سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت نواب صاحبؓ …کاانجام بخیر ہوااورایساانجام ہواکہ خداکے اس مامورومرسل نے اس کی نمازجنازہ پڑھی اور جس کے عشق ومحبت اور ارادت کاآپؑ نے یہ فرماتے ہوئے ذکرکیاکہ’’اُن کا اعتقاد اِس قدر بڑھاکہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے! ‘‘

1: حضرت جناب نواب علی محمدخان صاحب بہادرؓ سابق رئیس جھجر

(گذشتہ سے پیوستہ)اسی نشان کاذکرحضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک اور تصنیف میں بھی فرمایاہے جس میں آپؑ نے ان کی عقیدت ومحبت کاذکرکرتے ہوئے فرمایا ان کااعتقاد اس قدربڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فناہوگئے۔چنانچہ یہ تفصیل نشان نمبر96کے طورپرذکرکرتے ہوئے آپؑ تحریرفرماتے ہیں :’’ چھیانواں نشان۔ایک دفعہ نواب علی محمد خان مرحوم رئیس لدھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امورِ معاش بندہو گئے ہیں آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب میں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کھل جائیں گے۔ میں نے بذریعہ خط اُن کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کھل گئے اور اُن کو بشدت اعتقاد ہو گیا۔ پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض اپنے پوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا اور جس گھڑی اُنہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے۔ دوسرے دن وہ خط آگیا اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اِس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور اُن کا اعتقاد اِس قدر بڑھاکہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کر دیے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے جب میں پٹیالہ میں گیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔جب وزیر سید محمد حسن صاحب کی ملاقات ہوئی تو اتفاقاً سلسلہ گفتگو میں وزیر صاحب اور نواب صاحب کا میرے خوارق اور نشانوں کے بارہ میں کچھ تذکرہ ہوا تب نواب صاحب مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتاب اپنی جیب میں سے نکال کر وزیر صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ میرے ایمان اور ارادت کا باعث تو یہ دو پیشگوئیاں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں اور جب کچھ مدت کے بعد اُن کی موت سے ایک دن پہلے میں اُن کی عیادت کے لئے لدھیانہ میں اُن کے مکان پر گیا تو وہ بواسیر کے مرض سے بہت کمزور ہو رہے تھے اور بہت خون آرہا تھا اس حالت میں وہ اُٹھ بیٹھے اور اپنے اندر کے کمرہ میں چلے گئے اور وہی چھوٹی کتاب لے آئے اور کہا کہ یہ میں نے بطور حرزِ جان رکھی ہے اور اس کے دیکھنے سے میں تسلی پاتا ہوں اور وہ مقام دکھلائے جہاں دونوں پیشگوئیاں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر جب قریب نصف کے یا زیادہ رات گذری تو وہ فوت ہو گئے انّاللّٰہ و انّا الیہ راجعون میں یقین رکھتا ہوں کہ اب تک اُن کے کتب خانہ میں وہ کتاب ہوگی۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 25۸،25۷)حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک کشفی نظارہ کاذکرکرتے ہوئے میرعباس علی صاحب لدھیانوی کے نام ایک مکتوب میں تحریرفرماتے ہیں :’’ ایک عجیب کشف سے جومجھ کو30؍دسمبر1882ء بروزشنبہ کو یک دفعہ ہوا۔آپ کے شہرکی طرف نظرلگی ہوئی تھی اورایک شخص نامعلوم الاسم کی ارادتِ صادقہ خدانے میرے پرظاہرکی جوباشندۂ لودھیانہ ہے۔اس عالم کشف میں اس کاتمام پتہ ونشان سکونت بتلا دیاجواب مجھ کو یاد نہیں رہا۔صرف اتنایادرہاکہ سکونت خاص لودھیانہ اوراس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھاہواپیش کیاگیا: سچاارادتمند۔ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ۔یعنی اس کی ارادت ایسی قوی اورکامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے۔‘‘(مکتوبات احمدجلداول صفحہ 510مکتوب نمبر 3)

18؍جنوری 1883ء کوحضرت نواب صاحب کوخط میں حضرت اقدسؑ تحریر فرماتے ہیں :’’بعدہذا اس عاجز نے ماہ صفر 1300ھ میں آپ کے حق میں بہت سی دعائیں کیں اورمیں امیدنہیں رکھتا کہ کوئی گداحضرت کریم میں اس قدر دعائیں کرکے بھی محروم رہے۔سواگرچہ تعین نہیں ہوگی مگرامیدواثق ہے کہ خداوندکریم آپ کے حال پرجس طرح چاہے گا کسی وقت رحم کرے گا۔وھوأرحم الراحمین۔

میں نےقریب صبح کے کشف کے عالم میں دیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیاگیا اس پرلکھاہے کہ ’’ایک ارادت مندلدھیانہ میں ہے۔‘‘پھراس کے مکان کامجھے بتایاگیااورنام بھی بتایاگیا جومجھے یادنہیں اورپھراس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میں لکھی ہوئی دکھائی۔ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون شخص ہے مگرمجھے شک پڑتاہے کہ شایدخداوندکریم آپ ہی میں وہ حالت پیداکرے یاکسی اورمیں۔واللہ اعلم بالصواب‘‘(مکتوبات احمد جلد3صفحہ39مکتوب نمبر1)

مذکورہ بالادونوں خطوط کے مندرجات کے پیش نظربہت حدتک امکان ہے کہ اس الہام کے اولین مصداق حضرت نواب صاحب ہی ہوں گے کہ جن کاانجام بخیر ہوااورایساانجام ہواکہ خداکے اس مامورومرسل نے اس کی نمازجنازہ پڑھی اور جس کے عشق ومحبت اور ارادت کاآپؑ نے یہ فرماتے ہوئے ذکرکیاکہ’’اُن کا اعتقاد اِس قدر بڑھاکہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے! ‘‘

2: جناب مولوی محمد چراغ علی خان صاحب
بہادر نائب معتمد مدار المہام حیدر آباد دکن

انہوں نے بطوراعانت کتاب مبلغ 10روپے بھیجے تھے۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کے پہلے صفحہ پراعلان کے عنوان سے جن ’’عالی مراتب خریداروں‘‘کے نام ایک چوکٹھا میں نمایاں کرکے درج فرمائے ان میں تیسرے نمبرپریہ نام درج فرمایا۔

مولوی چراغ علی صاحب 1845ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولوی محمد بخش صاحب تھا۔ بارہ سال کی عمرمیں یتیم ہوگئے۔گورکھ پورمیں کلرک کے طورپرکام کیا۔پھروہاں سےلکھنؤچلے گئے۔ نواب اعظم یار جنگ، مولوی چراغ علی، سرسید کے تمام دوستوں میں سب سے زیادہ ذی علم بزرگ تھے۔ عربی زبان کے عالم اور فارسی کے فاضل تھے۔ انگریزی کی نہایت عمدہ لیاقت رکھتے تھے۔ لاطینی اور یونانی بھی جانتے تھے۔ عبرانی اور کالڈی سے بھی واقف تھے۔ سرسید کے رسالہ تہذیب الاخلاق میں ان کے عالمانہ اور محققانہ مضامین شائع ہوتے رہے۔سرسیدکی ہی سفارش پرحیدرآباد میں ملازمت کاموقع ملا اور بعدمیں وہاں معتمد مالیات کے معزز عہدے پر مامور تھے۔ ’’تحقیق الجہاد‘‘ اور’’ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام‘‘ ان کی مشہور کتابیں ہیں جو انہوں نے انگریزی میں لکھی تھیں۔ پہلی کتاب کا ترجمہ مولوی غلام الحسنین نے اور دوسری کا مولوی عبدالحق نے اردو میں کیا۔ مولوی صاحب نے 15؍جون 1895ء کو بمقام بمبئی انتقال کیا جہاں وہ علاج کے لیے گئے ہوئے تھےاوربمبئی میں ہی ان کی تدفین ہوئی۔

3: حضرت فخرالدولہ نواب مرزا محمد علاؤالدین احمد خان صاحب بہادرؓ فرمان روائے ریاست لوہارو

نواب صاحب لوہارو کا نام براہین احمدیہ کے صفحہ نمبر 3 اور 11 پردرج ہے۔انہوں نے چالیس روپے ارسال کیے۔بیس روپے کتاب کی خریداری اوربیس روپے اعانت کتاب۔

1801ء میں انگریزوں نے ریاست بھرت پورکے قلعہ ڈیگ [ Deeg Fort] پرچڑھائی کی تومہاراجہ بختاورسنگھ نے انگریزوں کاساتھ دیا۔ نواب احمدبخش خان مہاراجہ کی فوجوں کے ساتھ انگریزوں کی کمک کے لیے بھرت پورپہنچا۔اوراس موقع پربڑی دلیری اور بہادری کاثبوت دیتے ہوئے اپنی جان پرکھیل کرجنرل فریزرکودشمنوں کی زدسے نکالالیکن وہ تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بساالبتہ اپنے مرنے سے پہلے نواب احمدبخش کوسندخوشنودی لکھ کردی جس پرلارڈ لیک نے فیروزپورجھرکہ اور اس کے نواح کے کچھ علاقے اعزازی جاگیرکے طورپرانہیں دیے اور فخرالدولہ اور دارا دلاور نواب احمدبخش خان بہادر رستم جنگ کے خطاب سے سرفرازاکیا۔ مہاراجہ بختاورسنگھ نے بھی ان کی بہادری اور دلیری کے اعتراف کے طورپران کوپرگنہ لوہارو کی جاگیرعطاکی اس طرح وہ بیک وقت فیروزپورجھرکہ اور لوہاروکے رئیس بن گئے۔مہاراجہ بختاورسنگھ 1815ء کوانتقال کر گیا۔ اس کے انتقال پربنے سنگھ اور بلونت سنگھ نے مسندنشینی کادعویٰ کیا۔نواب احمدبخش خان نے بلونت سنگھ کی حمایت کی۔ریذیڈنٹ نے بنے سنگھ کوجائزحقدار قرار دیا اورصدردفترکورپورٹ ارسال کی۔جس پرنواب احمدبخش خان نے گورنرجنرل سے ایک تحریرکے ذریعہ ریذیڈنٹ کی شکایت کی جس پراس کوکہاگیا کہ وہ نواب احمدبخش خان کی مرضی کے مطابق کام کرے۔جس کے نتیجہ میں وہ احمدبخش کادشمن ہوگیا۔اور بنے سنگھ کے ساتھ مل کراس کی جان کے درپے ہوگیا۔اور ایک بار سوتے میں اس پرقاتلانہ حملہ بھی کروایا۔ [نواب احمدبخش کے بھائی الٰہی بخش تھے جن کی بیٹی امراؤبیگم سے مرزاغالب کی شادی ہوئی تھی۔الٰہی بخش گوشہ نشینی اختیارکرتے ہوئے اپنے بھائی کے حق میں دستبردارہوکردہلی آن بسے۔ ]نواب احمدبخش کی دوبیویاں تھیں۔ ایک کانام مدی بیگم تھا۔ جس کے بطن سے دوبیٹے نواب شمس الدین خان اور ابراہیم علی خان اور دوبیٹیاں نواب بیگم اور جہانگیرہ بیگم پیداہوئیں۔کچھ دنوں بعد ایک برلاس مغل نیازمحمدبیگ خان کی صاحبزادی بیگم جان سے نکاح کیااوراس دوسری بیوی سے نواب امین الدین احمد خان اور نواب ضیاء الدین احمدخان اوردولڑکیاں ماہ رخ بیگم اور بادشاہ بیگم پیداہوئیں۔نواب احمدبخش نے اپنی زندگی میں ہی سرکارانگریزی کی منظوری سے نواب شمس الدین خان کے نام فیروزپورجھرکہ اور نواب امین خان اور ضیاء الدین خان کے نام لوہاروکی جائیدادتقسیم کردی اور ریاست کے انتظامی امورسے دستبردارہوکر گوشہ نشین ہوگئے۔ اور ایک سال بعد 1827ء میں انتقال کیا۔نواب کے انتقال پرنواب شمس الدین خان نے اس تقسیم کے خلاف سرکارمیں اپیل کی کہ بڑے بیٹے ہونے کے ناطے میں ساری ریاست کاحق دارہوں۔ جس پرفرانسس ہاکنس نے اپنی ریذیڈنسی کے زمانہ میں نواب شمس الدین کواس کے بھائیوں کاعلاقہ بھی دلادیا۔ جس پرنواب امین الدین نے 1834ء میں کلکتہ جاکرعدالت عالیہ میں اپیل دائرکی اوراس اپیل کافیصلہ شمس الدین کے خلاف ہوا۔اس کے کچھ دنوں بعد 22؍مارچ 1834ء کوکسی نامعلوم شخص نے دہلی کے ریذیڈنٹ ولیم فریزرکو گولی مارکرہلاک کردیا۔[ولیم فریزرنواب امین الدین خان کے حق میں تھا۔]اوربعض مؤرخین کے مطابق جھوٹے سچے گواہ بناکرالزام نواب شمس الدین خان پرلگایاگیا جس پرانہیں پھانسی کی سزادی گئی۔ اردوکے مشہورشاعرداغ انہی کے بیٹے تھے۔نواب شمس الدین کی وفات کے بعد ان کی بیوی سے بہادرشاہ ظفرنے نکاح کرلیاتھا۔

مرزا غالب نواب امین الدین خان اور ضیاء الدین خان سے بےانتہاخلوص رکھتے تھے اورمقدوربھران دونوں بھائیوں کی مددکی۔جواباً نواب امین الدین نے بھی غالب کی مشکل وقتوں میں مددکی۔ آخری عمرمیں نواب امین الدین خلل دماغ کے عارضہ سے بیماررہنے لگے۔ اس بنا پران کے بیٹے نواب علاؤالدین خان علائی کو مسندنشین کردیاگیا۔

نواب آف لوہاروکی کوٹھی جوکہ محل سراکے نام سے معروف تھی بلیماراں میں کوچہ قاسم جان دہلی میں واقع تھی۔آج کل اس گلی کانام کوٹھی نواب لوہارو لین ہے۔امین الدین خان کے بعد اس کابیٹا علاؤالدین احمدخان 1869ء میں سربراہ بنا۔اورپھراس کابیٹا امیرالدین خان جوکہ اس کی زندگی میں ہی ریاست کاسربراہ بنا۔نواب صاحب مرزا اسد اللہ خان غالب صاحب کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ماں کے اثر اور غالب کی تربیت سے تشیع کی طرف میلان تھا۔ جیسا کہ غالب کے خطوط سے واضح ہوتا ہے۔عربی، فارسی، ترکی میں مہارت پیدا کی۔ اردو و فارسی میں خوب شعر کہتے تھے۔ مطالعہ کا شوق تھا۔ لوہارو میں فخر المطابع اور ’’امیر الاخبار‘‘نامی اخبار کا سلسلہ بھی قائم کیا تھا۔ نواب امین الدین خان نے عقد ثانی کے بعد کچھ عرصے کے لیے پہلی زوجہ سے تعلقات کم کر دیے تھے اور علائی اپنی والدہ کے ساتھ دہلی آ گئے تھے۔ لیکن 36 برس کی عمر میں نواب امین الدین خان نے گدی نشین کر دیا تھا۔ آخری عمر میں علائی نے انگریزوں کی خواہش سے ریاست اپنے فرزند امیر الدین خان کے حوالہ کر دی تھی۔ یہاں تک کہ 31؍اکتوبر 1884ء کو رحلت کی۔ 1891ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو دلی کا سفر کیا۔حضرت صاحبؑ نواب لوہارو کی کوٹھی کے اوپر جو مکان تھا اس میں ٹھہرے تھے۔(ماخوذ از غالب کی خاندانی پنشن اور دیگرامورصفحہ299،290،282)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button