جمع کا صیغہ خدا کی طاقت اور قدرت کو ظاہر کرتا ہے
خدا تعالیٰ جب تو حید کے رنگ میں بولے تو وہ بہت ہی پیاراور محبت کی بات ہو تی ہے اور واحدکا صیغہ محبت کے مقام پر بولا جاتا ہے۔ جمع کا صیغہ جلا لی رنگ میں آتا ہے جہاں کسی کو سزا دینی ہو تی ہے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۵۵، ایڈیشن ۲۰۱۶ء)
بات یہ ہے کہ زبان عربی اور عبرانی میں یہ محاورہ شائع ہے کہ بعض وقت لفظ واحد ہوتا ہے اور معنے جمع کے دیتا ہے جیسا کہ سامر اور دجّال کا لفظ اور بعض وقت ایک لفظ جمع کے صیغہ پر ہوتا ہے اور معنے واحد کے دیتا ہے ۔…پس واضح ہو کہ اصل مدعا جمع کا صیغہ لانے سے خدا کی طاقت اور قدرت کو ظاہر کرنا ہے اور یہ زبانوں کے محاورات ہیں جیسا کہ انگریزی میں ایک انسان کو یُو یعنی تم کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے لیے باوجود تثلیث کے عقیدہ کے ہمیشہ داؤ یعنی تُو کا لفظ لاتے ہیں۔ ایسا ہی عبرانی میں بجائے ادون کے جو خداوند کے معنے رکھتا ہے ادونیم آ جاتا ہے۔ سو دراصل یہ بحثیں محاورات لغت کے متعلق ہیں۔ قرآن شریف میں اکثر جگہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ہم آ جاتا ہے کہ ہم نے یہ کیا اور ہم یہ کریں گے۔ اور کوئی عقلمند نہیں سمجھتا کہ اس جگہ ہم سے مراد کثرت خداؤں کی ہے۔
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۹۵،۹۴)