حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جمع متکلم کے صیغہ میں پورا جلال ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے

[ ایک خاتون نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ہم کلمہ طیبہ میں کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کبھی مَیں،کبھی ہم اور کبھی وہ کے الگ الگ صیغے کیوں استعمال کیے ہیں، اس میں کیا حکمت ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍جولائی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشادات فرمائے:]

اللہ تعالیٰ کے لیے مفرد، جمع اور غائب کے جو مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں ان کے بارے میں لوگوں نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مَیں ،جو کہ مفرد متکلم کا صیغہ ہے اس کے ذریعہ ایک عام حکم دیا جاتا ہے اور ’ہم‘جو جمع متکلم کا صیغہ ہے اس میں پورا جلال ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جبکہ وہ جو کہ مفرد غائب کا صیغہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی صفت غائب کے اظہار کے لیے آتا ہے۔

میں اور وہ دونوں مفرد کے ہی صیغے ہیں، ایک متکلم کے لیے جبکہ دوسرا غائب کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عام محاورہ میں ایک انسان بھی ان دونوں صیغوں کو اپنے ہی لیے اپنے مختلف انداز بیان کرنے کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔لیکن جب اللہ تعالیٰ مفرد کے ان صیغوں کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اس کی توحید کی صفت کا خاص طور پر اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اور جب ہم جو کہ جمع کا صیغہ ہے،اللہ تعالیٰ اپنے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اس کے جلال کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔… حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کی آیات فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ۔ وَلَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِھِم۔(سورۃ ابراہیم:۱۵،۱۴)یعنی تب ان کے ربّ نے ان کی طرف وحی کی کہ یقیناً ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔ اور ضرور ہم تمہیں ان کے بعد ملک میں آباد کر دیں گے۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنے لیے جمع کے صیغوں کے استعمال کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(ان آیات میں )اللہ تعالیٰ نے متکلّم مع الغیر کے صیغہ کو استعمال کیا ہے، جو کہ جمع کے معنے دیتا ہے۔ حالانکہ ہلاک کرنے والی اور جگہ دینے والی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جو واحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قبضہ اور تصرف کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ چونکہ جماعت میں قوت اور طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں قرآن کریم میں قبضہ اور تصرف بتانا مقصود ہوتا ہے اور اسے نمایاں کر کے دکھانا ہوتا ہے وہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں استغناء کا اظہار مقصود ہوتا ہے یا قبضہ اور تصرف پر زور دینا مقصود نہیں ہوتا، وہاں واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض صوفیوں نے یہ بھی لکھا ہے، جس کام کو اللہ تعالیٰ ملائکہ کے توسّط سے کرتا ہے، اس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال فرماتا ہے اور جس کام کو خالص امر سے کیا جاتا ہے، وہاں مفرد کا صیغہ استعمال فرماتا ہے۔(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۴۵۵)

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جو واحد،جمع اور غائب کے الگ الگ صیغے استعمال فرمائے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کی مختلف قسم کی الگ الگ صفات اور طاقت و قدرت کا اظہار مقصود ہے۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۶۲ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button