متفرق مضامین

کیا احمدی آئینِ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے؟

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ۳۰؍ اپریل ۲۰۰۲ء کو پاکستان میں ایک ریفرنڈم کروایا گیا تھا جس میں تمام ووٹرز کی ایک ہی (مخلوط) فہرست بنائی گئی تھی یعنی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو بلاامتیاز ایک ہی فہرست میں شامل کیا گیا تھا اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی گئی تھی۔ احمدی مسلمانوں نے بھی اس ریفرنڈم میں اپنی اپنی رائے کا اظہار ووٹ کے ذریعہ کیا تھا

آج سے نصف صدی قبل ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کواسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے جماعت احمدیہ مسلمہ کو ’’ناٹ مسلم‘‘ قرار دے دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس فیصلہ پر بحث بڑھتی گئی اور مخالفینِ جماعت اس فیصلہ کو اپنی اپنی مرضی کے مطابق پراپیگنڈا کے لیےاستعمال کرنے لگے۔ پھر انٹرنیٹ کا دور آیا تو اس پراپیگنڈا میں مزید تیزی آگئی جس کو حالیہ سالوں میں سوشل میڈیا کے عام ہونے سے مزید تقویت ملی۔

احمدی دوستوں کو مخالفینِ جماعت سے آن لائن اور بالمشافہ گفت وشنید اور بحث و مباحثہ کے دوران جن چند اعتراضات کا سامنا سب سے زیادہ رہتا ہے اُن کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ چنداعتراضات مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ قادیانی /مرزائی سب سے پہلے آئین پاکستان کو تسلیم کرکے خود کو کافر تسلیم کریں پھر ان کے حقوق دیے جائیں گے۔

۲۔ جب آئینِ پاکستان میں قرار دے دیا گیاہے کہ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں تو اب مرزا غلام احمد قادیانیؑ سمیت کوئی شخص کسی بھی رنگ میں نبی نہیں ہوسکتا۔

۳۔ آئین پاکستان میں قادیانیوں/مرزائیوں کے کافر قرار دینے کے بعد ہم انہیں بلادلیل کافر سمجھتے ہیں۔

۴۔ قادیانی جہاد نہیں کرتے۔

۵۔ جب سے پاکستانی آئین میں قادیانیوں /مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے ان پر اللہ کی لعنت پڑ گئی ہے۔

اب ہم ان اعتراضات کا باری باری تجزیہ کرتے ہیں:

ان کا پہلا اعتراض ہے ’’قادیانی /مرزائی سب سے پہلے آئین پاکستان کو تسلیم کرکے خود کو کافر تسلیم کریں پھر ان کے حقوق دیے جائیں گے۔‘‘ اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت بہت ہی اہم ہے کہ اگرچہ قادیان ہمارے لیےبڑی مقدس بستی ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بڑی مقدس ہستی ہیں مگر ہماری پہچان، ہمارا نام ’’احمدی مسلم ‘‘ ہے۔ اکثر احمدی احباب بھی، خصوصاً سوشل میڈیا پر، اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے قادیانی یا مرزائی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تاکہ مخالفین کو اپنا نکتہ نظر سمجھا سکیں لیکن یاد رکھنا چاہیےکہ ملّاں کا ایک ٹارگٹ یہ بھی ہے کہ احمدیوں کی پہچان لفظ ’’احمدی‘‘ سے نہ ہو بلکہ قادیانی یا مرزائی سے ہو۔ لہٰذا ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے لیےہمیشہ ’’احمدی مسلم‘‘ کا لفظ استعمال کریں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یہ نام رسول اللہ ﷺ کے نامِ مبارک ’’احمد‘‘ کی نسبت سے عطا فرمایا ہے۔

اسی اعتراض کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو ’’کافر‘‘ نہیں بلکہ ’’غیرمسلم‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ ایک باریک علمی مسئلہ ہے۔ آئے دن جو نام نہاد علماء احمدیوں کو قتل کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں اس میں اسی بات کا ذکر کرتے ہیں کہ آئین نے انہیں کافر قرار دیا ہے اور اب بھی اگر وہ مسلمان ہونے پر اصرار کریں تو ان کا قتل جائز ہے۔

اگر حقیقت دیکھی جائے تو احمدی مسلمان، آئینِ پاکستان پر سب سے بڑھ کر عمل کرتے ہیں۔ اس آئین کے مطابق جواعمال، فوجداری جرائم قرار دیےگئے ہیں ان میں کتنوں میں احمدی مجرم قرار پاتے ہیں؟ کتنے احمدی ڈاکو، قاتل، لٹیرے، باغی، غدار،جاسوس، راشی، مرتشی، منافع خور، بھتہ خور وغیرہ کے جرائم میں مجرم قرار پائے ہیں؟

مگر ہاں اس آئین کی سینکڑوں شقوں میں سے [ باب نمبر۵کی ایک شق نمبر۲۶۰ کی ایک ذیلی شق نمبر۳] صرف ایک شق، مندرجہ ذیل ایک شق پر، غیراسلامی ہونے کی بنا پر، عمل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

(الف) ’’مسلم سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو وحدت و توحید قادرمطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، خاتم النبیّین حضرت محمد(ﷺ) کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد(ﷺ) کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے؛ اور

(ب) ’’غیرمسلم‘‘سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص یا کوئی بہائی، اور جدولی ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔

مذکورہ اعتراض کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ آخر احمدی سارے آئین کو مان کر صرف ایک شق پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ تو اس کا جواب بڑا سادہ اور آسان ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا۔ (النساء:۶۰)ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لَوٹا دیا کرو اگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر (طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

اس میں ذیلی شق بی میں واضح طور پر احمدیوں کے لیے’’غیرمسلم‘‘ لکھا گیا ہے کافر نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس قانون کے بعد احمدیوں کے لیےعملی طور پر صرف یہ فرق پڑا کہ جہاں جہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان دانستہ تفریق کی جاتی تھی وہاں وہاں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ مثلاً جب مسلمانوں اور غیرمسلمانوں کی الگ الگ فہرست تیار کی گئی تو احمدی مسلمانوں کو غیرمسلموں کی فہرست میں شامل کیا گیا جس کی وجہ سے احمدیوں نے انتخابی عمل میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ اس وقت احمدیوں کے لیےزیادہ تر شعائر اسلام پر عمل کرنے کی کوئی قانونی پابندی نہیں تھی اور احمدی اذان دیتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور مساجد کو مساجد کہتے تھے۔ تاہم ۲۶؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو سابق صدرپاکستان جنرل ضیاء نے ایک بدنام زمانہ آرڈینس جاری کیا جس کے تحت احمدیوں کے لیےشعائر اسلام استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ یہاں یہ اَمر واضح رہنا چاہیےکہ سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیا پر دانستہ یا نادانستہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ احمدیوں پر یہ پابندیاں ۱۹۷۴ء میں آئین پاکستان میں ترمیم کے ذریعہ لگائی گئی تھیں جو کہ درست نہیں۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ۳۰؍ اپریل ۲۰۰۲ء کو پاکستان میں ایک ریفرنڈم کروایا گیا تھا جس میں تمام ووٹرز کی ایک ہی (مخلوط)فرست بنائی گئی تھی یعنی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو بلاامتیاز ایک ہی فہرست میں شامل کیا گیا تھا اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی گئی تھی۔ احمدی مسلمانوں نے بھی اس ریفرنڈم میں اپنی اپنی رائے کا اظہار ووٹ کے ذریعہ کیا تھا۔خاکسار نے خود بھی ووٹ ڈالا تھا۔ احمدیوں کا یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ احمدی پاکستانی آئین کے مخالف نہیں ہیں بلکہ احمدی مسلمان اپنی شناخت بطور غیرمسلم گوارا نہیں کرتے۔

ہم احمدی اس آئینی شق پر اس لیےعمل نہیں کرسکتے کہ ماضی میں کبھی کسی الٰہی جماعت نے یا اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے یا انبیاء نے دُنیاوی حکومتوں کے احکامات، قوانین اور آئین کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پرکوئی فوقیت نہیں دی اور ہم احمدی بھی اسی سنت پر گامزن ہیں۔

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت اس بارےمیں کیا ہے؟ یہ ہم ایک غیرازجماعت عالم دین خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تحریر سے جانتے ہیں:’’سیّدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حق کا پرچار جاری رکھا اور باطل کی تکذیب کرتے رہے۔ اہلِ مکہ سے صبر نہ ہوسکا وہ دوبارہ ابو طالب کے پاس آئے اور سختی سے مطالبہ کیا کہ اپنے بھتیجے کو ان باتوں سے روک دو یا اس کی حمایت سے دستبردار ہوجاؤ۔ ورنہ ہم سب تمہارے خلاف جنگ کریں گے۔ یہاں تک کہ فریقین میں سے ایک دنیا میں نہ رہے۔ابو طالب کو اپنے یتیم بھتیجے کی فکر ہوئی اور انہیں بلا کر سمجھانے لگے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اپنے مہربان چچا کے منہ سے تبلیغِ حق ترک کردینے کا مشورہ سنا تو فرمایا:’’خدا کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لیےآمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں۔‘‘

ابو طالب نے جب اپنے بھتیجے کا یہ عزم دیکھا تو کہا، ’’تم اپنا کام کرتے رہو، میں تمہاری حمایت سے کسی وقت بھی دستبردار نہیں ہوں گا۔‘‘

اسی دوران حج کا موسم آگیا۔ قریش کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ عرب کے وفود کے سامنے محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نئے دین کا پرچار ضرور کریں گے۔ لہٰذا اس کے توڑ کے لیےپہلے ہی اقدامات کر لیےجائیں۔ اس مقصد کے لیےوہ ’’دارالندوۃ” میں جمع ہوئے۔ دارالندوۃ قریش کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا۔ یہ کعبہ شریف کے پہلو میں ایک ذی شان محل تھا۔ قریش جب کسی اہم اور خاص کام کو شروع کرنا چاہتے توسب اسی محل میں جمع ہوکر صلاح مشورہ کرتے تھے۔‘‘(کتاب: ’’محمدرسول اللہﷺ‘‘ جلد اوّل۔ تحریر: خواجہ شمس الدین عظیمی صفحہ ۳۸ تا ۴۰)

اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے’’دارالندوۃ‘‘ کو بجا طور پر ’’پارلیمنٹ ہاؤس‘‘ کہا ہے۔ تو اگر رسول اللہﷺ اس دُنیاوی پارلیمنٹ کے احکامات کو الٰہی احکامات کے مقابل کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے تو آج ہم احمدی مسلمان ان کی سنت پر عمل کیوں نہ کریں؟

حنفی فقہ کے بانی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو خلیفہ منصور سے محض للہ کئی اختلافات تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو اسی بنیاد پر شہید کردیا گیا۔ مگر انہوں نے دُنیاوی آئین کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کو ہی سعادت سمجھا۔

اور ان سے پہلے نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ نے بھی حق بات کو اسلامی حکومت کے سربراہ یزید کے احکامات پر ترجیح دے کر ایسی مثال قائم کی کہ دُنیا آج بھی دس محرم کو اُن کی یاد میں صفِ ماتم بچھا لیتی ہے۔

اور تو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے دُنیاوی حکمرانوں کے مقابل اپنے خداوند کے لیےاپنی جان دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ بلکہ بعض عیسائی روایات کے مطابق ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ شہر سے باہر مقام صلیب تک اپنی صلیب اپنے کاندھوں پر خود اٹھا کر لے جائیں۔

آئینِ پاکستان کے اس قانون کی پہلی شق میں مسلمان کی جو تعریف کی گئی ہے وہ بذاتِ خود اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے مختلف شناختی ڈاکومنٹس مثلاً پاسپورٹ، شناختی کارڈ وغیرہ پر خود کو مسلم ثابت کرنے کے لیےاس مذکورہ شق کی تحریر پر دستخط کرنا پڑتے ہیں۔ مگر یہ تحریر ان ڈاکومنٹس پر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان کی تعریف قرآن و حدیث سے مطابقت رکھتی ہے؟ اور کیا دُنیا کے دوسرے ۵۲؍ اسلامی ممالک میں بھی مسلمان ہونے کے لیےیہ شق ضروری ہے یا نہیں؟ اور دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ احادیث کے مطابق مسلمان ہونے کے لیےمندرجہ ذیل شرائط ہیں۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔(صحيح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ بَابُ دُعَاؤُكُمْ إِيمَانُكُمْ:حدیث نمبر:۸)

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انہوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد(ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

دُنیا کے کسی دوسرے اسلامی یا غیراسلامی ملک میں کسی مسلمان کو خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لیےاس حلفیہ بیان کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی جو پاکستان میں ہوتی ہے۔ کیا یہ احکاماتِ شریعت میں تبدیلی کی کوشش نہیں ہے جو پاکستانی حکومتیں اور اس کے نام نہاد مسلمان کررہے ہیں؟

ایسے پاکستانی مسلمان جو دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور احمدیوں کو غیرمسلم صرف اس وجہ سے سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قانون کے مطابق وہ غیرمسلم ہیں، کیا ان کے لیےضروری نہیں ہوگا کہ وہ جس ملک میں رہتے ہوں، مثلاً امریکہ، کینیڈا، یوکے وغیرہ جہاں پر احمدی مسلمانوں کو قانوناً بھی مسلمان تسلیم کیا جاتا ہے، وہاں وہ بھی احمدیوں کو مسلمان تسلیم کریں کیونکہ یہ ان کا اپنا اصول ہے کہ ملکی آئین کے مطابق مذہب کا فیصلہ کیا جائے۔

ان مخالفین کا تیسرا بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ’’جب آئینِ پاکستان میں قرار دے دیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں تو اب مرزا غلام قادیانی سمیت کوئی شخص کسی بھی رنگ میں نبی نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس اعتراض میں ایک نکتہ کی طرف توجہ دِلانی ضروری ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے یہ مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ’’مرزا غلام قادیانی‘‘ لکھتے ہیں۔ مجھے جب بھی ایسے سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں یہ لوگ حضور کا نام اس طرح لکھتے ہیں تو میں اصرار کرتا ہوں کہ وہ یا تو حضور کا پورا نام مرزا غلام احمد قادیانی لکھیں یا صرف مرزا صاحب لکھیں۔ ان کا یہ ہتک آمیز طرزکلام مناسب نہیں۔ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا اللہ تعالیٰ کے کسی بھی فرستادہ کا نام ہتک آمیز طریقہ سے لے اس سے گفت وشنید کا ویسے ہی کوئی فائدہ نہیں ہوتا لہٰذا ان کو سلام کہتے ہوئے اجتناب کرنا چاہیے۔

رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی ہوسکتا ہے یا نہیں اور گذشتہ نبی اگر دوبارہ آجائے تو اس کو نبی سمجھا جائے گا یا نہیں، یہ ایک الگ علمی بحث ہے اور اس پر بہت سا مواد دستیاب ہے۔ یہاں ہم نے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ خاتم کا معنی اسی آئین کے مطابق کیا دوسری جگہوں پر لیا گیا۔ مثلاً پاکستانی صدر اور وزیراعظم اپنے عہدوں کے لیےبالترتیب آرٹیکل ۴۲ اور آرٹیکل ۹۱ کے تحت جو حلف اٹھاتے ہیں اس کا آغاز مندرجہ ذیل الفاظ سے ہوتا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔)

مَیں، …………………….. صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، کتب الٰہیہ، جن میں قرآن پاک خاتم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بحیثیت خاتم النبیّین جن کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں:……

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ایک فقرہ میں ’’خاتم‘‘ کا لفظ دو بار استعمال ہوا ہے۔ کیا آئین کے مطابق دونوں جگہ پر ’’خاتم‘‘ کے لفظ کے معنی ایک ہی ہیں؟ اگر قرآن پاک خاتم الکتب ہے اور یقیناً ہے تو کیا قرآن پاک کے بعد کوئی کتاب، کوئی حدیث کی کتاب، کوئی تفسیر کی کتاب، کوئی علمی کتاب شائع نہیں ہوسکتی؟

کوئی بھی ذی ہوش اور انصاف پسند جب پوری آیت کا ترجمہ پڑھے گا تو اُسے فوراً سمجھ آجاتی ہے کہ یہ بالکل اور موضوع پر بات ہورہی ہے۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا (الاحزاب:۴۱)ترجمہ: محمد تمہارے (جیسے) مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتَم ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

اور اگر اس آیت کو پچھلی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ مضمون ہی کچھ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جب تُو اُسے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے انعام کیا اور تُو نے بھی اُس پر انعام کیا کہ اپنی بیوی کو روکے رکھ (یعنی طلاق نہ دے) اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور تُو اپنے نفس میں وہ بات چھپا رہا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تُو لوگوں سے خائف تھا اور اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تُو اس سے ڈرے۔ پس جب زید نے اس (عورت) کے بارے میں اپنی خواہش پوری کر لی (اور اسے طلاق دے دی)، ہم نے اسے تجھ سے بیاہ دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے متعلق کوئی تنگی اور تردّد نہ رہے جب وہ (منہ بولے بیٹے) اُن سے اپنی احتیاج ختم کر چکے ہوں (یعنی انہیں طلاق دے چکے ہوں) اور اللہ کا فیصلہ بہرحال پورا ہو کر رہنے والا ہے۔

نبی پر اس بارے میں کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیےجو اللہ نے اس کے لیےفرض کر دیا ہو، اللہ کی اس سنّت کے طور پر جو پہلے لوگوں میں بھی جاری کی گئی۔ اور اللہ کا فیصلہ ایک جچے تلے اندازے کے مطابق ہوا کرتا ہے۔

(یہ اللہ کی سنت ان لوگوں کے حق میں گزر چکی ہے) جو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اس سے ڈرتے رہتے تھے اور اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔

محمدؐ تمہارے (جیسے) مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتَم ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔(ترجمہ: آیات ۳۸ تا ۴۱)

واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں فتویٰ دیا کہ وہ صرف منہ بولے بیٹے ہونے کی وجہ سے حقیقی بیٹے نہیں بن گئے (جیسا کہ عربوں میں رواج تھا) بلکہ رسول اللہﷺ کا تو کوئی بیٹا ہی نہیں ہے مگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کا ایک انتہائی شاندار مقام امت پر ظاہر کیا کہ حقیقی بیٹوں کا ہونا کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ فرمانبردار اور صالح اور مطیع قوم کا ہونا فخر کی بات ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام رسول اللہﷺ کے فرمانبردار اور مطیع ہیں۔ اور رسول اللہﷺ سب انبیاء کے بھی روحانی باپ ہیں۔

اس بات کو مندرجہ ذیل آیات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ وَنَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَاِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَاَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ (ہود:۴۶و۴۷)ترجمہ: اور نوح نے اپنے ربّ کو پکارا اور کہااے میرے ربّ! یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچا ہے اور تُو فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔اس نے کہا اے نوح! یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں۔ بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔ پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تُو جاہلوں میں سے ہو جائے۔

یعنی ایک نبی کی حقیقی اولاد بھی اس کے خاندان میں شمار نہیں ہوگی اگر وہ اس کی مطیع نہیں ہے بلکہ صرف وہ لوگ خاندان میں شمار ہوں گے جو نبی کے مطیع ہوں گے۔ اور تمام انبیاء ہمارے پیارے نبی ﷺ کے مطیع ہیں اور مطیع رہیں گے ان تمام انبیاء کی مطیع قومیں بھی بالآخر رسول اللہﷺ کی مطیع ہوں گی اوریہی بات رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین کا درجہ دیتی ہیں۔

اب ہم مخالفینِ احمدیت کے اگلے دعویٰ کی طرف آتے ہیں کہ ’’آئین پاکستان میں قادیانیوں/مرزائیوں کو کافر قرار دینے کے بعد ہم انہیں بلادلیل کافر سمجھتے ہیں۔‘‘ پہلی وضاحت تو یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ آئین پاکستان میں احمدیوں کو ’’غیرمسلم‘‘ قرار دیا گیا تھا ’’کافر‘‘ نہیں۔یہ لوگ دانستہ احمدیوں کو کافر اس لیےکہتے ہیں کہ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ ’’غیرمسلم‘‘ وہ لوگ ہیں جو کبھی بھی مسلمان نہیں تھے یا ان تک اسلام کا پورا پیغام پہنچا ہی نہیں لہذا وہ بعض امور میں قابلِ درگزر ہیں جبکہ عموماً کافر ان لوگوں کو سمجھا جاتا ہے جو پہلے تو مسلمان تھے اور مرتد ہوگئے یا دیدہ دانستہ، سمجھتے بوجھتے قرآن، رسول اللہﷺ اور اسلام کو یا اسلام کی کسی ایک تعلیم کو جھٹلایا اور ان کے نزدیک ایسے لوگ قابلِ مؤاخذہ سمجھے جاتے ہیں بلکہ کچھ کے نزدیک ان کا قتل تک جائز ہے۔ ان عقیدوں میں کتنی صداقت ہے یہ ایک الگ علمی بحث ہے۔اصولی طور پر قرآن کی تعلیم یہی ہے کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں اور کوئی اسلام قبول کرے یا قبول کرکے چھوڑ دے وہ دُنیاوی لحاظ سے سزاوار نہیں بلکہ یہ اس کا اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے۔

اب یہ ثابت کرنا ہے کہ کیا کسی کو بلادلیل غیرمسلم (یا کافر) سمجھنا اسلام میں جائز ہے؟

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ (النحل:۱۲۶)ترجمہ: اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا ربّ ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس واضح ارشاد کے باوجود یہ مخالفینِ جماعتِ احمدیہ نہ تو حکمت سے کام لیتے ہیں، نہ اچھی نصیحت سے دعوت دیتے ہیں بلکہ جتنی زیادہ گندی زبان استعمال کرتے ہیں اتنا زیادہ فخر کرتے ہیں اور رہی بات بہترین دلیل کی تو اس کے بارے میں ان کی واضح پالیسی ہے کہ ہم جماعت احمدیہ کو بِلادلیل کافر سمجھتے ہیں۔ جب یہ خود قرآنِ کریم کو نہ پڑھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں تو ان کو یہ حق کیسے مل سکتا ہے کہ وہ دوسروں کے ایمانوں کا فیصلہ کریں؟

قارئین! بھٹو نے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دلوانے کے بعد کہا تھا کہ میں نے نوے سالہ مسئلہ حل کردیا۔ جنرل ضیاء نے آرڈیننس جاری کیا اور دعویٰ کیا کہ میں نے سو سالہ مسئلہ حل کردیا۔ لیکن بعد کی حکومتیں اور ملاں کوکہنا پڑا اور اب بھی یہ سب کہتے ہیں کہ ہم احمدیوں کا پوری دُنیا میں پیچھا کریں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ ہے اور یہ سچے بھی ہیں تو تمام وسائل اور طاقت رکھنے کے باوجود آخر ان سے یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہورہا؟ آئے روز باسی کڑاہی کے ابال کی طرح اٹھتے ہیں اور بغیر یہ مسئلہ حل کیے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان سے اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اور وہ یقیناً ان کے ساتھ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے ساتھ ہے۔

آخر میں خاکسار اس بات کی طرف بھی توجہ دِلانا چاہتا ہے کہ ان مخالفینِ جماعت نے وطیرہ بنالیا ہے کہ ہر قسم کی گفت وشنید یا سوال و جواب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کردار کشی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہر اعتراض کا مکمل اور مبسوط جواب دیا جاتا ہے۔ خاکسار ان سے ہمیشہ پوچھتا ہے کہ آپ بتائیں کہ وہ کون سے انبیاء ہیں جن پر اس طرح کے گھٹیا الزام نہیں لگائے گئے؟ بلکہ آج تک نہیں لگائے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑی مثال ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ کی ہے جن پر انتہائی گھٹیا الزامات کا سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ چاہےوہ ہندوستان ہو یا یورپ یا امریکہ،آئے دن کوئی نہ کوئی شخص آپؐ کی ذات پر الزامات کا نیا سلسلہ شروع کردیتا ہے اور یہ جماعتِ احمدیہ ہے جو ان الزامات کا بھرپور جواب دیتی ہے۔

اسی طرح مسیح اوّل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ہمیشہ نہایت غلیظ الزامات لگائے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کے بارے میں تمسخر تو اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ حالیہ پیرس اولمپکس ۲۰۲۴ء کی افتتاحی تقریب میں انتظامیہ کی طرف سے ان کی شان میں سخت گستاخی کی گئی ہے جس پر عیسائی سخت اعتراض کررہے ہیں اور بجا طور پر غصہ میں ہیں۔ اس پر مزید یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر مسیح اوّل علیہ السلام کو دوہزار سال کے بعد ہنسی اور ٹھٹھاکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کے ماننے والے دُنیا میں سب سے زیادہ ہیں تو مثیلِ مسیح علیہ السلام پر بھی اس قسم کے الزامات لگانا ان احادیث کی سچائی کا ثبوت ہے جن میں کہا گیا ہے کہ مسلمان، یہود کی نقل کریں گے۔ ایسی صورتحال میں، حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی روشنی میں، خاکساراستنباط کرتے ہوئے مخالفین کو شرائطِ بیعت کی نقل دے کرکہتا ہے کہ میں نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی بیعت ان شرائط پر کی ہے۔ آپ یہ ثابت کریں کہ ان میں سے کوئی شرط اسلامی تعلیمات سے باہرہے یا اس کے مخالف ہے یا بدعت ہے۔

مخالفینِ جماعت کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ ’’ جب سے پاکستانی آئین میں قادیانیوں /مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے ان پر اللہ کی لعنت پڑ گئی ہے۔‘‘

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ لعنت کے معنی کیا ہیں؟ لعنت کا مطلب یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا کسی پر اپنے فضائل و برکات نازل کرنے سے رک جانا اور اس کی غیبی امداد کرنے سے اجتناب کرنا۔‘‘یہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ پچھلے پچاس سال میں پاکستان، وہ پاکستان جو کسی دور میں جرمنی کی مالی امداد کرتا تھا، وہ پاکستان جس نے چین کو اپنا جہاز استعمال کرنے کے لیےدیا تھا، وہ پاکستان جس نے عرب ممالک کی اکثرفضائی کمپنیوں کو اپنے جہاز مع عملہ دیے نیز ان کے عملہ کی تربیت کی، وہ پاکستان جو ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک تھا، وہ پاکستان جو جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے خلا میں پہنچا، وہ پاکستان جس کے پنج سالہ منصوبہ پر عمل کرکے جنوبی کوریا ترقی کرگیا اس پاکستان کا آج کیا حال ہے؟ بدانتظامی اور لاقانونیت کی وجہ سے ۱۸۰ ممالک کے انڈیکس میں ۱۳۳ ویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔ پچاس سال سے جنگ کا ایندھن بننے والا افغانستان، جس سے پوری دُنیا نے کنارہ کشی کی ہوئی ہے،کے ایک روپیہ کی قیمت پاکستان کے تین روپے نوے پیسے کے برابر ہے۔ پاسپورٹس کی عالمی رینکنگ میں پاکستانی پاسپورٹ صرف عراق، شام اور افغانستان سے بہتر ہے۔ مزید یہ کہ سیلابوں، زلزلوں اور بارشوں سے آئے روز تباہی ہوتی ہے۔کرپشن، ملاوٹ، بدانتظامی، سیاسی عدم استحکام، اخلاقی گراوٹ غرض یہ کہ لعنت کی ہرمثال اس قوم پر پوری اترتی ہے۔ یاد رہے کہ ہماری قطعاً یہ خواہش نہیں کہ پاکستان تنزلی کا شکار ہو۔ پاکستان، احمدیوں کی ایک بڑی تعداد کا آبائی ملک ہے اور ہم سب اس سے شدید محبت کرتے ہیں اور اس کی ہرمیدان میں ترقی کے لیےہمیشہ دُعا گو رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان سے خلافِ اسلام قوانین کا خاتمہ ہو اور ملک میں مساوات، قانون کی بالادستی اور انصاف قائم ہو۔ اس کے مقابلہ میں جماعتِ احمدیہ پر اللہ تعالیٰ نے فضلوں اور برکتوں کی بارش کردی ہے اور جو مسلسل جاری ہے۔ ۱۹۷۴ء میں بیرون پاکستان ہماری مساجد کی تعداد تقریباً ۲۰۰ تھی جب کہ اب ۱۶۰۰۰ سے زائد ہوچکی ہے۔ اسی طرح ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ ۸۴ ممالک میں موجود تھی جو اب بڑھ کر ۲۱۴ ہوچکے ہیں۔(بہت سے لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ پوری دُنیا میں کل ممالک کی تعداد تو ۲۰۰ بھی نہیں پھر احمدیت ۲۱۴ ممالک میں کیسے پہنچ گئی ہے؟ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبران ممالک کی تعداد ۱۹۳ ہے مگر درجنوں ممالک ایسے ہیں جو اقوام متحدہ کے ممبر نہیں ہیں یا اقوام متحدہ ان کو بطور مملکت تسلیم نہیں کرتا۔ مثلاً فلسطین، تائیوان، کوسوو، وٹیکن اور ویسٹرن صحارا وغیرہ۔ ) نیز ہر سال لاکھوں سعید روحیں بیعت کرکے جماعتِ احمدیہ مسلمہ میں داخل ہورہی ہیں۔ صرف گذشتہ ایک سال میں پوری دُنیا میں دولاکھ اڑتیس ہزار سے زائد لوگ احمدیہ مسلمہ جماعت میں داخل ہوئے ہیں۔

بوقتِ تحریر پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک بار پھر جماعت احمدیہ کی مخالفت کی ایک لہر آئی ہوئی ہے جس کی وجہ ان کا یہ اعتراض ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلہ میں یہ کیوں قرار دیا ہے کہ احمدی اپنے گھروں میں اپنے عقائد پر عمل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم اور حکومتِ پاکستان کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ حقیقی اسلام سے آگاہ ہوکر آئینِ پاکستان میں درج اس شق کو جلد ختم کریں تاکہ ہمارا پیارا وطن پاکستان حقیقی طور پر ایک اسلامی جمہوریہ بن سکے اور دِینی و دُنیاوی لحاظ سے اعلیٰ ترقیات حاصل کرے۔ آمین۔

(محمد سلطان ظفر۔کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button