(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۵؍اپریل۲۰۲۴ء)
اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (النمل : 63)
یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دُور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے ۔کیا اللہ کے ساتھ کوئی اَور معبود ہے۔ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ مَیں مضطر اور بےقرار کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔ گذشتہ جمعہ بھی مَیں نےدعا کا مضمون ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے حوالوں کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ دعائیں کس طرح ہونی چاہئیں، ان کی حکمت، ان کی فلاسفی کیا ہے۔ یہی دعا کامضمون آج بھی جاری ہے۔ جیساکہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں مضطر کی دعائیں سنتا ہوں تو مضطر سے مراد صرف بےقرار ہی نہیں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جس کے تمام راستے کٹ گئے ہوں۔ پس
جب ہم دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تو ایسی حالت بنا کر جھکیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ سوائے تیرے ہمارا کوئی نہیں اور ہم تجھی پر انحصار کرتے ہیں بھروسا کرتے ہیں اور تیرے پاس ہی آئے ہیں۔
جماعتی لحاظ سے تو خاص طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اَور کوئی نہیں ہے جو ہمیں ان حالات سے نکالے جو پاکستان میں ہیں یا بعض دوسرے ملکوں میں ہیں بلکہ ذاتی طور پر بھی اگر انسان سمجھے تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کام کرتا ہے۔ وہی ہے جو ہماری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ وہی ہے جس کے آگے جھکا جا سکتا ہے۔ وہی ہے جو اسباب مہیا کرتا ہے۔ جو نہیں بھی اس کے سامنے جھکتے ان پر بھی اس کی رحمانیت کا جلوہ ہے کہ جو فیض اٹھا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مضطر کے حوالے سے جو خاص نکتہ بیان فرمایا ہے اور اس کا مَیں نے گذشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کی یہ خاص نشانی بیان فرمائی ہے کہ مَیں مضطر کی دعا سنتا ہوں۔
پس اپنی دعاؤں میں حالتِ اضطرار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ یہ دعائیں ہی ہیں جو ہمیں ان حالات سے نکالیں گی جن میں ہم آج کل ہیں بلکہ امّت مسلمہ کے ابتلا سے نکالنے کے لیے بھی دعائیں ہی کام آئیں گی اگر اس کو سمجھ کر یہ لوگ دعا کریں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کو ترک کریں۔
بہرحال جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ اگر یہ اپنی دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہیں تو اضطرار کی حالت پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔‘‘ فرمایا ’’…قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔‘‘(ملفوظات جلد10صفحہ137۔ایڈیشن 1984ء)
اور اضطراب کی حالت وہ ہے جو سو فیصد یہ یقین ہو کہ اب دنیا کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں اور اب ایک ہی راستہ ہے جو خدا تعالیٰ کا راستہ ہے، جو حضرتِ توّاب کا راستہ ہے جو ہمیں مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ پس اپنی دعاؤں میں یہ درد کی حالت ہمیں پیدا کرنی چاہیے ورنہ یہ دعا اور ذکرِالٰہی اگر صرف زبانی جمع خرچ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس بارے میں ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو زیادہ یاد کرو اور ذکر کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی آدمی کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ پیچھا کر رہے ہوں یہاں تک کہ اس آدمی نے بھاگ کر ایک مضبوط قلعے میں پناہ لی اور دشمنوں کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا۔ اسی طرح انسان شیطان سے نجات پا سکتا ہے ورنہ کوئی ذریعہ نہیں۔(شعب الایمان جزء دوم صفحہ 73 حدیث 534 مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون بیروت 2003ء)پس دعاؤں کی طرف بہت زیادہ ضرورت ہے۔
قرآنی دعائیں ہیں، مسنون دعائیں ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سکھائی ہوئی دعائیں ہیں اور اپنی زبان میں دعائیں ہیں۔ اگر ہم نے ان حالات سے باہر نکلنا ہے جو ہمارے لیے پیدا کیے گئے ہیں یا پیدا کیے جا رہے ہیں تو ان کی طرف ہمیں بہت توجہ کرنی چاہیے۔ پاکستان میں یا بعض دوسرے ملکوں میں آزادی سے ہم نماز نہیں ادا کرسکتے۔ آزادی سے ہم اپنے عشقِ رسولؐ ظاہر نہیں کر سکتے۔ آزادی سے ہم خدا تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم نہیں پڑھ سکتے۔ آزادی سے ہم کسی بھی قسم کے اسلامی شعائر کا اظہار نہیں کر سکتے۔ شیطان کے چیلے ہر وقت اس تاک میں ہیں کہ کہاں اور کب موقع ملے اور ہم احمدیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنے زعم میں ثواب کمانے والے بنیں۔ گذشتہ دنوں ایک احمدی کو شہید کیا اور قاتل پکڑے گئے جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے فلاں مدرسے کے مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ جنت میں جانے کا قریب ترین راستہ کیا ہے تو انہوں نے کہا قریب ترین طریقہ یہی ہے کہ تم کسی کافر کو مار دو اور احمدی کیونکہ کافر ہیں اس لیے ان کو مارنا جائز ہے، قتل کرنا جائز ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔
٭…٭…٭