خطاب حضور انور

امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2021ء کے افتتاحی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب

جلسہ کی اصلی شان تو اُس وقت ہے جب اِس میں شامل ہونے والے اپنی حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنے والے ہوں اور مستقل طور پر تقویٰ پر چلنے والے بن جائیں

(فرمودہ 06؍اگست 2021ء بروز جمعۃ المبارک بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے کی غرض اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا اور اپنے نفسوں کی اصلاح کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سننا اور ان پر عمل کرنا بتایا ہے۔ گویا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے ہم ان دنوں میں جمع ہوتے ہیں۔ پس اس مقصد کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے خطبہ میں بھی کہا تھا اس سال کا جلسہ خاص حالات کی وجہ سے محدود ہے اور اس کا انعقاد بھی ایک سال کے وقفہ کے بعد ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بیماری اور وبا کو جلد ختم فرمائے اور ہم پر رحم فرمائے، دوبارہ حالات معمول پر آ جائیں اور جلسہ اپنی پوری شان کے ساتھ منعقد ہو سکے۔ لیکن جلسہ کی اصلی شان تو اس وقت ہے جب اس میں شامل ہونے والے اپنی حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنے والے ہوں اور مستقل طور پر تقویٰ پر چلنے والے بن جائیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے روحانی پیاس بجھانے کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک دفعہ پانی پی لیا اور بس۔ اس کا فائدہ تو تبھی ہے کہ جہاں ان دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں سن کر اپنی پیاس بجھائیں وہاں اس پانی کو اپنے ساتھ بھی لے کر جائیں۔ سارا سال اس سے پیاس بجھا کر اپنے لیے زندگی کے سامان کرتے رہیں۔ صرف تین دن کے ماحول کے اثر کے تحت رہ کر ان دنوں میں اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا کر کے پھر پہلے جیسے نہ ہو جائیں۔

اس مرتبہ بعض جماعتوں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق جلسہ کو سننے کا اجتماعی طور پر انتظام کیا ہوا ہے جس کو ہم سکرین پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک نیا تجربہ ہے اور

ایک نئی روایت جماعت میں قائم ہوئی ہے

اور نیک روایت ہے کہ یہاں سے جلسہ سننے کے لیے مختلف ممالک میں لوگ بیٹھے اپنی اپنی مجالس میں اس جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں، اپنی اپنی مسجدوں میں اور ہالوں میں جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں، اپنی اپنی جماعتوں میں بیٹھے ہیں اور براہ راست جلسہ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک خاص فضل ہے کہ باوجود نامساعد حالات کے اللہ تعالیٰ کئی ایسی نئی چیزیں ہمیں عطا فرما رہا ہے جس کا مِن حیثُ الجماعت وسیع پیمانے پر فائدہ ہو رہا ہے۔ تو بہرحال جماعتیں اپنے اپنے علاقوں میں بعض ملکوں میں یہ جلسے سن رہی ہیں۔ بعض لوگ اپنے گھروں میں بھی جلسہ سن رہے ہوں گے تو اس جلسہ کا اثر سب سننے والوں پر ہونا چاہیے اور ایسا اثر ہونا چاہیے جو مستقل زندگی کا حصہ بن جائے تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے

جلسہ کی غرض

کو پورا کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے اپنی بیعت کا حق ادا کیا ہے اور نتیجةً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعاؤں سے بھی حصہ پانے والے ہیں یا بن رہے ہیں۔ اگریہ نہیں تو ہم ان انعامات سے محروم رہیں گے جو جلسہ سے وابستہ ہیں۔

اس زمانے میں یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں وہ راہیں دکھائیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی راہیں ہیں جن پر چل کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی امت بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے فیض سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ پس ان دنوں میں ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ خاص طور پر اس طرف توجہ دے چاہے وہ یہاں جلسہ گاہ میں آ کر جلسہ سن رہا ہے یا جماعتی اجتماعی انتظام کے تحت جلسہ سن رہا ہے یا گھر میں بیٹھ کر جلسہ سن رہا ہے۔ ان باتوں کو اپنے سامنے رکھیں جو جلسہ سالانہ کے انعقاد کے مقاصد ہیں جن کی مختلف موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے وضاحت فرمائی ہے اور وضاحت سے بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ اگر ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو وہ ہے تقویٰ پر چلنا۔ آپؑ نے فرمایا

زُہد پیدا کرو۔

زہد کس طرح پیدا ہو گا؟ وہ تقویٰ کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ زہد کا مطلب ہے کہ اپنے جذبات کی قربانی کی جائے۔ہر بدی سے بچا جائے۔اور صرف بچنا نہیں بلکہ اس کے خلاف ہو کر اسے سختی سے ردّ کیا جائے۔ غلط دنیاوی خواہشات سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر بچا جائے اور اپنے معاملے خدا تعالیٰ پر چھوڑ کر اس کے آگے اور صرف اس کے آگے جھکا جائے۔ اب یہ باتیں ایسے شخص میں پیدا ہو سکتی ہیں جس میں تقویٰ ہو۔ اس ایک لفظ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں وہ نصیحت فرما دی جس پر اگر ہم عمل کریں تو ایک انقلاب اپنی زندگیوں میں پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ انسان دنیا کے کاموں کو چھوڑ کر جنگلوں میں جابسے۔ اپنے مال کو ضائع کرنا اور اس کی پروا نہ کرنا یہ بھی اسلام میں منع ہے۔ اپنے رشتوں کے حقوق ادا نہ کرنا یہ بھی اسلام میں منع ہے۔ زہد کا مطلب ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے سب دنیاوی کاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے جذبات کی قربانی دی جائے۔ کوئی دنیاوی خواہش اللہ سے تعلق کی راہ میں روک نہ بنے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے عزت، دولت، شہرت دی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے میں خرچ ہو۔ اسی مضمون کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دنیاکے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے۔ یہ حقیقی مومن کی نشانی ہے۔ دنیا کے کاروبار ہوں لیکن وہ اصل مقصود نہ بن جائیں۔ فرمایا صحابہ ؓبھی لاکھوں کروڑوں کے کاروبار کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے حق اور بندوں کے حق کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تذکرة الاولیاء کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے اور یہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ ایک شخص ہزارہا روپیہ کا لین دین کرنے میں مصروف تھا۔ ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل‘‘ یعنی کاروبار کرنے والے کا دل ’’باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔‘‘ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں تھا فرمایا کہ ’’ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النور:38)کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ ‘‘اپنے آپ کو ’’دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے۔‘‘آپؑ نے فرمایا ’’……وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔

اسلام میں رہبانیت نہیں۔

ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کاروبار چھوڑ دو۔ نہیں۔ بلکہ ملازم کو چاہیے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے۔‘‘

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 206-207۔ ایڈیشن1984ء)

یہ ہے اصل زُہد۔ پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اس زہد کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں؟ اور یہ باتیں اس وقت پیدا ہوں گی جب تقویٰ ہو گا۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر لغویات سے پرہیز کرنے والے ہوں گے۔ جب ہم بداخلاقی سے بچنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے اور نہ صرف بداخلاقی سے بچنے بلکہ اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے والے ہوں گے۔ بیہودہ باتوں سے بچنے والے اور اچھی باتوں کے پھیلانے والے ہوں گے۔ ہماری دولت ہمارے اور ہمارے بھائی کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والی نہیں بلکہ محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے والی ہو گی۔ پس اس لحاظ سے یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ایسا زہد پیدا ہو اور ہم اپنی دنیا کو دین بنا لیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنا لیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی محبت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی اور اس کا نام تقویٰ ہے۔

پھر آپؑ نے جلسہ پر آنے والوںکو فرمایا کہ جلسہ میں شمولیت تبھی فائدہ مند ہے جب

خدا ترسی میں بھی ایک نمونہ بنو۔

اب خدا ترسی کیا چیز ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کا ڈر، خوف ہے۔ یہ حالت انسان کی اس وقت ہو سکتی ہے جب انسان تقویٰ کے معنی سمجھتا ہو اور دل میں تقویٰ ہو۔ انسان بہت سے ایسے کام کر جاتا ہے، دوسروں سے ایسے سلوک کر رہا ہوتا ہے، ان کاموں کی وجہ سے ان کے حقوق غصب کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں یا پتہ لگ بھی رہا ہوتا ہے تو شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ اگر خدا ترسی ہو، اللہ تعالیٰ کا خوف ہو، یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ میری ہر بات کو سن رہا ہے اور میرے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے اور غلط باتوں اور غلط کاموں کی وہ سزا بھی دیتا ہے تو انسان کے دل میں خدا ترسی تبھی پیدا ہوتی ہے۔ جب بھی وہ کسی کے حق مارنے کی کوشش کرے گا تو یہ بات سامنے آ جائے گی کہ خدا تعالیٰ مجھے اس غلط کام پر پکڑ سکتا ہے اور یہی خدا ترسی اسے دوسروں کے حق مارنے سے بھی بچائے گی۔ پس اس گہرائی سے خداترسی کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام عام خدا ترسی کی بات نہیں کر رہے بلکہ فرماتے ہیں کہ اس کے معیار اتنے بلند ہوں کہ تم ایک نمونہ بن جاؤ اور ایسا نمونہ ہو کہ لوگ کہیں کہ اگر کسی حقیقی خدا ترس کو دیکھنا ہے، اگر کسی حقیقی نیکی کرنے والے کو دیکھنا ہے جو اپنے ہر قول و فعل میں خدا تعالیٰ کے ڈر کو سامنے رکھتا ہے تو اس شخص کو دیکھو، اس احمدی کو دیکھو۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا یہ معیار ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پھر فرمایا:

پرہیز گاری میں بھی بڑھو۔

اس میں بھی تمہیں ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ یعنی ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی طرف توجہ ہو۔ آپؑ بڑی بڑی نیکیوں کو بھی بیان فرما رہے ہیں، بڑے بڑے گناہوں کو بھی بیان فرما رہے ہیں اور ساتھ ہی چھوٹے گناہوں سے بھی بچنے کی تلقین فرما رہے ہیں۔ آپؑ پھر فرماتے ہیں کہ پرہیزگاری میں بھی نمونہ بنو۔ یہ باتیں جو بیان ہوئی ہیں بےشک ایک متقی کی شان ہیں لیکن وہ جو حقیقی تقویٰ پر چلنے والا ہے، وہ جو حقیقت میں بیعت کا حق ادا کرنے والا ہے اس وقت تک حق ادا نہیں کر سکتا جب تک پرہیز گاری میں بھی نمونہ نہ بن جائے۔ خود اپنے اندر جھانک کر دیکھے کہ کیا برائیاں میرے اندر ہیں اور کون کون سی برائیاں میرے اندر ہیں جن کو میں دور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کن نیکیوں کی مجھ میں کمی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تب یہ نمونہ بنتا ہے۔

جلسہ پر آئے ہیں تو اس بات کا بھی جائزہ لیں تبھی حقیقی فائدہ جلسہ سے اٹھا سکتے ہیں۔ اس باریکی سے اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلانے کے بعد پھر ایک اعلیٰ خلق کی طرف آپؑ نے توجہ دلائی کہ نرم دلی اختیار کرو۔ پرہیز گاری کے جو زینے ہیں، تقویٰ پر چلنے کے جو راستے ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے جو ذریعے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے کے جو دروازے ہیں، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا جو ذریعہ ہے ان میں سے ایک

نرم دلی

بھی ہے۔ دوسرے پر غصہ نکالنے کی بجائے غصہ دبانا بھی ہے۔ دوسروں کے لیے ان کے قصوروں کے باوجود دل نرم کرنا اور معاف کرنا ایک بہت بڑی صفت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایا ہے کہ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ(آل عمران: 135)اور غصہ دبانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی یہ نشانی بتائی ہے جو اس طرح اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرے۔ جو مومن نہیں وہ یہ معیار قائم ہی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اور نرم دل ہی ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر غصہ کو دبائے، اپنے بھائی سے درگذر کرے۔ دنیا دار آدمی شاذ کے طور پر نظر آ جائیں جو اس صفت کے حامل ہوں ورنہ ہمیں نہیں نظر آتے۔ پس یہ معیار ہم میں سے ہر ایک کو دکھانے چاہئیں۔ ذرا ذرا سے معاملات پر ہم جھگڑے کھڑے کر لیتے ہیں ا ور بدلہ اور انتقام لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو مومن کی شان نہیں ہے۔ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ درگذر کرے، معاف کرے، اپنے غصہ کو دبائے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں کتنا بڑا احسان کرتا ہے کہ تم نے جو اپنے بھائی پر احسان کیا ہے اس کے بدلہ میں مَیں تم پر یہ احسان کرتا ہوں کہ تم سے محبت کرتا ہوں۔ پس جائز غصہ کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے دبانا اور دوسرے پر احسان کرنا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ ہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی عزت اور غیرت کا سوال آئے، جہاں اس کے رسولؐ کی عزت اور غیرت کا سوال آئے وہاں غیرت بھی دکھانی چاہیے لیکن ذرا ذرا سی باتوں پر غصہ اور لڑائیاں اور انتقام یہ غلط ہے۔ پس جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت مل جائے اسے اَور کیا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت تو انسان کو جنت میں لے جانے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کی زندگی کو نیکیوں سے بھرنے والی بن جاتی ہے۔ پس اپنے بھائیوں سے درگذر کرنا چاہیے۔ اپنے معاملات کو بلا وجہ طول دینا کہ وہ قضا اور عدالتوں میں چلے جائیں سوائے معاشرے میں فساد اور جھگڑوں کے کچھ نہیں پیدا کرتا اور ایک حقیقی مومن کو ان سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ غصہ دباؤ گو کہ یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے، غصہ کو دبانا بہت مشکل کام ہے اور بہت بڑی نیکی ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو ہمیں اس سے اونچے مقام پر پہنچنے کی تلقین فرما رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تو ہمیں اس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں کہ سچے دل سے معاف بھی کرو۔ ہلکی سی بھی کدورت دل میں نہ رہے اور یہی حقیقی عفو ہے اور یہی دل کی نرمی ہے اور یہی وہ مقام ہے جب اللہ تعالیٰ محبت بھی کرتا ہے۔ پس اگر ہم اپنی زندگیوں کو اس معیار پر لے آئیں گے تو پھر ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ اب ہر ایک اپنے دل کا خود جائزہ لے سکتا ہے کہ کیا ہم اس مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔گو غیروں کو جماعت میں یہ تعلق اور محبت بہت نظر آتا ہے لیکن اس کے معیار پر ہمیں تب راضی ہونا چاہیے جب ہم میں سے ہر ایک، ایک دوسرے کے لیے اس نرم دلی اور عفو کے معیار کو پہنچے کہ جہاں قدم قدم پر احسان کے نمونے نظر آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بارے میں کس طرح سمجھایا ہے، آپؐ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر غصہ کا ایک گھونٹ پی لینا اتنا بڑا اجر رکھتا ہے کہ وہ کسی دوسری چیز کا نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا مدّنظر ہونی چاہیے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الحلم حدیث 4189)

پس ہم میں سے کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے دلوں کی نرمی کو اس معیار پر پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وہ حقیقی تعلیم ہے جس سے محبت پھیلتی ہے اور نفرتوں کی دیواریں گرتی ہیں۔

پس اس جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے اور اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہمیں

محبت کو پھیلانے اور نفرتوں کی دیواریں گرانے کی بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے

اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آ تا ہے تو عقل قا ئم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبر کرتاہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جا تا ہے جس سے اس کی عقل وفکر کی قوتوں میں ایک نئی رو شنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں۔ اس لیے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہو تی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 180۔ ایڈیشن1984ء)

پھر ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا ’’یا د رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگزنہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔‘‘ نیکی کی باتیں اور معرفت کی باتیں اس کے منہ سے نہیں نکلتیں۔ وہ ان باتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ فرمایا ’’غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 126-127۔ ایڈیشن1984ء)

پس غصہ صرف عارضی نقصان کا باعث نہیں بنتا کہ ایک فریق کو غصہ آیا، جواب میں دوسرے فریق کو غصہ آیا، لڑائی ہو گئی، ایک دوسرے کو نقصان پہنچایا۔ بلکہ ایسے غصہ رکھنے والے آدمی حکمت اور عقل کی باتوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ گندہ دہن، غلیظ زبان استعمال کرنے والے کے منہ سے نیکی اور معرفت کی باتیں نکل ہی نہیں سکتیں اور نیکی اور معرفت کی باتیں نہ نکلیں تو وہ پھر تقویٰ سے خالی ہو جاتا ہے اور اگر وہ ایسا شخص ہے تو پھر یہاں اس جلسہ کے روحانی ماحول سے اسے کچھ بھی حصہ نہیں مل سکتا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے پسند نہ فرمایا کہ آپؑ کی جماعت کا کوئی فرد ایسا ہو اور پھر جلسہ میں شامل ہو کر جلسہ کے ماحول کو ان دنوں میں خاص طور پر خراب کرے اور اپنے روزانہ کے ماحول کو، عمومی ماحول کو عام طور پر خراب کرے۔ پس ان دنوں میں ان باتوں کو سامنے رکھ کر ہر ایک کو اپنے عمومی جائزے بھی لینے چاہئیں۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ

آپس میں محبت و مواخات

کا بھی نمونہ ہر احمدی کو ہونا چاہیے۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

ایسی محبت اور ایسا بھائی چارہ ہو جو ایک نمونہ ہو اور جلسہ کے مقاصد میں سے ایک یہ مقصد بھی ہے جو افرادِ جماعت کے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اعلیٰ ترین معیار اور قابلِ تقلید نمونہ قرآن کریم میں ہمارے لیے پیش فرمایا ہے وہ انصار اور صحابہ کی مؤاخات کا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایا ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (الحشر: 10) اور اسی طرح وہ مال ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو مدینہ میں پہلے سے رہتے تھے اور مہاجرین کے آنے سے پہلے ایمان قبول کر چکے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے جو ان کی طرف ہجرت کر کے آئے اور اپنے دلوں میں اس مال کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے جو ان کو دیا گیا تھا اور باوجود اس کے کہ خود غریب تھے مہاجرین کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے تھے اور جن لوگوں کو اپنے نفس کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ایسے تمام لوگ بامراد ہونے والے ہیں۔

پس یہ تھے وہ لوگ جن کے نمونے پر چلنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ ایسی محبت اور ایسی مؤاخات تھی، ایسا بھائی چارہ تھا کہ اپنے اوپر تنگی وارد کر کے بھی اپنے بھائیوں کے لیے قربانی کرنے کو تیار تھے بلکہ ایسے بھی تھے جو اپنی جائیدادوں کے ایک حصہ کو مہاجرین کو پیش کرنے کے لیے تیار تھے اور پیشکش کر دی تھی بلکہ بعض تو اس انتہا تک پہنچ گئے تھے کہ جن کی ایک سے زائد بیویاں تھیں وہ ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی سے اس کی شادی کروانے کی پیشکش کر رہے تھے لیکن مہاجرین نے بھی محبت اور مؤاخات کا نمونہ دکھاتے ہوئے کہا کہ اپنی دولت اور اپنی یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، ہماری عارضی مدد کر دو۔

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب اخاء النبیؐ بین المہاجرین والانصار حدیث 3780)

اور یہ وہ رویے ہیں جن سے محبت اور پیار اور اخوت اور بھائی چارہ بڑھتا ہے کہ کسی فریق نے بھی لالچ نہیں دکھائی اور تنگی کا نمونہ نہیں دکھایا۔ آجکل تو بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے سگے بہن بھائیوں کی بھی جائیداد کے حصے غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر مقدمہ بازیاں ہوتی ہیں۔ پس حسین اسلامی معاشرہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام قائم کرنے کے لیے آئے تھے جس کا نمونہ ہمیں صحابہ میں نظر آتا ہے اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم بھی وہ نمونہ بنو۔ اس حسین معاشرے کے پیدا کرنے کی تربیت کے لیے ان جلسوں کا انعقاد آپؑ نے فرمایا تھا کہ ان دنوں میں محبت پیار کے پھیلانے اور قربانی کرنے کی تربیت حاصل کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم آپس میں ایسے ہو جاؤ جیسے ایک ماں کے پیٹ سے دو بھائی۔

(ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13)

گو بعض دفعہ سگے بھائی بھی اس رشتہ اخوت کو نہیں نبھاتے لیکن عموماً سگے بھائی اس رشتہ اخوت کو ہرطرح نبھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سب کچھ بھائی چارے اور پیار کے رشتے کو نبھانا خدا تعالیٰ کی خاطر ہو۔ ایک مومن کا ہر فعل جو ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہوتبھی یہ تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ بامراد ہو گئے جنہوںنے اس قسم کا، قربانیوں کا، ایک دوسرے کے لیے محبت اور پیار اور بھائی چارے کا نمونہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ان کے عمل مقبول ہو گئے۔ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے بن گئے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والے بن گئے۔ کون ہے جس کو خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین ہو پھر اس کی رضا کی جنتوں میں نہ جانا چاہتا ہو۔ کوئی حقیقی ایمان والا یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہ کرے۔ پس اس کے حصول کے لیے ہمیں یہ نمونے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے، میں انہیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل الحب فی اللّٰہ تعالیٰ حدیث 6548)

یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو کس اعلیٰ مقام تک پہنچا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا آپس میں محبت و اخوت کے رشتے کونبھانے والوں پر کس قدر احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے، کس مقام پر ان کو لے کر جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اگر ہم اس تعلق کی اہمیت کو نہ سمجھیں تو پھر ایسی سمجھ رکھنے والوں کی بدنصیبی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے محبت و اخوت کے رشتہ کو قائم رکھنا بھی اپنی بعثت کے مقاصد میں سے بیان فرمایا ہے اور اس اہمیت کے پیش نظر آپ نے اپنے جلسہ سالانہ کے مقاصد میں بھی اسے رکھا ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ آپس کی رنجشوں اور شکووں کو ختم کر کے محبت اور پیار کی فضا کو قائم کریں اور وہ حقیقی مومن بنیں اور ایسے نمونے قائم کریں جس طرح کے نمونے صحابہؓ نے ہمارے سامنے رکھے تھے۔ اپنی جھوٹی اناؤں اور غیرتوں کو دفن کر دیں۔

پھر آپؑ نے فرمایا کہ جلسہ پر آنے والے، اس میں شامل ہونے والے، اپنے اندر

انکسار اور عاجزی

کی عادت بھی پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ کو انکسار اور عاجزی بہت پسند ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم)

پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں تلاش کرنی ہیں تو پھر عاجزانہ راہوں کی تلاش کرنی ہو گی۔ قرآن کریم میں بھی اس طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ (لقمان: 19) اور اپنے گال غصہ سے لوگوں کے سامنے مت پھلا اور زمین میں تکبر سے مت چل۔ اللہ کسی بھی شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا۔

پس اگر اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے تو عاجزی پیدا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں۔

’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18)

پس اصل مقام انسان کو اپنی بڑائی بیان کرنے یا فخر سے گردن اکڑانے یا دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنے سے نہیں ملتا بلکہ خداتعالیٰ کے قرب کا مقام عاجزی اختیار کرنے سے ملتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ’’تکبر کئی قسم کا ہوتا ہے۔ کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے۔ کبھی زبان سے نکلتا ہے اور کبھی اس کا اظہار سر سے ہوتا ہے اور کبھی ہاتھ اور پاؤں سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ غرضیکہ

تکبر کے کئی چشمے ہیں

اور مومن کو چاہیے کہ ان تمام چشموں سے بچتا رہے اور اس کا کوئی عضو ایسا نہ ہو جس سے تکبر کی بو آوے اور وہ تکبر ظاہر کرنے والا ہو۔‘‘ فرمایا ’’……بہت سے آدمی اپنے آپ کو خاکسار سمجھتے ہیں۔‘‘کہتے ہیں ہم بڑے خاکسار ہیں ’’لیکن ان میں بھی کسی نہ کسی نوع کا تکبر ہوتا ہے۔ اس لیے تکبر کی باریک در باریک قسموں سے بچنا چاہیے بعض وقت یہ تکبر دولت سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’بعض وقت یہ تکبر دولت سے پیدا ہوتا ہے۔ دولتمند متکبر دوسرے کو کنگال سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے۔ بعض اوقات خاندان اور ذات کا تکبر ہوتا ہے اور سمجھتا ہے میری ذات بڑی ہے اور یہ چھوٹی ذات کا ہے…… بعض وقت تکبر علم سے بھی پیدا ہوتا ہے ایک شخص غلط بولتا ہے تو یہ جھٹ اس کا عیب پکڑتا ہے اور شور مچاتا ہے کہ اس کو تو ایک لفظ بھی صحیح بولنا نہیں آتا۔ غرض مختلف قسمیں تکبر کی ہوتی ہیں اور یہ سب کی سب انسان کو نیکیوں سے محروم کر دیتی ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے سے روک دیتی ہیں۔‘‘ ان کی وجہ سے، اس تکبر کی وجہ سے انسان پھر لوگوں کو فائدہ پہنچا ہی نہیں سکتا ۔ محروم رہ جاتا ہے۔ فرمایا ’’ان سب سے بچنا چاہیے۔‘‘ آپؑ نے فرمایا ’’مگر ان سب سے بچنا ایک موت کو چاہتا ہے۔‘‘بچنا چاہیے لیکن بچنے کے لیے ایک جہاد کرنا پڑے گا۔ یہ بچنا ایک موت کو چاہتا ہے۔ ایک جہاد کرنا پڑے گا اپنے نفس کی اصلاح کے لیے اپنی اناؤں کو دبانا ہو گا۔ اپنی اناؤں کو مارنا ہو گا۔ فرمایا ’’جب تک انسان اس موت کو قبول نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی برکت اس پر نازل نہیں ہو سکتی۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 401تا 403۔ ایڈیشن1984ء)

پس اللہ تعالیٰ کی برکات کو حاصل کرنا ہے تو تکبر کے جن کو ہمیں اپنے اندر سے نکالنا ہو گا، اپنی جھوٹی عزتوں اور اناؤں کو مارنا ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری محبت حاصل نہیں کر سکتے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جماعت کو بڑے درد سے فرمایا کہ جلسہ کے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد

راستبازی اور سچائی

کا پید اکرنا ہے۔

روحانی ماحول سے ایسی حالت پیدا ہو کہ سچائی کے اعلیٰ ترین معیار قائم ہوجائیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صدیق کہلاتا ہے اور جھوٹ گناہ اور فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب قول اللّٰہ تعالیٰ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللّٰہ و کونوا مع الصادقین حدیث 6094)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ’’جس قدر راستی کے التزام کے لیے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشرعشیر بھی تاکید ہو۔‘‘آپؑ فرماتے ہیں ’’……قرآن شریف میں دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31) یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ۔ (النساء:136) یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھاویں۔‘‘

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 402-403)

پس اگر یہ معیار ہماری سچائیوں کے قائم ہو جائیں تو بہت سے گھریلو مسائل حل ہو جائیں۔ میاں بیوی کے مسائل ہیں، عزیزوں رشتہ داروں کے مسائل ہیں، معاشرے کے عمومی تعلقات کے مسائل ہیں، سب کا حل سچائی سے کام لینے سے نکل آتا ہے۔ پس ہمیں ان سب باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کے مطابق یہ اعلیٰ اخلاق اپنا لیں اور برائیوں سے بچ جائیں تو ایک پاک اور حسین معاشرے کا قیام ہم کر سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ

ان تمام نیکیوں پر عمل اور برائیوں سے اس وقت نکلا جا سکتا ہے جب ہم تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے۔

جیسا کہ میں کہہ رہا ہوں، پہلے شروع سے کہتا آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اسی لیے تقویٰ پر ہمیں خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ ہر چیز کی جڑ ہے۔ تقویٰ کے معنی ہیں ہر ایک باریک در باریک رگِ گناہ سے بچنا۔ تقویٰ اس کو کہتے ہیں کہ جس امر میں بدی کا شبہ بھی ہو۔ اس سے بھی کنارہ کرے‘‘ اس سے بھی بچ کے رہو۔ ’’فرمایا دل کی مثال ایک بڑی نہر کی سی ہے جس میں سے اور چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں جن کو سُؤا کہتے ہیں یا راجباہا کہتے ہیں۔‘‘ چھوٹی نہریں نکلتی ہیں۔ ’’دل کی نہر میں سے بھی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں مثلاً زبان وغیرہ۔ اگر چھوٹی نہر یا سوئے کا پانی خراب اور گندہ اور میلا ہو تو قیاس کیا جاتا ہے کہ بڑی نہر کا پانی خراب ہے۔ پس اگر کسی کو دیکھو کہ اس کی زبان یا دست و پا وغیرہ میں سے کوئی عضو ناپاک ہے تو سمجھو کہ اس کا دل بھی ایسا ہی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 2 صفحہ 321۔ ایڈیشن1984ء)انسان کے عمل سے، اس کی باتوں سے، اس کی زبان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس میں تقویٰ ہے کہ نہیں ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں ۔عُجب، خود پسندی، مالِ حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ۔ (المومنون: 97)

اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اس پر صبر کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے بہت بڑھ کر ہو گی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو۔‘‘ فرمایا ’’یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے ۔لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے۔ خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے ۔کہ ع

لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش‘‘

مہربانی کر، مہربانی کہ بیگانہ بھی تمہارے حلقہ میں آ جائے گا۔

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 81)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’ا صل بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو نیک بختی اور تقویٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور سعادت کی راہیں اختیار کرنی چاہئیں۔ تب ہی کچھ بنتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ۔ (الرعد:12) خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ خود وہ اپنی حالت کو تبدیل نہ کرے۔ خواہ مخواہ کے ظن فاسد کرنے اور بات کو انتہاء تک پہنچانا بالکل بیہودہ امر ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ

لوگوں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں،

نمازیں پڑھیں، زکوٰة دیں، اتلاف ِحقوق اور بدکاریوں سے باز آئیں‘‘ ایک دوسرے کے حقوق مارنے سے بچو اور بدکاریوں سے باز آئیں۔ ’’یہ امر بخوبی ثابت ہے کہ بعض وقت جب صرف ایک شخص ہی بدی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ سارے گھر اور سارے شہر کی ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے۔ پس بدیوں کو چھوڑ دو کہ وہ ہلاکت کا موجب ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 262۔ ایڈیشن1984ء)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کے مطابق ہم اپنے اندر ایسا تقویٰ پیدا کریں جو ہمیں تمام برائیوں سے بچائے اور تمام نیکیاں بجا لانے کی توفیق عطا کرے۔ یہ روحانی ماحول ہمارے اندر زہد، خدا ترسی، پرہیزگاری، نرم دلی، آپس کی محبت و اخوت، انکسار اور عاجزی اور سچائی کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے والا بن جائے۔ جن تک یہ آواز پہنچ رہی ہے جو جماعتی انتظام کے تحت جماعتوں میں بیٹھے سن رہے ہیں ان سب میں یہ جلسہ کا ماحول ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہو اور جب جلسہ کے ماحول سے باہر نکلیں تو حقیقتاً ایک انقلاب ہماری حالتوں میں پیدا ہو جائے اور دنیا کو نظر آئے تبھی ہم دنیا کو بھی زمانے کے امام کا پیغام جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے پہنچا کر حق کی دعوت دے سکتے ہیں ورنہ ہماری باتیں صرف باتوں کی حد تک ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ابھی ہم دعا کریں گے ۔ دعا میں موجودہ حالات سے نجات کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے

دعا مانگیں اللہ تعالیٰ انسانیت پر فضل فرمائے

اور اگر کہیں جنگوں کے خطرے ہیں تو ان کو بھی اللہ تعالیٰ دور فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جلد حالات معمول پر لے کر آئے اور حسبِ سابق ہمارے جلسے بھی اپنی شان و شوکت سے منعقد ہوں اور ان کے اثر بھی دیرپا ہوں اور دنیا کے ہر ملک میں جس شان سے جلسے ہوتے تھے اسی طرح ہو سکیں۔ پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی پریشانیوں سے بچائے اور دنیا کے مظلوموں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان سب کو ظلموں سے نجات دے۔

ان دنوں میں بےشک گھروں میں ہی قیام ہے لیکن خاص طور پر تہجد کا اہتمام اور ذکر الٰہی اور دعاؤں کا التزام رکھیں۔ دعاؤں سے ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کو ہم کھینچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اسیران راہ مولیٰ کے لیے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ دعا کرلیں۔

٭٭٭دعا٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button