حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نمازوں کی ادائیگی

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۴؍مئی۲۰۱۰ء)

قرآنِ کریم میں تسبیح کے ذکر میں جو بیان ہوا ہے اس میں نمازوں کو بھی تسبیح کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ یعنی نمازیں بھی ایک قسم کی تسبیح ہیں۔ پس ان کی پابندی کرنا اور باقاعدگی سے ادا کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی کا صحیح ادراک حاصل ہو گا۔

پھر جیسا کہ مَیں نے بیان کیا کہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے ربّ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا۔ اپنے ربّ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا، یہ بھی حکم ہے۔ اس بارے میں جب سب سے اول آنحضرتﷺ کی ذات کو ہم دیکھتے ہیں تو اس کے بھی اعلیٰ ترین نمونے آپؐ نے ہی قائم فرمائے۔ آپ نے دعوت الی اللہ کا حق قائم فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارہ میں فرمایا کہ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ (الاحزاب: 47) کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کواللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور جب آپ کو فرمایا کہ یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ (المائدة: 68) کہ اے رسول! تیری طرف تیرے رب کی طرف سے جو کلام اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا تو اس کا بھی آپ نے حق ادا کر دیا۔ کیونکہ اس کے بعد رب اعلیٰ کے نام کی سر بلندی جو پہلے ہی آپ کا مقصود تھی اس میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ نرمی سے، حکمت سے، احسان سے، احسان کرتے ہوئے اور صبر دکھاتے ہوئے آپؐ نے ہر حالت میں تبلیغ کے کام کے حق کو ادا کرنے کی کوشش فرمائی۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے اس حق کو ادا کیا۔ مشکلات بھی آئیں تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے آپ کے قدم آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ کوئی خوف، کوئی ڈر آپؐ کو اس کام سے روک نہیں سکا۔ آپ کی قوتِ قدسی نے یہی روح صحابہؓ میں بھردی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی کے لئے وہ بھی قربانیاں دیتے چلے گئے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےالَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی (الاعلیٰ: 3) یعنی جس نے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر تمام ضروری طاقتیں رکھی ہیں اور ترقی کے مادے اس میں موجود ہیں۔ عموماً ایک نارمل بچے کی جب پیدائش ہوتی ہے تو اس میں تمام ضروری طاقتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اور جوں جوں اس کی نشوونما ہوتی رہتی ہے اور جس طرح پہلے زمانوں میں بھی ہوتی رہی ان طاقتوں میں اس ماحول کے لحاظ سے نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ بیشک بعض ذہنی اور جسمانی لحاظ سے کمزور بھی ہوتے ہیں لیکن یہ عمومی حالت نہیں ہے۔ پس انسان کو جب اشرف المخلوقات بنایا تو اس میں ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی رکھیں کہ اگر ان کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو تمام مخلوق کو وہ زیر کر لیتا ہے۔ گویاانسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتَو بن سکتا ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں اس کا کامل نمونہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰیﷺ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل تعلیم اتاری اور اس مزاج کے مطابق اتاری جو انسان میں خدا تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے یا جس کی نشوونما اس زمانے میں ہو چکی تھی اور آئندہ بھی انسان کی ذیلی صلاحیتوں کا اور اس کے قویٰ کا نشوونما اب قیامت تک ہوتے چلے جانا ہے۔ انسان کی فطرت میں اگر اللہ تعالیٰ نے نرمی اور غصہ رکھا ہے تو یہ بھی عین ضرورت کے مطابق ہے۔ کبھی نرمی کا اظہار ہو جاتا ہے، کبھی غصہ کا اظہار۔ اس لئے قرآنِ کریم میں جو تعلیم آنحضرتﷺ پر اتاری گئی ہے اس میں بھی یہی فرمایا ہے کہ غصے کا اور نرمی کا اظہار اپنے وقت پر کرو تبھی ان انسانوں میں شامل ہو گے جو سَوّٰی کے لفظ کے تحت آتے ہیں۔ یعنی جب ہر عمل جو ہے موقع اور محل کے مطابق ہو۔ مثلاً اگراصلاح کی ضرورت ہے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کے لئے معاف کرنے میں اصلاح کا پہلو نکلتا ہے یا سزا دینے میں۔ اگر صرف ہر صورت میں معاف ہی کیا جاتا رہے تو معاشرے میں ان لوگوں کے ہاتھوں جو ہر وقت فساد پر تُلے رہتے ہیں معاشرے کا امن برباد ہی ہوتا چلا جائے گا۔ پس ایک عقل مند اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھنے والا انسان ہمیشہ اعتدال سے کام لیتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کو اس طرح پیدا کیا ہے جو ہر لحاظ سے مناسب ہے۔ عیب سے پاک ہے۔ پھر عقلمند انسان کا ہر عمل اور فعل، موقع اور محل کے مناسبِ حال ہوتا ہے۔

خَلَقَ فَسَوّٰی (الاعلیٰ: 3)کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس میں جب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو اس عیب کو درست کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ سامان پیدا فرماتا ہے۔ بیماریاں ہیں تو ان کا علاج ہے اور یہ علاج کے طریق بھی خدا تعالیٰ ہی سکھاتا ہے۔ بعض دہریہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کی دماغی صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں علاج سمجھ آ گیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کارفرما ہے۔ اور یہ باتیں پھر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذہن عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے، سہولیات کے لئے ایجادات کرتا چلا جا رہا ہے۔ مثلاً بیماریوں کے خلاف علاج ہے تو اس کے بھی نئے نئے طریق نکال رہا ہے۔ بہت سی بیماریاں جو پہلے نہیں ہوتی تھیں یا پتہ نہیں تھا، جن کی صلاحیت نہیں تھی جب اللہ تعالیٰ نے صلاحیت پیدا کی، انسان کی نشوونماکی۔ اس کی ذہنی اور جسمانی طاقتیں بڑھائیں تو بعض ایسی نئی نئی باتیں بھی اس کے ذہن میں پیدا ہو گئیں جن کو استعمال کر کے وہ اپنی زندگی کو مزید بہتر بنا سکتا ہے۔ مثلاً دل ہے انسان کا۔ پہلے تو کسی کو پتہ ہی نہیں لگتا تھا یا انسانی زندگی اتنی سخت تھی کہ ورزش کی وجہ سے اور اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے اور ایسی خوراک ہونے کی وجہ سے جو دل کو نقصان نہیں پہنچاتی، دل کی بیماریاں نہیں تھیں۔ لیکن جہاں جہاں اور جوں جوں انسان کی بعض صلاحیتیں بڑھتی چلی گئیں، بیماریاں بڑھتی چلی گئیں۔ دل کی بیماریاں بھی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کا علاج کا طریقہ آپریشن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمجھایا۔ پھر اس میں ترقی ہوئی تو ایک اور طریقہ اینجوپلاسٹی کا سمجھایا جو اس سے زیادہ آسان ہے۔ اور اب مزید سٹیم سیل (Stem Cell) کے ذریعے علاج کی ریسرچ ہو رہی ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ انسانی صلاحیتوں کو ساتھ ساتھ اس کی ضروریات کے مطابق اجاگر کرتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے۔ یہ وہ اعلیٰ ربّ ہے جس کی تعریف ایک بندے پر فرض ہے۔ وہ اگر عیبوں کو ظاہر فرماتا ہے تو اس کے لئے پھر اس کا مداوا اور علاج بھی سمجھا دیتا ہے۔ ایک موحّد جب بھی نئی ریسرچ دیکھتا ہے تو اسے خدا تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ جسمانی بیماریوں کے علاج کی طرف یوں رہنمائی فرما رہا ہے تو روحانی بیماریوں کے علاج کے سامان بھی کرتا ہے اور کیوں نہیں کرے گا۔ پس ہر زمانے میں انبیاء روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے آئے اور اپنے اپنے وقت کی بیماریوں کے علاج کرتے رہے۔ جب انسانی زندگی روحانی بیماریوں کا مجموعہ بن گئی اور نئی نئی بیماریاں پیدا ہو گئیں، ہر زمانے کی بیماری جمع ہو گئی تو آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمایا اور قرآنِ کریم کی کامل تعلیم اتاری جس نے علاج کیا اور آنحضرتﷺ نے اپنے زمانے میں اس کے اعلیٰ ترین نمونے اپنی قوتِ قدسیہ سے دکھائے۔ اس تعلیم کی روشنی میں دکھائے جس سے انسانوں کو، جانوروں کو باخدا انسان بنا دیا۔ لیکن ایک زمانے کے بعد جب مسلمان بھی اس تعلیم کو سمجھنے سے قاصر ہو گئے اور اس پر عمل کرنا بھول گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو اپنے وعدے کے مطابق بھیجا جنہوں نے پھر اس تعلیم میں سے جو قرآنِ کریم کی صورت میں موجود تھی، علم و عرفان کے موتی نکال کر ہماری بیماریوں کے علاج کئے۔ اور یہ بتایا کہ امت میں جو بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، ان کے علاج یہ ہیں۔ اور میرے ساتھ جڑو گے تو اس سے اپنے علاجوں میں کامیاب ہو سکتے ہو۔ ڈاکٹروں کو تو نئی بیماریوں کا علاج ایک ریسرچ اور لمبا عرصہ محنت کرنے سے پتہ لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے روحانی علاج کے لئے چودہ سو سال پہلے قرآنِ کریم میں کامل شریعت اتار کر یہ علاج رکھ دیا تھا۔ اور ہر زمانے میں جو اللہ کے بندے تھے اس کو سمجھتے رہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button