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہر ٹکڑا دس دس صحابیوں کے سپرد فرمایا۔
ان پارٹیوں کی تقسیم میں یہ خوشگوار اختلاف رونما ہوا کہ سلمان فارسیؓ کس گروہ میں شامل ہوں آیا وہ مہاجر سمجھے جائیں یا باوجود اس کے کہ وہ اسلام کی آمد سے پہلے ہی مدینہ میں آئے ہوئے تھے انصار میں شامل ہوں۔آخر یہ اختلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا اور آپؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ سلمانؓ دونوں میں سے نہیں ہیں بلکہ سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ میرے اہل بیت میں شمار کیے جائیں۔ اُس وقت سے سلمانؓ کو یہ شرف حاصل ہو گیا کہ وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی سمجھے جانے لگے۔
خندق کی تجویز پختہ ہونے کے بعد صحابہ ؓکی جماعت مزدوروں کے لباس میں ملبوس ہو کر میدان کارزار میں نکل آئی۔
کھدائی کا کام آسان نہیں تھا اور پھر موسم بھی سردی کا تھا جس کی وجہ سے ان ایام میں صحابہؓ نے سخت تکالیف اُٹھائیں اور چونکہ دوسرے کاروبار بالکل بند ہو گئے تھے اس لیےان دنوں میں بھوک اور فاقہ کشی کی مصیبت بھی برداشت کرنی پڑی۔صحابہؓ کے پاس نوکر اور غلام بھی نہ تھے اس لیے سب صحابہ کو خود اپنے ہاتھ سے کام کرنا پڑتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیشتر حصہ اپنے وقت کا خندق کے پاس گزارتے تھے اور بسا اوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی کی ڈھلائی کا کام کرتے تھے اور اُن کی
طبیعتوں میں شگفتگی قائم رکھنے کے لیے بعض اوقات آپؐ کام کرتے ہوئے شعر پڑھنے لگ جاتے تھے
اور صحابہ ؓبھی بعض اوقات شعر میں جواب دیا کرتے تھے۔حضرت براءبن عازبؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ خندق کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی اٹھاتے دیکھا یہاں تک کہ آپؐ کے شکم مبارک کی سفیدی مٹی میں چھپ گئی۔میں نے آپؐ کو ابن رواحہ کا یہ شعر پڑھتے سُنا۔ یعنی اےہمارے مولا !اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی اور ہم صدقہ و خیرات کرنے اور تیری عبادت کرنے کے قابل نہ بنتے۔پس اے خدا! جب تُو نے ہمیں اس حد تک پہنچایا ہے تو اب اس مصیبت کے وقت میں ہمارے دلوں کو سکینت عطا کر اور اگر دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمارے قدموں کو مضبوط رکھ۔تُو جانتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے خلاف ظلم اور تعدی کے رنگ میں حملہ آور ہو رہے ہیں اور ان کی نیت ہمیں اپنے دین سے بے دین کرنا ہے مگر اے ہمارے خدا !تیرے فضل سے ہمارا یہ حال ہے کہ جب وہ ہمیں بے دین کرنے کےلیے کوئی تدبیر اختیار کرتے ہیں تو ہم ان کی تدبیر کو دُور سے ہی ٹھکرادیتے ہیں اور ان کے فتنہ میں پڑنے سے انکار کرتے ہیں۔
خندق کی کھدائی میں آپؐ کی شرکت اور آپؐ کی دعاؤں کی برکت سے صحابہؓ اپنے غم اور محنت کی کلفت کو بھول ہی جاتے تھے۔
جہاں ایک طرف پاکیزہ شعر خوانی ہوتی تو دوسری طرف ہلکا پھلکا مذاق بھی جاری رہتا۔ صحابہؓ کی مسلسل شبانہ روز محنت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے خندق مکمل ہو گئی۔اس کے مکمل ہونے کی مدت کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔پندرہ دن اور ایک مہینہ کی روایت پر زیادہ اتفاق کیا جاتا ہے۔
خندق کی لمبائی تقریباً چھ ہزار گز یا کوئی ساڑھے تین میل تھی۔
چوڑائی تیرہ چودہ فٹ اور گہرائی دس گیارہ فٹ بنتی ہے۔
یہ خندق صدیوں تک موجود رہی یہاں تک کہ وادی بطحان کے پانی کے مسلسل بہاؤ اور کاٹ کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی اور کچھ لوگوں نے آرپار راستے بنانے کے لیے بھر دی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی خطرے کی اس گھڑی میں مردانہ وار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔
کبھی تو حضرت عائشہؓ، کبھی حضرت ام سلمہؓ یا حضرت زینبؓ چند دن آپؐ کے ساتھ رہتیں۔
کھدائی کے دوران چٹان نہ ٹوٹنے والا واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پانی منگوایااور اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا پھر
آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اوریہ پانی اُس پتھریلی زمین پر چھڑک دیا جس سے وہ زمین ملائم ہو کر ریت کی طرح ہو گئی۔
ایک اور موقع پر ذکر ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ سے ایک چٹان ٹوٹ نہیں رہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کدال لے کر ضرب لگائی اور تین بشارتیں بھی سُنائیں۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ تنگی اور شدت کی حالت میں خندق کھودتے کھودتے ایک جگہ سے ایک پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر صحابہؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک پتھر ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ آپؐ فورا ًوہاں تشریف لے گئے اور ایک کدال لے کر اللہ کا نام لیتے ہوئے اس پتھر پر ماری۔لوہے کے لگنے سے پتھر میں سے ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے زور کے ساتھ اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ مجھے مملکت شام کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم !اس وقت شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔اس ضرب سے وہ پتھر کسی قدر شکستہ ہو گیا۔ دوسری دفعہ آپؐ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائی اور پھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔ اس دفعہ پتھر کسی قدر زیادہ شکستہ ہو گیا۔ تیسری دفعہ
آپؐ نے پھر کدال ماری جس کے نتیجے میں پھر ایک شعلہ نکلا اور آپؐ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرمایا:اب مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم صنعاءکے دروازے مجھے اس وقت دکھائے جا رہے ہیں۔
اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہو کر اپنی جگہ سے گر گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ نظارے عالم کشف سے تعلق رکھتے تھے۔گویا اس تنگی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مسلمانوں کی آئندہ فتوحات اور فراخیوں کے مناظر دکھا کر صحابہؓ میں امید و شگفتگی کی روح پیدا فرمائی۔ منافقین مدینہ نے ان وعدوں کو سن کر مسلمانوں پر پھبتیاں اُڑائیں کہ گھرسے باہر قدم رکھنے کی طاقت نہیں اور قیصر و کسریٰ کی مملکتوں کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ مگر خداکے یہ وعدے اپنے اپنے وقت پر یعنی کچھ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں اور زیادہ تر آپؐ کے خلفاء کے زمانے میں پورے ہو کر مسلمانوں کے ازدیاد ایمان و امتنان کا باعث ہوئے۔حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحابہ کے پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا کہ
تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلام کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا۔
پس تم خدا کے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
کھانے کا معجزہ بھی ہے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا ہے کہ اس موقع پر ایک مخلص صحابی جابر بن عبداللہؓ نے آپؐ کے چہرہ پر بھوک کی وجہ سے کمزوری اور نقاہت کے آثار دیکھ کرآپؐ سے اپنے گھر جانے کی اجازت لی اور گھر آ کر اپنی بیوی سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کھانے کےلیے کچھ ہے ؟اُس نے کہا ہاں کچھ جَو کا آٹا ہے اور ایک بکری ہے۔حضرت جابرؓ نے بکری کو ذبح کیا اور آٹے کو گوندھا اوراپنی بیوی سے کہا کہ تم کھانا تیار کرو میں رسول اللہؐ کی خدمت میں جا کر عرض کرتا ہوں کہ تشریف لے آئیں۔
آپؓ کی بیوی نے کہا دیکھنا مجھے ذلیل نہ کرنا کھانا تھوڑا ہے رسول اللہؐ کے ساتھ زیادہ لوگ نہ آئیں۔
حضرت جابرؓ نے آہستگی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! میرے پاس کچھ گوشت اور جَو کا آٹا ہے جن کے پکا نے کے لیے میں اپنی بیوی سے کہہ آیا ہوں۔ آپؐ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف لے چلیں اور کھانا تناول فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا کھانا کتنا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس اس قدر ہے۔آپؐ نے فرمایا :بہت ہے۔پھر آپؐ نے اپنے ارد گرد نگاہ ڈال کر بلند آواز سے فرمایا:اے انصار و مہاجرین کی جماعت! چلو جابرنے ہماری دعوت کی ہے۔
اس آواز پر کوئی ایک ہزار فاقہ مست صحابی آپؐ کے ساتھ ہولیے۔
آپؐ نے جابرؓ سے فرمایا کہ تم جلدی جاؤ اور اپنی بیوی سے کہہ دو کہ جب تک میں نہ آلوں ہنڈیا کو چولہے پر سے نہ اُتارے اور نہ ہی روٹیاں پکانا شروع کرے۔جابرؓنے جلدی سے جا کر اپنی بیوی کو اطلاع دی اور وہ بیچاری سخت گھبرائی کہ اب کیا ہوگا۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ ہنڈیا اور آٹے کے برتن پر دعا فرمائی اور پھر فرمایا اب روٹیاں پکانا شروع کر دو۔اس کے بعد آپؐ نے کھانا تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ
مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی کھانے سے سب لوگ سیر ہو کر اُٹھ گئے اور ابھی ہماری ہنڈیا اُسی طرح اُبل رہی تھی اور آٹا اُسی طرح پک رہا تھا۔
جنگ احزاب کے حوالے سے باقی باتیں انشاءاللہ آئندہ بیان کروں گا۔
دعاؤں کی طرف میں توجہ دلاتا رہتا ہوں۔اس طرف بہت توجہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرے۔
ہر جگہ ہر ملک میں رہنے والے احمدی کو بنگلہ دیش، پاکستان، دوسری جگہوں پر ہر شر سے ہر احمدی کو بچائے اور دنیا کو بھی جس آگ میں پڑرہی ہے اور جانے کی کوشش بڑی تیزی سے کر ہی ہےاس سے دنیا کو بھی بچائے۔
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اگر ابھی بھی یہ لوگ اصلاح کی طرف توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو مصیبتوں سے نکال سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے ان کوعقل اورسمجھ آجائے۔
٭…٭…٭