مرد کی تخلیق کا مقصد(حصہ چہارم ۔ آخری)
مرد بحیثیت باپ
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:بحیثیت باپ بچوں کی تربیت کی طرف کس طرح اور کس قدر توجہ دینی چاہیے اس بارے میں حضرت مسیح موعودؑ بڑی تفصیل سے ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اولاد کے لئے کچھ مال چھوڑنا چاہئے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ مال چھوڑنے کا تو ان کو خیال آتا ہے مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اس کا فکر کریں کہ اولاد صالح ہو۔ طالح نہ ہو۔‘‘ (یعنی بدکار اور بدنہ ہو بلکہ صالح اور نیک ہو۔) فرمایا کہ ’’مگر یہ وہم بھی نہیں آتا اور نہ اس کی پروا کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے لوگ اولاد کے لئے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پروا نہیں کرتے۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بداطواریوں سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں اور وہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع کیا تھا آخر بدکاری اور شراب خوری میں صَرف ہوتا ہے اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لئے شرارت اور بدمعاشی کی وارث ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے: وَہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیۡنَ(الاعراف: ۱۹۷)۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولّی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر بدبخت ہے تو خواہ لاکھوں روپے اس کے لئے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلّاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں‘‘۔
فرمایا:’’جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشاء سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لئے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفّل کرے گا‘‘۔ اس کو سنبھال لے گا۔ اس کا کفیل ہو جائے گا۔ صلاحیت کے لئے کوشش کرے یعنی اس کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دے۔ فرمایاکہ ’’…..حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ مَیں بچہ تھا۔ جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہو گیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو۔ اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔ پس خودنیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ‘‘۔ (بات وہی ہے کہ اولاد کا حق ادا کرنے کے لئے بھی اپنی حالت کو اس کے مطابق ڈھالنا ہو گا جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے اور تبھی اگلی نسل جو ہے وہ صحیح رستوں پر چلنے والی ہو گی اور والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنے گی۔)
آپؑ فرماتے ہیں: ’’خودنیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو‘‘۔ فرمایا کہ ’’…پس وہ کام کرو جو اولاد کے لئے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے اوّل خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۱۰۸تا ۱۱۱) (خطبہ جمعه فرمودہ ۱۹؍مئی ۲۰۱۷ء)
مرد کی اولاد کے اور اپنی بیوی کے حق میں دعا
کامیاب عائلی زندگی گزارنے کے لیے دعاؤں کی اہمیت کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’پس ہر عورت اور مرد کودعاؤں اور اپنی عملی حالت میں کوشش کے ساتھ تبدیلی کر کے حقیقی بیعت کنندگان میں شامل ہونے کا نمونہ دکھانا چاہئے تا کہ اُن لوگوں میں شامل ہوں جو نہ صرف اپنی نیک حالتوں کی فکر میں رہتے ہیں بلکہ اُنہیں اپنی نسلوں کی بھلائی کی بھی فکر رہتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی ہے کہ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان:۷۵)اے ہمارے ربّ!ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
پس یہ دعا جہاں مردوں کے لئے اہم ہے وہاں عورتوں کے لئے بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور جب ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے لئے دعا کر رہے ہوں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک کی طرف بھی نظر ہو گی۔ ایک دوسرے کی برائیوں سے صرفِ نظر ہو گی اور ایک دوسرے کی خوبیوں کی طرف نظر ہو گی۔
میرے پاس بعض دفعہ نئے جوڑے آتے ہیں کہ نصیحت کریں اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ آج کل خلع اور طلاق کے حالات بڑے قابلِ فکر حد تک ہیں۔ تو میں اُن کو یہی کہتا ہوں کہ ایک دوسرے کی برائیوں سے صَرفِ نظر کرو اور ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھو۔ اب جو شادیاں ہو گئی ہیں تو ان جوڑوں کو، ان رشتوں کو نبھاؤ اور پھر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ جب دعاؤں سے اور کوشش سے یہ کر رہے ہو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ رشتے بھی کامیاب ہوں گے۔
جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں بھی ماں باپ کے نیک نمونے دیکھ کر ماں باپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی کوشش کریں گی اور جب خدا تعالیٰ کے حضور مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کی دعا کر رہے ہوں گے اور نسل میں سے متقی پیدا ہونے کی دعا کر رہے ہوں گے کہ: وَ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا نیک نسل کی دعا ہی ہے۔ کیونکہ ایک گھرانے کا سربراہ ہی اپنے گھر کا امام ہے۔ جویہ کہتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا تواس کا مطلب ہے کہ میری نسل میں سے نیک لوگ ہی پیدا کر۔
پس جب مرد یہ دعا مانگ رہا ہو گاتو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے متقی ہونے کی دعا مانگ رہا ہو گا۔ جب عورت دعا مانگ رہی ہوگی تو گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ اپنے بچو ں کے متقی ہونے کے لئے دعا مانگ رہی ہو گی اور جب اس شوق کے ساتھ دعا ہو گی تو پھر اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھنے کی کوشش ہو گی اور ایسا گھر پھر جنت کا نظارہ پیش کرنے والا گھر ہو گاجس میں بڑے، بچے، سب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہوں گےاور پھر ایسے ماں باپ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ بچے اُن کے لئے ثواب کا موجب بھی بن رہے ہوں گے۔ بچوں کی نیک تربیت کا ماں باپ کو ثواب مل رہا ہو گا۔ باپ کو تو ثواب مل رہا ہو گا لیکن ماں کو بھی ثواب مل رہا ہو گا کیونکہ گھر کے نگران کی حیثیت سے ماں ذمہ وار ہے۔ بچوں کی نیکیاں اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن رہی ہوں۔ کون مومن ہے جو ایمان کا دعویٰ کرے اور پھر یہ کہے کہ مرنے کے بعد مجھے درجات کی بلندی کی ضرورت نہیں ہے۔ پس یہ دعا ایک ایسی دعا ہے جو نسلوں کے سدھارنے کے بھی کام آتی ہے اور اپنی اصلاح کے بھی کام آتی ہے اور مرنے کے بعد نیک نسل کی دعاؤں اور اعمال کی وجہ سے درجات کی بلندی کے بھی کام آتی ہےاور پھر اس میں مومن کی شان کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ ترقی کی منازل کی طرف قدم مارتا ہے۔ اُس کے قدم آگے بڑھتے ہیں۔ متقی خود بھی تقویٰ میں بڑھتا ہے اور اپنی نسل کو بھی تقویٰ میں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۱ء فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء)
(آمنہ نورین۔ جماعت میشیڈے، جرمنی)
٭…٭…٭