دادے کو اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے
عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے۔ایک شخص کا پوتا اگر یتیم ہے توجب یہ شخص مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ یتیم بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ دادے کو اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے۔ اور باپ کے بعد وارث بیٹے قرار دیئے گئے ہیں کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ رکھا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو جاوے اور پھر آگے اس کے اولاد ہو تو وہ وارث ہو۔اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے۔یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں۔چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جاکر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے۔ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خداتعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے وَاِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُواالۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا(النساء: ۹) (یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو ان کو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے۔