یادِ رفتگاں

والدِ محترم ناصر احمد سعید صاحب کا ذکرِ خیر

تعارف

خاکسار کے والد محترم کا نام ناصر احمد سعید ہے۔ آپ کی پیدائش ستمبر1953ء میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا نام چودھری عبدالحمید ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد تقسیم ہند سے قبل خاص قادیان کے رہنے والے تھے۔ ہمارے آباؤ  اجداد مسلمان تھے، مگر ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق نہ مل سکی۔

جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی اور جسمِ اطہر قادیان لایا گیا تو میرے پڑدادا مکرم میاں علم دین صاحب اس وقت دس سال کے تھے۔ جب ان کو اطلاع ملی کہ حضور کا جسمِ اطہر قادیان لے کر آگئے ہیں تو وہ دوڑ کر گئے اور حضور اقدسؑ کا دیدار کیا۔

دادا جان کی چھوٹی عمر میں وفات

خاکسار کےدادا جان مکرم چودھری عبدالحمید صاحب کویت سے واپس گھر آتے ہوئے شاہ کوٹ کے قریب ایک حادثہ میں وفات پاگئے تھے۔اس وقت خاکسار کے والد محترم کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی۔ گھر کے اکیلے متکفل تھے۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور گھر کی دیگر تمام ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر آن پڑیں۔ یہ تمام ذمہ داریاں میرے والد محترم نے بخوبی نبھائیں۔ سب بہن بھائیوں کو پالا،ان کو تعلیم دلوائی اور ان کی شادیاں کرکے ان کو اپنے اپنے گھروں میں سیٹ کیا۔ غرض والد صاحب نے انتھک محنت کرکے اپنے بہن بھائیوں کے سروں پر سائباں مہیّا کیا اور ان کو والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔

قبولِ احمدیت

والد محترم بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے 1974ء کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا۔ جب احمدیوں کے اموال لوٹے جاتے تھے اوران کی املاک کو آگ لگائی جاتی تھی تو میرے دل میں یہ سوال اٹھا کرتا تھا کہ یہ کون سا اسلام ہے؟ نبی اکرمﷺ کے اسلام میں تو کسی کے ساتھ ایسے طریق سے پیش آنے کی اجازت نہیں تو یہ لوگ کس اسلام پر عمل کر رہے ہیں؟ والد محترم کہتے کہ میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں؟ کیوں سارا ملک ہی ان کے خلاف ہوگیا ہے؟ کہتے ہیں اسی کشمکش میں رہتا تھا۔ اس دوران میں لاہور اپنی پھوپھی کے پاس چلا گیا، وہاں ان کا کپڑے کا کاروبار تھا۔ میں وہاں نوکری کرنے لگا۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن نمازِ جمعہ پڑھنے قریبی مسجد میں چلا گیا۔ وہاں جو شخص جمعہ پڑھا رہا تھا اس نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے متعلق اور جماعت کے خلاف انتہائی گھٹیا، نازیبا اور گندی زبان استعمال کی۔ والد محترم کہنے لگے میں دوران جمعہ اٹھ کر وہاں سے آگیا۔ میں نے وہاں جمعہ کی نماز ادا نہ کی۔ میرے دل نے یہ گوارہ نہ کیا کہ مسجد میں اس قسم کی لغو گوئی سن سکوں۔ کہتے وہاں شور مچ گیا کہ ناصر مرزائی ہوگیا ہے۔ لوگوں نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ والد محترم بتاتے تھے کہ پھر میں 1975ء کے آغاز میں احمدی ہوگیا۔

مال و دولت اور شادی کی آفر

والد محترم بتاتے تھے کہ جب وہ احمدی ہوئے تو جس پھوپھی کے پاس وہ لاہور رہا کرتے تھے، اس پھوپھی نے ابوجان کو کہا کہ ناصر تم احمدیت چھوڑ دو میں تمہیں کاروبار کروا دوں گی اور اپنی بیٹی کی شادی بھی کردوں گی۔ مگر ابوجان نےکہا پھوپھو یہ نہیں ہوسکتا۔

ایک نشان

والد محترم بتایا کرتے تھے کہ ان کے تایا نے ان کو کہا کہ اگر تم احمدیت چھوڑ دو تو میں تمہیں ایک بہت اچھی نوکری پر لگوا دیتا ہوں۔ (خاکسار کو اب اس کی تنخواہ معین یاد نہیں مگر اس زمانہ کے لحاظ سے وہ رقم بہت معقول تھی)۔ مگر والد محترم نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ ابوجان کہتے کہ میں نے وہ نوکری نہیں کی۔وقت گزرتا گیا اور ہمارے حالات اللہ کے فضل سے بہت اچھے ہوگئے۔ تو ایک دفعہ اسی تایا نے ابو جان سے کہا کہ ناصر میرا بیٹا آوارہ پھرتا رہتا ہے اس کو کسی کام پر ہی لگوا دو تو والد محترم نے ان کے بیٹے کو ایک جگہ 1500؍روپے کی نوکری پر لگوا دیا۔یہ احمدی ہونے کا ایک نشان تھا کہ تایا نے مجھے کام کہنا گواری کیا۔

جماعتی خدمات

والد محترم نے جب سے بیعت کی اسی وقت سے ہی خلافت سے اور مرکز سے بہت مضبوط رابطہ قائم تھا۔ اپنے گاؤں 57 ج ب بڑا گھیالہ سے سائیکل پر ربوہ آیا کرتے تھے۔ الفضل اخبار شروع سے ہی لگوایا ہوا تھا۔

خدام الاحمدیہ کے زمانے سے ہی ضلعی عاملہ فیصل آباد میں خدمت کا موقع ملا۔ والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ سردی کے دنوں میں بھی صبح کام پر جانے سے پہلے 27 چک، 30 چک، 33 چک وغیرہ کے دورے پر چلے جاتے تھے۔ اور جو بھی جماعتی کام ان کے ذمہ ہوتا وہ سر انجام دے کر واپس آتے۔ صبح صبح جانے کی وجہ سے بعض دفعہ بعض لوگ ناراض بھی ہو جایا کرتے تھے، مگر آپ نے کبھی برا نہیں منایا اور اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔

حلقہ ناظم آباد میں بطور صدر چھ سال خدمت کی توفیق پائی۔ اور حتی الوسع لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ذاتی کوشش کرکے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

تقریباً چودہ سال کا عرصہ مختلف ادوار میں زعیم انصار اللہ مجلس دارالفضل خدمت کی توفیق پائی۔ ان کے دور میں مجلس دارالفضل آل پاکستان میں پوزیشن بھی حاصل کرتی رہی۔ بہت تن دہی اور لگن اور محنت سے جماعتی کام کرتے تھے۔ اپنی آخری بیماری کے دوران اپنے تمام انصار بھائیوں کو گھر بلا کر پروگرام کرواتے رہے۔

محترم والد صاحب کو جماعتی کام کے دوران کسی قسم کا شوق نہیں تھا کہ لوگ ان کی تعریف کریں یا آپ نمایاں ہوں۔ نہایت خاموشی اور عاجزی سے خدمت سرانجام دیتے چلے جاتے تھے۔

تبلیغ کا شوق

والدِ محترم کو تبلیغ کا خاص جوش تھا۔ اور جب سے آپ نے بیعت کی، تب سے آپ مسلسل تبلیغ کرتے رہے اور آخری وقت تک تبلیغ کو جاری رکھا۔ آپ نے عیسائیوں کو بھی پیغامِ حق پہنچایا، اور اس وجہ سے آپ کو عیسائیوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اسی تبلیغ کے شوق کی وجہ سے خاکسار کو بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ آج فلاں موضوع پر تیاری کرکے آنا ہم نے تبلیغ کے لیے کسی سے ملنے جانا ہے۔

والدِ محترم کی تبلیغ اور کوشش سے ہی خاکسار کی دادی جان کو بھی اپنی آخری عمر میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی،فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

خلافت سے عشق و وفا کا تعلق

والد محترم نے اللہ کے فضل سے تین خلفاء کا زمانہ پایا۔ اور تینوں خلفاء سے ملاقات کا شرف بھی پایا۔ خلافت پر اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار تھے۔ خلافت کی طرف سے جو بھی تحریک آتی، دل و جان سے اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔

والد محترم بتایا کرتے تھے کہ 2005ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرفِ ملاقات نصیب ہوا۔ اس ملاقات کے دوران حضرت صاحب نے والدِ محترم سے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں، تو والد محترم نے بتایا کہ میں فیصل آباد سے ہوں، تو حضرت صاحب نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’اچھا اللہ فضل فرمائے‘‘۔

جمعہ والے دن جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ بھیجتے تو بڑی محبت اور جوش کے ساتھ بلند آواز میں وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ کہتے اور اس میں ایک خاص عقیدت اور احترام نظر آتا تھا۔ اگر کوئی بچہ اس وقت شور کرتا تو ناراض ہونے کے ساتھ اسے منع کرتے اور کہتے کہ خلیفہ وقت Live موجود ہیں، حضور کی موجودگی میں مکمل خاموشی ہونی چاہیے۔

خوبیاں

والد محترم نمازِ تہجد بہت باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے اور نمازوں کی بہت پابندی کرتے تھے اور اول وقت میں نماز پڑھنے کے عادی تھے۔ خاص طور پر مغرب اور عشاء کی نماز ہمارے گھر میں شروع سے باجماعت ہوتی ہیں۔ اذان سے قبل ہی وضو کرکے کھڑے ہو جاتے تھے اور سب کو کہتے کہ جلدی وضوکرلو اور جیسے ہی اذان شروع ہوتی نماز پڑھاتے تھے۔

شوگر ہونے سے قبل بڑی پابندی سے ہر سال رمضان کے روزے رکھا کرتے تھے اور روزہ رکھ کر دیگر جماعتی کاموں میں مصروف رہتے۔

قرآن کریم بڑی باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے۔ خاص طور پر رمضان میں بڑی کوشش کے ساتھ تلاوت کرتے۔ پہلے روزہ والے دن سورۃ البقرہ مکمل کرتے تھے۔ اور پورے رمضان میں تین دور مکمل کرتے تھے۔

بیواؤں کا ماہانہ وظیفہ لگایا ہوا تھا اور بڑی باقاعدگی سے یہ وظیفہ ان کو پہنچاتے رہے۔

قول سدید کے عادی

والد محترم ہر کام میں قول سدید کے عادی تھے۔ چاہے دنیاوی کاروبار ہو یا دینی کام ہو۔ جو وعدہ کسی سے کر لیا اسی کی پابندی کرتے تھے۔

چندہ جات میں باقاعدگی

خاکسار نے والد محترم کو شروع سے دیکھا ہے کہ ہر جمعہ والے دن اپنا حساب کرکے چندہ رکھ لیا کرتے تھے۔ ایک ڈبہ مخصوص کیا ہوا تھا اس میں جماعتی چندہ کی رقم سنبھال کر رکھتے تھے۔

خاکسار کے بڑے بھائی جو صدر حلقہ ناظم آباد خدمت کی توفیق پا رہے ہیں بتاتے ہیں کہ وفات سے دو دن قبل ان کو کہا کہ وقفِ جدید کا سال ختم ہونے والا ہے،حساب مکمل کرلو اور رسیدیں کاٹ کر چندہ جمع کروا دو۔ اور ساتھ تاکیداً کہا کہ اس میں کسی قسم کی سستی نہ ہو۔

والد محترم نے وصیت کے نظام میں باقاعدہ شمولیت 2009ء میں کی۔ مگر جب سے بیعت کی تب سے چندہ عام بھی 10/1 کے حساب سے ہی ادا کیا کرتے تھے۔

نرم دلی اور ہمدردی اور صلہ رحمی

والد محترم بہت نرم دل اور ہمدرد انسان تھے۔ آپ چونکہ گھر میں اکیلے احمدی تھے اس لیے ان کو اکثر اپنے رشتہ داروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مگر اس مخالفت کے باوجود آپ ان کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرتے اور ان کو ہر موقع پر معاف کرتے اور سب کو جوڑتے تھے۔

غیرت دینی

نرم دل، ہمدرد اور صلہ رحمی کی کمال صفات کے ساتھ ساتھ غیرتِ دینی بھی انتہا کی رکھتے تھے۔ جب بات جماعت پر آتی تو کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ آپ کی زندگی میں آپ کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ کی وفات ہوئی تو ان کے احمدی نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے ان کی نمازِ جنازہ غیراحمدی امام کے پیچھے نہیں پڑھی۔

اولاد اور اہلِ خانہ کی جماعت کے ساتھ وابستگی

والد محترم نے ہمیشہ سب کو جماعت کے ساتھ جوڑا اور جماعت کی خدمت کی تلقین کی۔ والدہ محترمہ 9؍سال صدر حلقہ اور سیکرٹری ضیافت ضلع رہی ہیں۔ ان کے ہر معاملہ میں ان سے تعاون کیا اور بھرپور ساتھ دیا۔ کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔

خاکسار کے دو بڑے بھائی شروع سے جماعتی کاموں میں آگے آگے رہے ہیں۔ بعض دفعہ راتوں کو بہت دیر سے جماعتی کاموں سے گھر واپس آتے۔ کبھی ان سے نہیں پوچھا کہ دیر سے کیوں آئے ہو۔ بلکہ خوش ہوتے اور دعائیں دیتے۔

اس وقت ایک بھائی صدر حلقہ جبکہ دوسرے بھائی جماعتی طور پر خدمات کی توفیق پا رہے ہیں۔جبکہ خاکسار بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پا رہا ہے۔ خاکسارکے والد صاحب مرحوم خاکسار سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھے اکثر جامعہ میں ملنے آتے تھے۔ میرے لیے کھانے پینے کی چیزیں لاتے تھے۔ اکثر میرے دوستوں کے لیے بھی چیزیں لے کر آتے تھے۔ چھٹیوں میں میرے دوست جب میرے ساتھ گھر آتے تو بہت خوش ہوکر ان سے ملتے۔ ان کی مہمان نوازی کرتے۔ میری غیر موجودگی میں بھی میرا کوئی دوست ان سے ملنے آتا تو بڑی محبت سے اس کا استقبال کرتے۔ ان کی عادت تھی کہ چھوٹا ہو یا بڑا سب سے کھڑے ہوکر ملتے تھے۔

بازار میں ایک سادہ لوح شخص اکثر ان کے پاس آتا اور خاکسار کے حوالے سے کہتا میں اس کا دوست ہوں، میرا حال پوچھتا تو ابوجان اسے ہر دفعہ پیسے دیا کرتے تھے۔

پسماندگان

آپ کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں، پانچ پوتے، چار پوتیاں، تین نواسیاں اور چار نواسے شامل ہیں۔دو پوتے، دو پوتیاں، تین نواسے وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔

وفات کے وقت والد صاحب کی عمر 70 سال تھی اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خاکسار کے والد محترم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کی نیکیاں ان کی اولاد میں بھی جاری رکھے۔(آمین)

(’ن۔احمد‘)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button