الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
میرے والدین محترم میر داؤد احمد صاحب اور محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ امۃالناصر نصرت صاحبہ اپنے محترم والدین کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ والدین ہر بچے کا آئیڈیل ہوتے ہیںلیکن اگر والدین کے گزر جانے کے بعد آپ اپنے ارد گرد ہر طبقے سے ان کی تعریفیں اور ایسی نیکیاں سنیں،جن سے پہلے بےخبر تھے تو بےحد خوشی ہوتی ہے اور سر بےاختیا ر ہو کر خدا کے حضور شکر سے جھک جاتا ہے کہ یا اللہ!تُونے ان بزرگوں کی اولاد میں پیدا کرکے کتنا بڑا احسان کیا ہے۔
ہمارے ابا (محترم میر داؤد احمد صاحب)کی وفات کو تقریباًچالیس سال کا عرصہ گذرگیا ہے پھر بھی ہم بچوں کو کسی نہ کسی سے ملاقات کرتے ہوئےایسے واقعات سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ابا کے لیے شکرگزاری کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً خدمت کے لیے ہر وقت تیار، بغیر مانگے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش وغیرہ۔
ابّا کے تایا حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی بیٹی محترمہ امۃالرفیق صاحبہ نے مجھے یہ بتایا کہ حضرت میر صاحبؓ کو دمہ کی تکلیف تھی اس کی وجہ سے جب سانس میں گھٹن محسوس کرتے تو صحن میں ٹہلتے تھے اور بعض اوقات تھک کر زمین پرہی بیٹھنے لگتے تھے۔ چنانچہ ابا اُن کے پیچھے پیچھے ٹہلتے جاتے اور جہاں کہیں وہ تھک کربیٹھنے لگتے تو ابا اپنا ایک گھٹنازمین پر ٹکا کر، اس کے سہارے اس طرح بیٹھ جاتے کہ دوسری ٹانگ کاگھٹنا کرسی کی طرح بن جاتاجس پر حضرت ڈاکٹر صاحبؓ بیٹھ جاتے اور جتنی دیر تک وہ بیٹھے رہتے ابا بھی اسی پوزیشن میں رہتے ہوئے اُن کو سہارا دیے رہتے۔
اسی طرح مَیں سوچتی ہوں کہ حضرت مصلح موعودؓکی ساری بیٹیوں نے آپؓ سے وفا کی اور آپؓ کی وفات کے بعد بھی اس بات کا خیال رکھا کہ جو بات حضورؓ کو اپنی زندگی میں پسند نہیں تھی وہ آپؓ کے وصال کے بعد بھی نہ کریں۔ امّی بھی حضورؓ کی ایسی ہی ایک بیٹی تھیں۔
امّی کی شخصیت کے دو تین پہلو مجھے بہت متأثر کرتے تھے۔ پہلا یہ کہ جیسے کوئی اللہ سے چمٹ جائے ویسے ہی امی چمٹ گئی تھیں ۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے بہت قریبی عزیزوں کی جدائی دیکھی جب بظاہر یہ جدائی وقت سے پہلے لگتی تھی لیکن کبھی کوئی شکوہ لبوں پر نہیں آیا۔ آپ کو بس اپنے اللہ کے حضور ہی گریہ و زاری کرتے دیکھا۔
دوسرا پہلو خلافت سے گہری وابستگی تھی۔ خلیفۂ وقت کی ہرتحریک پر لبیک کہتی تھیں۔ خدا کے فضل سے ایسا ہوا کبھی نہیں لیکن اگر انہیں کبھی وہم میں بھی خیال آجاتاکہ کہیںخدانخواستہ خلیفہ ٔوقت کسی بات پر ناراض نہ ہوں تو بڑی سخت بےقرار ہوجاتی تھیں۔کسی کَل چین نہیں پڑتا تھا جب تک یہ تسلی نہیں ہوجاتی تھی کہ ایسی کوئی بات نہیں۔
تیسرے امّی کا اعلیٰ ظرف۔مجھے وہ لوگ یاد ہیں جو امی سے نامناسب لہجے میں، نامناسب طریق پر بات کرجاتے تھے۔ مجال ہے جو ماتھے پر شکن تک لاتی ہوں یااگلی ملاقات میں کبھی اشارۃًبھی اس سے ناراضگی کا اظہار کیا ہوبلکہ اسی طرح محبت سے ملتی تھیں جو اُن کا خاصہ تھااور اسی طرح دعاؤں میںشامل رکھتی تھیں جیسے کبھی کچھ ہواہی نہیں۔
………٭………٭………٭………
مکرم ناصر محمود خان شہید لاہور
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۸؍جنوری۲۰۱۴ء میں مکرمہ س۔متعال صاحبہ اپنے بھائی مکرم ناصر محمود خان ’شہیدلاہور‘ کا ذکرخیر کرتی ہیں۔ اپنے بچپن کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں کہ مَیں اپنے بھائی سے پانچ سال چھوٹی ہونے کے باوجود بھائی کی بڑی بہن لگتی تھی۔سارے کام مل جل کر کرتے۔ بچپن میں اگر کسی چھوٹے بہن بھائی کو والدین سے ڈانٹ یا مار پڑنی تو بڑے بھائی نے ہمیں بچانا۔ بہنوں سے اتنا پیار تھا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بس یوں تھاکہ ہم تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ناصر پیار ہی پیار تھا۔
میرا پیارا بھائی انتہائی صاف اور نفیس عادات کا مالک تھا۔ جسمانی صفائی، کمرے کی صفائی، کتابوں کاپیوں کی صفائی، امی کے ساتھ گھر کی صفائی میں بھی مدد کرتا۔ہم بہنوں کی کوکنگ میں اور پینٹنگ میں ہمیشہ مدد کرتا۔ جب بھی ہمیں ضرورت ہوتی تو بہترین مشورے دیتا۔
جب امی Jobکرتی تھیں تو ہم بہن بھائیوں نے پہلے گھر آکر بھائی کے ساتھ آلو کے کباب چاول بنانے، سلاد اور چٹنی وغیرہ بنانی اور پھر امی کے انتظار میں میز پر کھانا رکھ کر بیٹھے رہنا۔ اکثر میز پر سر رکھے رکھے سو جانا ۔ بھائی ہمارے ہوم ورک میں مدد کرتا۔ کوئی ڈایا گرام بنانی ہوتی تو بھائی ہی بنا کر دیتا۔ بلکہ ہماری کاپیوں کتابوں پر کور چڑھانا بھی اس کا ہی کام تھا۔
بھائی میں خدمت دین کا بہت جذبہ تھا۔ قادیان جانے والوں کے لیے بھائی خدام کے ساتھ اور مَیں لجنہ کے ساتھ ڈیوٹی دیتے۔ دسمبر کی صبح سردی میں سٹیشن سے دارالذکر مہمانوں کو پہنچانا اور وہاں سے بارڈر تک ہم مختلف ڈیوٹیاں دیتے۔ جب بھائی قادیان گیا تو صرف ہم تینوں کے لیے ہی نہیں بلکہ حلقہ کی کئی لجنہ و ناصرات کے لیے بھی تحفے لایا۔ عید پر جب ہم دونو ں بہنوں نے اس کے لائے ہوئے قمیص اور دوپٹے پہنے تو اکثر نے بہت پسند کیے اور یہ معلوم ہونے پر کہ بھائی لایا ہےتو یہی کہا جاتا کہ ناصر کی چوائس زبردست ہے۔
بھائی نے اپنے رشتوں کو بہت اچھا نبھایا۔ہم گیارہ سال اپنی پھوپھو اور اُن کے بچوں کے ساتھ ایک گھر میں رہے۔ بھائی نے ہی ہم کو اچھی عادات کاعادی بنایا کہ کسی کی بات اس کی غیرموجودگی میں نہیں کرنی۔ بڑوں کا ادب کرنا ہے۔ نماز اور قرآن کی پابندی کرنی ہے ۔ بھائی نے دادا، دادی کی بہت خدمت کی۔ بھائی ان کی ٹانگوں کی بلا ناغہ مالش کیا کرتا۔ وقت بےوقت چائے بنا کر دیتا۔ آخری خدمات بھی بھائی نے اپنا فرض سمجھ کر ادا کیں۔ دادا جان کو آخری غسل دیا۔ دادی جان کے لیے قبرکی تیاری اور غسل کا انتظام وغیرہ کیا۔
شادی کے بعد میرا پیارا بھائی میرا بہت خیال رکھتا۔ کبھی خالی ہاتھ میرے گھر نہ آتا۔ اکثر سموسے یا جلیبیاں لاتا اور کہتا چائے بنائو مل کر کھائیں۔ میری ساس امی کی بہت عزت کرتا بلکہ ہمیشہ جھک کر ملتا۔ میرے بچوں سے اتنا پیار کہ اگر کبھی میری بچی بیمار ہوئی تو سب سے پہلے بھابھی اور ناصر بھائی پہنچتے اور ہر طرح خیال رکھتے۔
بھائی بہت ہی سادہ مزاج مگر نفیس لباس اور نفیس عادات کا مالک تھا۔ کبھی فضول خرچی یا اپنے نفس پر بےجا خرچ نہ کرتا۔ تمام بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا۔ زندگی کے ہر سانس میں بھائی کی ڈھیروں یادیں ہیں جنہیں ہم بھلا نہیں سکتے۔ وہ خاندان بھر کا لاڈلا اور پیارا بچہ تھا۔ سب کا ہمدرد اور سب سے پیار لینے والا ۔
وہ لمحہ قیامت سے کم نہ تھا جب تین گھنٹے بھائی کے نہ ملنے کی خبر کے بعد اُس کی شہادت کی خبر سنی۔ ایسے لگتا تھا مَیں پاگل ہو جائوں گی۔ میری پیاری بھابھی بےہوش اور بچے سہمے سہمے خوفزدہ۔ بوڑھے والدین کی کمریں ٹوٹ گئیں۔ مگر پھر صبر اور یہ مقامِ شہادت جو عظیم انعام ہے، ہم سب کی پہچان بن گیا۔ یہ تسکین کا باعث ہے کہ میرا بھائی زندہ ہے۔ شہید مرتے نہیں۔ میرے بھائی نے تو آگے بڑھ کر کئی گھروں کو برباد ہونے سے بچالیا۔ ہینڈ گرینیڈ اپنے ہاتھ سے روک کر اپنے پیچھے والوں کے لیے ڈھال بن گیا۔ بہادری اور شجاعت کی مثال قائم کرگیا۔ پھر پیارے آقا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پیار بھرے فون اور صبر کی تلقین نے ہمیں بےحد حوصلہ دیا۔
خدا کرے ہماری نسلیں بھی احمدیت کے لیے سینہ سپر اور خلافت جیسی نعمت سے وابستہ رہیں۔ ؎
آنکھ سے دُور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تُو ہمیں یاد بہت آئے گا
………٭………٭………٭………
چند مشہور مسلمان جغرافیہ دان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۴ء میں چند مشہور مسلمان جغرافیہ دانوں کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
٭…البیرونی: ان کا نام ابوریحان محمد بن احمد البیرونی تھا۔ یہ بیرون میں ۳۶۲ھ میں پیدا ہوئے۔ علم المثلث، ریاضی، جغرافیہ، نجوم، کیمیا اور کئی دیگر علوم میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے اپنی تصنیفات میں خصوصی طور پر اس نکتے پر زور دیا ہے کہ خط استوا کے جنوب میں واقع علاقوں میں اُس وقت سردی کا موسم ہوگا جب خط استوا کے شمال میں واقع علاقوں میں موسمِ گرما ہوتا ہے۔بعد میں یہی نکتہ اس نظریہ کی بنیا د بنا کہ کرہ ارض کے چار مختلف موسم زمین کے قطبی محور پر جھکائو کے ساتھ گھومنے کا شاخسانہ ہیں۔ ان کی تصنیف ’’تحدیدنہایۃالاماکن‘‘ اپنے موضوع پر سند سمجھی جاتی ہے۔
٭…ادریسی : ان کا نام محمد بن عبداللہ بن ادریس تھا، سبتہ کے شہر میں ۴۶۳ھ کو ولادت اور ۵۶۰ھ کو انتقال ہوا۔ ’سبتہ‘جبل الطارق کے کنارے واقع مراکش کے مشہور ساحلی شہر ’طنجہ‘ کے قریب واقع ہے۔ ادریسی نے سب سے پہلے زمین کا نقشہ بنا کر اسے چاندی کی ایک پلیٹ جس کا وزن تقریباً۱۱۲؍درہم تھا پر کندہ کروایا۔ اس نقشے میں انہوں نے کرۂ ارض کو سات براعظموں میں عرض البلد کے دائروں کی صورت میں تقسیم کیا تھا۔ ا ن کی کتاب ’’المشتاق‘‘ میں دنیا کے کئی ملکوں اور شہروں کے احوال درج تھے۔
٭…یاقوت حموی : یاقوت ایک غلام تھے۔ انہیں ایک حموی تاجر نے خریدا تھا۔ ان کی و لادت ۵۷۵ھ اور وفات ۶۲۷ھ میں ہوئی۔ انہوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فن جغرافیہ پر خصوصی گفتگو کی۔ پھر پانچ ابواب قائم کیے جن میں جغرافیائی نظریات۔ کرہ ارض کی سات براعظموں میں تقسیم۔ طول البلد اور عرض البلد کے خطوط اور فلکیاتی جغرافیہ کی بعض اصلاحات اور اُن ممالک کے حالات اور طبعی و سیاسی تقسیم بیان کی جن کو مسلمانوں نے فتح کیا تھا۔
٭…ابن ماجد : ان کا نام احمد بن ماجد سعدی نجدی اور لقب شہاب الدین تھا۔ خلیج عمان کے مغربی ساحلی علاقے میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والد اور دادا بہترین سمندری جہازران تھے جو بحری جغرافیہ کے علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ا بن ماجد نے اپنے باپ دادا کے علمی ورثے سے خوب استفادہ کیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اس فن پر تصنیفات کا ڈھیر لگا دیا۔ وہ سمندری راستوں اور نقشوں کے موجد اور بانی کہلاتے ہیں۔ ان کی اہم نثری تصنیف ’’کتاب الفوائد فی اصول علم البحر والقواعد‘‘ہے۔ ان کے شعری مجموعے میں ایک ضخیم کتاب ’’حادیہ الافتخار فی اصول علم البحار‘‘ میں تقریباً ایک ہزار اشعار فصلوں کی صورت میں ہیں۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’الفضل‘ربوہ ۱۱؍فروری۲۰۱۴ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی غزل شائع ہوئی ہے جو جناب رام پرشاد بسمل کے ایک شعر پر تظمین ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:
مَیں نے پردیس کے کشکول میں جو ڈالا تھا
میری آنکھوں کی تجوری میں یہی رکھا تھا
دوستی کرلی مسافت میں اکیلے پن سے
تم مرے ساتھ جو چلتے تو بہت اچھا تھا
کر دیا جبرِِ تعصّب نے نظر سے اوجھل
خطۂ ارض مجھے جان سے جو پیارا تھا
کوئی چاہت نہ ملی شہرِ محبت میں مجھے
قربِ دریا میں بسیرا تھا مگر پیاسا تھا
دل کی رفتار کا انداز عجب تھا قدسیؔ
’’ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا
دُور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو‘‘