مرد کی تخلیق کا مقصد (حصہ سوم)
مرد بحیثیت خاوند
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عبداللہ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو؟ یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہؐ! تو پھر آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کرو کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو، رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم)
آپﷺ سے زیادہ مصروف اور آپﷺ سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے؟ لیکن دیکھیں آپﷺ کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھریلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہت اچھا ہے۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔(ترمذی کتاب المناقب)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوْاھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے‘‘۔ (البدر جلد ۳ صفحہ۲۶۔ ۸جولائی۱۹۰۴ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد۲صفحہ۲۱۶) (خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ مارچ ۲۰۰۴ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍مارچ ۲۰۰۴ء)
بعض دفعہ گھروں میں میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی ہوجاتی ہے، تلخی ہو جاتی ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایاہے اگر مرد خاموش ہوجائے تو شاید اسّی فیصد سے زائد جھگڑے وہیں ختم ہوجائیں۔ صرف ذہن میں یہ رکھنے کی بات ہے کہ میں نے حسن سلوک کرنا ہے اور صبر سے کام لیناہے۔
مرد بحیثیت داماد
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے(یعنی اس کے رشتہ داروں سے بھی) نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)
مرد بحیثیت باپ
پھر مرد کے فرائض میں سے بچوں کے حقوق بھی ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا حق ہے۔ (خطبہ جمعه ۱۹مئی ۲۰۱۷ء) (الادب المفرد للبخاری باب برالأب لولدہ)
مردوں کی بحیثیت باپ جو ذمہ داری ہے اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صرف یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ صرف ماں کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی تربیت کرے۔ بیشک ایک عمر تک بچے کا وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور انتہائی بچپن کی ماؤں کی تربیت بچے کی تربیت کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس سے مرد اپنے فرائض سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے۔
والد کو بھی بچوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ خاص طور پر لڑکے جب سات آٹھ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اس کے بعد پھر وہ باپوں کی توجہ اور نظر کے محتاج ہوتے ہیں، ورنہ خاص طور پر اس مغربی ماحول میں بچوں کے بگڑنے کے زیادہ امکان ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی وہی اصول لاگو ہو گا جس کا عورتوں کے ضمن میں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ مَردوں کو، باپوں کو اپنے نمونے دکھانے اور قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
والد کو جہاں بچوں کی عزت و احترام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کے اخلاق اچھے ہوں وہاں ان پر گہری نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ وہ ماحول کے بداثرات سے بچ کر رہیں۔
جہاں ہمیں اپنے ارد گرد کے ماحول پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہاں گھر میں مرد حضرات کو چاہیے کہ بچپن ہی سے گھر میں موجود لڑکوں کو اولاد نرینہ سمجھ کر بے لگام چھوڑدینے یا تمام تر ذمہ داری ماں کے کاندھوں پہ ڈالنے کی بجائے انہیں اپنے قریب رکھیں۔ شفقت سے ان کے سروں پہ ہاتھ پھیریں، انہیں یہ احساس دلائیں کہ بڑے ہوکر انہیں گھر کا ہی نہیں بلکہ معاشرے کا بھی ایک مضبوط انسان بننا ہے۔ تو شاید اس بگڑتے معاشرے میں کچھ سدھار آنا شروع ہو جائے۔
والد کا بچوں سے تعلق بچوں کو ایک تحفّظ کا بھی احساس دلاتا ہے۔ بہت سے باپ بچوں کے رویّوں کے بارے میں شکایت کرتے ہیں کہ ان میں جھجک پیدا ہو گئی ہے یا اعتماد کی کمی پیدا ہو گئی ہے یا غلط بیانی زیادہ کرنے لگ گئے ہیں۔ اور جب باپوں کو کہا جائے کہ بچوں کے زیادہ قریب ہوں اور ان سے ذاتی تعلق پیدا کریں، دوستانہ تعلق پیدا کریں تو عموماً دیکھنے میں آیا ہے پھر اس کے نتیجہ میں بچے کی جو کمزوریاں ہیں یہ دُور ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ پس بچوں میں باہر کے ماحول سے تحفّظ کا احساس دلانے کے لیے ضروری ہے کہ باپ کچھ وقت بچوں کے ساتھ باہر گزار کر آئے۔
باپوں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ دینی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ جہاں بچوں کی تربیت کی طرف عملی توجہ دیں وہاں ان کے لیے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دیں۔ یہ بھی ضروری چیز ہے۔ تربیت کے اصل پھل تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لگتے ہیں لیکن جو اپنی کوشش ہے وہ انسان کو ضرور کرنی چاہیے۔
تربیت کے طریق اور بچوں کے لیے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے‘‘۔ (حقیقی تربیت جو ہے اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔) ’’سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنایہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے۔ اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے‘‘۔ اپنے بارے میں فرمایا کہ ’’ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔‘‘ (تعلیم ہماری کیا ہے؟ اس کے آداب کیا ہیں؟ کیا قواعد ہیں؟ اس کی پابندی کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔) ’’بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد۲ صفحہ ۵۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
(باقی آئندہ)
(آمنہ نورین۔ جماعت میشیڈے جرمنی)
٭…٭…٭