تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو
انسان ایسا جاندار ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے تربیت ایمانی کے لیے فیوض و برکات نہ ہوں وہ خود بخود پاک صاف نہیں ہو سکتا۔اور حقیقت میں پاک صاف ہونا اور تقویٰ پر قدم مارنا آسان امر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے یہ نعمت ملتی ہے۔ اور سچا تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو،اس کے حاصل کرنے کے لیے بار بار اﷲ تعالیٰ نے فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ(آل عمران:۱۰۳) اور پھر یہ بھی کہا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل : ۱۲۹) یعنی اﷲ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو۔اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں۔بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی(یونس : ۲۷) یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں۔مجھے یہ وحی بار بار ہوئی اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡن(النحل: ۱۲۹) اور اتنی مرتبہ ہوئی کہ میں گن نہیں سکتا۔خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تاجماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہوگئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیّت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو۔
(ملفوظات جلد۸صفحہ۳۷۱۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ خداتعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہیے اور اس میں غور کرنا چاہیے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔
(ملفوظات جلد10صفحہ137-138۔ ایڈیشن 1984ء)