دادی جان کا آنگن

رسول اللہ ﷺ: مبلغِ اعظم

السلام علیکم دادی جان !صبح کے ناشتے پر بچوں نے دادی جان کو سلام کیا۔

وعلیکم السلام میرے پیارے بچو! کیا حال ہیں آپ کے؟ آج آپ کا اجتماع ہے؟

احمد : جی دادی جان۔ میرا مقابلہ بھی ہےفی البدیہہ تقریر کا۔ دعا کریں کہ عنوان آسان مل جائے۔

دادی جان: اللہ آپ کو کامیاب کرے۔ اچھا چلیں یہ بتائیں کہ اس بار کے اجتماع کاتھیم یا موضوع کیا ہے؟

احمد : آنحضرت ﷺ بطور مبلغ اعظم

دادی جان: یہ تو بہت ہی عمدہ عنوان ہے چلیں میں آپ کو اس بارہ میںچند واقعات بتا دیتی ہوں اگر فی البدیہہ تقریر اس موضوع پر ہوئی تو آپ اس میں سے کوئی واقعہ بیان کرسکتے ہیں۔

محمود: کیا مبلغ مربی کو کہتے ہیں؟

دادی جان : بیٹا مربی کا مطلب ہے تربیت کرنے والا اورمبلغ کہتے ہیں تبلیغ کرنے والے کو اور پیغام پہنچانے والے کو۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے ہی عام لوگوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیںجو اللہ تعالیٰ انہیں وحی یا الہام کی صورت میں دیتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آپ ﷺ کو وحی کی اور بتایا کہ آپؐ لوگوں کے راہنما نبی اور نجات دہندہ ہیں تو آپ ﷺ پر کپکپی طاری ہوگئی تھی کیونکہ آپ ﷺ تو بہت خاموش طبع،گوشہ نشین اور شرمیلے انسان تھے اور نبوت بہت بھاری ذمہ داری ہے جو صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اسے دوسروں تک پہنچانا اور پھیلانا ایک نبی کے اولین فرائض میں شامل ہے۔

محمود : تو پھر نبی کریم ﷺ نے یہ کام کیسے سر انجام دیا؟

دادی جان : ہاں بھئی محمود میاں آپ کا سوال تو بہت اچھا ہے اور تھوڑے سے وقت میں اسے بیان کرنا ناممکن سی بات ہے۔ آپ نے ابھی اجتماع کے لیے بھی نکلنا ہے۔ کیونکہ اس میں آپ ﷺ کی پوری حیات طیبہ آجاتی ہے مگر میں آپ کو چند ایک واقعات بتاتی ہوں۔

یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ آغاز اسلام میں آپؐ کو جب تک خدا تعالیٰ کی جانب سے حکم نہیں ہوا۔ آپؐ چند لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچاتے تھے مثلاً اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو ہدایت کی جانب بلاتے۔ آپ ؐنے تبلیغ کی خاطر اپنے آرام کو قربان کیا۔ اپنے وقت کی قربانی دی اور تبلیغ کے مواقع تلاش کرکے اس فریضہ کو ادا کیا۔ آپؐ حج کے موقع پر آنے والے وفود کے پاس چلچلاتی دھوپ میں جایا کرتے تھے۔ ایک ایک خیمہ کے پاس جاکر خدا کا پیغام پہنچاتے۔ کوئی سنتا کوئی نہ سنتا۔ بعض بُرا بھلا کہنے والے بھی تھے لیکن آپؐ نے دن رات اس تبلیغ کو جاری رکھا۔ مسلسل کوشش کا پھل بھی خدا نے آپؐ کو عطا فرمایا۔ بیعت عقبیٰ اولیٰ اور عقبیٰ ثانیہ اسی تبلیغ کے ثمرات تھے۔ شروع میں جب اس طرح تبلیغ کرتے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر گیا اور مومنین کی ایک چھوٹی سی جماعت بھی قائم ہوگئی جسے بہت سی تکالیف اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر آپؐ اور آپؐ کے ساتھی بڑی استقامت سے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کر رہے تھے۔ دعویٰ نبوت کے چوتھے سال اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ۔(سورۃ الحِجر:95) یعنی پس خوب کھول کر بیان کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ مکہ کی ایک پہاڑی پر چڑھ گئے۔ کیا نام ہے بھلا اس پہاڑ کا؟

گڑیا: مکہ میں دوپہاڑیاں ہیں صفا اور مروہ۔ جن پر حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں چڑھی تھیں۔

دادی جان: شاباش۔ آپﷺ نے صفا پر چڑھ کر بلند آواز سے پُکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بُلایا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اے قریش! اگر میں تم کو یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے تو کیا تم میری بات کو مانو گے؟ سب نے کہا کہ ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے آپؐ کو ہمیشہ قول کا سچا پایا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ تو پھر سنو! مَیں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے خُدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ۔ جب قریش نے یہ الفاظ سُنے تو ہنس پڑے ۔ آپؐ کے چچا ابولہب نے آپؐ سے کہا: محمدؐ تُو ہلاک ہو۔کیا اس لیے تُو نے ہم کو جمع کیا تھا؟پھر سب لوگ ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلے گئے۔

محمود : پھر کیا ہوا ؟

دادی جان : جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اس کو پورا کرنے کے لیے حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں کو پہنچانے لگے۔اس کے بعد کثرت سے مر د اور عورتیں اسلام میں داخل ہوئے۔ اور تمام شہر مکہ میں اسلام کا ذکر پھیلااور ہرجگہ اس کا ذکر ہونے لگا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا تو شروع میں تومشرک آپؐ کو کچھ نہ کہتے جب آپ ؐ نے اُن کے بتوں کو جن کو انہوں نے خدا بنا رکھا تھا بُرا کہنا شروع کیا تو قریش حضورؐ کی دشمنی پر اکٹھے ہوگئے۔حضرت محمد ﷺ کو قریش قسمہا قسم کی تکالیف دیتے مثلاً راستے میں کانٹے بچھاتے، دروازے پر گندگی پھیلاتے، پتھر مارتے تاکہ آپؐ تبلیغ سے باز آجائیں۔

جب مکہ کے گلی کوچوں میں اسلام پھیلنے لگا اور جب مومنین کی یہ چھوٹی سی جماعت بڑھنے لگی تو قریش جو اب تک خاموش تھے انہیں فکرہوئی اور انہوں نے آپؐ کو کئی قسم کے لالچ دینے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام اور نامراد ہوئے آخر قریش کا ایک گروپ حضرت ابو طالب کے پاس آیا اورکہا: اے ابوطالب!یا تو تم اپنے بھتیجے کومنع کرو کہ وہ ہمارے بُتوں کو بُرا نہ کہے اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ بتائے ورنہ ہم کو اجازت دو کہ ہم خود اس کو سمجھا دیں اور دھمکی بھی دی۔ ان کے جانے کے بعد حضرت ابو طالب نے حضور ﷺ سے کہا بیٹا میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ میں اس کو اٹھا نہ سکوں۔ حضورﷺ نے اپنے چچا کے الفاظ سن کر پر جوش انداز میں فرمایا: اے میرے چچا اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ پر چاند تو بھی میں اسلام کی تبلیغ سے رک نہیں سکتا۔ خدا کی قسم میں اس وقت تک اس کام سے نہیں رکوں گا جب تک کامیاب نہ ہوجاؤں یا مارا نہ جاؤں۔ پھر حضرت ابو طالب نے کہا کہ دیکھو جو تمہارا جی چاہے کہو مَیں ہرگز تم کو اکیلا نہ چھوڑوں گا اور سب سے سمجھ لوں گا۔

محمود جو غور سے سارا واقعہ سن رہا تھا بولا: دادی جان پھر کیا وہ تکلیف دینے سے رک گئے تھے ؟

دادی جان: نہیں بچو! ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کو تبلیغ کے دوران تکالیف کا سامنا تو رہا مگر آپؐ نے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ایک دن حضور ﷺ خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور قریش ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ تم اس شخص کو دیکھ رہے ہو؟ پھر اس نے اَوروں سے کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا ہے جو فلاں قبیلہ سے ذبح کردہ اونٹ کی اوجھڑی اُٹھا لائے۔پھر جب حضور ﷺ سجدے میں جائیں تو وہ ان کے کندھوں پر رکھ دے۔ اس پر ایک بُرا انسان عقبہ بن ابی معیط اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اونٹ کی اوجھڑی لا کر حضور ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ حضور ﷺ اس حال میں رہے اور سر مبارک سجدے سے نہ اُٹھایا۔ا ور وہ سب کھڑے ہنستے رہے۔ پھرحضرت فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے اپنے ننھے ہاتھوں سے حضورﷺ کے کندھے سے اس گند کو اُٹھا کر پھینکا۔

دادی جان: ایک بار رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عائشہؓ تمہاری قوم سے مجھے بہت ہی زیادہ تکلیف پہنچی ہے لیکن عقبہ والے دن تو بہت ہی زیادہ تکلیف اُٹھائی جبکہ پیغامِ حق پہنچانے کے لیے میں طائف میں عبد یا لیل (کنانہ) کے پاس گیا (کہ وہ یہاں کے لوگوں کو تشدّد سے باز رکھے اور تبلیغ حق کے سلسلہ میں میری مدد کرے) اور اس نے میری کوئی مدد نہ کی اور لوگوں کا تشدّد اس قدر بڑھا کہ میں شدّتِ غم اور تھکاوٹ کی وجہ سے یہ بھی نہ جان سکا کہ میں کس طرف جا رہا ہوں؟ یہاں تک کہ قرنِ ثعالب(ایک پہاڑی چٹان) کی اوٹ میں کچھ سستانے کے لیے بیٹھ گیاوہاں پر جب میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل سایہ کیے ہوئے ہے اور اس میں جبرائیلؑ ہے۔ جبرائیل ؑنے کہا کہ اللہ نے وہ تمام باتیں سُن لی ہیں جو تیری قوم نے تجھے کہی ہیں اور جو تکالیف تجھے پہنچائی ہیں۔ میرے ساتھ اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ جو بھی تم اس قوم کے بارہ میں فیصلہ کرو وہ اس کو بجا لاوے۔ پھر پہاڑ کے فرشتے نے بھی مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمدؐ! میں مَلَکُ الْجِبَال یعنی پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اللہ نے تمہاری قوم کی باتیں جو آپؐ کو کہی ہیں اور وہ تکالیف جو تجھے پہنچائی ہیں سُن لی ہیں اور مجھے آپؐ مدد کے لیے بھیجا ہے۔ آپ مجھے جو بھی حکم دیں گے وہ مَیں بجا لائوں گا۔ اگر آپؐ کہیں کہ ان دو پہاڑوں کو (جن کے درمیان طائف کا شہر آباد ہے) آپس میں ملادوں اور اس کے درمیان رہنے والوں کو پیس دوں تو میں ایسا کروں گا۔ اس پر رسول اللہ ؐ نے پہاڑوں کے فرشتے کو کہا کہ مجھے امید ہے کہ ان لوگوں کی نسل سے شرک سے بچنے والے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے والے افراد پیدا ہوں گے اس لیے میں ان لوگوں کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

احمد: پھر رسول اللہﷺ نے کس طرح تبلیغ کی؟

دادی جان: تبلیغ ِاسلام کے لیے ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ نے ہر طریقہ استعمال فرمایا۔ زبانی بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور تحریری بھی۔زمانہ کے حکمرانوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔ اپنے وطن میں بھی اور باہر بھی۔ تبلیغ کی خاطر قربانی پر قربانی دیتے چلے گئے۔ اپنے عزیز و اقارب کے دکھ دیکھے۔ ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے دیکھا۔ خود دکھ اٹھائے حتیٰ کہ وہ وقت بھی آیا کہ اپنی محبوب ترین بستی کو بڑے بوجھل دل کے ساتھ الوداع کہا اور یہ قربانی بھی محض تبلیغ اسلام کی خاطر دی۔

گڑیا: کیا رسول اللہ ﷺ کو یقین تھا کہ آپﷺ نے اپنا پیغام پہنچا دیا تھا؟

دادی جان: خوب سوال کیا ہے آپ نے۔ جب حجۃ الوداع کا موقع آیا اور آپؐ کے سامنے مخلصین کا ہجوم تھا۔ اس موقع پر آپ ﷺ کو احساس ذمہ داری اس قدر شدید تھا کہ اس موقع پر آپؐ نے اپنے جاں نثار خدام کو ایک بار پھر اسلام کے پیغام کی تفصیلات سے آگاہ فرمایا۔ اور پھر ان سے پوچھا کہ ھَلْ بَلَّغْتُ؟ کہ کیا میں نے وہ پیغام تمہیں پہنچا دیا جو مجھے دیا گیا تھا؟ صحابہؓ نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ ہماری جان آپؐ پر قربان! ہمارے آقاؐ! آپؐ نے خوب پہنچا دیا۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ میں اس وادی کو، اس کے صحراؤں اور پہاڑوں کو اس شہادت پر گواہ بناتا ہوں۔ اے اللہ!تو گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا اور اس امانت کا حق ادا کردیا۔

یہ ہے ہمارے آقا محمد مصطفیٰ ﷺ کا شاندار جذبۂ تبلیغ اور یہ ہے وہ اسوۂ نبویؐ جو آج بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بلا رہا ہے۔ تبلیغ صرف مربیان اور مبلغین کا کام نہیں بلکہ تبلیغ ہر احمدی مسلمان کی ذمہ داری ہے اور حضور انور ایدہ اللہ نے کئی بار اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ ہر احمدی ہی مبلغ ہے۔

محمود: جی ہاں ناظم صاحب اطفال نے بتایا تھا کہ حضور انور ایدہ اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ جب ہم جلسے پر پانی پلاتے ہیں تو ہم بھی خاموش تبلیغ کرتے ہیں۔

دادی جان: جی ہاں ابھی آپ اپنےنمونہ سے خاموش تبلیغ کریں اور بڑے ہوکر اللہ تعالیٰ زبان اور قلم سے تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے گا۔

احمد اپنی ٹوپی اور سکارف اٹھاتے ہوئے بولا:چلیں محمود ابو جان کہہ رہے ہیں کہ اجتماع پر جانے کا وقت ہوگیا ہے۔

(درثمین آصف۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button