یادِ رفتگاں

عبدالرشید حیدرآبادی صاحب۔ ایک سرگرم مگر خاموش خادمِ دین

(آصف محمود باسط)

دسمبر ۲۰۰۴ء کی ایک سرد شام تھی جب مجھے وکالتِ تبشیر سے یہ خوش خبری ملی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے میری وقفِ زندگی کی درخواست منظور فرمالی ہے۔ اور میری تقرری ایم ٹی اے کے دفتر انچارج کے طور پر فرمائی ہے۔ میں نے اسی شام ایم ٹی اے میں رپورٹ کیا۔ حکم ہوا کہ اگلے روز ڈیوٹی پر حاضر ہوجاؤں۔ سو میں اگلے روز اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوگیا۔

ایم ٹی اے کا جنرل آفس میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ میں تقرری سے پہلے ایم ٹی اے میں خبریں پڑھنے کی توفیق پا رہا تھا اور آتے جاتے جنرل آفس سے گزر ہوتا۔ وہاں آفس کے انچارج محترم عبدالرشید حیدر آبادی صاحب سے دعا سلام بھی ہوجایا کرتی۔ آفس میں وہ اپنی میز پر کوئی نہ کوئی کام کررہے ہوتے۔ارد گرد صوفے کرسیاں پڑی ہوتیں۔ مگر ہمارے لیے تو آفس ایک گزرگاہ سے زیادہ نہ تھا۔یوں بات کبھی دعا سلام سے آگے نہ بڑھی۔

اگلے روز پہلی مرتبہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوا تو حیدرآبادی صاحب کو میز پر موجود نہ پایا۔ وہ سامنےایک کونے میں اپنی کچھ فائلیں وغیرہ لیے بیٹھے کام میں مصروف تھے۔ بڑے تپاک سے میرا استقبال کیا۔ وقف کی درخواست منظورہوجانے اور تقرری ہوجانے پر مبارکباد دی۔مجھ سے عمر میں کہیں بڑے تھے۔ میرے لیے ان کی یہ محبت بہت معنی رکھتی تھی۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور ان کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے بازو سے پکڑ کر کہنے لگے کہ آپ اپنی جگہ پر بیٹھیں، یہاں کہاں بیٹھ رہے ہیں۔میں چونک سا گیا اور جس طرح بزرگوں سے بازو چھڑائی نہیں جاتی، نہیں چھڑائی۔ اور انہوں نے مجھے وہاں بٹھا دیا جہاں وہ خود سالہاسال سے بیٹھتے چلے آئے تھے۔

مجھے سے پہلے وہ جنرل آفس کے انچارج تھے۔ آج انہوں نے وہ میزکرسی چپ چاپ بغیر کسی کے کہے خالی کردی تھی اورمجھے بڑی محبت سے وہاں بٹھا رہے تھے۔ میرے بے حد اصرار کے باوجود کہ وہ اسی میز کرسی پر بیٹھا کریں اور میں کہیں بھی بیٹھ جاؤں گا، انہوں نے مجھے وہیں بٹھایا۔ خود سامنے صوفے پر بیٹھے۔ اور میں نے اور حیدر آبادی صاحب نے اگلے پانچ چھ سال اسی طرح گزارے۔ ایک دفتر میں۔ صبح سے شام تک۔ روزانہ۔ علاوہ اتوار کے، کہ اتوار کو ان کی ایم ٹی اے سے تعطیل ہوتی۔صرف ایم ٹی اے سے کیونکہ وہ دو دہائیوں سے نارتھ لنڈن کے صدر جماعت چلے آتے تھے اور اتوارکا دن اس خدمت کے لیے مخصوص کررکھا تھا۔

یہ ہرروز کا ساتھ پانچ سال تک رہا اور پھر اس میں کچھ تعطل یوں آیا کہ میری ذمہ داریاں رہیں تو ایم ٹی اے ہی میں مگر تبدیل ہوگئیں۔ حیدرآبادی صاحب دوبارہ دفتر انچارج ہوگئے اورمسجد فضل ہی میں رہے۔ میرا ٹھکانہ بیت الفتوح میں قائم ایم ٹی اے کی نئی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ مگر ہمارا تعلق ہمیشہ برقراررہا۔ قریب ہر روز ہی اپنی ڈاک لینے یا حضرت صاحب کے دفتر میں دینے کے لیے مسجد فضل جانا ہوجاتا۔اور یوں حیدرآبادی صاحب سے اکثرملاقات ہوجاتی۔ہم نے پانچ سال ایک دفتر میں ایک ساتھ گزارے تھے۔ بہت سے حالات میں سے ایک ساتھ گزرے تھے۔ سو ہم چاہے دو لمحوں کو ہی ملتے، اس ملاقات کا اختتام حیدرآبادی صاحب کے مخصوص اور جاندار قہقہے پر ہوتا۔

ابھی کچھ دیر پہلے عبدالرشید حیدرآبادی صاحب کی وفات کی خبر آئی۔ تو اپنے ساتھ درد اور رنج اور غم تو لائی ہی، مگر بے شمار خوشگوار یادیں بھی لے آئی۔ رشید صاحب نے بڑی بھرپور اور لمبی عمر پائی۔ سو میں یہاں غم کا اظہار نہیں کروں گا۔ بلکہ ان خوشگوار یادوں کو قارئین کے ساتھ بانٹوں گا۔اس لیے نہیں کہ یہ میرے ان کے ذاتی تعلق کی یادیں ہیں۔ بلکہ اس لیے کہ یہ خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے ایک دیرینہ، خاموش خادم کی شخصیت کے کچھ پہلو ہیں، جو کسی خادم ِسلسلہ کے مر جانے کے بعد بھی زندہ رہنے ضروری ہیں۔

میری پہلی تقرری ایم ٹی اے آفس میں ہوئی تو مجھے جہاں وقف کے منظور ہوجانے کی خوشی تھی، وہاں یہ فکر بھی دامن گیر ہوگئی کہ مجھے دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے کی عادت نہ تھی۔ پاکستان میں تدریس میرا پیش تھا۔ لندن آجانے کے بعد اور وقف کرنے سے پہلے بینک میں ملازمت کی تھی اور وہاں لوگوں سے بات چیت کرنا اور ان کے مسائل سننا اور حل تجویز کرنا میرا کام رہا تھا۔ ڈیسک ورک کا مجھے تجربہ تھانہ شوق۔

پہلے دن حاضر ہوا تو حیدرآبادی صاحب نے ایک شفیق بزرگ کی طرح اس ذمہ داری سے مجھے واقفیت دی۔ کام کی نوعیت سمجھائی۔ انوائس کہاں سے آتی ہے، کہاں جاتی ہے۔ پھر اسے کیا کرنا ہوتا ہے۔ پھر ادائیگی کے لیے کس محکمہ کو بھیجنی ہے۔ اور پھر یوں ہوگا۔ اور پھر یوں بھی ہوسکتا ہے۔ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوجایاکرتا ہے۔

مجھے کچھ سمجھ آئی، کچھ نہ آئی۔ مگر سنتا رہا۔ ڈاک کب آجاتی ہے۔ پھر اس کا کیاکرنا ہوتا ہے۔ فوری نوعیت کے خطوط پر کیسے ایکشن لینا ہے۔ چئیرمین کو کس فیکس نمبر پر فوری بھیجنا ہے۔ یہ ساری معلومات میرے لیے بہت زیادہ تو تھیں ہی، مگر میرے مزاج سے مطابقت بھی نہ رکھتی تھیں۔

رشید صاحب سمجھاتے رہے۔ دو ایک روز میں مشق بھی کروانی شروع کی کہ اب انوائس پر خود کارروائی کر کے دکھاؤ۔ اب کہاں بھیجنی ہے؟ اب کیا کرنا ہے؟ ساتھ پوچھتے جاتے۔ جہاں میں خطا کھانے لگتا، وہاں اصلاح کردیتے۔ نہ انہوں نے دباؤ پڑنے دیا۔ نہ میں نے کوئی دباؤ لیا۔ اور یوں محترم رشید صاحب نے اپنے ایک نکمے رفیقِ کار کو، جو اُن سے آدھی عمر کا نوجوان تھا، جنرل آفس کے کام کی تفصیلات سکھا دیں۔

اس سارے سلسلے میں کہیں بوریت اور بیزاری کا عنصر غالب نہ آنے دیا۔ ابھی پہلی صبح کام شروع کیے کچھ ہی دیر ہوئی ہوتی کہ صفدر گجر صاحب مرحوم لنگر خانے سے چائے کا فلاسک ہمارے دفتر کے مرکزی میز پر دھر کر چلے گئے۔اس کا مطلب ہوتا کہ اب چائے کا وقفہ ہے۔ رشید صاحب لنگر سے آئی ہوئی کسی بھی چیز کو ٹھکرانا تقریباً گناہ خیال کرتے تھے۔ جونہی صفدر صاحب چائے رکھ کر لہراتے ہوئے گزرجاتے، رشید صاحب خود بھی چائے کا شوق فرماتےاور مجھے بھی ترغیب دیتے کہ ’’چلیں کام تو ہو ہی جائے گا۔ چائے تو پی لیں پہلے‘‘۔

چائے کے وقفے کے بعد کچھ ہی کام کِیا ہوتا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوجاتا۔ رشید صاحب وضو کا اہتمام جس طرح کرتے، وہ قابلِ ذکر ہے۔ اہتمام تو اکثر لوگ کرتے ہی ہیں مگر رشید صاحب کا اہتمام کچھ الگ دکھائی دیتا۔ وہ یوں کہ مرحوم ہمیشہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہوتے۔ میں نے انہیں ایک آدھ عید کے علاوہ (جس کا ذکر ضروری ہے اور ضرورہوگا) ہمیشہ سوٹ ٹائی میں ملبوس دیکھا۔ سوٹ بھی سادا تھے۔ ٹائیاں بھی سادا سی ہوتیں۔ مگر یہ ان کا مخصوص لباس تھا۔

اس لباس میں وضو کا اہتمام نہ چاہتے ہوئے بھی نظر آجائے تو اچھنبے کی بات نہیں۔ آدمی نے ٹائی پہن رکھی ہو اور وضو میں پاؤں ٹخنے تک دھونے کا اہتمام چل رہا ہو تو ٹائی بے چاری کب تک کندھے پر بے سدھ پڑی رہے گی۔ اور کوٹ اتار کر کھونٹی پر بھی ٹانگ دیا ہو تو بازو کو کہنیوں تک دھوتے ہوئے آستین کا سِرا کب تک بغل کے سہارے اٹکا رہے گا۔ پس رشید صاحب وضو کرلیتے تو لباس بھی اہتمام کی گواہی دے رہا ہوتا۔

میرا ایک بزرگ کے بارے میں یہ بتانا کہ پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے، بے جا اور غیر ضروری بات ہے۔مگر ایک اور چیز جس کا میں نے انہیں پابند پایا، اس کا ذکر ضروری ہے۔چونکہ ہمار ادفتر مسجد فضل کے احاطے میں تھا، لہذا ہمیں دفتری اوقات کی تمام نمازیں حضرت صاحب کے پیچھے پڑھنا نصیب ہوجاتا۔کبھی مسجد میں۔اور اگر رش ہو تو محمود ہال میں۔ اور بہت ہی زیادہ رش کی صورت میں ہم دفتر میں صف بندی کرلیتے۔ مگر ہم جہاں بھی ہوتے،رشید صاحب نماز ختم ہوتے ہی حضرت صاحب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لپکتے۔ محمود ہال میں ہیں تو دروازے پر جا کھڑے ہوتے۔ اگر دفتر میں پڑھی ہے تو کھڑکی کے پردے کو ذرا سا ہٹا کر، جُھری میں سے دیدار کا شرف حاصل کرتے۔ اور ہر روز، ہرمرتبہ دیدار کے بعد چہرے پر وہ رونق آجایا کرتی، جیسے حضرت خلیفۃ المسیح کا پہلی بار دیدار کرنے والوں کے چہرے پر آیا کرتی ہے۔

مسجد فضل کے احاطے میں دفتر ہونے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ حضرت صاحب کبھی کبھار ایم ٹی اے کے دیگر شعبوں اور ہمارے دفتر میں بھی تشریف لے آیا کرتے۔ایسے میں رشید صاحب کا جو حال ہوتا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا۔ میں بیان نہ کرپاؤں گا۔ حضرت صاحب کی محبت میں ایسے پگھلتے کہ لگتا کہ جیسے ان کا قد گھٹ گیا ہو۔ وہ پستہ قد ہوگئے ہوں۔ دونوں ہاتھ آگے باندھ لیتے جیسے عہد دہراتے وقت باندھے جاتے ہیں۔ سر جھکا لیتے اور کبھی کبھی چور نظروں سے حضرت صاحب کی طرف اچٹتی سی نگاہ ڈال لیتے، مبادا حدِ ادب میں دیدار سے ہی محروم رہ جائیں۔حضرت صاحب تشریف لے جانے لگتے تو سر جھکائے جھکائے آداب بجا لانے کی طرز پر ہاتھ ماتھے تک لے جاتے اور بڑی عقیدت سے حضرت صاحب کودفتر سے رخصت کرتے۔

حضرت صاحب ان سے خاص شفقت کا سلوک فرماتے۔ ضرور ان سے ہم کلام ہوجایاکرتے۔ جس ادا سے رشید صاحب جواب دیتے اور حضرت صاحب سے ہم کلام ہوتے، وہ اپنی ذات میں ایک سبق تھا۔ بے انتہا ادب اور احترام اور عقیدت کو جمع کرلیں تو شاید آپ اپنے ذہنوں میں رشید صاحب کی اس حالت کا تصور باندھ سکیں۔

مسجدفضل میں جب کبھی نکاح پڑھانے کے بعد حضرت صاحب تشریف لے جارہے ہوتے تو باہر منکوحہ جوڑوں کے رشتہ دار بِد کے ٹوکرے لیے حضور کے راستے میں کھڑے ہوتے۔ حضور ازراہِ شفقت کچھ بِد اٹھا لیتے اور جو خوش قسمت سامنے نظر آتا، اسے عطا فرمادیتے۔ دو ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ رشید صاحب خوش نصیب ٹھہرے اور انہیں یہ بِد حضرت صاحب کے دستِ مبارک سے نصیب ہو گئی۔

مجھے یوں معلوم ہوا کہ رشید صاحب یہ تبرک وصول کرتے ہی سیدھے دفتر میں آئے تو دونوں ہاتھوں کا پیالہ سا بنائے اس میں بِدکی پوٹلی یوں رکھے ہوئے تھے جیسے کوئی گرم چیز بہت احتیاط سے اٹھا لائے ہوں۔ کندھے اور کمر ایسے جھکائے جیسے یہ گرم چیز بوجھل بھی ہو۔ کچھ بولے بغیر میرے آگے ہاتھوں کا پیالہ کیا اور عقیدت بھری سرگوشی سی میں کہا: ’’لیں! تبرک ہے!‘‘

اس میں سے کچھ میں نے لیا۔ کوئی ایک آدھ دانہ انہوں نے کھایا۔ اور باقی کی بِد انہوں نے کوٹ کی جیب میں محفوظ کر لی۔ ساتھ ہی اپنی اہلیہ کو فون ملایا اور ایک خوشی سے چہکتے ہوئے بچے کی طرح انہیں بتایا کہ ابھی ابھی کیا واقعہ گزر گیا۔ اور یہ بھی کہ وہ بِد اب ان کی جیب میں ہے اور وہ شام کو آتے ہوئے ساتھ لائیں گے۔

رشیدصاحب کی اس درجہ شدید عقیدت کو دیکھ کر مجھے اپنا ایمان ناقص محسوس ہوا کرتا۔ خلافت سے ان کی محبت اور عقیدت۔ ان کی پابندیٔ نماز و روزہ۔ تلاوت کااہتمام۔رمضان میں درس سننے کی تڑپ۔ان کی مالی قربانی۔ ان کا خدمتِ دین کا جذبہ۔ یہ سب دیکھ کر میں نے ہمیشہ انہیں بہت رشک کی نگاہ سے دیکھا۔ یہی تو ایمانی حرارت ہے جو انسان کو مسلمان، اور مسلمان کو مومن بناتی ہے۔

تبرک کی بات چل رہی ہے تو حضرت صاحب کے دفتر سے مٹھائی کے ڈبے بھی اکثر ہمارے دفتر میں آیا کرتے۔ رشید صاحب اس ڈبے کو بھی بڑی عقیدت سے تھامتے۔ اپنی پسند کی مٹھائی اٹھاکر کھانے لگتے اور ساتھ باقی حاضرین کے سامنے بھی ڈبہ پیش کرتے جاتے۔ جو انکار کرتا اس سے اصرار کرتے۔پھر گویا اس کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے بتاتے کہ بھئی تبرک ہے۔ اگر اگلا ذیابیطس وغیرہ کا عذرکرتا تو ڈبا اس کے سامنے تھامے تھامے کچھ دیر اسے تعجب سے دیکھتے، اور پھر ایک حیرت کے عالم میں اس بدنصیب کے آگے سے ڈبہ خاموشی اور قدرے مایوسی سے ہٹا لیتے۔

اب لباس کا وہ واقعہ جس کا وعدہ کیاتھا اور جس کا ذکر ضروری ہے۔چونکہ عید کے روز ایم ٹی اے کی لائیو نشریات صبح سے شروع ہوجاتی ہیں، لہذا ایم ٹی اے میں عید کی چھٹی اس طرح نہیں ہوتی بلکہ ایک مصروف تر دن ہوتا ہے۔ اس کے بدلے میں اگلے روز چھٹی مل جاتی ہے۔ایم ٹی اے کی طرف سے کارکنان کے لیے سامان خورونوش دفتر میں لا کر رکھ دیا جاتا ہےجو وہ چلتے پھرتے کام کرتے کھاتے رہتے ہیں۔یہ ذمہ داری رشید صاحب نے برسوں ادا کی۔

 ایک عید کےروز صبح صبح ایم ٹی اے سٹوڈیو پہنچا تو رشید صاحب جلیبیوں اور سموسوں کے بڑے بڑے ڈبے کھولے ان کے سرہانے بیٹھے تھے۔ ایک بہت بڑی سی اچکن پہن رکھی تھی۔ ہاتھ آستینوں میں تقریباً چھپے تھے اور گھیر بھی گھٹنوں سے نیچے تک تھا۔ کچھ کھلی بھی تھی۔

انہوں نے مجھے دیکھا اور میرے چہرے کی مسکراہٹ سے شاید بھانپ گئے کہ مجھے شرارت سوجھ رہی ہے۔ مگر انتظار کیا کہ میں نے جو کہنا ہے کہہ لوں۔ میں نے کہا کہ رشید صاحب شیروانی تو بہت زبردست ہے مگر لگتا ہے درزی نے کسی اور کے ناپ کی سی دی ہے۔

لمحے بھر کو خاموشی اور حیرت سے میرے منہ کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر یکدم گویا ہوئے: ’’حضور کی ہے۔ حضور نے عید کا تحفہ بھجوایا ہے!‘‘

اور پھر اسی حیرت بھری خاموشی سے مجھے شرمندہ ہوتے دیکھتے رہے اور مسکراتے بھی رہے۔ ظاہر ہے میں نے شرمندگی کا اظہار کیا کیونکہ مجھے تو ذرا بھی علم نہ تھا۔ مگر یہ رشید صاحب کے پیارے حضور کی شیروانی تھی جو حضور نے رشید صاحب کو بڑی محبت سے عید پر بھجوائی تھی۔ اور رشید صاحب، جو متبرک بِد پر قربان ہوجایا کرتے تھے، حضور کی مستعمل شیروانی پاکر کس روحانی کیف میں چلے گئے ہوں گے، اس کا اندازہ ہم سب کرسکتے ہیں۔ اللہ انہیں ان کے پیاروں کی محبت کے اوڑھنےبچھونے نصیب فرمائے اور جنت میں جگہ دے۔

بد اور مٹھائی والی باتیں جہاں تبرک سے ان کی عقیدت کا پتہ دیتی ہیں، وہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ ستر پچھتر سال کی عمر میں بھی رشید صاحب مرحوم کی صحت بہت اچھی تھی۔ ذیابیطس، بلڈ پریشر وغیر کچھ بھی نہ تھا۔ یہ معلوم ہونے کا سبب یہ بنا کہ ایک تو اس بات پر اللہ کا بہت شکر ادا کیا کرتے۔ اور یہ بھی کہ ایک مرتبہ رمضان کے مہینے میں مَیں نے ان سے پوچھا کہ رشید صاحب! جب سحری کھانے کے بعدآدمی سو کر اٹھتا ہے تو معدے اور چھاتی میں گرانی سی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا کیا کِیا جائے؟

بڑی معصومیت سے پوچھنے لگے: ’’کیسی گرانی؟‘‘

میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر یہ ان کے لیے ایک اجنبی تصور تھا۔نہ وہ سمجھے اور نہ میں نے مزید شرمندہ ہونا پسند کیا۔وہ مجھ سے دوگنی عمر کے ہوکر بھی مجھ سے زیادہ صحت مند تھے۔ میں نے انہیں ہمیشہ تیز تیز چلتے دیکھا۔ اللہ نے انہیں بہت اچھی صحت دے رکھی تھی۔یہ اللہ کا فضل تھا ورنہ میں نے انہیں کبھی کوئی خاص احتیاط پرہیز کرتے نہ دیکھا۔ روزانہ لنگر سے آیا کھانا کھاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے۔

میں بھی آغاز میں روزانہ لنگر کا کھانا کھایا کرتا۔ صفدر گجر صاحب محبت سے ہمارے دفتر کے میز پر رکھ جو جایا کرتے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرا وزن کچھ زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ میں نے لنگر کے کھانے سے ہاتھ کھینچنے کا فیصلہ کرلیا اور گھر سے کچھ بنواکر ساتھ لانا شروع کردیا۔

جس روز یہ پہلی دفعہ ہوا،میں نے اس روز رشید صاحب کے سامنے اس فیصلے کا اعلان کیا اور اپنا کھانے کا ڈبہ کھولا تو خوب ہنسے۔ دیر تک ہنستے رہے۔ ساتھ لنگر کا کھانا کھاتے جاتے اور ساتھ کچھ نہ کچھ کہتے جاتے۔ ’’اچھا تو کتنے دن کا ہے یہ پرہیز؟‘‘ یا یہ کہ ’’ڈاکٹر نے بتایا یہ پرہیز یا خود ہی شروع کردیا؟‘‘۔ یہ بھی کہا کہ ’’ہم نے آپ کی عمر میں کبھی پرواہ بھی نہیں کی تھی‘‘ وغیرہ۔ یقیناً سچ کہہ رہے تھے کیونکہ پرواہ تو وہ تب بھی نہ کرتے تھے جب ہم نے ان کو دیکھا جانا۔

 کچھ دن بعد مجھے لگا کہ رشید صاحب جو روزانہ کوئی نہ کوئی جملہ چست کرتے ہیں، اس کے پیچھے میری پرہیز کی کوشش سے زیادہ اس بات کا ملال شامل ہے کہ اب ہم ایک ساتھ کھانا نہیں کھاتے بلکہ میرا جب جی چاہتا ہے میں کھا لیتا ہوں، اور جہاں جی چاہتا ہے بیٹھ کر کھالیتا ہوں۔ یہ ساتھ چھوٹ جانے کا ملال تھا سو میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا شروع کردیا۔ لنگر سے آئے ہوئے کچھ چاول لے لیے۔ یا روٹی لے لی اور اپنے کھانے کے ساتھ کھالی۔رشید صاحب خود بھی وفا شعار تھے۔ اور وفا کی بہت قدر کرتے تھے۔ اور میں ان کا وفادار رہنا چاہتا تھا۔

لنگر کا ذکر چل رہا ہے تو ایک اور بات کا ذکر ضروری ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ لنگر سے کھانا کھا بھی لیتے ہیں اور پھر اس میں مین میخ بھی نکالتے ہیں۔یہ بات مناسب نہیں کیونکہ لنگر خانہ کسی کو مجبور تو نہیں کرتا کہ وہ کھائے۔ ایک سہولت ہے اور سے فائدہ جو اٹھانا چاہے اٹھا لے۔ رشید صاحب نے لنگر کا کھانا ہمیشہ عقیدت کے جوش کے ساتھ کھایا۔ جو کچھ بھی آتا اور جیسا بھی ہوتا خوشی خوشی کھاتے رہتے۔

وہ محوِ طعام ہوتے اور اگر میں کبھی کہہ دیتا کہ آج نمک تھوڑا زیادہ ہے، تو تب مخصوص ہندوستانی طرز پر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بھرپور تائید کرتے: ’’ہاں! نمک زیادہ ہےآج‘‘۔ نہ میری نیت مین میخ نکالنے کی ہوتی، نہ رشید صاحب نکتہ چینی کررہے ہوتے۔ بس خود کبھی اس بارے میں رائے کےاظہار میں پہل نہ کرتے اور صبر شکر سے کھاتے رہتے۔’’رشید صاحب آج تیل کچھ زیادہ تو نہیں؟‘‘ اور رشید صاحب نفی میں سر ہلاتے ہوئے اثبات میں جواب دیتے’’تیل بہت زیادہ ہے آج۔ اور آپ تو پرہیز بھی کررہے ہیں نا؟‘‘۔ ساتھ ہی ایک بھرپور قہقہہ اور بات ہنسی مذاق میں میری نام نہاد پرہیز کی طرف مڑ جاتی۔

آغاز میں جب رشید صاحب سے راہ و رسم بڑھی اور انہوں نے باوجود اپنی بزرگی اور ہماری عمروں کے تفاوت کے مجھے دوست کی طرح خیال کرنا شروع کیا،تو رشید صاحب کی شخصیت کی بہت سی کھڑکیاں کھلتی گئیں۔ بہت پیارے اور سادہ آدمی تھے۔ جب بے تکلفی بڑھی تو ایک روز کہنے لگے کہ ایک معاہدہ کرلیتے ہیں کہ جو بات ہمارے درمیان ہو وہ ہمارے درمیان ہی رہے۔ میں نے فوراً حامی بھری اور معاہدہ طے پاگیا۔ مجھے یوں بھی احساس تھا کہ یہ دوستی اور بے تکلفی کا تعلق ان کا بڑا پن ہے۔ ورنہ وہ میرے بزرگ ہیں اور رہیں گے۔ ہم دونوں نے اس معاہدہ کو خوب نبھایا۔ہاں ایک مرتبہ مجھ سے چوک ہوگئی۔

کوئی بہت ہی مزاحیہ واقعہ جو رشید صاحب نے مجھے کسی وقت سنایا تھا اور میرے نزدیک اسے کہیں بیان کردینے میں کوئی حرج نہ تھا، میں نے ایم ٹی اے کے ایک رفیق کار کو سنادیا۔ غلطی یہ ہو گئی کہ انہی سے منسوب کرکے سنا دیا۔ وہاں ان کا بے تکلفی کا تعلق نہ تھا۔

مجھے تو احساس بھی نہ ہوا۔ واقعہ یاد آیا میں نے سنا دیا۔ کچھ دن بعد رشید صاحب کچھ خفا سے محسوس ہوئے۔ خاموش تھے اور ان کی یہ خاموشی خلافِ معمول تھی۔ ورنہ ہمارا وقت تو کام کرتے،ہنستے ہنساتے گزرتا تھا۔ کچھ دیر یہ سوچ کر کہ کسی ذاتی الجھن میں ہوں گے، میں نے خاموشی کا سبب پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے کوئی بھی بات کی تو رشید صاحب نے مختصر سا جواب دیا ا ور دوبارہ خاموش ہوگئے۔ یہ رشید صاحب کی عادت کے بالکل خلاف تھا۔

شام کو دفتر سے روانہ ہونے لگے تو مجھ سےر ہا نہ گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ رشید صاحب، سب خیریت ہے؟ آج بہت خاموش ہیں۔ جھٹ بولے: ’’آپ نے معاہدہ توڑدیا۔ فلاں بات فلاں سے کہہ دی۔ وہ تو ہماری آپس کی بات تھی۔‘‘

میں سخت نادم ہوا اور ان سے معافی مانگی۔ فوراً معاف کردیا۔ بلکہ ہنس پڑے کہ ارے نہیں معافی کاہے کی۔ ہو ہی جاتا ہے۔ اور جیسے مجھے یقین دلانے کے لیے کہ ناراضگی جاتی رہی،دروازے سے نکلتے نکلتے کہنے لگے کہ کل جو مٹھائی میں آپ کو دے رہا تھا اور آپ نے انکارکیا تھا وہ fridge میں رکھی ہے۔ ضرور کھالیں ورنہ ضائع ہوجائے گی۔جب شوگر کی بیماری نہیں ہے تو کیوں بلاوجہ احتیاط کرتے ہی؟یہ ان کی عام معافی کا اعلان تھا۔ اس واقعے سے مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے بے تکلفی کے تعلق میں بھی اپنے وقار پر آنچ نہ آنے دی، اور میں نے بھی آئندہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا۔

مجھ پر اس واقعے سے رشید صاحب کی شخصیت کا ایک اور پہلو عیاں ہوا۔ وہ یہ کہ ناراض ہیں تو بتادیا کہ ہاں بھئی ناراض ہیں۔ اور اس بات پر ناراض ہیں۔ دل میں رکھ کر نہیں بیٹھ گئے اور نہ تعلق میں فرق آنے دیا۔

اس بے تکلفی کے تعلق میں رشید صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سب سے بڑی بات جو انہوں نے اپنے عمل سے سکھائی وہ خود اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ تھا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو انسان سیکھ لے تو اَنا کے مسائل بہت حد تک حل ہوجاتے ہیں۔ اور رشید صاحب انا کے مسائل کو لگام دے چکے تھے۔

ان دنوں مختلف ممالک سے پروگرام cassettes پر ریکارڈ ہو کر بذریعہ ڈاک آتے تھے۔ یہ کیسٹ خاصےبیش قیمت ہوتے اس لیے یہاں یہ پروگرام چل چکتے تو متعلقہ ممالک کے سٹوڈیوز کو واپس ارسال کردیے جاتے تا کہ دوبارہ استعمال میں لائے جاسکیں۔

ایک روز کیسٹس کا ایک ڈبہ کسی سٹوڈیو کو بذریعہ ڈاک واپس بھجواناتھا۔ میں نے رشید صاحب سے گزارش کی کہ جب گھر جانے کے لیے نکلیں تو ڈاک خانے سے ہوتے جائیں اور ڈبہ پوسٹ کردیں۔ انہوں نے حامی بھر لی اور جاتے وقت ڈبہ ساتھ لے کر تشریف لے گئے۔

ان کے جانے کے کچھ ہی منٹ بعد سیکورٹی کیبن سے فون آیا کہ رشید صاحب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گئے ہیں مگر انہوں نے بیٹھتے وقت ایک ڈبہ گاڑی کی چھت پر رکھا تھا۔ اسے اندر رکھنا بھول گئے اور ڈبہ چھت پر ہی پڑا ہوا لے کر گاڑی چلا کر چلے گئے ہیں۔تب رشید صاحب موبائل فون رکھتے تو تھے مگر استعمال کم ہی کرتے تھے۔ ڈرائیو کرتے وقت تو کبھی بھی نہیں۔

میں نے فون کیا۔ انہوں نے نہ اٹھایا۔ میں گاڑی لے کر ان کے ممکنہ راستے پر ان کے پیچھےگیا۔ مگر کہیں دکھائی نہ دیے۔ رشید صاحب جاچکے تھے۔میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مختلف راستوں پر جا کر دیکھوں کہ کہیں ڈبہ گرا پڑا ہو تو اسے اٹھا لوں اور محفوظ کرلوں۔ مگر بے سود۔

اگلے روز دفتر آئے تو ہنستے کھیلتے، موسم پر تبصرہ کرتے، ٹریفک کے رش کا گلہ کرتے، چائے میں چینی گھولتے ہوئے بیٹھ گئے۔ میں انتظار کرتا رہا کہ وہ مجھے بتائیں کہ ڈبہ کل کھو گیا اور کیسٹس کا تقصان ہو گیا۔ مگر انہوں نے اس طرف نہ آنا تھا، نہ آئے۔

آخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ کل جو ڈبہ پوسٹ کرنا تھا، وہ پوسٹ کرپائے تھے؟ فرمانے لگے ہاں ہاں! وہ پوسٹ ہوگیا۔ میں نے کھل کر پوچھ ہی لیا کہ وہ ڈبہ تو آپ کی گاڑی کی چھت پر نہیں رہ گیا تھا؟

اس پر زور سے ہنسے اور ہنستے چلے گئے۔ پھر بتایا کہ میں یہاں سے نکلا تو کچھ ہی دیر بعد گاڑی کے عقبی شیشے میں نظر آیا کہ ایک شخص موٹر سائیکل پر میرے پیچھے آرہا ہے۔ وہ رکنے کا اشارے بھی کرتا رہا مگر میں نہ رکا۔ وہ بھی پیچھے آتا گیا تاوقتیکہ میں ایک ایسی گلی میں داخل ہوگیا جو آگے سے بند تھی۔ میں نے گاڑی روک دی تو وہ شخص اتر کر میرے پاس آیا اور مجھے ٹیپوں کا وہ ڈبہ دے کر کہنے لگا کہ یہ پیچھے گِر گیا تھا۔ میں تمہیں دینے کے لیے کب سے تمہارے پیچھے آرہا ہوں مگر تم ہو کہ رکتے ہی نہیں۔ یہ لو ڈبہ۔

اس طرح وہ ڈبہ مجھے واپس ملا اور میں نے فوراً اسے ڈاک خانے جا کر پوسٹ کردیا۔ یو ں رشید صاحب خود پر بھی ہنس لیا کرتے۔ یہ بڑی بات تھی اوراپنی انا کو زیر کر چکنے کا ثبوت۔ ان کے ساتھ بہت سا وقت گزار کر میں گواہی دے سکتا ہوں کہ رشید صاحب انا سے پاک، ایک معصوم آدمی تھے۔

اپنے اہلِ خانہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ بچوں کی بہت اچھی تربیت کی۔ اچھی تعلیم دلائی۔ ان کے لیے چھوٹے ہوتے سے ہی ٹیوشن وغیرہ کا انتظام رکھا اور سب نے اچھی تعلیم حاصل کی۔ سب جماعت کی خدمت میں چھوٹے ہوتے سے ہی مصروف رہے اور آج تک ہیں۔

اپنی اہلیہ سے بھی بہت محبت کرتے۔ ہر سال جلسہ سالانہ قادیان پر دونوں ساتھ جایا کرتے۔ اور جگہوں کی سیر پر بھی اہلیہ کے ساتھ جایا کرتے۔ ایک روز ہم دفتر میں بیٹھے تھے کہ برف پڑنا شروع ہوگئی۔ فوراً کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے اور ایک معصوم بچے کی طرح یہ نظارہ دیکھنے لگے۔ مگر کسی بھی خوبصورت نظارے میں وہ تنہا نہیں رہنا چاہتے تھے۔ فوراً اپنی اہلیہ کو فون ملایا اور بڑی محبت سے کہا:’’ارے فہمیدہ! باہردیکھو۔ برف پڑ رہی ہے۔‘‘

انہوں نے اس خوبصورت لمحے میں اپنی اہلیہ کو بھی شامل کرلیا۔ دونوں میں بہت محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی اہلیہ پر جدائی کا صدمہ آسان کردے۔

رشید صاحب نے ساری عمر جماعت کی خدمت کی۔ جب سے برطانیہ آئے پہلے برمنگھم اور پھر لندن اٹھ آنے کے بعد مرکز میں بہت سی خدمت کی توفیق پائی۔ نارتھ لندن جب ایک ہی جماعت تھی تو قریب تین دہائیوں تک وہاں صدر جماعت رہے۔ایم ٹی اے میں لمبا عرصہ بہت خاموشی سے خدمت کرتے رہے۔ انہیں کسی نام و نمود کی خواہش نہ تھی۔ اللہ انہیں بہت بڑھا چڑھا کر جزائے خیر عطا فرمائے۔

ہماری ان کی ملاقاتیں کووِڈ کے آجانے سے پہلے تک گاہے گاہے جاری رہیں۔ کبھی دفتر فون کرتا اور وہ اٹھاتے تو فون پر بھی بات ہو جاتی۔ پھر وبا پھیل گئی اور رابطے برقرار نہ رہ سکے۔ اور سچ پوچھیں تو مجھ سے سستی بھی ہوئی۔

کووِڈ کے ابتدائی زمانہ میں ایک دو مرتبہ ان سے فون پر بات ہوئی۔ کچھ کھوئے کھوئے سے لگے۔ میرے ہر سوال پر کچھ بولے ضرور مگروہ میرے سوال کا جواب نہ ہوتا۔ کچھ اور بات چیت ہوتی۔ میں نے ان کی اہلیہ سے بات کی اور پوچھا کہ سب خیریت تو ہے؟ انہوں نے بتایا کہ رشید صاحب کو dementia نے آلیا ہے اور اگرچہ ابھی ابتدا ہے مگر صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔

مجھے بھلاکوئی کیا بتاتا۔ میرے گھر میں تو میرے سامنے میری والدہ تھیں۔ اور مجھے معلوم تھا کہ الا ماشاء اللہ dementia ایک یک سمتی سڑک ہے۔ جس پر نہ کوئی موڑ ہے۔ نہ اس سے اترنے کا کوئی راستہ۔ اور نہ اس سرنگ کے دوسرے سرے پر کوئی روشنی۔یہ ان کی زندگی کےاختتام کا آغاز تھا۔ میرا دل بہت اداس ہوا۔ میرا بزرگ دوست زندگی کے آخری زینے پر پاؤں رکھ چکا تھا۔

ان سے آخری ملاقات جامعہ احمدیہ یوکے کے کانووکیشن پر ہوئی۔ میں نے انہیں دیکھا تو لپک کر ان کے پاس گیا۔ بہت تپاک سے ملے۔ اسی طرح ہنستے رہے جس طرح ہم مل کر ہنسا کرتے تھے۔ مجھے ان کی ہنسی ہمیشہ ہی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ دل کو گرمانے والی۔ مگر اس روز ان کی ہنسی دل کو سرد سا کرگئی۔ میں کچھ پوچھتا، اور وہ جواب دینے کی بجائے صرف مسکراتے اور ہنستے رہے۔

رشید صاحب نے زندگی کی ہرمشکل کو ہنس کر ہی تو جھیلا تھا۔ یہ شاید سب سے مشکل مرحلہ تھا جس میں داخل ہورہے تھے۔ ہنستے ہوئے۔ اللہ اگلے جہان میں بھی رشید صاحب کو ہنستا رکھے۔

رشید صاحب سے ملاقات کی ایک ممکنہ صورت تھی جو میں نےگنوادی۔ان کے چھوٹے بیٹے عزیزم قدسی رشید کی دعوتِ ولیمہ تھی۔ میں مدعو تھا۔ مگر جلسے کے دو تین دن کے بعد مصروفیت کچھ ایسی تھی کہ میں حاضر نہ ہوسکا۔ میں اس ملال میں ساری عمر جیوں گا کہ کاش میں جاسکتا۔ کاش میں کسی بھی طرح چلا گیا ہوتا۔ اگر گیا ہوتا تو انہیں ضرور بتاتا کہ رشید صاحب آج کوئی پرہیز نہیں۔ آج سب کچھ کھاؤں گا۔ وہ اس بات پر ضرور قہقہہ لگا کر ہنستے اور کوئی معصوم سی چوٹ کرتے۔

رشید صاحب! آپ میرے بزرگ تھے۔ میں نے آپ کی بزرگی کا بہت احترام کیا اور کرتا رہوں گا۔ مگر آپ ہی نے تو بے تکلفی میں مجھ جیسے کو بگاڑا بھی خوب۔ آپ تو میرے الگ کھانا کھانے پر خفا سے ہوگئے تھے۔ آج خود منہ موڑ کر اگلے جہان سدھار گئے۔ تو آپ لاکھ بزرگ سہی، مگر پھر مجھے بھی بے تکلفی کا حق دیں۔ اور مجھے کہنے دیں کہ آج میرا ایک دوست مجھ سے جداگیا!

اللہ کے حوالے رشید صاحب! جنت میں تبرکات کا مزا لوٹیں۔ سدا خوش رہیں۔ اللہ حافظ۔

(اور ہاں! میں نے ان یادداشتوں میں آپ سے کیا معاہدہ نہیں توڑا۔ ورنہ مضمون ایک ضخیم کتاب بن جاتا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button