’’جن کے ہونٹوں پہ ہنسی،پاؤں میں چھالے ہوں گے‘‘
جب حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ کا براہِ راست خطبہ جمعہ نشر ہوا اور حضور نے جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کے اعلان کے ساتھ خطبہ شروع کیا تو احساس ہوا کہ حضور تو ہمارے ساتھ ہی ہیں
جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کے موقع پراس مصرعے کا صحیح طرح سے ادراک ہوا۔اب جب خاکسار بظاہر بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہے۔اچانک بس ڈرائیور نے اعلان کر دیا کہ ہماری بس ہجوم کی بے بسی میں گھر گئی ہے جن کے قدموں میں تاب ہے وہ جلسہ سالانہ کے پنڈال کی طرف تقریباً چار کلومیٹر کا سفر بخوشی پیدل طے کر سکتے ہیں کیونکہ کاروں اور بسوں کی لمبی لائنیں یو ں لگتا تھا کہ چیونٹی کی چال چل رہی تھیں۔ لہذا عاشقانہ عقلمندی تقاضا کر رہی تھی کہ اے عشاقِ احمدیت! ہمت کرو، بھاگ پڑو اور پنڈال میں جا کر باجماعت نماز جمعہ کی ادائیگی کر نے کی سعادت حاصل کر لو! اس خیال کے آتے ہی خاکسار نے اپنے بچوں اور کم سن بھتیجے بھتیجیوں کو ساتھ لیا اور گویا سڑک پر کود پڑے۔ پھر کیا حال تھا آسمان پر چلچلاتا سورج جو شاید (Mendig(Germany کے باسیوں کے لیے عام بات تھی لیکن ہم جو لوگ شمالی جرمنی کے رہائشی ہیں ہمیں کچھ زیادہ ہی ستا رہا تھا۔ پانی کی بوتلیں بھی جواب دے گئیں۔چل چل کر پاؤں میں باقاعدہ آبلے پڑ گئے۔ قصہ مختصر ایک طرف پیاس، دوسری طرف دھوپ، تیسری طرف پاؤں میں پڑے چھالوں کے تالے اور چوتھی طرف حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی دعائیں جو آپ علیہ السلام نے شاملینِ جلسہ کے لیے کی تھیں ان کا مصداق بننے کااشتیاق۔ گویا میں چومکھی جنگ لڑ رہی تھی، اپنے درد سے بھرے گھٹنوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلتے ہوئے خود کو حوصلہ دے رہی تھی۔ ہم وغم دُور کروانے کے لیے اور ساری مرادیں پوری کروانے کی خواہش میرا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور بھلا کیوں نہ ہوتی ایسی خواہش جبکہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے شاملین جلسہ کو ایسی بہت پیاری دعاؤں سے نوازا۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے شاملین جلسہ کےحق میں خود یہ دعا فرمائی ہے کہ’’ہر یک صاحب جو ا س للّہی جلسے کے لیے سفر اختیار کریں۔ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرعظیم بخشے اور ان پررحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دُور فرمائے۔ اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے۔اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے اور روزِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پراس کا فضل ورحم ہےاورتااختتام سفر ان کے بعد ان کاخلیفہ ہو۔‘‘(اشتہار ۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۳۴۲)
اس دعا کا لفظ لفظ میرا حوصلہ بڑھا رہا تھا اور صرف میرا ہی نہیں جلسہ گا ہ میں کئی زخمی پاؤں اور خون رستی ایڑیوں کو دیکھ کر مصطفیٰ زیدی کا کا یہ شعردل و دماغ میں گردش کرنے لگا :
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اسی پر بس نہیں، جب ہم ہانپتے کانپتے جلسہ گا ہ میں پہنچے تو کھانے کی مارکی (خیمہ) کی طرف صرف اس غرض سے لپکے کہ پانی پئیں لیکن معلوم ہوا کہ پینے والے پانی کے ٹرک بھی اس ٹریفک کے ہجوم میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔ غرض یہ کہ افتاںوخیزاں زنانہ جلسہ گاہ کے پنڈال میں پہنچے اور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ کا براہِ راست خطبہ جمعہ نشر ہوا اور حضور نے جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کے اعلان کے ساتھ خطبہ شروع کیا تو احساس ہوا کہ حضور تو ہمارے ساتھ ہی ہیں اور پھر جان سے پیارے آقا ایّدہ اللہ تعالیٰ نے بہت پیاری نصائح سے نوازا۔ ایک طرف کارکنان کو اور دوسری طرف شاملین کو بہت پیاری نصائح فرمائیں کہ نئی جگہ پر کھلی فضاؤں میں جلسہ سالانہ منعقد کرنا نیا تجربہ ہے۔ ایسے لگا جیسے کسی نے رِستے زخموں پر مرہم رکھ دی ہے۔ اور پھر خیال کہ اگر ہم منہ سے لاکھ اظہار کرتے پھریں کہ ہم اپنے مال، جان، وقت اور اولاد قربان کرنے لیے ہر وقت تیار ہیں ذرا سی مشکل آئےتو آسمان سر پر اٹھا لیں یہ رویّے مومن کے کسی طرح بھی شایان شان نہیں اور الٰہی جماعتوں کا وطیرہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب یہ مہاجر عورتیں تیرے پاس حاضر ہوتی ہیں اور کہتی ہیں ہم ایمان لے آئی ہیں تو انہیں آزما لیا کر۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ (الممتحنہ:۱۱) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں مہاجر ہونے کی حالت میں آئیں تو اُن کا امتحان لے لیا کرو۔ اللہ ان کے ایمان کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔
معزز قارئین! پھر کیا تھا، جیسے جیسے ان خیالات نے دل و دماغ میں ڈیرا ڈالا صحنِ دل روشن تر ہی ہوتا چلا گیا۔ گویا ہم احمدیوں نے ایسی صعوبتوں کو بھون کے کھا لیا۔لیکن ہمارے مولیٰ، ہمارے رب نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے: فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا۔ (انشراح: ۶) پس یقیناً تنگی کے ساتھ آسائش ہے۔
دوسرا دن جلسے کا ایسا تھا کہ ٹریفک جام کا نام ونشان نہیں تھا اور پانی عام تھا۔ بہت ہی پیارا روحانی ماحول اور تروتازہ کھلی ہوا ہمیں جسم سے روح تک تازگی بخش رہی تھی۔ الحمدللہ ثم الحمد للہ۔ اسی طرح تیسرا دن بھی پوری آب وتاب کے ساتھ گزرا، روحانی اور مادی مائدے سے خوب سیر ہوکر سارے عشاق احمدیت خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اوراَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ کے راگ الاپتے ہوئے خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات لیے گھروں کو چل دیے۔اس دعا کے ساتھ کہ اگلے سال ان شاء اللہ پھر ملیں گے اور اس اُمید کے ساتھ کے ہمارے روحانی باپ ہمارے پیارے آقا ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، ان شاءاللہ ہمارے ساتھ ہوں گے اور ہم عشاق احمدیت ان کے آس پاس ہوں گےان شاءاللہ۔
(غزالہ بھٹی۔کیل جرمنی)